ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب حضور (ص) کے اخروی خصائصِ مبارکہ مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور

شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری نےاس کتاب، حضور (ص) کے اخروی خصائصِ مبارکہ کا بیان ، تفسیری طورپرنکات بیان کئے گئے ہیں۔

43 /1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُه فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُوْنَ بِمَ؟ يَجْمَعُ اﷲُ الْأَوَّلِيْنَ وَالأخِرِيْنَ فِيْ صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُوْ مِنْهُمُ الشَّمْسُ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَ لَا تَرَوْنَ إِلٰی مَا أَنْتُمْ فِيْهِ إِلٰی مَا بَلَغَکُمْ؟ أَ لَا تَنْظُرُوْنَ إِلٰی مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلٰی رَبِّکُمْ؟ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ: أَبُوْکُمْ آدَمُ فَيَأْتُوْنَـه فَيَقُوْلُوْنَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِه وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِه وَأَمَرَ الْمَـلَائِکَةَ فَسَجَدُوْا لَکَ وَأَسْکَنَکَ الْجَنَّةَ أَ لَا تَشْفَعُ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ أَ لَا تَرٰي مَا نَحْنُ فِيْهِ وَمَا بَلَغَنَا؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَه مِثْلَه وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَه مِثْلَه وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُه نَفْسِي نَفْسِي اِذْهَبُوْا إِلٰی غَيْرِي اِذْهَبُوْا إِلٰی نُوْحٍ فَيَآْتُوْنَ نُوْحًا فَيَقُوْلُوْنَ: يَا نُوْحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلٰی أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اﷲُ عَبْدًا شَکُوْرًا أَمَا تَرٰی إِلٰی مَا نَحْنُ فِيْهِ أَ لَا تَرٰی إِلٰی مَا بَلَغَنَا أَ لَا تَشْفَعُ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ؟ فَيَقُوْلُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَه مِثْلَه وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَه مِثْلَه نَفْسِي نَفْسِي، ائْتُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَيَأْتُوْنِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ تعالی: إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 /1215، الرقم: 3162، ويضًا في کتاب التفسير، باب ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدًا شکورًا، 4 /1745، الرقم: 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدني أهل الجنة منزلة فيها، 1 /184، الرقم: 194، والترمذي في السنن، کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب ما جاء في الشفاعة، 4 /622، الرقم: 2434، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /435، الرقم: 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /307، الرقم: 31674، وابن منده في اليمان، 2 /847، الرقم: 879، وأبو عوانة في المسند، 1 /147، الرقم: 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /379، الرقم: 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /239، الرقم: 5510.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں بکری کی دستی کا گوشت پیش کیا گیا یہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بہت مرغوب تھ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے اور فرمایا: میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا؟ تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گ۔ اس وقت بعض لوگ کہیں گے:کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے ربّ کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ پس بعض لوگ کہیں گے: تم سب کے باپ تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ پس وہ اُن کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: اے سیدنا آدم! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو اُنہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی، کیا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آلیا ہے؟ حضرت آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میرے رب نے آج ایسے غضب کا اظہار فرمایا ہے کہ ایسا غضب نہ پہلے فرمایا، نہ آئندہ فرمائے گا۔ مجھے اُس نے ایک درخت (کا پھل کھانے) سے منع فرمایا تھا تو مجھ سے اُس کے حکم کی تعمیل میں لغزش سرزد ہوئی لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جائو۔ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جائو۔ لوگ حضرت نوح علیہ اسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے سیدنا نوح! آپ اہلِ زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’عبدًا شکورًا‘‘ (یعنی شکر گزار بندہ) رکھ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مشکل صورتحال میں ہیں اور ہمیں کتنی بڑی تکلیف نے آلیا ہے؟ کیا آپ اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ وہ فرمائیں گے: میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔ مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کر کے فرمایا:) سو تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس جائو۔ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا: یا محمد! اپنا سر (مبارک) اُٹھائیں اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب حضور (ص) کے اخروی خصائصِ مبارکہ مصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور

Add new comment