مجالس امام حسینؑ اور اجرت

یہ کہنا کہ طے کر کے اجرت لینے کا جواز احادیث سے ثابت ھے تو وہ احادیث دکھا دی جائیں ۔ ۔ پھر ان احادیث کے مستند ھونے

 سید نیاز حسین ھمدانی

یہ کہنا کہ طے کر کے اجرت لینے کا جواز احادیث سے ثابت ھے تو وہ احادیث دکھا دی جائیں ۔ ۔ پھر ان احادیث کے مستند ھونے یا نہ ھونے کی بحث کے بعد دیکھتے ھیں کہ ان احادیث کا کیا کرنا ھے ؟ آئمہ معصومین سلام اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے اگر کسی ذاکر کو نوازا گیا تو اس سے اتنی بات ھی ثابت ھو تی ھے کہ بانی کسی ذاکر کو اس کی طرف سے مطالبہ کے بغیر اپنی بساط کے مطابق جو چاھے دے سکتا ھے ۔ ۔ لیکن اسے ذکر حسین کو پیشہ بنانے کا جواز کہیں نہیں نکلتا ۔ ۔ ۔ آئمہ معصومین سلام اللہ علیہم اجمعین کے دور میں ان کے جن شاگردوں نے ان سے علم حاصل کرکے ھم تک پہنچایا تو ان میں سے کسی نے بھی اس شعبہ کو اپنا پیشہ نہیں بنایا تھا ۔ ۔ ان میں سے ھر ایک کا اپنا الگ ذریعہ معاش تھا۔ ۔ جیسا کہ صفوان بن مہران جمال ( میم پر شد ھےاور یہ جمل سے مشتق ھے) ۔ یہ اونٹوں والے تھے جیسے آجکل ٹرانسپورٹر ھوتے ھیں۔ سب سے بنیادی بات یہ ھے کہ ھزاروں پیشے موجود ھیں، ان میں سے کوئی پیشہ اختیار کریں، اور ذکر حسین کو پیشہ نہ بنائیں۔ ( میں اور میری اھلیہ ڈاکٹر کنیز زینب عابدی،دونوں قم سے فارغ التحصیل ھیں، اپنے کلینک پر مریضوں کا علاج کرتے ھیں، مجالس اور دینی خدمات بلا معاوضہ انجام دیتے ھیں، اگر خود سے کوئی کچھ نذرانہ دے دے تو اسے بھی تبلیغ دین کے کام میں صرف کر دیتے ھیں۔ الحمد للہ) یہ کہنا کہ علاقائی بانی باھر سے ذاکر منگوا کر اپنے علاقے کے ذاکر اور خطیب کا حق مارتےھیں بالکل درست نہیں ھے ۔ ۔ ھر ذاکر اور خطیب خود چاھتا ھے کہ اسے باھر سے دعوت ملے ۔ ۔ جو جتنا دور جا کر پڑھتا ھے اپنے علاقے میں اتنا ھی بڑا مانا چاتا ھے کہ اس کی دور دراز تک شہرت ھے ۔ ۔ اگر کسی ذاکر یا خطیب کو اپنے علاقے میں معقول معاوضہ مل رھا ھو اور باھر سے زیادہ کی پیش کش ھو جائے تو وھاں چلاجاتا ھے ۔ ۔ ۔ بفرض محال اگر اس کو پیشہ بنانے کا جواز کہیں سے نکل بھی آئے تو ھر پیشے کے کچھ اخلاقیات ھوتے ھیں۔ بہت دیکھنے میں آیا ھے کہ ایک ذاکر یا خطیب ایک جگہ ایک طے شدہ معاوضہ پر مجلس پڑھنے کا وعدہ کر لیتا ھے پھر اسی دن اور وقت پر کسی اور سے زیادہ معاوضے کی پیش کش ھو جائے تو پہلے کو انکار کر دیتا ھے ۔ ۔ ۔ بلکہ ایسے واقعات بھی میرے نوٹس میں ھیں کہ خطہب یا ذاکر کسی مومن کے چالیسویں یا برسی کی مجلس کے لئے وعدہ کر دیتا ھے ۔ ۔ بانی مجلس اشتہارات اور کارڈ تقسیم کردیتا ھے، اور مجلس سے ایک دن پہلے ذاکر یا خطیب کا سیکریٹری بانی مجلس کو فون کرتا ھے کہ علامہ صاحب یا ذاکر صاحب کو فلان جگہ پر اتنی نیاز مل رھی ھے ، اگر آپ اتنی نیاز دے دیں تو وہ آ جائیں گے ورنہ معذرت ۔ ۔ ۔ 

