امام حسین (ع)کاقاتل

اسلام ایسی سرزمین پر طلوع ہوا جس کے باشندے جاہل اور نادان تھے۔ خدائے واحد کے بجائے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خداؤں (لات،ہبل اورعزیٰ )کی پوجا کرتے تھے۔ جنگ وجدال،ڈاکہ زنی، خونریزی اور کبرونخوت ان کا پیشہ تھا۔جو

فداحسین عابدی

مقدمه

اسلام ایسی سرزمین پر طلوع ہوا جس کے باشندے جاہل اور نادان تھے۔ خدائے واحد کے بجائے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خداؤں (لات،ہبل اورعزیٰ )کی پوجا کرتے تھے۔ جنگ وجدال،ڈاکہ زنی، خونریزی اور کبرونخوت ان کا پیشہ تھا۔جو ایک دوسرے کی جان ومال اور ناموس کی حرمت کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ شریعت محمدی نےان کو حیوانی زندگی اور جاہلی ثقافت سے نکال کر انسانی اور اسلامی کمالات سے آشنا کیااوران کی زندگی کے رخ کو یکسر بدل دیا۔

اسلام نے اس قوم کی جہل ونادانی کو علم ودانش میں بدل دیا اور اسےظلم وتاریکی سے نکال کر رشد وہدایت کے سر چشمے سے سرشار کردیا ۔ ان کی کبر ونخوت کو رحمت وعطوفت اورتواضع میں بدل دیا۔ پیغمبر اسلام9نے 23 سال کے مختصر عرصے میں حجاز اور اس کے اطراف کے ظلمت کدہ معاشرے کو ایک نورانی معاشرہ میں تبدیل کردیا۔ اس عرصےمیں مشرکین مکہ نے یزید کے دادا ابو سفیان کی سرکردگی میں اسلام اور مسلمین کی نابودی کی راہ میں سر توڑ کوششیں کیں۔لیکن کبھی کامیاب نہ ہو سکے۔

بعثت کے تیرہویں سال رسول خدا 9نے مشرکین قریش کے شر سے بچنے کی خاطر مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کی اور آپ نے بھی حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بستر پرسلاکر رات کی تاریکی میں مکہ چھوڑدیا اور مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پہلی باریثرب میں اسلامی حکومت تشکیل دی۔ مشرکین نے ابو سفیان کی سربراہی میں اسلام اور مسلمانوں پر متعدد جنگین مسلط کردیں لیکن ہر بار شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

مشرکین جنگ بدر کی شکست کا انتقام لینے کے لیے اُحد کے میدان میں مسلمانوں کے مقابلے میں ایک بار پھر جمع ہوگئے اس بار بعض مسلمانوں کی خیانت کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ شکست میں بدل گئی اوراسی جنگ میں رسول خدا 9کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے اور یزید کی نانی ہندہ نے حضرت حمزہ کے جگر کو نکال کرچبا دیااس طرح رسول خدا 9اور مسلمانوں سے انتقام لینے کی کوشش کی۔ ابو سفیان نے آٹھ ہجری میں ناچاری کی بنا پر ظاہرا ً اسلام قبول کیا اور ”انتم الطلقا“کی سند لیکر پیغمبر اسلام 9 کی وسیع رحمت کے زیرسایہ، آزاد شدہ غلاموں کے زمرے میں آگیا۔ اس بات کو سب جانتے ہیں کہ ابو سفیان نے قلبی میل اور پختہ عقیدےسےاسلام قبول نہیں کیا تھا۔ فتح مکہ کے بعد ناچار اسلام کا لبادہ اُوڑھ کرظاہر میں مسلمان تو بن گیا لیکن باطن میں اسلام کے خلاف اپنا مشن جاری رکھا۔

رسول خدا 9کی رحلت کے فوراً بعد اس نے اسلام کے ریشے پر تیشہ مارنے کی ایک بار پھرکوشش کی لیکن اس بار امیر المؤمنینکی بصیرت کی وجہ سے اسے ہزیمت اٹھانی پڑی۔ جب اس طرف سے وہ ناکام ہوا تو اسلام پر ضربہ لگانے کے لئے نئی راہ کی تلاش میں رہا جب عثمان کا دور آیا تو ایک خصوصی جلسہ میں بنی امیہ سے خطاب کرکے کہا :”اب یہ حکومت تمہارے ہاتھ آئی ہے اسے گیند کی طرح ایک دوسرے کو پاس دیتے رہو!“ابو سفیان نےحضرت حمزہ کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا :”جس حکومت کے لئے تم نے ہمارے ساتھ جنگ کی تھی اب وہ ہمارے بچوں کے ہاتھوں کا کھیل بنی ہوئی ہے!“۔

چالیس سال تک خلافت پیغمبر 9،سلطنت اور بادشاہت کی صورت میں معاویہ کے ہاتھوں رہی اور اس نے اہل بیت رسول9 کی دشمنی میں ایسی بدعتیں اسلام میں ایجاد کیں جن کے نتیجے میں بے روح رکوع وسجود،توسیع پسند اور زراندوزی کے جذبات سے مغلوب فتوحات ،عمل سے کوسوں دور قرائت نیز بغض اہل بیت: اور حاکم وقت کی بے رام غلامی میں بدل گیایوں اسلام کا نورانی چہرہ بالکل بدل گیااور اسی فکری وعملی ماحول میں بچے جوان اورجوان، بوڑھے ہوگئے۔

