عزاداری امام حسینؑ ،رہبر معظم کی نگاہ میں

عاشورا اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق سن ۶۱ھ سے آج تک اس واقعے کے چشم دید گواہوں ، ائمہ اطہار علیہم السلام اور خطباء و شعراء کی زبان و قلم سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن ابھی تک اس وادی کے اسرار و رموز کو بیان نہیں

رہبر معظم سید علی خامنہ ای

عاشورا اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق سن ۶۱ھ سے آج تک اس واقعے کے چشم دید گواہوں ، ائمہ اطہار علیہم السلام اور خطباء و شعراء کی زبان و قلم سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن ابھی تک اس وادی کے اسرار و رموز کو بیان نہیں کیا گیا ہے اور بہت کچھ کہنا باقی ہے ۔
بقول مولانا روم کے
گر بگویم شرح این معنی تمام صد قیامت بگذرد وین نا تمام
" اگر اس معنی کی مکمل تشریح کروں تو سو قیامتیں گزر جانے کے بعد بھی اس کی شرح نا مکمل رہ جائے گی ۔ "
گزشتہ چند سالوں میں یعنی انقلاب اسلامی سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس عظیم واقعہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ۔ لیکن آج بھی امت مسلمہ کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرے ۔
عاشورا ایک عجیب درس ہے اور حقیر کی نظر میں آج کی سسکتی اور دم توڑتی دنیا کا علاج صرف یہ ہے کہ وہ سید الشہداء حسین ابن علی علیہما السلام کا درس پڑھے ، اسے سمجھے اور پھر اس پر عمل کرے ۔
ایران کی عظیم قوم اگر صرف اتنا کام کر سکے کہ اپنی زندگی اپنے انقلاب ، اپنی جنگ، اپنے سماج اور اپنے معاشرے میں اس عظیم درس کو دنیا کے سامنے جلوہ گر کر سکے تو یہ سب سے بڑی خدمت ہوگی دنیا کی ستمدیدہ اقوام کے لئے ( ۱ )
آزادی پسند امام
گزشتہ چند صدیوں کی بنسبت آج حسین ابن علی علیہما السلام کی شخصیت زیادہ معروف و مقبول ہے ۔ آج کے حالات میں جب بھی کوئی بے غرض مفکر اور دانشور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو واقعہ کربلا پر پہنچ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔ وہ افراد جن کا بظاہر اسلام سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ لیکن آزادی ، عدالت ، عزت ، سر بلندی اور دوسرے انسانی اقدار کے قدر داں ہیں وہ سب آزادی ، عدالت ، استقلال ، برائیوں سے مقابلے اور جہالت کے خلاف جنگ میں امام حسین علیہ السلام کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے ہیں ۔ ( ۲ )
مقصد قیام ؟
امام حسین ( ع ) سے کہا جاتا تھا پورا مکہ اور مدینہ آپ کا احترام کرتا ہے ۔ اور یمن میں آپ کے اتنے چاہنے والے ہیں ۔ کہیں بھی چلے جائیے تا کہ نہ آپ کو یزید سے کوئی مطلب ہو اور نہ یزید کو آپ سے کوئی سروکار ۔
اتنے شیعہ ، اتنے چاہنے والے ، اتنے پیرو کار آرام سے زندگی بسر کیجئے ، خدا کی عبادت کیجئے اور اس کے دین کی تبلیغ کیجئے آخر یہ قیام کس لئے ؟ آپ کا کیا مقصد ہے ؟
کیا آپ کا مقصد حکومت تھا ؟
بعض لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ یزید جیسے فاسق و فاجر انسان کو حکومت سے بر طرف کر کے خود حکومت کریں ۔ ہم نہیں کہتےکہ یہ بات بالکل غلط ہے البتہ آدھی صحیح ہے ۔ ان افراد کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے سوچا قیام کرتے ہیں اگر کامیاب ہوگئے تو حکومت اپنےہاتھ میں لے لیں گے اور اگر کامیاب نہ ہوئے تو واپس آجائیں گے ۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔
جی ہاں ! جو حکومت کی غرض سے قیام کرتا ہے وہ وہیں تک آگے بڑھتا ہے جہاں تک ممکن ہو لیکن جہاں اس نے دیکھا کہ اب آگے بڑھنا نا ممکن ہے تو پلٹ آتا ہے ۔ اگر کسی کا مقصد حکومت قائم کرنا ہے تو اسے وہیں تک جانا چاہتے جہاں جانے کا امکان ہے لیکن جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو عقلمندی یہی ہے کہ پلٹ آئے ۔
جو شخص یہ کہتا ہے امام حکومت علوی کے قیام کے لئے اٹھے تھے اور اس کی مراد یہ ہو جو ہم نے بیان کیا تو اس کا نظریہ صحیح نہیں ہے اس لئے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام سے کہیں بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔
تو پھر کیا قیام کا مقصد شہادت تھا ؟
بعض لوگ کہتے ہیں یہ حکومت و کومت سب بیکار کی باتیں ہیں امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ حکومت کا قیام عمل میں نہیں لا سکتے وہ تو اس لئے آئے تھے تا کہ خدا کی راہ میں قربانی دیں اور شہید ہوجائیں ۔
ایک مدت تک لوگ اسی نطریہ کے قائل تھے ۔ بعض لوگ شاعرانہ تعبیروں کے ساتھ اسے بیان کرتے بلکہ بعض بزرگ علما بھی اس کے قائل ہوگئے تھے ۔ وہ سب کہتے ہیں کہ امام عالی مقام نے دیکھا کہ اب زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہیں لہٰذا شہادت کے ذریعہ ہی کچھ کیا جائے ۔