اگرطے شدہ معاوضہ پر پیشہ بنانا چائز بھی ھو، تو اگر کوئی بانی مجلس کسی وجہ سے طے شدہ معاوضہ کی رقم کا بندو بست نہ کر سکے تو جو وہ دے دے اسے قبول کر لینا چاھیئے ۔ ۔ ۔ میرے ایک جاننے والے ایک بہت بڑی سالانہ مجلس کرواتے ھیں، وہ بتا رھے تھے کہ ایک بار مجھے ایک ڈرامہ کرنے کی سوجھی۔ ۔ ۔ میں نے جو فیس دینے کا وعدہ کیا تھا ، مجلس کے بعد اس میں سے کچھ رقم جان پوجھ کے کم کر کے دی اور کہا کہ قبلہ معذرت چاھتا ھوں اتنا ھی انتظام ھو سکا ھے، یہی قبول فرما لیں۔ ۔ تو قبلہ بپھر گئے اور بیٹھ گئے کہ فیس پوری کر کے دوگے تو جاءوں گا ۔ ۔ اتنے میں میری بیٹی جس کی عمر چھ سال تھی، وہ بھی بیٹھک میں آگئی، اس کے کانوں میں گوشوارے دیکھ کر قبلہ نے کہا کہ بیٹی کے گوشوارے بیچو اور میری فیس پوری کرو ۔ ۔ وہ کہتے ھیں کہ میں نے بقایا رقم جیب سے نکال کر انہیں دے دی ۔ ۔ ۔ المیہ یہ ھے کہ وہ بعد میں بھی اسی خطیب کو بلاتے تھے، نجی محفل میں ان کا نام لیتے تھے تو ساتھ پنجابی کی دوجار غلیظ ترین گالیا ں ضرور دیتے تھے، ۔ ۔ ۔ میں نے ایک بار کہہ دیا کہ آپ اسے گالیاں بھی دیتے ھیں اور پھر بلاتے بھی اسی کوھیں، یہ کیا بات ھوئی؟ تو ایک بار پھر ایک غلیظ گالی دے کر کہنے لگے کہ عوام بھی انہی کو سنتے ھیں ، ھماری مجبوری ھے کہ ان کو بلائیں ۔ ۔ ۔ سب سے بڑھ کر اگر ھم اپنے بچے کو فزکس پڑھانے کے لئے ایک طے شدہ معاوضہ پر کسی ٹیوٹر کی خدمات حاصل کرتے ھیں تو اسے فزکس تو آنی چاھیئے اور بچے کو فزکس پڑھانی چاھیئے ۔ ۔ ۔ اگر کسی طرح سے بھی اسے پیشہ بنانے کا جواز نکل بھی آئے جو کہ نہیں نکلتا ، تو پیشہ ورانہ دیانتداری کا تقاضا یہ ھے کہ لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی سیرت و کردار اور ان کے مشن کے بارے میں آگاھی دینے کی صلاحیت تو ھونی چاھیے ۔ ۔ بھاری بھاری معاوضے لے کر جہالت پھیلانا، امام حسین علیہ السلام کے مشن اور ان کی عظمت کو داغدار کرنا، شجاعت کی اس عظیم داستان کو بے بسی اور بیجارگی کی داستان بنا کر سنانا بد ترین بد دیانتی ھے ۔ ۔ مرتضی مطھری شھید نے حماسہ حسینی میں فرمایا ھے کہ بانی مجلس، سامعین مجلس اور خطیب و ذاکر ، ان تینوں سے مجلس کی مثلث بنتی ھے، ان تینوں میں سے ایک بھی صحیح ھو تو خرابی کا سدباب ھو سکتا ھے مگر بدقسمتی سے مثلت کے تینوں ضلعے کرپٹ ھیں ۔

بفرض محال اسے پیشہ بنانے کا جواز مان لیا تب بھی یہ تو طے شدہ بات ھے کہ عاشورا کے دین تجارت اور کسب معاش کی سرگرمیاں نہیں کی جانی چاھیں ۔ ۔ ۔ کم از کم عاشوراء کے دن کی مجلس کو تو معاف کردیں ۔ ۔ اکثر ایسا ھوتا ھے کہ ایک ذاکر یا خطیب جہاں عشرہ پڑھ رہا ھوتا ھے ، اس سے ھٹ کی کوئی مومن صرف عاشورا کے دن کی مجلس کی دعوت دے دیتا ھے ، اسے تو فیس کے بغیر پڑھ دینا چاھیئے ۔ ۔ ۔

پیسے لے کر پڑھنے کےجواز کا یہ مطلب تو نہیں کہ پیسوں کے بغیر پڑھنا حرام ھے ۔ ۔ ایک بار ایک غریب مومن نے ایک نامی گرامی ذاکر سے درخواست کر دی کہ میرے ھاں مجلس پڑھیں ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ اتنی نیاز لوں گا۔ ۔ اس مومن نے کہا کہ میں بہت غریب ھوں اتنی ادا نہیں کرسکتا جو خدمت کر سکا کر دوں گا، تو فرمانے لگے کہ میری فیس ادا نہیں کر سکتے تو کسی سستے ذاکر کو بلا لو ۔بشکریہ عالمی اخبار

Add new comment