معاویہ نے خلافت کو سلطنت میں بدل دیا اور سلطنت کو موروثی بناکر اپنے بیٹے یزید کو جانشین بنایا،لوگوں نے یزید کی بیعت کی جب ان حالات اور شرائط کو امام حسین علیہ السلامنے مشاہدہ کیاتوآپ سے رہا نہ گیا اب فرزند رسول دیکھ رہے تھے کہ نانا کا لایا ہوا اسلام نابود ہورہا ہے ایک شرابی اور کبابی نانا کی مسند پر تکیہ لگابیٹھا ہے یہاں تک کہ امام سے بھی بیعت کا مطالبہ کیا جارہا ہے لہذا آپ نے بیعت سے انکارکردیا۔ امام حسین علیہ السلامنے:”علي الاسلام السّلام،إذ بُليت الامة براع مثل يزيد”[3] کانعرہ بلند کرکے ایسے حالات میں اپنا راستہ معین کیا۔ اسلام کےتحفظ اور اسلامی معاشرے کی نجات کی خاطرآپ نے قیام فرمایا ۔ لیکن یزید نے نہ صرف خلافت سے ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ تاریخ بشریت میں ایسی جنایت کامرتکب ہواجس کی اب تک کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ افسوس اورتعجب کی بات یہ ہےکہ بنی امیہ اور یزیدی ذہنیت رکھنے والے مسلمان نما بعض لوگ یزید کی اس جنایت پر پردہ ڈالنے اور یزیدکو امام حسین علیہ السلامکے قتل سے بری الذمہ قرار دیتےہوئے اسے جنتی ہونے کا نہ صرف عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ اس سے دفاع بھی کرتے ہیں! بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کو ابن زیاد،عمر سعداور شمر نے شہید کیا ہے۔جبکہ یزید ،امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر نہ صرف راضی نہیں تھا بلکہ اس نے امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کی وجہ سے ابن زیاد پرلعنت کی ہے۔

ہم اس مقالے میں تاریخی شواہد کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کےاصلی قاتل کو پہچنوانےکی کوشش کریں گے۔

يزيدبن معاویہ كي پیدائش

اہل سنت کے مایہ ناز دانشمند جلال الدین سیوطی کے مطابق یزید بن معاویہ پچیس(25)یا چھبیس(26)ہجری میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں میسون بنت بجدل کلبی ہے۔ [4]

یزید کی ماں شہر میں رہنا پسند نہیں کرتی تھی لہذا معاویہ نے یزید کے ساتھ اسے ایک دیہات میں بھیج دیا اس طرح یزید کی تربیت دیہاتی ماحول میں ہوئی، شعر و شاعری، شکار، گھڑسواری اورجانوروں خصوصا بندروں اور کتّوں کے ساتھ اس کو خاص لگاؤ تھا۔

یزید بچپنے میں ہی عیش وعشرت کے ماحول میں پلابڑھا۔اسلامی تربیت کے بجائے باطل چیزوں اور لہو ولعب کی زندگی کی عادی ہوا۔دینی امو ر سےناآشنائی کے ساتھ مملکتی امور سے بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایسے میں یزید کا ولایت عہدی کے لیے انتخاب کرنا اسلام کےساتھ بہت بڑی خیانت تھی جسکا خمیازہ عالم اسلام قیامت تک بھگتا رہے گا ۔جیسا کہ حسن بصري کا کہنا ہے: ”تاریخ میں دوایسےمشورے واقع ہوئے ہیں جن کا اثر قیامت تک باقی رہا ہےاور ختم نہ ہوسکے گا۔ ان میں سے ایک عمر وبن عاص کا قرآن نیزوں پر نکالنے کا مشورہ تھا جس کے نتیجے میں خوارج پیدا ہوئے۔ دوسرا یہ مغیرۃ بن شعبہ کامشورہ جس میں معاویہ کو یزیدکےخلیفہ بنانے کی کی تجویز دی گئی۔ [5]

یزید اہل سنت کی نظر میں

یزید کے بارے میں مسلمانوں کےتین اقوال ہیں ان میں سے ایک یہ کہ: یزید کافر ،منافق اورفاسق ہے۔کیونکہ اس نے فرزند رسول 9کو قتل کیاہے تاکہ رسول خدا9 سے انتقام لیا جائے۔ یزید نےاپنےآباؤ واجداد، عتبہ،شیبہ اورولید بن عتبہ جیسے مشرکین کے خون کا بدلہ لینے کی خاطر حسین بن علی علیہ السلامکو قتل کیا ہے۔[6]

ابن سيرين كا كهنا هے كه عمروبن حزم نے معاویہ سے کہا:”اپنے بعد کس کو امت کے لئے خلیفہ بناؤگے؟ تو اس نے کہاکہ میرےلئے یزید اور اس کے بیٹوں کے علاوہ کوئی اورتو نہیں ہے لیکن یزید احمق ہے”۔[ علیہ السلام]

یزید کا فسق وفجور زبان زد عام وخاص تھا،جیسا اہل سنت کے مورخ مسعودی لکھتے ہیں کہ:”یزید اہل لہو ولعب، کتّوں اور بندروں کے ساتھ کھیلنے والا،برسرعام شراب پینے والاتھا“۔[8]

جب یزید برسر اقتدار آیا تو مدینہ سے عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کی سربراہی میں ایک وفدتحقیق کےلئے شام گیا۔ جب یہ وفد تحقیق کرکے واپس مدینہ پہنچا تو ان کا کہنا تھا کہ:” ہم ایسے شخص کو خلافت کے منصب پر دیکھ آئے ہیں جسکا کوئی دین نہیں ہے وہ شراب پیتا ہے،کتا اور بندر کے ساتھ کھیلتا ہے اور زنا اور گانا اس کا مشغلہ ہے”۔[9]

واقدی نے عبداللہ بن حنظلہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ اس نے کہا ہم اس بات سے ڈرے کہ یزید کے دربار سے خارج ہونے سے پہلے آسمان سے خدا پتھر برسائے۔یزید محارم سے نکاح کرنے والا،شرابی اور تارک الصلاۃ ہے۔ [10]

يزید میں اسلام کا کوئی نام نشان نہیں تھا وہ فسق و فجور میں مرتکب ہونے کےساتھ کفر اور شرک آمیز کلمات کہنے سے بھی عار محسوس نہیں کرتا تھاجیسا کہ طبری نے نقل کیا ہے کہ یزید نے امام حسین  کی شہادت کے بعد افخر کرتے ہوئے یہ کفر اور شرک آمیز اشعار کہے:

ليت أشياخی ببدر شهدوا * جزع الخزرج من وقع الاسل

قدقتلنا القرم من ساداتكم * وعدلنا ميل بدر فاعتدل

فأهلوا واستهلوا فرحا * ثم قالوا يا يزيد لا تشل

لست من خندف إن لم أنتقم * من بنی أحمد ما كان فعل

لعبت هاشم بالملك فلا * خبر جاء ولا وحي نزل

اے کاش ہمارے وہ آباء واجداد جو بدر میں مارے گئے وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمدسےہم نےکیسے انتقام لیا۔ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کرکے بدر کا بدلہ چکادیا ہے۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ،تومیں بنی خندف سے نہیں ہوں،بنی ہاشم نے حکومت کےساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے!

