اسرار غدیر

غدیرقیامت تک کھلی کتاب غدیر کادروازہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ“کی کنجی سے کھلتا ھے اور اس کے اورا ق دو حصوں میں تقسیم هو تے ھیں :ایک اَللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وٰالَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہ“ دوسرے ”اللَّھُمَّ عَادِمَنْ عَاداہُ وَاخذُلْ مَن

اسرار غدیر

غدیرقیامت تک کھلی کتاب

غدیر کادروازہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ“کی کنجی سے کھلتا ھے اور اس کے اورا ق دو حصوں میں تقسیم هو تے ھیں :ایک اَللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وٰالَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہ“

دوسرے ”اللَّھُمَّ عَادِمَنْ عَاداہُ وَاخذُلْ مَنْ خَذَ لَہُ“۔جس کے بعد چودہ صدیوں کے فاصلہ اور اس طولانی دور کے درمیان غدیر اور سقیفہ دونوں کے کارناموںکا اس غدیری باب میں مشاھدہ کیا جا سکتا ھے ۔

اسی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسی منبر سے موافق اور مخا لف باتیں سامنے آئیںاور یہ سلسلہ جا ری رھا یھاں تک کہ غدیر کاسقیفہ کے ھاتھوںخون هوگیاسقیفہ میں جمع هونے والے لوگوں نے منبر پر ابوبکر اور عمرکا تعارف کرایا ،درحقیقت انھوں نے غدیر کے مد مقابل ایک محاذکھولا اورآنے والی تاریخ میں ھمیشہ کے لئے اپنے عقائد نشرکرنے کی خاطر کوشش اورایک دوسرے سے جنگ وجدل کرتے رھے اس دن سے غدیر ایک سخت ومشکل امتحان بن گیا تاکہ محاذپرلڑنے والوں کی شناخت هوسکے ۔

غدیر کی فائل قیامت تک ھر گز بند نھیں هو سکتی جب تک کہ قیامت کے دن یہ فائل محمد و علی علیھما السلام کی خدمت اقدس میں پیش نہ کی جا ئے سامنے اور اس کے متعلق ھر ایک سے باز پُرس نہ هوجا ئے ۔

ایک سرسری نگاہ میں اس فائل کے صفحات میں منا ظرے غدیر کے سلسلہ میں اتمام حجت، غدیرکے بارے میں دشمنوں کے اقرار ،غدیر اور سقیفہ کی طرفداری کر نے والوں کی جنگیں ،غدیر کاتہذیب و تمدن ،ادبیات غدیر اور غدیر کی یادیںشامل ھیں ان ھی تمام شیریں اور تلخ واقعات سے غدیر کا دفتر پُر ھے کہ جس نے چودہ صدیاں دیکھی ھیں اور آج تک اس کی عظمت کو بیان کر رھا ھے ۔

خدایاھمارا نام ”اللھم انصرمن نصرہ “والے صفحات میں درج فرما،اور ھم کو ”اللھم اخذل من خذلہ“والے گروہ کی مکمل شناخت عطا کر اے شیعوں کے خدا غدیر کے بلند و بالا سورج کو ھمیشہ کےلئے اقیانوس اسلام کے افق میں اھل بھشت کی راہ کا چراغ قرار دے اور اسکے نام کو دنیا میں روشن ومنور فرما۔

خدا و معصومین علیھم السلام کی غدیر کے ذریعہ اتمام حجت

آج تک بغیر کسی وقفہ کے غدیر کی علمی فائل کوچودہ سو سال گذر گئے اور اس پوری مدت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی فرمان جا ری و ساری رھا ھے متعدد واعظوں نے منبروں پر ،علما ء نے بحث و مناظروں کے جلسوں میں ،بڑے بڑے موٴلفوں نے اپنی اپنی کتابوں میں، سلمان ،ابوذر و مقداد جیسے غدیر کے سچے گواهوںنے نیز معاشرے کی خدمت کرنے والوں نے اسلام کے اس بزرگ ھدف کے دفاع کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لی ھے ۔