اسلام اس کی بھی اجازت نہیں دیتا اس لئے اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ جاؤ اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو اور قتل کر دیئے جاؤ ۔ شریعت اور دین نے جس شہادت کی بات کی ہے اس شہادت کا مطلب یہ ہے انسان ایک عظیم مقصد کی خاطر قیام کرے اور اس راہ میں اپنی جان بھی دیدے ۔ یہ ہے وہ شہادت جسے اسلامی اور دینی شہادت کہا جا سکتا ہے شہادت یہ نہیں ہے میں دوڑ کر میدان میں جاؤں تاکہ شہید کر دیا جاؤں یا شاعرانہ تعبیر میں کہا جائے کہ میرا خون ظلم و ستم کے ایوان ہلا دے اور اسے منہ کی کہانے پڑے ۔ امام حسین علیہ السلام کے عظیم قیام کا مقصد یہ بھی نہیں تھا جو کہا جاتا ہے ۔
ایک واجب کو انجام دینا
لہٰذا نہ کلی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے امام عالی مقام نے حکومت کے لئے قیام کیا اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے ان کے قیام کا مقصد شہادت تھا ۔
میری نظر میں جو لوگ " حکومت " یا " شہادت " کے قائل ہیں انہوں نے ہدف اور نتیجہ کو ملا دیا ہے ۔ امام کے قیام کا مقصد یہ نہیں تھا ،امام کے قیام کا مقصد کچھ اور تھا البتہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے انہیں ایک ایسا راستہ طے کرنا تھا جس کا نتیجہ دو ہی چیزیں تھی ں حکومت یا شہادت امام حسین علیہ السلام ان دونوں چیزوں کے لئے آمادہ تھے ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات کو بھی فراہم کر لیا تھا اور شہادت کی آمادگی بھی کر چکے تھے ۔ اب جو بھی ہاتھ آتا وہی صحیح تھا ، اس میں کوئی عیب نہیں تھا لیکن ان میں سے کوئی بھی مقصد نہیں تھا بلکہ نتیجہ تھا ۔ ہدف کچھ اورہوتا ہے ۔
اگر امام حسین علیہ السلام کے صحیح ہدف کو بیان کرنا ہے تو اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ امام عالی مقام کے قیام کا ہدف ایک ایسے واجب کی انجام وہی تھا جو امام حسین علیہ السلام سے پہلے کسی نے انجام نہیں دیا تھا یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے بھی ۔ ( ۳ )
اسلام کا ایک رکن
اسلام کے عملی احکام کا صرف ایک حکم جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں کیا تھا ۔ اور یہ اسلامی نظام کے ارکان کا ایک اہم رکن ہے ۔ اور وہ حکم اور رکن یہ تھا کہ جب بھی یہ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کی گاڑی پٹری سے نیچے آجائے اور اس کانظام بالکل الٹ جائے تو اس وقت امت مسلمہ کی ذمہ داری کیا ہے ؟ اگر بانی اسلام تمام اسلامی احکام و قوانین بیان کرتے لیکن صرف یہ ایک حکم بیان نہ کرتے تو ان کا کام ناقص رہ جاتا لیکن انہوں نے یہ بھی بیان کر دیا تھا۔وہ مسلمانوں سےکہہ کر گئے تھے اگر کسی وقت بھی اسلامی معاشرہ اسلام کے دائرے سے باہر نکل جائے اور صاحبان قدرت و ثروت ، مسلم نما منافقین یا کوئی بھی اسلامی سماج کا رخ بدلنا چاہے تو اس کے مقابلے میں امت مسلمہ کو کیا کرنا ہوگا ؟ پیغمبر اکرم ( ص ) یہ کہہ کر گئے تھے لیکن خود عمل نہیں کر سکے کیونکہ پیغمبر اکرم ( ص ) جب تک با حیات تھے تب تک امت مسلمہ اور اسلامی معاشرے میں ایسا کوئی انحراف پیدا نہیں ہوا تھا ۔ اسلام کا یہ رکن پیغمبر اکرم ( ص ) نے اس لئے بیان کیا تھا کیونکہ ان کے بعد ان کے جانشینوں کے زمانے میں ایسا ہونا عین ممکن تھا چاہے وہ کسی بھی جانشین کے زمانے میں ہوتا ۔ جس امام کے زمانے میں بھی یہ صورتحال پیدا ہوتی اسے وہی کرنا ہوتا جو پیغمبر نے بتایا تھا ۔ اگر امیر المومنین علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تو وہ ویسا ہی کرتے جیسا پیغمبر ( ص ) نے بتایا تھا یا اگر امام علی نقی علیہ السلام یا امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تب بھی ان کی یہی ذمہ داری تھی ۔ اب چونکہ یہ صورتحال امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش آئی لہٰذا ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر عمل کرتے ۔ تاکہ اسلامی نظام اور اسلامی سماج کو دوبارہ اسی حالت پر لے آتے جہاں پر وہ پہلے تھا ۔ یہ امام عالی مقام کی ذمہ داری تھی اور واقعہ عاشورا کی واقعیت اور حقیقت یہی ہے ( ۴ )
ہمارےانقلاب کی گاڑی
امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تمام لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا : " ایہا الناس " اے لوگو ! یعنی اے وہ لوگو ! جو میرے ساتھ ارو میری تحریک حقیقت اور مقصد کوسمجھنا چاہتے ہو، اور اے وہ لوگو ! جو آج دشمن بن کر ہمارے سامنےکھڑے ہو اور اے غیر جانبدارغافلو! جن تک میرے حسین کے قیام کی خبر پہنچے گی لیکن تمہیں معلوم نہ ہوگا کہ میں نے کیوں قیام کیا ۔ اور اے وہ لوگو ! جو اسلام کے احکام اور خدا کی شریعت کو جاننا چاہتے ہو ہماری تحریک سے بے خبر ہو ۔