يه وه جملے هيں جو ایسا شخص ہی کہہ سکتا ہے جو بےدین ہواور خدا ورسول اور کتاب پر ایمان نہ رکھتاہو۔[11]

امام حسین علیہ السلامکی شہادت میں یزید کا کردار

یزیدتین سال کی مختصر مدت میں تین بڑی جنایتوں(شہادت امام حسین علیہ السلام،مدینہ میں قتل عام اور کعبہ کی ویرانی) کا مرتکب ہوا ان میں سے ایک امام حسین علیہ السلامکے قتل کا حکم ہے لیکن بعض متعصب اور ناصبی عقیدہ رکھنے والے افراد یزید کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلامکے قتل میں یزید کا کوئی کردار نہیں ہے۔ امام کا قاتل ابن زیاد ہے کیونکہ یزید نے خود ابن زیاد پرامام حسین علیہ السلامکو قتل کرنے کی وجہ سے لعنت کی ہے۔ جیساکہ ابن تیمیہ، یزید کے دفاع میں اس کی جنایتوں کی ناکا م توجیہات کی ہیں۔ اس کا کہنا ہے یزید امام حسین علیہ السلامکے قتل پر راضی نہیں تھا بلکہ اس نے امام کی شہادت پرناراضگی کا اظہار کیا“أن يزيد لم يظهر الرضي بقتل الحسين، وأنه أظهر الالم لقتله؛یزید حسین کے قتل پر راضی نہیں تھا بلکہ اس نے حسین کے قتل پرغم واندوہ کا اظہار کیا”۔[12]

بہت سے دلائل اور قرائن کی بناپرہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلامکی شہادت میں یزیدکا براہ راست کردار ہے۔ان میں سے بعض دلائل یہ ہیں:

1۔ ابن زیاد کوکوفہ کا والی بنانے میں یزیدکا مقصد

جب امام حسین علیہ السلامیزید کی بیعت سے انکار کرکے مکہ تشریف لےگئے اوروہاں سے اہل کوفہ کی دعوت قبول کرکے کوفے کا ارادہ کیا اور کوفہ کے حاکم نعمان بن بشیر وہاں کے حالات کوحالت سنبھال نہ سکا تو یزید نے ابن زیاد کوبصرہ کےعلاوہ کوفہ کی حاکمیت بھی دیدی۔ اس مطلب کواہل سنت کے مایہ نازمورخ جناب طبری اس طرح بیان کرتے ہیں:”جب کوفہ کے بارہ ہزار افراد نے مسلم بن عقیل کی بیعت کی تو یزید کے ایک حامی نےکوفہ کی حالت اور نعمان کی ناتوانی کی اطلاع یزیدکو خط کے ذریعے دیدی اس نے اپنے مشاور سرجون غلام سے مشورہ کیاتو اس نے کہا کہ اس وقت اگرمعاویہ زندہ ہوجائے اور وہ تجھے کوئی حکم دیدے تو کیا تم اس کے حکم کو مان لوگے؟ جب اس نے اثبات میں جواب دیا تو سرجون نے معاویہ کا خط نکال کریزید کو دیا جس میں کوفہ پر ابن زیاد کی ولایت کا حکم لکھا ہوا تھا اور سرجون سے کہا ہوا تھا مناسب وقت پر اس حکم نامہ کو یزید کے حوالہ کردو۔ سرجون نے یزید سے کہا:”اس وقت کوفہ، ابن زیاد کے علاوہ کوئی اور نہیں سنبھال سکتا“تو یزیدنےابن زیاد کو بصرہ کے علاوہ کوفہ کا گورنر بھی مقرر کردیا اور اسے لکھا کہ مسلم بن عقیل کو قتل کردو۔“[13]

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ یزید نے ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر صرف امام حسین کا مقابلہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔جب وہ ابن زیاد کوکوفہ کاحاکم بنارہاتھا تو اسےکس حیثیت کے ساتھ وہاں بھیجاتھا،تین قسم کےاحتمالات یہاں متصور ہیں:

یزید کا ابن زیاد کو کوفہ کے حاکم بناتے وقت ا سے کیا کیا احکامات دیئے تھے؟ تین قسم کے احتمالات دے سکتے ہیں:

الف: یزید نے ابن زیاد کو تمام امور کے بارے میں پورااختیار دے دیا تھا ان میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کا قتل بھی تھا۔

ب:اسے کہاگیا تھا کہ تمام مسائل میں یزید سے مشورہ کرلےچاہے وہ مسئلہ بڑا ہو یا چھوٹا،اس کی اجازت کے بغیرکوئی کام انجام نہ دیا جائے انہی مسائل میں سے ایک واقعہ عاشورا ہے۔

ج: یزید نے اس سے کہا تھا کہ بڑے مسائل کا فیصلہ اس کی اجازت اور مشورت کے بغیر انجام نہ دیا جائے۔

ان تینوں میں سے کسی بھی ایک احتمال کو قبول کرلینے کی صورت میں یزید اپنے آپ کو امام حسین علیہ السلامکے قتل سے بری قرارنہیں دےسکتا ۔[14] اگر ہم پہلےاحتمال کو قبول کرلیں( اگرچہ یہ بعید ہے )اور کہیں کہ یزید نے تمام اختیارات ابن زیاد کے حوالے کردئے تھےاورانہی اختیارات میں سے ایک فرزند رسول کا قتل تھااس بناپر اگر یزید ابن زیاد کے اس کام سے بے خبر تھا تو بعد میں جب با خبر ہوگیا تھا اس وقت ابن زیاد کو سزا کیوں نہیں دی اورکم ازکم اسے اپنے منصب سے کیوں نہیں ہٹایا؟