اگر غدیر موجودہ معاشرے میں عملی شکل اختیار کر لیتی تو کوئی اختلاف و تفرقہ ھی نہ هوتا کہ ولایت کی بنیاددوں کو ثابت کرنے کے لئے بحث و مناظرے اور دلیلوں کی ضرورت هوتی ۔خداوند عالم کی ان لوگوں پر لعنت هو جنھوں نے غدیر کے میٹھے اور گوارا چشمے کو گدلا کیا ،اور نسلوں کو اس کا میٹھا و گوارا پانی پینے سے محروم کیا ،اور امت کے مھربان اماموں پر خداوند عالم کی صلوات و رحمت و برکتیں هوں جنھوں نے سقیفہ کے فتنوں میں غرق هو نے والوںسے غدیر کی حفاظت فرمائی اور غدیرکو مختلف حالات میں زندہ و جاوید بنادیا۔

ان اقدامات سے وہ نوآشنا افراد مخاطب تھے جن کا اسلام کی اس عظیم حقیقت سے آشنا هو نا ضروری تھا ،وہ سوئے هو ئے ضمیر جنھیں تجدیدعھد اور یاد دلانے کی ضرورت تھی ،وہ مردہ دل جن کےلئے ھدایت کا راستہ کھولنا ضروری تھا تاکہ ان کی خشک زمین تک پا نی پہنچے ،اوراس دنیا میں صدیوں سال بعد آنے والی نسلیںجن کی اطلاع لئے حقیقت غدیر کو تاریخ کے اوراق میں ثبت هونا چا ہئے تھا ۔

حریم غدیر کے اس دفاع مقدس کا تاریخچہ ،اپنے اندر ایسی شخصیتوں کو لئے هوئے ھے جو ھر زمانہ کے تقاضوں اور ھر جگہ کے حالات کے مطابق اپنی معنویت سے سرشارفکر و روح سے لے کر جان آبروتک اخلاص کے ساتھ فدا کرتے رھے ،انھوں نے ولایت کے ان قطعی استدلال کے اسلحہ سے جن کا پشت پناہ پروردگاعالم ھے ،ولایت کے دشمنوں کوعلمی بحثوں میں شکست فاش دے کر،اور پوری دنیا میں شیعیت اور غدیر کا نام روشن کرتے رھے ۔

ان استدلالات اور غدیر کی یاد آور یوں کا واضح نمونہ خود ائمہ علیھم السلام اور ان کے اصحاب کے ذریعہ وقوع پذیر هوا ھے ،تمام راویوں نے چودہ سو سال کے عرصہ میں حدیث غدیر کی روایت بیان کی اور اس طرح اھل سقیفہ کے مقابلہ میں جھاد کیا ھے۔

امام زمانہ عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف کی غیبت کے دور میں غدیر کے دفاع کا پرچم علمائے شیعہ نے اپنے ھاتھوں میں اٹھا ئے رکھا ،یھاں تک کہ بہت سے مقامات پر دشمنوں نے غدیر کا اقرار کیا اور اس کا انکار کرنے سے عاجز رہ گئے۔

آجکل ان استدلالات کا دامن کتا بوں اور جلسوں سے نکل کربہت وسیع هو گیاکانفرنسوں ،ریڈیو، ٹیلیویزن یھاں تک کہ انٹرنٹ سے بھی اس کے پروگرام نشر کئے جا نے لگے ھیں ۔

ھم ذیل میں اتمام حجت اور استدلال کے ایسے لاکھوں موارد میں سے چندنمونے پیش کرتے ھیں :

۱۔خداوند عالم کا غدیر کے ذریعہ حجت تمام کرنا

۱۔حارث فھری کا غدیر میں اعتراض کے طور پر خداوندعالم سے عذاب کی درخواست کرنا خداوند عالم نے بھی فوراً آسمان سے ایک پتھر بھیجا اور وہ سبھی کی آنکھوں کے سامنے ھلاک هو گیا اور یہ واقعہ خدا وند عالم کی طرف سے براہ راست سب سے پھلی اتمام حجت کے عنوان سے تاریخ میں ثبت هوا ۔[1]