تم سب جان لو ! " ایھا الناس ان رسول اللہ قال من رأی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم اللھ ناکثاً لعھد اللہ یعمل فی عباد اللھ بالجوروالعدوان فلم یغیرعلیھ بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ " یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کے کلمات ہیں میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں ، یہ وہی حکم ہے جو پیغمبر نے دیا ہے اور میں اس حکم پر عمل کر رہا ہوں اور وہ حکم یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی بھی یہ دیکھ کہ معاشرے کی باگ ڈور کی ایسے شخص کے ہاتھوں میں ہے جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے ۔ اس کے دل میں لوگوں کی نسبت بغض و عداوت اور کینہ ہے ۔ اسے لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں اور لوگوں سے بالکل محبت نہیں کرتا ۔ اسے اس سے سروکار نہیں ہے معاشرے کی مصلحت کیا ہے بلکہ اسے اس سے مطلب ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور اس کا فائدہ کس چیز میں ہے ۔ جو بھی ایسے شخص کو بر سر حکومت دیکھے اور اس کے خلاف قیام نہ کرے بلکہ بت بنا دیکھتا رہے تو خدا کو حق ہے کہ قیامت کے دن اسے بھی وہی سزا دے جو اس ظالم کی ہوگی ۔ یہی وہ انجن تھا جس نے ہمارے انقلاب کی گاڑی کو آگے بڑھایا ۔ ( ۵ )
سب سے بڑا ہنر
امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں اور پیرو کاروں میں بہت سے امام حسین (ع) اور ان کی تحریک کو سمجھ چکے تھے ( اس لئے امام کے نقش قدم پر چل پڑے ) اور بعض نہیں سمجھ پائے تھے ( اس لئے وہ قافلۂ حسینی سے پیچھے رہ گئے ) ۔
دشمن تو خیر دشمن تھے ۔ دشمن ایسے تھے جیسے ایک گہرا سمندر ہو اور اس کی خطرناک اور سرکش موجیں ۔ دوستوں میں بعض دانا تھے جو امام کی معرفت حاصل کر چکے تھے اسی لئے ان حساس لمحوں میں حسین ابن علی کو تنہا نہیں چھوڑ ا اور بعض امام کے پاس ہوتے ہوئے انہیں نہ سمجھ پائے اور غلطی کر بیٹھے ۔ کون کہہ سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر کو اسلام اور خاندان پیغمبر سے محبت نہیں تھی ؟ یہ سب تو پیغمبر اکرم ( ص ) کے دامان محبت میں پروان چڑہے تھے لیکن یہاں غلطی کر بیٹھے ۔ نہیں جانتے تھے کہ وہ سر زمین جس کا دفاع واجب ہے کہاں ہے اور وہ چیز جس کے لئے فدا کاری کرنی چاہئے کون سی ہے ؟ مدینہ ہی میں رہے تا کہ چار مسئلے بیان کر سکیں لیکن اسلام مجسم ، قرآن ناطق ، فاطمہ کے لخت جگر حسین کو تنہا چھوڑ دیا ۔
بعض لوگ کربلا تک آئے ، جنگ کی، امام کا دفاع بھی کیا لیکن آخری لمحوں میں امام کی خدمت میں آکر کہنے لگے : مولا ہم سے جہاں تک ہو سکتا ہے آپ کا دفاع کیا اب اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم خدا حافظی کریں ( اور اپنے گھروں کو جائیں ) امام نے بھی اجازت دے دی اور کہا بسم اللہ آپ لوگ جا سکتے ہیں ۔ بہت سے افراد تھے جو اس وقت خاموش رہے اور بیٹھے رہے جب اسلام کےلئے سب سے بنیادی اور ضروری دفاع کا وقت تھا ۔
آج بھی جو لوگ اسلام کا دم بہرتے ہیں ، اسلام کی باتیں کرتے ہیں اور اسلام کے دعویدار ہیں ، ان میں سے بہت سے نہیں جانتے کہ اسلام کہاں ہے اور کہاں اسلام کا دفاع کرنا چاہئے ۔ سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ انسان صحیح وقت اور جگہ کو پہچانے۔ حبیب ابن مظاہر جیسے افراد نے اچھی طرح پہچان لیا تھا ( اس لئے آخری دم تک امام کا ساتھ نہیں چھوڑ ا ) جناب زینب نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں کو بھی لے کر آگئیں ۔ جب کہ ان کے شوہر عبد اللہ ابن جعفر مکہ یا مدینہ میں بیٹھے رہے اور کربلا نہیں آئے ۔ جناب زینب یہ کہہ سکتی تھیں کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ جا رہی ہوں بچوں کو باپ کے پاس چھوڑ کے جاتی ہوں لیکن وہ بچوں کو بھی لے کر آئیں اور ان کے دونوں بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے ۔
یہ وہ لوگ ہیں جو بصیرت رکھتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا کرنا ہے۔ ( ۶ )
سچائی کا خاتمہ ہو جاتا
امام عالی مقام جانتے تھے کہ اگر انہوں نے یہ قیام نہ کیا تو ان کا یہ سکوت اور خاموشی رضامندی کی علامت بن جائے گی اور پھر اسلام پر کیا مصیبت آن پڑے گی ۔ جب ایک طاقت معاشروں یا کسی ایک معاشرے کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے اور طغیان و بربریت کا راستہ پر گامزن ہو جائے، ایسے موقع پر حق و حقیقت کے علمبردار اگر خاموش بیٹھے رہیں اور ان کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں تو گویا وہ بھی اس طاقت کے عمل سے راضی ہیں چاہتے در حقیقت وہ راضی ہوں یا نہ ہوں ۔ یہی وہ گناہ تھا جو اس وقت بنی ہاشم کے بہت سے بزرگوں اور صدر اسلام کی اہم شخصیات کی اولاد نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بات ناقابل برداشت تھی اس لئے آپ نے قیام کیا ۔
واقعہ کربلا کے بعد جب قافلۂ حسینی واپس مدینہ میں آیا ۔ ( یعنی مدینہ مدینے سے نکلنے کے دس ، گیارہ مہینے بعد ) ایک شخص امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہنے لگے : دیکھا کیا ہوا ؟ کیا ملا وہاں جاکر ؟ امام نے اس کے جواب میں فرمایا: سوچو اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ؟!