اگر ہم دوسرے احتمال کو قبول کریں اور کہیں کہ یزید نے ابن زیاد کو تمام امور میں اس سے مشورہ کرنے کو کہا تھا تو اس صورت میں ابن زیاد نے قتل امام حسین علیہ السلامکے بارے میں بھی یزید سے مشورہ کرکے اقدام کیا تھا اور یزید نے اس کے اقدام کی تائید کی تھی تب بھی ہمارا مدعا ثابت ہے۔ اور اگر اس کی مشورت کے خلاف اس نے قتل امام حسین علیہ السلام کا اقدام کیا اوریزید اس کے اس اقدام سے ناراض ہوا تھاتو اسےچاہیےتھا کہ ابن زیاد کے اس کام کے بارے میں اس سے بازپرس کرتا۔لیکن تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔

تیسرا احتمال جو زیادہ معقول معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ یزید نے جب ابن زیاد کوکوفہ کا گورنر بنایا تھاتو اسے حکم دیا تھا کہ امام حسین علیہ السلامکے بارے میں ہر فیصلے کو اس کے مشورےکے مطابق انجام دو اورتمام حالات سے مطلع رکھو۔

اس بارے میں تاریخی شواہد ہیں ۔جیسا کہ طبری نے نقل کیاہے:”جب ابن زیاد نے مسلم بن عقیل اور ہانی کو قتل کیا اوران دونوں کے سروں کو ہانی بن ابی حیہ وادعی اور زبیر بن اروح تمیمی کے ساتھ یزید کے پاس شام بھیجااور لکھا:”بفضل خدا ،امیرکے حق کو واپس لیاہے اور دشمنوں کو ان کےاعمال کی سزا دیدی ہے۔ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ مرادی کو قتل کرکے ان کے سروں کو امیر کی خدمت میں ارسال کیا جارہا ہے اور یہ دونوں شخص،جو آپ کے پاس بھیجا جارہا ہے،اہل طاعت اور ہمراز ہیں،امیر،ان کی زبانی تمام واقعات سے باخبر ہوجاسکتے ہیں“۔ یزید نے ابن زیاد کے خط کے جواب میں اس کی تعریف کرنے کے بعد لکھا:”مجھے خبر ملی ہے کہ حسین بن علی علیہ السلامعراق کی طرف آئے ہیں…جاسوسوں اور مسلح افراد کو مختلف راستوں کی ڈیوٹی پرلگادو،جس جس پر شک گزرے ان کو گرفتار کرو اورتمام حالات سے مجھے باخبر رکھو“۔[15]

تما م تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید نہ صرف تمام حالات سے آگاہ تھابلکہ وہ براہ راست کوفہ میں پیش آنے والے حالات پردقت سےنظررکھاہوا تھا۔اور کربلا کا واقعہ اس کے حکم سے آخر تک پہنچا ہے لہذا وہ واقعہ کربلا کی ذمہ داری سے کسی صورت خود کو بری قرار نہیں دے سکتا۔

2۔ یزید کا ولید کو امام حسین علیہ السلامشہید کرنے کا حکم

تاریخی شواہدکی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ امام حسین علیہ السلامکا قتل یزید کی بیعت نہ کرنے کی صورت میں حتمی تھا چاہے آپ قیام کریں یا نہ کریں۔

یزید نے والی مدینہ کےنام خط میں لکھا کہ اگر حسین بن علی علیہ السلامنے بیعت نہ کی تو انہیں قتل کردو اورسر کو میرے پاس بھیج دو۔

تاریخ یعقوبی میں ہے کہ یزید نے والی مدینہ ولید کو لکھاکہ:”حسین بن علی اور عبداللہ بن زبیر کو حاضر کرکے ان سے بیعت لے لو اور بیعت نہ کرنے کی صورت میں ان کوقتل کرکے سروں کومیرے پاس بھیج دو“۔[16]

تایخ طبری اور کامل التاریخ کی روایت میں قتل کے بجائے:”بالبيعة أخذا شديداً ليست فيه رخصة حتی يبايعوا”[1 علیہ السلام]ہےاس عبارت سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یا بیعت کرو یا قتل کروکوئی تیسری راہ محتمل نہیں ہے۔ اسی مطلب کو امام حسین  نے بھی سمجھا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ بنی ہاشم کے جوانوں کو ساتھ لیکر دربار میں گئے۔ اس مطلب کا ایک قرینہ یہ ہے کہ یزید نے ولید کو معزول کیا اگر یزید کا مقصد امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنا نہ ہوتا توولید کو امام سے بیعت نہ لے سکنے کے جرم میں مدینہ کی حاکمیت سے معزول کرنے کا کیا مقصدتھا؟

ابن اعثم کا کہنا ہے کہ جب مروان نے ولید کے ہاتھ پر امام حسین علیہ السلام کےبیعت نہ کرنے کی خبر یزید کو دی تو اسے سخت غصہ آیا اور ولید کو دوبارہ خط لکھا جسکا مضمون یہ ہے:”جس وقت میرا خط تجھے پہنچےاہل مدینہ سے دوبارہ بیعت لی جائے۔ عبداللہ بن زبیر کو چھوڑ دو کیونکہ جب تک وہ زندہ ہے ہمارے ہاتھ سے فرار نہیں کرسکتا خط کے جواب کے ساتھ حسین بن علی 8 سر بھیج دو اگر ایسا کیا تو تیرے لئے نجیب گھوڑے اور دیگر انعامات ہمارے پاس محفوظ ہیں“۔[18]