۲۔غدیر میں لوگوں نے ایک خوبصورت شخص کو یہ کہتے هوئے دیکھا

خدا کی قسم میں نے آج کے دن کے مانندکوئی دن نھیں دیکھا ۔۔۔اس کےلئے ایساپیمان باندھا جس کو خدا اوراس کے رسول کا انکار کرنے والے کے علاوہ کوئی توڑ نھیں سکتا ھے۔ ۔۔“ جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ وہ کون تھا؟ تو آنحضرت (ص)نے فر مایا :وہ جبرئیل تھے۔اس طرح دوسری مرتبہ سب لوگوں کی نگا هوں کے سامنے حجت الٰھی تمام هوئی ۔[2]

۳۔منافقین کے ایک گروہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت با برکت میں حا ضر هوکر آپ سے آیت و نشانی طلب کی توپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

کیا تمھا رے لئے غدیر خم کا دن کافی نھیں تھا ؟جس وقت میں نے حضرت علی علیہ السلام کو اما مت کےلئے منصوب کیا تو منا دی نے آسمان سے ندا دی :”یہ خدا کا ولی ھے ،اس کی اتباع کرنا ورنہ تم پر خدا کا عذاب نازل هوگا “ [3]

ایک دن ابو بکر نے چالاکی سے غصب خلافت کی توجیہ کرتے هو ئے حضرت امیر المومنین (ع) سے کھا :کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی ولایت کے سلسلہ میں غدیرکے بعدکسی چیز میں تغیر وتبدل نھیں کیا ۔۔۔لیکن آپ (ع) کے ان کا خلیفہ هونے کے متعلق ھم سے کچھ نھیں فرمایاھے !!

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :کیسا ھے کہ میں تمھاری پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرادوں تا کہ آنحضرت (ص) بذات خود تجھ کو اس کا جواب دیں ؟ ابو بکر نے اس بات کو قبول کرلیا اور نماز مغرب کے بعدحضرت علی علیہ السلام کے ھمرا ہ مسجد قبا میں آئے اور یہ مشاھدہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محراب ِمسجد کے پاس تشریف فرما ھیں اور آنحضرت (ص) نے ابو بکر سے خطاب کرتے هو ئے فرمایا :اے ابو بکر تو نے علی (ع) کی ولایت کے خلاف اقدام کیااورتو اس کے مقام پر بیٹھ گیاجو نبوت کی جگہ ھے اور علی (ع) کے علاوہ اس کا اورکوئی مستحق نھیں ھے اس لئے کہ وہ میرے وصی اور خلیفہ ھیں ۔۔۔“

اس معجزے کے ذریعہ کہ جس کا پشت پناہ خدا وند عالم ھے دوسری مرتبہ خدا وند عالم نے صاحب غدیر کے حق کو غصب کر نے والے پر اپنی حجت تمام کردی ھے ۔[4]

۴۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ظاھری حکومت کے دوران غدیر کے عینی شا ھدوں کو خدا کی قسم دے کر کھا کہ وہ کھڑے هوں اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں دیکھا تھا اس کی شھادت دیں ۔کچھ لوگوں نے اٹھ کر اس کی گواھی دی لیکن آٹھ افراد نے گوھی دینے سے انکار کیا ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :”اگر تم جھوٹ کہہ رھے هو اور بھانہ جوئی کر رھے هو در انحالیکہ تم غدیر خم میں مو جود تھے اور تم نے میری خلافت کا اعلان سناتھا، تو خداوند عالم تم میں سے ھر ایک کو کسی آشکار مصیبت میں گرفتار فرمائے “اس طرح واقعہٴ غدیر کے تیس سال بعدپروردگار عالم کی اتمام حجت ظاھر هوئی اور ان میں سے ھر ایک ایسے مرض میں گرفتار هوا جس کا سب نے مشاھدہ کیا مرض میں مبتلا هونے والے افراد دوسروں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ ھم آپ(ع) کی دعا کے ذریعہ اس مرض سے دو چار هوئے ھی[5]