جی ہاں ! اگر نہ جاتے تو کیا ہوتا ! جسم تو زندہ ہوتے لیکن سچائی دم توڑ چکی ہوتی ، روح فرسودہ ہوجاتی ، ضمیر مردہ ہوجاتے عقل و خرد کا جنازہ نکل جاتا اور اسلام کا نام و نشان باقی نہ رہتا ۔ ( ۷ )
علما سے خطاب
اس وقت کے علما کا ایک گروہ تشکیل ہوا جنہوں نے پیغمبر اسلام کو دیکھا تھا ، جو ان کے صحابی تھے ، جنہوں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یا ان افراد سے حدیثیں تھیں جو پیغمبر سے حدیثیں نقل کرتے تھے ۔ وہ افراد جو لوگوں کی نگاہوں میں قابل احترام تھے اور دانشوران قوم کہے جاتے تھے ۔ انہیں افراد میں سے کچھ کو حسین ابن علی نے منی کے میدان میں اکٹھا کیا اور ان سے ایک مفصل گفتگو کی ۔ گفتگو کے آخر میں امام عالی مقام آسمان کی طرف رخ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ( اللھم انک تعلم انھ لم یکن ما کان منا مناسفۃ فی سلطان ) ۔
خدایا تو بہتر جانتا ہے کہ جو کام ہم نے شروع کیا ہے ، جو قدم ہم نے اٹھ ایا ہے ، جو باتیں ہم کہتے ہیں یہ ان اہداف و مقاصد کے لئے نہیں ہیں جو عام طور سے دنیا طلب ، جنگجو اور لشکر کشی کرنے والے افراد کے ہوا کرتے تھے یا ہوا کرتے ہیں ( و لکن لنری المعالم من دینک ) ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ پرچم اسلام کو پہچانیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ دین کی ان پوشیدہ علامتوں قرآن و اسلام کی فراموش شدہ اقدار ، اہداف اور اصولوں کو دوبارہ زندہ کریں جن پر بہت زیادہ گرد و غبار پڑ گیا ہے ( و نظھر الاصلاح فی بلادک ) اور ہمارا ارادہ ہے کہ تیری سر زمین اور تیرے شہر میں اصلاح کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشروں کو آباد کریں ، اس ظلم ، اس طبقاتی اختلاف غرباکا شدید فقر اور افراد کی حد سے زیادہ دولت نہ رہے ۔ انسان ظلم کا شکار نہ ہو ، نا انصافی اور روا داری نہ رہے اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے ۔ (ویامن المظلومون من عبادک) اور ہماری تحریک کا مقصد یہ ہے کہ تیسرے ستمدیدہ اور مظلوم بندوں کو امن و امان اور سکون دلائیں ۔
وہ ایسا زمانہ تھا کہ جو بھی حکام وقت کی عیش و نوش اور ہوسرانیوں کے خلاف آواز بلند کرتا تھا اسے سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی ( ۸ )
شہدائے کربلا کی عظمت كا راز
تمام شہداء برابر نہیں ہیں بلکہ بعض شہادتیں بعض دوسری شہادتوں سے افضل و برتر ہیں ۔ شہدائے کربلا اس لئے دوسرے شہدا پر افضلیت نہیں رکھتے کہ وہ بھوکے پیاسے شہید ہوئے ۔ ایسے بہت سے شہدا ہیں جو آخر وقت تک تشنہ لب رہے ۔ بلکہ شہدائے کربلا کی فضیلت اس حساس موقع پر شہید ہونا ہے ۔ ان حالات میں اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا اور یہ شہادتیں نہ دی جاتیں تو دین کی بساط الٹ کر رہ جاتی ۔ جو کام جتنا حساس ہو اتنا سخت بھی ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس بات کا یقین کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ حسین ابن علی علیہما السلام پانچ مہینے یا اس سے کچھ زیادہ مکہ اور مدینہ کے درمیان سر گرداں رہے تا کہ سب لوگ جان لیں ( کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ کیا کرنے والے ہیں ) اور سب جان بھی گئے کوفی ، عراقی ، حجازی سب کو معلوم ہوگیا تھا ۔ اور امام صرف چالیس پچاس لوگوں کے ساتھ کربلا میں وارد ہوئے ۔ کیونکہ سب اسی دن امام کے ساتھ نہیں آئے تھے بلکہ بہت سے بعد میں آئے تھے اور کچھ تو شب عاشور یا صبح عاشور امام سے ملحق ہوئے تھے ۔ ان چالیس آدمیوں کا امام کے ساتھ رہنا یقینا بہت سخت تھا اس لئے کہ دشمن کے اتنے بڑے سیلاب کے سامنے ڈٹے رہنا معمولی بات نہ تھی بلکہ اس کےلئے مضبوط ارادوں والام دل ہونا چاہئے۔