3۔ امام حسینؑ کو یزید کی سازش کی خبر

تاریخ طبری اور الکامل کی نقل کےمطابق امام حسین  جب مکہ چھوڑ رہےتھےتو لوگوں کو اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”والله لانْ اقتل خارجاً منها بشبر أحب اليَّ من ان اقتل داخلا منها بشبر وأيم الله لو كنت في حجر هامَّة من هذه الهوام لاستخرجوني حتی يقضوا فيَّ حاجتهم؛خدا کی قسم مکہ سے باہر قتل ہونا ،اگرچہ ایک بالشت کے فاصلہ پرہو،میرے لئےمکہ میں قتل ہونے سے بہتر ہے۔ خدا کی قسم اگر میں حشرات کےبلوں میں بھی چھپ کے رہوں تب بھی وہ لوگ مجھے نکال کر قتل کردیں گے“۔[19]

امام حسین علیہ السلامکویزیدیوں کے ہدف کا علم تھا لہذا آپ نے مکہ سے خارج نہ ہونے کی صورت میں یقینی طورپراپنے قتل اورکعبہ و مکہ کی حرمت پائمال ہونےسے لوگوں کو آگاہ کیا۔

4۔ ابن زیاد کو امام حسینکے قتل کا حکم

تاریخ یعقوبی کی نقل کے مطابق جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہورہے تھے تو یزید نے ابن زیاد کو خط لکھا:”مجھے خبر ملی ہے کہ کوفہ والوں نے حسین بن علی علیہ السلام کو دعوت دی ہے اور وہ کوفہ کی طرف روانہ ہو چکا ہے یہ تمہارا امتحان ہے۔حسین علیہ السلامکوقتل کردیاتو ٹھیک وگرنہ میں تجھے سابقہ نسب(ولد الزنا ہے کیونکہ معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو اپنا بھائی قرار دیا تھاجبکہ…) کی طرف پلٹادوں گا“۔[20]

اس خط میں یزیدنےامام حسین علیہ السلامکو قتل نہ کرنے کی صورت میں ابن زیاد کو باقاعدہ دھمکی دی ہے۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہےکہ یزید نےابن زیاد کےسامنے امام حسین علیہ السلامکے قتل کےعلاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں رکھا تھا۔ [21]

اہل سنت کے مشہور دانشمند جلال الدین سیوطی نےتاریخ الخلفاءمیں لکھا ہے:”فكتب يزيد إلی واليه بالعراق عبيد الله بن زياد بقتله فوجه إليه جيشاً أربعة آلاف عليهم عمر بن سعد بن أبي وقاص؛ یزید نے کوفہ کے والی ابن زیاد کو حکم دیا کہ حسین بن علی کو قتل کردو اس نے عمُربن سعد کے ساتھ چار ہزار کا لشکر امام حسینکوقتل کرنے کے لئے روانہ کیا“۔ [22]

اہل سنت کے معروف عالم و دانشور اخطب خوارزم لکھتے ہیں کہ جب حر نے امام حسین کےکربلاپہنچنے کی خبر ابن زیاد کو دی تو اس نے امام کو خط لکھا:“مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ کربلا وارد ہوئے ہیں لیکن مجھے یزید نے حکم دیا ہے کہ آپ کو کسی قسم کی رعایت نہ دوں مگر یہ کہ یا آپ یزید کی بیعت کریں یا آپ کو قتل کیا جائے“۔[23]

۵۔ اجماع امت

پوری تاریخ میں امت کا اجماع ہے کہ واقعہ کربلا کا ذمہ دار یزید ہی ہے کیونکہ اس زمانے میں زندگی کرنے والے لوگ یزیدکو اچھی طرح جانتے تھے اور اسے قاتل امام کےطور پر پہچانتے تھے اس بات کی تائید میں چند تاریخی شواہد کو ملاحظہ فرمائیں:

الف: یزید کےنام ابن عباس کا خط

جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے نکلے ہوا تو ابن زبیر نے خلافت کا اعلان کردیا لیکن عبداللہ ابن عباس نے ابن زبیر کی بیعت نہیں کی ۔ یزید نے ابن عباس کا شکریہ ادا کرنے کےلئے ایک خط لکھا اور کہا کہ تم نے ابن زبیر کی بیعت نہ کرکے صلہ ارحام کا لحاظ رکھاہے میں اس نیکی کو فراموش نہیں کروں گا اور تیری محبت کا جبران کروں گا اور تجھ سے ایک تقاضا ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی ابن زبیر کی بیعت کرنے سے روکے کیونکہ لوگوں کے نزدیک تم ایک قابل اعتماد شخص ہو۔ان کلمات پرمشتمل خط کے جواب میں ابن عباس نے یزید کوجواب میں لکھا:”اے یزید، ابن زبیر کی بیعت نہ کرنا تیری محبت کی وجہ سے نہیں ہے خدا میری نیت سےآگاہ ہے تمہیں میرے ساتھ نیکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں تم سے کوئی نیکی نہیں دیکھو ں گا،میں کس طرح تیری حمایت کروں جبکہ تم نے حسین علیہ السلاماور آل ابو طالب کے جوانوں کوقتل کردیا ہے تو میرے میں یہ نہ سوچے کہ حسین اور خاندان عبدالمطلب کے خاندان کے جوانوں کی کو بھول جاؤںگا:“…وانت قتلت حسيناً … لا تحسبني لا أباً لك نسيتُ قتلك حسيناً وفتيان بني عبد المطلب”۔[24]

ابن عباس نے یزید کو قاتل امام حسین کےعنوان سےپہچنوایا ہے۔اور ابن عباس کی عظمت اور ان کامقام سب پر عیاں ہےوہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں کہ بلاوجہ کسی پر تہمت لگادے بلکہ ان کےتقویٰ اور عدالت پر امت مسلمہ کا اجماع قائم ہے۔

ب۔ اسرائے آل محمدکے ساتھ یزید کا سلوک

اہل سنت کے عظیم مورخ ابن اثیر نے الکامل فی التاریخ میں نقل کیاہےکہ جب اسرا ء،یزید کے دربار میں لائےگئے توامام کا سر مبارک یزیدکے سامنے تھا ، اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے وہ امام کےدندان مبارک کی بے حرمتی کررہا تھا۔ ابو برزہ اسلمی سے رہا نہ گیا اور اعتراض کرتے ہوئے یزید سے کہا:”یزید جس دندان مبارک پر تم چھڑی مار رہےہو میں نے رسول خدا 9کوبارہا اس کابوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے!“۔[25]