۲۔پیغمبر اکرم (ص)کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرنا

۱۔اطراف مدینہ کے ایک بادیہ نشین شخص نے آنحضرت (ص) سے سوال کیا :میری قوم کے حاجی یہ خبر لا ئے ھیں کہ آپ نے خدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ھے کیا خدوند عالم کی طرف سے ھے ؟آنحضرت (ص) نے فرمایا :اس اطاعت کو خدوند عالم نے واجب قرار دیا ھے ،اور حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت اھل آسمان اور زمین سب پر واجب کی گئی ھے “[6]

۲۔آنحضرت (ص) نے مدینہ منورہ میں فرمایا :روز غدیر میری امتوں کی سب سے اچھی عیدوںمیں سے ھے اور یہ وھی دن ھے جس میںخدا وند عالم نے مجھ کو اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی اپنی امت کے لئے جانشین بنا نے کا حکم صادر فرمایاتھا “[7]

۳۔آنحضرت (ص) نے اپنی وصیت میں امیر المو منین علیہ السلام سے فرمایا: ”۔۔۔میں نے غدیر خم میں لوگوں سے یہ عھد و پیمان لے لیا ھے کہ تم میرے بعد میری امت میں میرے و صی ،خلیفہ اور صاحب اختیار هو “[8]

۴۔پیغمبر اکرم(ص) سے ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ ۔۔۔“کے مطلب کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو آنحضرت (ص) نے فرمایا :”۔۔۔جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور اس کے نفس سے زیادہ اس پر حاکم هوں تو علی بن ابی طالب(ع) اس کے صاحب اختیار ھیں اور اس کے نفس پر خود اس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا هوں اور آپ(ص) کے مقابلہ میں اسے کو ئی اختیار نھیں ھے “[9]

۳۔امیر المو منین علیہ السلام کاغدیرکے ذریعہ حجت تمام کرنا

۱۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے سات دن بعد حضرت علی علیہ السلام مسجد میں تشریف لا ئے اورلوگوں کومخاطب کرتے هوئے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجة الوداع کے بعد غدیر خم میں تشریف لا ئے اور آپ نے وھاں پر منبر سا بنا یاگیا اور آپ اس منبر تشریف لے گئے اور آپ نے اس منبر پر میرے بازو پکڑکر مجھے اتنا بلند کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفیدیٴ بغل دکھا ئی دینے لگی اس وقت آپ نے بلند آواز سے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ ۔۔۔“خدا وند عالم نے اس دن یہ آیت نا زل فرمائی:[10]

۲۔ابو بکر اور عمر بیعت لینے کے لئے امیر المو منین علیہ السلام کے دولت کدہ پر آئے اور کچھ باتیں کرنے کے بعد با ھرنکلے توحضرت علی علیہ السلام فوراً مسجد میں تشریف لائے اور کچھ مطالب بیان کرنے کے بعد فرمایا :ابو بکر اور عمر نے میرے پاس آکر مجھ سے اس کے ساتھ بیعت کا مطالبہ کیا جس کے لئے میری بیعت کرناضروری ھے !۔۔۔میں صاحب روز غدیر میں هوں ۔۔۔“[11]

۳۔پھلی مرتبہ جب حضرت علی علیہ السلام کو زبر دستی بیعت کے لئے لایا گیا اور آپ نے بیعت کر نے سے انکار کیا تو آپ(ع) نے فرمایا :میں یہ گمان نھیں کرتا هوں کہ پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن کسی کےلئے کو ئی حجت یا کسی کےلئے کوئی بات باقی چھوڑی هو ۔میں ان لوگوں کو قسم دیتا هوں جنھوں نے غدیر خم کے دن ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْ لَاہُ “سنا ھے وہ اٹھ کر اس کی شھا دت دیں ۔اھل بدر کے بارہ آدمیوں نے کھڑے هو کر غدیر کے ما جرے کی شھادت دی اور دیگر لوگ بھی اس سلسلہ میں باتیں کرنے لگے تو عمر نے ڈر کی وجہ سے مجلس کے خاتمہ کا اعلان کردیا!![12]

