امام حسینؑ اور کربلا،افکارِ اقبال میں

پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال دنیا بھر میں حریت و آزادی کے لئے برسر پیکار تحریکوں کے لئے امام حسین ع و کربلا کو آئیڈیل قرار دے کر امام حسینؑ کی عزادری کو ظلم و طاغوت کے خلاف سب سے بڑا جہاد

پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال دنیا بھر میں حریت و آزادی کے لئے برسر پیکار تحریکوں کے لئے امام حسین ع و کربلا کو آئیڈیل قرار دے کر امام حسینؑ کی عزادری کو ظلم و طاغوت کے خلاف سب سے بڑا جہاد قرار دیتے ہیں۔

جس طرح امام خمینی نے بھی فرمیا تھا۔ کہ دنیا ہمیں رونی والی قوم یعنی عزاداری کرنے والے کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے لیکن انہیں آنسووں سے ہم نے صدیوں پر محیط امریکی پٹھو شہنشاہی نظام کا خاتمہ کردیا، ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا و امام حسینؑ کی مرہون منت ہے۔۔ علامہ اقبال رح بھی اپنے آپ اور مسلمانوں کے لئے کربالا اور امام حسین ع کا غم آئیڈئل؛ قرار دیتے ہیں۔ یہاں علامہ اقبال کے مختلف اشعار کا ان کے کتب سے حوالہ کے ساتھ تحریر کیا جارہا ہے۔

؂ رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

سال رواں محرم کو دنیا بھر میں موجود اسلامی سکالرز علما اور دینی و عزاداری تنظیموں نے مزار شریکتہ الحسینؑ بی بی زینب س دمشق سوریا کے حرمت و دفاع کے عنوان سےمنانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہبی بی زینب س ،رسول اللہ ص کی نواسی اور حضرت امام حسینؑ کی بہن جنہں کربلا کے بعد افواج یذیدی نے دیگر خواتین و بچوں کے ہمراہ قید کرکے شام و کوفہ کے زندانوں اور بازروں میں اسیر کیا لیکنبی بی زینب س نے اپنے والد علیؑ اور نانا محمد ص کی شجاعت اور دین کے دفاع کے لئے خطبے دے کر یذید لعین اور بنی امیہ کو بے نقاب کردیا۔ آجکل اس دور کے یذیدی امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان مل کر بی بی زینب س کے مزار دمشو سوریا کو مسمار کرنا چاہتے ہیں لیکن دنیا بھر میں موجود حسینی و زینبی کردار والے باضمیر لوگ اس شیطانی مثلث امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان کو علامہ اقبال کا یہ شعر یاد دلا کر کہتے ہیں کہ امام حسینؑ و سیدہ زینب س کی یاد اور ان کے مزارات تا قیامت دنیا بھر کے حریت پیسندوں کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق یک حسینؑ رقم کرد و دیگر زینب س