یزید کی اس اسلام دشمنی پر مبنی حرکت سے پتہ چلتا ہے کہ امام حسین علیہ السلامکے ساتھ اس کی کتنی دشمنی تھی اس لئےشہادت کے بعدبھی وہ فرزند رسول9کے ہتک حرمت سے باز نہیں آیا۔تو پھر کیسے انکار ممکن ہے کہ وہ قاتل امام حسین علیہ السلامنہیں ہے جبکہ وہ نہ صرف ابن زیاد کے عمل سے راضی تھا بلکہ اس نے قتل حسین کا حکم دیا تھا اور اس پر فخر بھی کرتاتھا۔

ج۔ یزید کا امام حسین  کی شہادت پر اظہار خوشی

ابن اثیر لکھتے ہیں:جب امام حسین علیہ السلامکا سر مبارک دربار یزید میں پہنچا تو یزید نے ابن زیاد کے کام کو سراہا اورنہایت خوشی کا اظہار کرتےہوئے اس کی تعریف کی لیکن کچھ عرصےکے بعدجب لوگوں نے اس کی مخالفت میں آواز بلندکرنا شروع کیاتو اس نے اپنی سیاست میں تبدیلی لائی اوربظاہرناراضگی کااظہارکرنے لگا!“۔ [26]

ابن اثیرنے نقل کیا ہے کہ یزید نے شام کے با اثر لوگوں کو دربار میں جمع کرکے اہل بیت کو دربار میں داخل کرایا اور امام زین العابدین علیہ السلامسے مخاطب ہوکر کہا:”تیرے باپ نے صلہ رحی کو قطع کیا اور میرے حق کا انکار کیا!تو خدا نے اس سے انتقام لیا!![2 علیہ السلام]

ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یزید امام حسین کو قتل کامستحق جانتا تھااور اپنے اس جرم کو خدا کی طرف نسبت دے رہا تھا۔ یزید سے دفاع کرنے والے کس طرح ان تاریخی حقائق کا انکار یا توجیہ کرتے ہیں؟

د۔ یزید کے کفر آمیز اشعار

اہل سنت کی تاریخ نقل کرتی ہے کہ یزید نے اہل بیت کو دربار میں حاضر کرکے کفر آمیز اشعار کہکر واقعہ کربلا کو اپنے لئے افتخار شمار کیا ہے۔

ليت أشياخي ببدر شهدوا * جزع الخزرج من وقع الاسل

قد قتلنا الكثير من أشياخهم * وعدلناه ببدر فاعتدل

لست من خندف إن لم أنتقم * من بنی أحمد ما كان فعل[28]

لعبت هاشم بالملك فلا * خبر جاء ولا وحی نزل[29]

اے کاش ہمارے وہ آباء واجداد جو بدر میں مارے گئے وہ زندہ ہوتے تو وہ دیکھ لیتے کہ آل احمد سے ہم نےکیسے انتقام لیا۔ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کرکے بدر کا بدلہ چکادیا ہے۔ اگر آل احمد سے بدلہ نہ لیا ،تومیں بنی خندف سے نہیں ہوں،بنی ہاشم نے حکومت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے ان پر نہ کوئی وحی نازل ہوئی ہے اور نہ کوئی فرشتہ اتر آیا ہے!

ھ۔ یزید کا ابن زیادکو اپنے عہدے پر برقرار رکھنا

اگر یزید کی مرضی کے بغیر ابن زیاد نےامام حسین علیہ السلامکو قتل کیا ہے توکیا یزید نے اس کے خلاف کوئی قدم اُٹھایاہے؟ کیا اسے قتل امام حسین علیہ السلامکے جرم میں سزا دی گئی ؟کم از کم خلیفہ کی نافرمانی کرنے کی بناپر اسے عہدہ سے ہٹادیاگیا؟تاریخ نہ فقط اس کی تائید نہیں کرتی ہے بلکہ اس کے برخلاف گواہی دیتی ہے!

و: ابن زیاد مامور تھا نہ خود مختار

کچھ ایسے قرائن بیان کئے جائیں گے جن سے واضح ہوگا کہ یزید نہ صرف ابن زیاد کے کام سے ناراض نہیں تھا بلکہ ابن زیادکواس کی مکمل حمایت حاصل تھی اسی بناپرمعرکہ کربلا وجود میں آیا تھا۔

الف: ابن زیاد کو خود یزید نے کوفہ میں حضرت مسلم کے زیر قیادت وجود میں آنے والا انقلاب کو روکنے کے لئےبھیجا تھا ۔ اگر واقعہ کربلا یزید کی اطلاع کے بغیراور اس کی مرضی کے خلاف واقع ہوا تھا،خلیفہ کے حکم اور مرضی کے خلاف اقدام کرنے پرابن زیاد کومجرم قرار پانا چاہئےتھا۔

ب:اگر ابن زیاد نے امام حسین کو شہید کیا ہے تو آل محمد شام کے کوچہ وبازار میں کس نے پھرایااور کس کی اجازت سے پھرایاگیا؟امام عالی مقام کے سر مبارک کو سامنے رکھ کر کس نے چھڑی سے دندان مبارک کی بے حرمتی کی؟ یزید کے دربار میں خاندان عصمت کو کس نے ستایا؟ قتل امام حسین علیہ السلام پر فخرکرتے ہوئے کفر اور شرک آمیز اشعار کس نے کہے؟اسرائے آل محمدکو کس نے زندان میں بند کردیا؟ اس قسم کے بہت سے سوالات تاریخ کے سینے میں ضبط ہیں۔

ابن زیاد، یزید کی ہلاکت کے بعد بھی اپنے عہدہ پر برقرار تھا[30] اور وہ بصرہ اور کوفہ دونوں پر حکومت کررہا تھا اگراس نے یزید کی مرضی اورحکم کے خلاف امام حسین کو قتل کیا تھا تو اپنے منصب پر باقی رہنا کس بناپرتھا۔ جبکہ یزید نےمدینہ کےحاکم ولیدکو امام حسین علیہ السلامسے بیعت نہ لے سکنے اور امام کو قتل نہ کرنے پر فورا ًمعزول کیا تھا۔