۴۔دوسری مرتبہ جب امیر المو منین علیہ السلام کے گلے میں رسی کا پھندا ڈال کر اور آپ(ع) کے سر پر تلوار لٹکا کر زبردستی بیعت کے لئے لا یا گیا تو عمر نے کھا :بیعت کرو ورنہ ھم آ پ کو قتل کر دیں گے ۔آپ(ع) نے فر مایا :اے مسلمانو!اے مھا جر و انصار میں تم کو خدا کی قسم دیتا هو ں کیا تم نے غدیر خم میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نھیں سناتھا کہ آپ نے کیا فرمایا۔۔۔ “؟ سب نے مل کر آپ(ع) کی بات کی تصدیق کی اور کھا : ھاں خدا کی قسم ۔[13]

۵۔حضرت علی علیہ السلام غصب خلافت اور خانہ نشینی اختیار کرنے کے بعدھمیشہ غاصبین خلافت سے ترشروئی کے ساتھ پیش آتے اور اپنی حالت انزجار کا اظھارکرتے ۔ایک روزحضرت ابو بکر بھولے سے اس مشکل کا خاتمہ کرنے کےلئے تنھائی میں آپ سے ملاقات کر نے کےلئے آئے آپ(ع) نے ابو بکر سے فرمایا: کوخداکی قسم دیتا هوں یہ بتا کہ غدیر کے دن پیغمبر کے فرمان کے مطابق میں تیرا اور تما م مسلمانوں کا صاحب اختیار هوں یا تو“؟ابو بکر نے کھا :یقیناً آپ ھیں! [14]

۶۔ابو بکر نے دعویٰ کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں علی (ع) کو ھمارا صاحب اختیار قرار دیا لیکن ھمارا خلیفہ مقرر نھیں فرمایا ۔حضرت علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا :اگر پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم بذات خدو تجھ سے فرمائیں کہ آنحضرت(ص) نے مجھ کو خلیفہ مقرر فر مایا ھے تو قبول کرلوگے ؟اس نے کھا :ھاں ۔حضرت علی علیہ السلام نے مسجد قبا میں ابو بکرکو رسول خدا صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کی نشاندھی فرما ئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: علی علیہ السلام میرے وصی اور خلیفہ ھیں ۔[15]

۷۔ایک دن ابو بکر نے حضرت علی علیہ السلام سے عرض کیا :اگر کوئی میرا مورد اعتماد شخص اس بات کی گواھی دیدے کہ آپ (ع) خلا فت کے زیادہ سزوارھیں تومیں خلافت آپکے حوالہ کردونگا !!!آپ(ع) نے فرما یا: اے ابو بکر کیا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کو ئی قابل اطمینان شخص ھے؟! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چا رمقامات پر تجھ سے اور عمر ،عثمان اور تیرے کئی ساتھیوں سے میری بیعت لی ان میں سے ایک حجة الواداع سے واپسی کے وقت غدیر خم کا مقام تھا ۔[16]

۸۔جس وقت ابو بکر کا نما ئندہ (جس کو غصب فدک کے بعد وھاں کا نما ئندہ بنایا تھا )حضرت علی (ع) کے اصحاب کے ھا تھوں قتل هوا تو ابو بکر نے اس جگہ پر خالد کوایک لشکر کے ھمراہ بھیجا ۔جب وہ حضرت علی (ع) کے روبرو هو ا تو حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذو الفقار کے اشارہ سے خالد کو اس کے گھو ڑے سے نیچے گرا تے هو ئے فر مایا :”۔۔۔کیا تیرے اطمینان کےلئے غدیر کا دن کافی نھیں تھا جو تونے آج یہ عزم وارادہ کیاھے “؟![17]