علامہ اقبال ہی نے محرم کی دس تاریخ عاشورا اور ذی الحجہ کی دس تاریخ قربانی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم ہے نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل اسی طرح محرم کے دوران جلوسوں اور باطل و یذیدیوں کے خلاف برسرپیکار رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؑ کہ فکر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا اور کیا ہے ایک سجدہ شبیریؑ ایک ضرب ید الہی ؑ یاد رہے علامہ اقبال نے نے ضرب ید الہیؑ کی تشبیہ شیر خدا حضرت امام علیؑ جسے رسول اللہ نے ید اللہ کا خطاب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ جنگ خندق میں علیؑ کا ایک ضرب (جسں سے عمربن ابدود کو واصل جہنم کیا تھا)۔ثقلین(دونوں جہانوں) کے عبادتوں سے بہتر ہےشہادت امام حسینؑ کے مختلف پہلوؤں اور اس کو دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے آئیڈیل کے طور پرسب سے پہلے علامہ اقبالؔ نے اظہار خیال کیا ہے اقبال کی اردو فارسی شاعری میں اس کاتذکرہ ملتا ہے علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے : ؂ غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ ؂ صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق علامہ اقبال کربلا اورامام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں جس کااظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے: ؂ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر یعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے اوریہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اوریہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسینؑ کااسلام میں کیامقام ہے اورمنشاء ایزدی میں قربانی حسینؑ کب سے جلوہ گرتھی۔ اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں: ؂ حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی ؂ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات ’’بال جبرائیل ‘ ‘ میں علامہ ’’فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؂ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کومخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی ، سرمایہ شبیری علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں: ؂ نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری (ارمغان حجاز) جس وقت علامہ نے یہ بات کی توپوری امت محمدیؐ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی مگر علامہ انھیں رسم شبیری اداکرنے کاکہہ رہے ہیں اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری اداکرکے اس فکر کودنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے آ ج جہاں بھی مسلمان مجبور ہیں وہ رسم شبیری اداکررہے ہیں یااسی فکرکو اپنانے کی فکرمیں ہیں لیکن اقبال یہ فکردینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔ علامہ اقبال کاکچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کومرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھااس میں سے دوشعر پیش ہیں: ؂ جس طرح مجھ کوشہید کربلا سے پیار ہے حق تعالیٰ کویتیموں کی دعا سے پیار ہے ؂ رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے علامہ اقبال نے اپنے کلام کووسعت اورزندہ وجاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا علامہ کے فارسی کلام کوپڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں’’درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کیا ہے اس علامہ اقبال اسلام کی خصوصٰات بیان کرتے ہوئے کربلاکاتذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پرآئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کوکس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اورکن پہلوؤں پرزور دینا چاہتے ہیں حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کاوہ تصور نظرآتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اوراس میں انھیں حریت کاوہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کامطالعہ کرتے ہیں:

؂ ہرکہ پیماں باھُوَالمَوجود بست گردنش از بندہرمعبود رست ’’جوشخص قوانین خداوندی کی اتباع کومقصود زندگی قرار دے لے اوراسی طرح اپنا عہدوپیمان اللہ سے باندھ لے اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اورمحکموی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘ پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق وعقل کاخوبصورت موازنہ پیش کیا ہے یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ اورکربلا کوسمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہئے امام عالی مقام کایہ کارنامہ عقل کی بنا پرظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرماتھی اس لئے ایسے لوگ جوعقلی دلائل پرواقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک وتردید کااظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جوعشق کی نظر سے دیکھتے ہیں توپھر وہ اس نتیجہ پرجاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں:

؂ عشق را آرام جاں حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است ’’عشق کوکامل سکون اوراطمینان آزادی ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘

؂ آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد اقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اورکہتے ہیں’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیاکیا۔‘‘ ؂ آں امام عاشقان پسر بتولؑ سرد آزادے زبستان رسولؐ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد اورحضورؐ کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علیؑ ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں’’اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبا اورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی ؑ کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیتؑ شناسی پرایک دلیل ہے امام حسینؑ کو’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امام حسینؑ کوقربانی اسماعیل ؑ کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔

؂ بہرآں شہزادہ خیرالعملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکے کھیلا رہے تھے آپؐ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ؂ سرخ رو عشق غیور از خون او شوخی ایں مصرع از مضمون او امام حسینؑ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے۔

؂ درمیاں امت آں کیواں جناب ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب امت محمدیہؐ میں آپؑ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کوبھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ؂ موسیٰ وفرعون وشبیر ویزید ایں دوقوت از حیات آید پدید

؂ زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است دنیا میں حق وباطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کاغلبہ ہوتا ہے اورباطل شکست ونامرادی سے دچار ؂ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت رازہراندرکام ریخت خاست آں سرجلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں درقدم برزمین کربلا بارید ورفت لالہ درویرانہ کارید رقت جب خلافت کاتعلق قرآن سے منقطع ہوگیااور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکرونظر باقی نہ رہی تواس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹااٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پربرسا اوراسے لالہ زار بنادیا۔

؂ تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد آپؑ نے اس طرح قیامت تک ظلم واستبداد کے راستے بندکردیئے اوراپنے خون کی سیرابی سے ریگزاروں کوچمنستان بنادیا۔

؂ بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گرویدہ است آپؑ نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اوراس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لاالٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے اس مصرع کی طرف:’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسینؑ ‘‘

؂ مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفر دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدد اگر آپؑ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرف بہتر(72)نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔

؂ سرابراہیمؑ واسماعیلؑ بود یعنی آں جمال راتفصیل بود

Add new comment