یزید، ابن زیاد سے نہ صرف ناراض نہیں تھا بلکہ اسے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا جیساکہ ابن اثیر نے نقل کیا ہے۔ جب امام کا سر مبارک شام پہنچا تو یزید نےخوشی کا اظہار کرتے ہوئے ابن زیاد کی تعریف کی ۔[31]

ج:قتل امام حسین پر ابن زیاد کی عزت اور احترام میں اضافہ کرنا:ابن زیاد کو یزیداپنا صاحب اسرار اور امین مانتا تھا جیساکہ اہل سنت کے مایہ ناز مورخ مسعودی مروج الذہب میں لکھتا ہے:”جب واقعہ کربلا کے بعد ابن زیاد شام آیا تو یزید نے ابن زیاد کو اپنے پہلو میں بٹھا یا اور اپنے خدمت گار سے کہا:

اسقني شربة تُروِّي مشاشي* ثم مل فاسقِ مثلها ابن زياد

صاحب السروالامانة عندي*ولتسديد مغنمي وجهادي [32]

مجھے شراب کا جام پلاؤ اور ایک جام ابن زیاد کے لئے بھر دو کیونکہ وہ میرا صاحب اسرار اور امین ہے اور جہاد وغنیمت کے جمع کرنے میں میرامدد گار ہے۔

ح۔معاویہ ابن یزید کا اعتراف

یزید کے بیٹے کا اعتراف اس بات پر اچھی طرح دلالت کرتا ہے کہ امام حسین  کوقتل کرنے میں یزید کا ہاتھ تھا۔ یزید کی ہلاکت کے بعداس نے اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میرے باپ یزید، حسین کا قاتل ہے اور میرے دادا معاویہ نے علی سے خلافت کو غصب کیا ہے اور مجھے اس خلافت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

ابن حجر مکی صواعق محرقہ میں لکھتا ہے معاویہ ابن یزیدنے کہا:” إن هذه الخلافة حبل الله وإن جدي معاوية نازع الامر أهله ومن هو أحق به منه علي بن أبي طالب وركب بكم ما تعلمون حتی أتته منيته فصار في قبره رهينا بذنوبه ثم قلد أبي الامر وكان غير أهل له ونازع ابن بنت رسول الله ثم بكی وقال إن من أعظم الامور علينا علمنا بسوء مصرعه وبئيس منقلبه وقد قتل عترة رسول الله وأباح الحرم وخرب الكعبة؛خلافت خدا کی رسی ہے میرے دادا معاویہ نےاسے علی بن بی طالب علیہ السلامسے ناحق غصب کیا اور جو کچھ چاہا کردیا… پھر میرے باپ کی باری آئی اوروہ بھی خلافت کا اہل نہیں تھا ۔ فرزند رسول سے دشمنی کی!پھر وہ رویا اور کہا …،اس نے عترت رسول خدا 9کوقتل کیا، شراب کو حلال قرار دیا،کعبہ کوخراب کیااوروہ جہنمی ہے“۔[33]

ط۔ ابن زیاد کا اعتراف

ابن زیاد کویزید کی طرف سے حسین کے قتل کاحکم دئے جانے کا اعتراف خود ابن زیاد نے کیا ہے:“ أما قتلي الحسين فإنه أشار إليّ يزيد بقتله أو قتلي فاخترت قتله؛یزید نے مجھے دو کاموں میں مخیر کیاتھاکہ:یاتو حسین علیہ السلامکو قتل کردوں یا میں خود قتل ہوجاؤں، لہذا میں نےحسین کے قتل کو انتخاب کیا!“۔[34]

یزید کےاظہار ندامت کی علت

بعض متعصب لوگ یزیدسے دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یزید نے ابن زیاد پر امام حسین علیہ السلامکو شہید کرنے کی وجہ سے لعنت کی ہے اور پشیمانی کا اظہارکیا ہے اور اہل بیت کو با عزت طورپرمدینہ پہنچایا ہے۔

یزیدکی رفتار میں تبدیلی،اسکے نیک ہونے اور واقعہ کربلا کی ذمہ داری سے بری الذمہ کی دلیل نہیں ہے یذید ی تبلیغی مشینری نے پروپیگنڈا کر رکھا تھاکہ اسلامی ریاست کے خلاف کسی غیر مسلم نے بغاوت کی ہے اور اسلامی لشکر نے اس بغاوت کو کچل دیا ہے لیکن جب اہل بیت شام پہنچے تو کچھ ایسے حالات واقع ہوئے اور شام کی فضا یزید کے خلاف اور آل رسول کے حق میں تبدیل ہونے لگی تو یزید بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لانے پر مجبور ہوا اور یزید اپنے اصل چہرہ پر پردہ ڈالنے اور لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔وہ عوامل جن کی بناپر یزید نے اپنی سیاست بدل دی ان میں سے چند یہ ہیں:

الف۔ امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کا نیزے پر قرآن پڑھنا

امام حسین علیہ السلامکے معجزات میں سے ایک معجزہ جو آپ کےسر مبارک سے نمایاں ہواوہ نیزے پر قرآن پڑھنا ہے، اہل سنت کے مایہ ناز مورخ، ابن عساکرجو خود بھی شام سے ہے، لکھتا ہے:” امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو تین دن تک شہر میں ایک جگہ پر رکھا گیا اور سر مبارک سے اس آیت کی تلاوت کی آواز آرہی تھی:”أم حسبتم أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من آياتنا عجبا؛[35]کیا تم لوگ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب کہف اور رقیم ہماری عجیب نشانیوں میں سے ہیں“۔ [36]

نوک سنان پر سورہ کہف کی تلاوت جہاں ایک طرف سے معجزہ تھا آپ کا وہاں لوگوں کو یہ بات سمجھا رہین تھی کہ حسین اور ان کے ساتھی اصحاب کہف کی طرح حق پرست ہیں جبکہ یزید اور اس کے پیروکار دقیانوس کی طرح کافر اور ظالم ہیں اس کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کی ذہنیت میں تبدیلی آگئی تھی۔