۹۔مندرجہ بالا واقعہ کے بعد حضرت علی علیہ السلام واپس مدینہ پلٹے تو ابو بکر اور آپ(ع) کے درمیان کچھ گفتگو هوئی ۔اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے چچا عباس سے مخاطب هو کر فرمایا :اب جبکہ روز غدیر ان کےلئے قانع کنندہ نھیں ھے تو ان کو خود ان ھی کے حا ل پر چھوڑدیجئے ۔وہ ھمیں جتنا کمزور کرسکتے ھیں کرنے دیجئے خدا وند عالم ھمارا مو لا ھے اور وہ بہترین حکم کرنے والا ھے ۔

۱۰۔عمر کے دور میں بنی ھاشم نے مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک میٹنگ کی جس میں امیر المو منین علیہ السلام نے عمر اور ابو بکر کے ذریعہ ایجاد هو نے والی بدعتوں کو شمار کیا منجملہ آپ(ع) نے فرمایا : غدیر کے روز جس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری ولایت کا اعلان فر ما یا تواس وقت عمرنے اپنے دوست ابو بکر سے ملاقات کی ۔جب میرے تعارف کرانے اور منصوب کرنے کے تمام امور انجام پا گئے تو ابو بکر نے کھا :”واقعاً یہ ایک بہت بڑی کرامت ھے “!عمرنے اس پر سخت نظریں ڈالتے هو ئے کھا : ”نھیں ،خدا کی قسم نھیں ،میں کبھی بھی ان کی باتوں پر کان نھیں دھروںگا اور ان کی اطاعت نھیں کرونگا “پھر اس کا سھارا لیتے هوئے تکبر کی حالت میں چلتے بنے ۔[18]

۱۱۔عمر کے قتل هو جانے کے بعد عمر کی بنائی هو ئی چھ آدمیوں کی کمیٹی نے اپنے درمیان ایک شخص کا انتخاب کرنے کے لئے جلسہ کیا یہ عثمان کومنتخب کرنے کے لئے ایک سازش تھی جسے پھلے ھی منتخب کرلیا گیا تھا حضرت علی علیہ السلام جو اس کمیٹی کے ممبر تھے آپ (ع) نے بقیہ لوگوں پر اپنی حجت تمام کر نے کےلئے فرمایا :”میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں یہ بتاوٴ ،کیاتم میں میرے علاوہ کو ئی ایسا ھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے منصوب کیا هو اور یہ فرمایا هو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“؟سب نے مل کر کھا :نھیں ،آپ کے علاوہ کوئی اس فضیلت کا حامل نھیں ھے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ”کیا میرے علاوہ تم میں کو ئی ایسا شخص ھے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جحفہ میں غدیر خم کے درختو ں کے نزدیک یہ فر مایا هو :”جس شخص نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی ؟سب نے کھا :خدا کی قسم نھیں ،آپ کے علاوہ کوئی یہ منصب و فضلیت نھیں رکھتا ۔[19]

۱۲۔ماجرائے شوریٰ اور انتخاب عثمان کے بعد لوگ اس کی بیعت کرنے کےلئے مسجد میں پہنچے تو حضرت علی علیہ السلام نے اس مجمع میں کھڑے هوکر فرمایا :کیا تمھارے درمیان کو ئی ایساشخص ھے جسکے غدیر خم کے میدان میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بازو پکڑکر یہ فرمایا هو :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“؟تو ایک شخص نے سب کی نمائندگی کرتے هو ئے کھا :ھم کسی ایسے شخص کو نھیںپہچا نتے جس کی گفتار آ پ کی گفتار سے زیادہ صحیح هو ۔[20]

۱۳۔ عثمان کے دور میں مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دوسو اصحاب کی موجودگی میں ایک جلسہ منعقد هوااس جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے فرما یا :خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے والیان امر کے تعارف کرانے کا حکم دیا ۔۔۔تو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے میدان میں مجھکو اپنا جانشین منصوب کر تے هو ئے فرمایا :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“؟اور خدا نے یہ آیت :نازل فرما ئی ۔