پیغمبر کے زمانے کی طرح نہیں تھا کہ پیغمبر خودہاتھ میں پرچم لے کر نکلتے تھے اور سب لوگ ہنستے اور مسکراتے ہوئے ۔ پیغمبر کی ہمراہی میں نکلتے تھے اور میدان جنگ میں پہنچ جاتے تھے ۔ آج تمام اصحاب پیغمبر ( ص ) گہروں میں بیٹہ گئے تھے عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن جعفر اور دوسرے افراد منہچھپا کر بیٹہ گئے تھے جب کہ یہ لوگ پیغمبر کے قرابتداروں میں سے تھے ۔
صرف ایک چہوٹا سا شجاع بہادر ، نڈر ، کفر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنے والا گروہ آمادہ تھا کہ تمام چیزوں کو نچھاور کر کے پیغمبر کے نواسے پر اپنی جان قربان کرے ۔
شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے ۔ چونکہ اس وقت یہ فیصلہ بہت سخت اور دشوار تھا ۔ اسی لئے ابن زبیر ، ابن عمر ، ابن جعفر اور ابن عباس جیسے افراد اس قافلہ میں شامل نہ ہوسکے اور یہ سب ایک صف میں تھے ان میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عباس دوسروں سے الگ تھے ۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے ! نا فرمانی نافرمانی ہے چاہے وہ کوئی بھی کرے ۔ ان سب نے نافرمانی کی تھی کسی میں بھی جرائت نہیں تھی کہ حسین ابن علی کا ساتھ دے سوائے ان چند افراد کے ۔
ہم پوری تاریخ میں شہدائے کربلا جیسے عظیم شہدا تلاش نہیں کر سکتے ۔ آج بھی ویسے ہی دن ہیں آج ہمارے شہدا بھی بہت عزیز اور با عظمت ہیں لیکن جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا ( لا یوم کیومک یا ابا عبد اللہ ) کوئی دن کربلا کے دن کی طرح نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ میں آج تک ایسا دن نہیں آیا ۔ اسلام سے پہلے ، صدر اسلام میں اور اس کے بعد سے آج تک ہمیں ایسا کوئی دن نہیں ملتا جو کربلا کی طرح ہو ۔ یہی وجہ ہے امام حسین علیہ السلام کو سید الشہداء اور بقیہ شہدائے کربلا کو شہدائے تاریخ کا سردار کہا جاتا ہے جو سب سے عظیم اور سب سے برتر ہیں ۔ ( ۶۷ )
چراغ ہدایت
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث مبارکہ یقینا اس نے سنی ہوگی
( ان الحسین مصباح الھدیٰ و سفینۃ النجاہ )
بے شک حسین ( ع ) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہے ۔ یہ صرف کسی ایک خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے میں ایسا ہی ہے ۔ البتہ بعض زمانوں میں خاص طور پر اس کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ جب واقعہ عاشورا پیش آیا یہ انہیں زمانوں میں سے تھا ۔ علی و فاطمہ کے لخت جگر کا چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہونا ان لوگوں کی سمجھ میں آگیا جو ان کی معرفت حاصل چکے تھے ۔ امام حسین واقعہ عاشورا سے دس سال پہلے امام بن چکے تھے آپ اس وقت بھی چراغ ہدایت اور کشتی نجات تھے لیکن یہ بات لوگوں کے لئے اتنی واضح اور روشن نہیں تھی واقعہ عاشورا میں واضح طور پر جلوہ گر ہوئی ۔ آج بھی وہی زمانہ ہے ۔ آج سے سو سال بلکہ پانچ سو سال کی بنسبت امام عالی مقام کا چراغ ہدایت ہونا زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ آج جب ہم کہتے ہیں کہ یہ زمانہ عصرتحریک اور عصر انقلاب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج حسین ابن علی پھر سے ایک ماہتاب عالم تاب بن کر چمک اٹھے ہیں ( جو تیرہ سو سال سے اس امت کے دل میں ، ہماری مجسدوں امامباڑوں اور ہماری مجالس و محافل میں ایک چراغ بن کر چمک رہے تھے ) جیسے واقعہ کربلا کے وقت بہت سے افراد تھے جو اس چراغ کی نورانیت کو نہ دیکھ سکے آج بھی ایسے افراد ہے جو دل افروز چراغ عالم تاب کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں ۔ ( ۹ )
غیر جانبدار لوگ