ب۔ امام سجاداور حضرت زینب علیہ السلامکےخطبے

دوسرا عامل جس نے شام کے لوگوں کو بیدار اور یزید کو رسوا کیاامام سجادکا مسجد اموی میں خطبہ دیناہے۔ اسی طرح حضرت زینب3 نےدرباریزید میں بنی امیہ کے چہرےسے پردہ ہٹایا۔ امام سجاد علیہ السلامنےبازار شام میں خاندان رسالت کی صحیح معرفی کی۔ آپ نے کسی شامی کے جواب میں فرمایا :”کیا تم نے قرآن پڑھا ہے“ ؟ اس نے جب اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا” کیا تم نے اس آیت کو پڑھی ہے:”قل لا اسئلکم عليه اجرا الا المودة فی القربیٰٰ”کہا :کیا آپ اس آیت کے مصداق ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ [38]

جب اہل شام غفلت کی نیند سے بیدار ہوئے تو شہر کی حالت بدل گئی اور یزید کو خوف ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کر جائیں لہذا یزید نے حکم دیا کہ اہل بیت:کو زندان سے رہا کیا جائے اور دربار کی عورتوں کو اسرا ئےآل محمد:کے استقبال کرنے کا حکم دیا۔ اور تین دن تک سید الشہدا کے لئے عزاداری کرنے کی اجازت دی گئی۔[39]

اب تک کے مطالب کے روشنی میں معلوم ہوا کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آل رسول:کی اسارت کا ذمہ دار یزید اور اس کا والی ابن زیاد ہے۔ خدا ہم سب کو حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔

 

منابع و ماخذ

 

 

 

[1]۔ ( ذیل کے تمام منابع، جو اہل سنت کے ہیں“المکتبۃ الشاملہ“نامی سی ڈی سے لئےگئے ہیں)

.[2] abidi1390@yahoo.coom

[3] ۔ شيخ جواد محدثي موسوعة عاشوراء ،ج 1،ص 359۔

[4] ۔ تاريخ الخلفاء ،ج 1،ص 84۔

[5] ۔ منبع سابق۔

[6] ۔ صلابي،الدولة الأموية،ج 2،ص 255-25 علیہ السلام۔

[ علیہ السلام] ۔ تاريخ الخلفاء،ج 1،ص 84۔

[8] ۔ مروج الذهب ،ج 1،ص 3 علیہ السلام علیہ السلام۔

[9] ۔ تاريخ الطبري ،ج 4،ص 368۔

[10] ۔ الادله علي تورط يزيد بدم الحسين ،ج 1،ص 62۔

[11] ۔ تاريخ الطبري ،ج 8،ص 18 علیہ السلام۔

[12]۔ابن تیمیہ رأس الحسين - ،ج 1 ،ص 20 علیہ السلام،

[13] ۔ تاريخ الطبري - ،ج 4 ،ص 258۔

[14] ۔ الادله علي تورط يزيد بدم الحسين - ،ج 1 ،ص 3-5۔

[15] ۔ الادله علي تورط يزيد بدم الحسين - ،ج 1 ،ص 3-5۔

[16] ۔ تاريخ اليعقوبي - ،ج 1 ،ص 205۔

[1 علیہ السلام] ۔ الكامل في التاريخ - ،ج 2 ،ص 151۔

[18]۔علی اصغر رضوانی،واقعه عاشورا، ص89 نقل از ابن اعثم،الفتوح،ج3،جز 5،ص18۔

[19] ۔ الكامل في التاريخ ،ج 2،ص 161؛تاريخ الطبري،ج4،ص 289 ۔

[20] ۔ تاريخ اليعقوبي ،ج 1،ص 206۔

[21].الادله علي تورط يزيد بدم الحسين - ،ج 1 ،ص 28۔

[22] ۔ تاريخ الخلفاء - ،ج 1 ،ص 84۔

[23] ۔ الادله علي تورط يزيد بدم الحسين،ج 1، ص 32،بنقل از کتاب، مقتل الحسين للخوارزمي ج1 ،340 ، ونقل نص الكتاب ابن أعثم في كتاب الفتوح وهو من أعلام القرن الرابع الهجري ج5/150 .

[24] ۔ تاريخ اليعقوبي،ج 1،ص 208۔

[25] ۔ الكامل في التاريخ ،ج 2 ،ص 180۔

[26] ۔ حوالہ سابق،ج 2 ،ص 181۔

[2 علیہ السلام] ۔ حوالہ سابق،ج 2 ،ص 181۔

[28] ۔ ابن جوزی،المنتظم ،ج 2،ص 199؛ابو الفرج اصبہانی، مقاتل الطالبيين ،ج 1 ،ص 34؛ابن المطهر ،البدء والتاريخ ،ج 1،ص 331؛ الدولة الأموية للصلابي ،ج 2،ص 256؛البداية والنهاية ،ج 8،ص 192؛ تاريخ الطبري ،ج 8،ص 18 علیہ السلام۔

[29] ۔ تاريخ الطبري - ،ج 8 ،ص 188۔

[30] ۔ الكامل في التاريخ ،ج 2،ص 195۔

[31] ۔ حوالہ سابق،ج 2،ص 181۔

[32] ۔ مروج الذهب،ج 1،ص 3 علیہ السلام علیہ السلام۔

[33] ۔ الصواعق المحرقة - ،ج 2 ،ص 641۔

[34] ۔ الكامل في التاريخ - ،ج 2 ،ص 199۔

[35] ۔ الکہف،آیت 9۔

[36] ۔ مختصر تاريخ دمشق - ،ج 1 ،ص 3418۔۔

[37] ۔ شوری، آیت 23۔

[38] ۔ الدر المنثور ،ج 9 ،ص 66؛ تفسير الطبري - ،ج 21 ،ص 528۔

[39] ۔ سید علی میلانی، ناگفتہ ہای حقائق عاشورا، ص148۔

 بشکریہ:http://fida.blogfa.com/post-12.aspx

Add new comment