مسجد میں موجود مجمع نے کھا :ھاںخدا کی قسم ھم نے یہ سنا تھا جو کچھ آپ فرما رھے ھیں اور ھم سب غدیر خم میں موجود تھے ۔حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :میں تمھیں خدا کی قسم دیتا هوں جنھوں نے غدیر خم میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک هونٹوں سے وہ پیغام سناھے وہ اس کی گواھی دیں ۔اس وقت جناب مقداد ،ابوذر،عمار،براء اور زید بن ارقم نے کھڑے هو کر کھا :ھم گو اھی دیتے ھیں کہ ھمیں وہ وقت یاد ھے کہ جب آپ(ع) رسول اکرم (ص) کے ھمرا ہ منبر پر تشریف فر ماتھے اورآنحضرت(ص) نے یہ فرمایا: ایھا الناس !۔۔۔خدا نے تم کو ولایت کا حکم دیا ھے اور میں تم کو گواہ بناتا هوں کہ یہ ولایت حضرت علی (ع) سے مخصوص ھے[21]

۱۴۔اسی جلسہ میں جب ابو بکر کے اس دعویٰ کے سلسلہ میں سوال کیا گیا کہ رسول اسلام(ص) نے فرمایا تھا کہ ”خداوند عالم نبوت اور خلافت کو اھل بیت علیھم السلام میں جمع نھیں کرے گا ؟“ توحضرت علی علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا :اس دعوے کے با طل هونے کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غدیر خم کا یہ فرمان ھے :مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے۔میں کیسے ان کا صاحب اختیار هو سکتا هوں اگر وہ میرے امیراورمجھ پر حاکم هوں “؟![22]

۱۵۔اسی جلسہ میں حضرت علی علیہ السلام نے جملہ ”فلیبلغ الشاھد الغائب“ یعنی حا ضرین غا ئبین تک پہنچا دیں “کے سلسلہ میں فر مایا :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ صرف غدیرخم ،روز عرفہ اور اپنی رحلت کے دن فرمایا ۔۔۔اور تمام لوگوں کو حکم دیا کہ جب بھی وہ کسی شخص کو دیکھیں تو اس تک آل محمد علیھم السلام کے اماموں کی اطاعت اور ان کے حق کے واجب هو نے کا پیغام پہنچائیں “۔[23]

۱۶۔بصرہ میں جنگ جمل کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام نے طلحہ سے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا هوں یہ بتا کہ کیا تونے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نھیں سنا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “اس نے کھاھاںسنا تھا ۔آپ(ع) نے فرمایا تو پھر مجھ سے جنگ کر نے کیوں آئے هو؟اس نے کھا :میرے ذہن میں نھیں تھا اور میں بھول گیا تھا “یہ بات بیان کر دینا ضروری ھے کہ طلحہ نےغدیر خم کا پیغام یاد آ جا نے کے بعد بھی اپنے قتل هو نے تک حضرت علی علیہ السلام سے جنگ جا ری رکھی۔ [24]

۱۷۔جس وقت حضرت علی علیہ السلام کوفہ میں جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف تھے تو آپ نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا :اے مھا جرین وانصار ،۔۔۔کیا تم پر میری مدد کرنا واجب نھیں ھے ؟کیا میرے حکم کی اطاعت کرنا تم پر واجب نھیں ھے ؟۔۔۔کیا تم نے غدیر خم کے میدان میں میری ولایت اور صاحب اختیار هو نے کے سلسلہ میں فرمایا رسول(ص) کا فرمان نھیں سنا تھا؟۔[25]