پیغمبر اکرم ( ص ) نے ارشاد فرمایا : جب بھی معاشرے پر ایساحاکم ہو جائےجو حلال خدا حرام اور حرام خدا کو حلال کر رہا ہو ، خدا کے عہد و پیمان کو پائمال کر کے لوگوں پر ظلم و ستم ڈہا رہا ہو اور کینہ و دشمنی کی بنیاد پر لوگوں سے بدسلوکی کر رہا ہو ، توجو انسان اس صورتحال کو دیکھ رہا ہو، اپنی زبان و عمل سے اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے ( کان حقا علی اللہ ان یدخلھ مدخلھ ) خدا کو حق ہے کہ اس شخص کو بھی وہیں رکہے جہاں اس ظالم کا ٹہکانہ ہے اور اسے بھی اس کے ساتھ عذاب میں مبتلا کرے ۔ آج بہت سے اسلامی ممالک میں ظالم و جابر حاکموں کی حکومت ہے جو حلال خدا کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال کرنے میں لگے ہیں ۔ خدا کے عہد کو توڑ کر امریکہ سے عہد و پیمان کرتے ہیں ۔ ایسے ممالک میں وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے ہیں اور اس علم کے مقابلے اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھ تے یہ لوگ در حقیقت کس زمرے میں ہیں ؟ یہ سب قوت و طاقت جو خدا کی ملکیت ہے ان افراد کےہاتھ سے نکل کر غیروں کے ہاتھ میں جارہی ہے ۔ جہاں پر اتنا فساد ہو ظلم و زیادتی اور نا انصافی ہو وہاں خاموش اور بے پروا رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے اپنی معنوی قوت کو روک لیا ہے اور اسے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر رہا ہے ۔ یہ پیغمبر اکرم ( ص ) کا بیان ہے کسی اور کا نہیں ۔ حسین ابن علی کا قیام بھی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس ظلم و زیادتی اور فساد کے مقابلے اپنی قوت و طاقت کا استعمال کیا اور انسانیت و تاریخ کو اس بات کا سبق سکھایا کہ اگر تمہارے سماج میں اس طرح کی صورتحال پیش آئے تو تمہیں کیا کرنا چاہیے ! ( ۱۰ )
جہالت اور گمراہی کے خلاف جنگ
امام حسین علیہ السلام کی زیارت اربعین میں ایک جملہ ہے جو اس زیارت کے دوسرے بہت سے جملوں کی طرح پر معنی اور غور طلب ہے اور وہ جملہ یہ ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یہ ایک زیارت ہے لیکن اس کے ابتدائی جملے دعائیہ کلمات ہیں جس میں انسان خداوند متعال سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ( و بذل مھجتھ فیک ) یعنی اے پروردگار ! حسین ابن علی نے اپنی جان اور اپنا خون تیری راہ میں قربان کیا ( لیستنقذعبادک من الجھالۃ ) تاکہ تیرے بندوں کو جہالت کی دلدل سے باہر نکالے ( و حیرۃ الضلالۃ ) اور گمراہی میں سر گرداں ہونے سے بچائے ۔
یہ سکہ کا ایک رخ ہے جسے حسین ابن علی ( ع ) کہا جاتا ہے سکے کے دوسرے رخ کا تعارف اس جملے کے ذریعے کروایا جا رہا ہے ( و قد تزاورعلیھ من غرتھ الدنیا و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) یہ وہ لوگ تھے جنہیں زندگی کے فریب نے خود میں مشغول کر دیا تھا ۔ مادی دنیا ، اس کی زرق و برق اور خواہشات نفسانی نے انہیں خود سے غافل بنا دیا تھا ( و باع حظھ بالارذل الادنیٰ ) انہوں نے سعادت و خوشبختی جیسے عظیم سرمایہ کو ، جو خدا خلقت کے ساتھ ہر انسان کو عطا کرتا ہے ، بہت نا چیز اور حقیر داموں میں بیچ دیا تھا ، یہ ہے حسینی تحریک کا خلاصہ ۔ اگر چہ امام حسین علیہ السلام کا ظاہری مقابلہ یزید سے تھا لیکن در حقیقت ان کا مقابلہ اس کم عمر کے یزید سے نہیں تھا بلکہ ان کا مقابلہ جہالت ، ذلت ، گمراہی اور انسان کی زبوں حالی سے تھا ۔ امام حسین علیہ السلام ان چیزوں سے مقابلہ کر رہے تھے ۔ ( ۱۱ )
دین کے لئے فدا کاری
عاشورا کا سب سے پہلا سبق دین اور خدا کی راہ میں فدا ہوجانا ہے ۔ عاشورا کا یہ سب سے واضح درس ہے ۔ ان سخت و حالات میں امام عالی مقام نے تمام مسلمانوں بلکہ تمام عالم بشریت ، تمام آزاد منش افراد چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، کو یہ درس دیا کہ اگر انسان کا شرف ، اس کی آزادی اور استقلال ، انسانی اقدار اور مسلمانوں کا دین خطرے میں پڑ جائے تو ان سخت شرائط میں بھی دین کا دفاع ایک اسلامی اور انسانیفریضہ ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ حالات سخت ہیں یہ بہانہ نہ بنایا جائے کہ بہت مشکل ہے ۔ ہو سکتا ہے اور دین کا دفاع ہمیشہ اور ہر حال میں کیا جا سکتا ہے ۔حسین ابن علی ( ع ) نے محکم ارادے ، جذبۂ فداکاری اور شہادت طلبی کے ذریعہ ان سخت حالات میں دین کا دفاع کا جب وہ بالکل اکیلے تھے ۔ بنی ہاشم اور قریش کے بزرگوں اور اصحاب کی اولاد نے بھی امام کا ساتھ نہ دیا ۔ مکہ میں عبد اللہ ابن زبیر ، مدینہ میں عبد اللہ ابن جعفر اور عبد اللہ ابن عمر یعنی وہ افراد جن کے باپ صدر اسلام کی قد آور اور نامی شخصیتیں تھیں اور لوگوں کی چشم امید ان پر لگی ہوئی تھی ۔ یہ وہ لوگ جن سے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یزیدی ظلم کے مقابلے اٹھ کھڑے ہونے پر تیار نہ ہوئے اور پیغمبر کی نصرت پر آمادہ نہ ہوئے ۔ کیا حسین ابن علی ان کی نصرت کی امید لگائے بیٹھے تھے ؟ کیا ان کے مدد نہ کرنے سے امام اپنے عمل سے دستبردار ہوجاتے ؟ نہیں امام نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔ جب بیچ راستے ہی میں امام کو خبر ملی کہ اب کوفے والے ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور وہ اکیلے رہ گئے ہیں تو وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ جب کربلا کے اس بیابان میں ان کے تمام ساتھ ی شہید ہوگئے اورصرف چند خواتین یا بچے باقی بچے تو اس وقت بھی دفاع اور جہاد کو جاری رکھا ۔ اگر آخری وقت تک امام راضی ہوجاتے اور سر تسلیم خم کر دیتے تو یزیدی فوراً مان لیتے ۔ لیکن امام اس کے آگے جہکے نہیں ۔ یہ ایک عظیم درس تھا کربلا کے واقعہ کا۔ ( ۱۲ )
جب دینداروں کی قلت ہوجائے
عاشورا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ اس نے افراد کو دو حصوں میں تقسیم کردیا کوفے کے بہت سے بزرگوں اور رؤسائے شہر نے امام حسین ( ع ) کو خط لکہ کر بلایا تھا اور یہ دعوت اس وقت دی تھی جب امام مدینہ سے نکل چکے تھے ۔ لوگوں کو خبر نہیں تھی کہ ماجرا کیا ہے ؟ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک سخت امتحان اور دشوار مرحلہ سے گزرنا ہوگا ۔ مکہ سے بہت سے افراد امام کے ساتھ نکلے تھے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس تحریک کا انجام کیا ہوگا ۔ اگرچہ بظاہر راستہ دشوار نظر آرہا تھا لیکن ابھی حقیقت حال سے بے خبر تھے ۔ جیسے ہی حقیقت دہیرے دہیرے ظاہر ہونے لگی حق و حقیقت کے طرفدار کم ہونے لگے ۔ سختیوں نے اہل دنیا کو بہگا دیا ۔ جیسے کہ خود امام فرماتے ہیں (الناس عبید الدنیا و الدین لعق علی السنتھم فاذامحسوا بالبلاء قلت دیانون) اس وقت صورت حال بالکل یہی تھی ۔ جب مشکلات سامنے آتی ہیں تو دینداروں کی تعداد میں کمی ہونے لگتی ہے اور جب تک آرام اور سکون ہے دعویدار بہت ہوتے ہیں ۔ اس وقت مکہ ، مدینہ ، کوفہ اور پورے عالم اسلام میں بہت سے افراد تھے جن کا دعویٰ تھا کہ وہ دین کے پیرو کار ہیں اور بے چوں و چرا اس پر عمل کرنے والے ہیں ۔ بہت سے لوگ تھے جو حسین ابن علی ( ع) کو فرزند رسول کے عنوان سے پہچانتے تھے ، مانتے تھے اور ان سے محبت بھی کرتے تھے لیکن جب امام حسین علیہ السلام مکہ سے نکلنے لگےتو ان میں سے بہت سے امام کے ساتھ آنے پر تیار نہ ہوئے ۔ آپ یہ تصور نہ کریں کہ عبد اللہ ابن جعفر امام کو نہیں مانتے تھے یا بنی ہاشم کے وہ افراد جو امام کے ساتھ نہیں آئے امام کو امام نہیں سمجھتے تھے ۔ جی نہی؛ ایسا نہیں ہے ۔ یہ سب حسین ابن علی کو اپنا امام مانتے تھے انہیں فرزند رسول اور ایک عظیم انسان سمجھ تے تھے لیکن ان کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ ہوئے چونکہ بہت سخت تھا امام کا ساتھ دینا ۔ ( ۱۴ )
صبر جمیل
امام حسین علیہ السلام اپنا سب کچھ اپنا سب سے قیمتی اور عظیم سرمایہ میدان میں لے کر آگئے تا کہ دین کا دفاع کریں اور پھر صبر بھی کیا ۔ امام کا یہ صبر بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ہم نہیں جانتے " صبر " کسے کہتے ہیں ۔ صبر کی حقیقت کو صبر کی جگہ سمجھ ا جا سکتا ہے ۔ بہت سی بزرگ شخصیتیں ، محدثین ، برجستہ افراد عقلا ، ہمدرد ، سب بار بار آتے تھے اور امام سے کہتے ہیں آپ ایک ایسا کام کرنے جا رہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ خود آپ کا بھی گھاٹا ہوگا اور خاندان پیغمبر کو بھی ۔ اور آپ کے اس کام سے اہل حق ذلیل و رسوا ہونگے ۔
اس طرح کی باتیں کرتے تھے ۔ جب امام نے مکہ سے نکلنے کا ارادہ کیا اور بہت سے افراد کو معلوم ہوا تو اخلاقی رکاوٹیں شروع ہوگئیں اور شب عاشور تک جاری رہیں ۔ لیکن امام عالی مقام نے ان تمام چیزوں کے مقابل صبر کیا وہی صبر جس کا میں نے تذکرہ کیا ۔ امام خمینی ( رح ) نے بھی اسی طرح صبر کیا ۔ جب آپ نے تحریک شروع کی تو آپ سے کہا جاتا تھا : " آقا یہ جوان نابود ہوجائیں گے ۔ قتل کردئے جائیں گے ، حکومت اور نظام خطرہ میں پڑ جائے گا " لیکن آپ نے صبر کیا ۔ ان خیر خواہوں کی نصیحتوں کے آگے صبر کرنا بہت عظیم کام ہے ۔ صبر کرنے کے لئے بہت قوت و طاقت درکار ہے ۔ صبر صرف جسمانی مشکلات اور اذیتوں کے مقابل نہیں ہے ۔ مصلحت پسندی اور مصلحت تراشی جیسے دباؤ کے مقابلے صبر اور صحیح ، اورواضح راستے سے جدا نہ ہونا وہ صبر جمیل ہے جسے امام حسین ( ع ) نے انجام دیا ۔ ( ۱۵ )
سب کچھ قربان کردیا
ایک محدث یا ایک مفسر وہ شخص ہوتا ہے لوگ جس کے پاس آتے ہیں ۔ اس کے علم سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس کی نصیحتوں کو سنتے ہیں ۔ اس طرح کے افراد تھے ، اس طرح کے نمایاں افراد تھے جو لشکر حسینی میں شامل تھے ۔ البتہ ان بہتر افراد کے ساتھ کچھ خواتین ، کچھ بچے ، بہنیں ، بیویاں ، بیٹیاں حرم اہل بیت ، امام حسین علیہ السلام کے اعزا و اقارب یہ سب تھے جنہیں امام اپنے ساتھ لائے تھے ۔ ان سب کو لائے تاکہ اسلام اور خدا کی راہ میں قربانی دیں ۔ امام حسین ( ع ) کو آغاز سفر ہی سے اس واقعہ کی توقع تھی ۔ امام حسین ( ع ) کا قیام اس شخص کی طرح نہیں تھا جو موت سے فرار اختیار کر رہا ہو ۔ بلکہ وہ اس شخص کی طرح تھے جو مسکرا کر موت کا استقبال کر تا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام حکومت کے خواہاں نہیں تھے ، یا کوفہ کو اپنے کنٹرول میں نہیں لینا چاہتے تھے یا یہ کہ وہ صرف ایک کہیل تماشا کر رہے تھے ، امام حسین علیہ السلام یقیناً کوفہ کی حکومت کے لئے نکلے تھے لیکن اپنی شہادت کو بھی دیکھ رہے تھے اور جو افراد ان کے ساتھ تھے اور ان کی بات سنتے تھے ان سے فرمایا کرتے تھے ( ألا ومن کان باذلا فینا محجتھ و مؤطئا الی لقاء اللہ نفسھ … ) وہ شخص جو حاضر ہے کہ ہماری راہ میں اپنا خون دے ،خود بھی حاضر تھے کہ اپنا خون دیں، مکمل طور سے آمادہ تھے ۔ وہ شخص جس نے اپنے نفس کو آمادہ کر لیا ہے خدا سے ملاقات کے لئے ۔ امام نے اپنے کو آمادہ کر لیا تھا کہ خدا سے ملاقات کریں اور جانتے تھے کہ شہید ہوجائیں گے اور انہیں یہ امیدبھی تھی کہ شہادت سے پہلے اپنے مقصد تک پہنچ جائیں گے ۔ امام حسین علیہ السلام کے پاس جو کچھ تھا سب لے کر آئے اس خونخوار دشمن اسلام اور قرآن کے سامنے ، کیونکہ جانتے تھے کہ اس قربانی سے راستہ کہل جائے گا ۔ ( ۱۶ )
==
حوالہ جات
1۔. نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۲۲/۹/۱۹۸۶
2. نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۱۴/۴/۲۰۰۰
3. نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۳۰/۵/۱۹۹۵
4. نو و دس محرم سے قائد انقلاب کا خطاب ۲۶/۱۰/۱۹۸۲
5. نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۸/۸/۱۹۸۵
6. قصر فیروز یونٹ میں سپاہ پاسداران کے درمیان خطاب ۲۴/۹/۱۹۸۵
7. اسلامی جمہوریہ کےذمہ دار عہدیداروں اور کارندوں سے خطاب ۱۸/۳/۲۰۰۲
8. نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۱۲/۱۰/۱۹۸۴
9. قصر فیروز یونٹ میں سپاہ پاسداران کے درمیان خطاب ۲۴/۹/۱۹۸۵
10.نو و دس محرم سے قائد انقلاب کا خطاب ۲۶/۱۰/۱۹۸۲
11.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۱۴/۴/۲۰۰۰
12.لشکر عاشورا کے درمیان ایک خطاب ۱۹/۰۸/۱۳۸۸
13.امام حسین کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایک خطاب ۱۶/۵/۱۹۸۴
14.سپاہ جنوب کے ایک گروہ سے خطاب ۲۰/۸/۱۹۹۸
15.درس خارج کی اختتام پر چند کلمات ۱۲/۳/۲۰۰۲
16.نماز جمعہ تہران کے خطبہ سے اقتباس ۷/۱۰/۱۹۸۳
مااخذ : اہللبیت

Add new comment