۱۸۔معا ویہ نے جنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ایک خط میں اس طرح لکھا: ”مجھ کو خبر ملی ھے کہ جب آپ(ع) اپنے اھل راز اورخاص شیعوں کے ساتھ تنھائی میں بیٹھتے ھیں تویہ ادعا کرتے ھیں کہ ۔۔۔خدا وند عالم نے آپ کی اطاعت مو منین پر واجب فر ما ئی ھے اور کتاب و سنت میں آپ کی ولایت کا حکم دیا ھے ۔۔۔اور (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غدیر خم کے میدان میں اپنی امت کو جمع کیا اور آپ(ع) کے سلسلہ میں جو کچھ خداوند عالم کی جا نب سے پہنچا نے پر ما مور هو ئے تھے ا سے پہنچایا اور حکم دیا کہ حا ضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا ئیں اور لوگوں کو خبر دار کیا کہ آپ(ع) ان کے نفوس پرخود ان سے زیادہ صاحب اختیار ھیں ۔۔۔“[26]

۱۹۔امیر المو منین علیہ السلام نے جنگ صفین کے میدان میں اپنے لشکریوں کوحالانکہ وھاں پر معا ویہ کے بھیجے هو ئے کچھ افراد بھی مو جود تھے )کے لئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا :میں تم کو خدا وند عالم کے اس فرمان کے سلسلہ میں قسم دیتا هوں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کیا اور فرمایا :ایھا الناس !خداوند عالم میرا صاحب اختیارھے اور میں مومنوں کا صاحب اختیار هوں اور میرا اختیار مومنوں کے نفوس پرخود ان سے زیادہ ھے جان لو ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔ بدریین کے بارہ آدمیوں نے کھڑے هو کرواقعہ غدیر میں اپنی موجودگی کی گواھی دی اور چار آدمیوں نے کھڑے هو کرسب کےلئے واقعہ کی تفصیلات بیان کی ھے ۔ [27]

۲۰۔معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک خط میں اپنے کچھ فضائل لکھ کر بھیجے اور ان پرفخر جتایا حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کیا ہندہ جگر خوار کا بیٹا مجھ پر فخر کرتا ھے؟! اس کے بعد آپ(ع)نے ایک خط تحریر فرمایا اور اس میں اشعار میں اپنے فضائل تحریر فرماکر اس کے پاس بھیجا جس کا ایک شعر یہ ھے:

وَاَوْجَبَ لِیْ وِلَایَتَہُ عَلَیْکُمْ رَسُوْلُ اللہِ یَوْمَ غَدِیْرِخُمّ

یعنی :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم میں اپنی ولایت تم سب پر واجب فرمائی اور میری ولایت تم پر واجب فر ما ئی ھے ۔[28]

۲۱۔جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کا ایک آدمی ھاتھ میں قرآن لئے هوئے اس آیت: کی تلاوت کر تے هوئے میدان جنگ میں آیااورحضرت علی علیہ السلام بذات خود اس سے جنگ کر نے کےلئے گئے تو آپ نے سب سے پھلے اس سے سوال کیا :کیا جس نباٴ عظیم پر لوگ اختلاف رکھتے ھیں تم کو اس کی خبر ھے ؟اس مرد نے کھا :نھیں !!آپ(ع) نے فرمایا :خدا کی قسم میں ھی وہ نباٴ عظیم هوں جس پر لو گوں نے اختلاف کیا ھے ۔میری ولایت کے متعلق ھی تم نے جھگڑا کیا ھے ۔۔۔ ان تم روزغدیر جان چکے هو اور قیامت کے دن بھی تم اپنے کرتوتوں کو جا ن لو گے۔[29]

۲۲۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاھری خلافت کے دور میں ایک سال عید غدیر جمعہ کے دن آگئی تو آپ(ع) نے جمعہ کے خطبہ کو غدیر کے مسئلہ سے مخصوص کیا اوراس کے ضمن میں فرمایا :”خدا وند عالم اپنے منتخب شدہ بندوں کے سلسلہ میں جو کچھ ارادہ رکھتا تھا وہ اس نے غدیر خم کے میدان میں اپنے پیغمبر پر نازل فرمایا اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا نے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔خداوند عالم نے اپنا دین کامل فر مایا اور اپنے پیغمبر ،مو منین اور ان کے تابعین کی آنکھو ں کو ٹھنڈک بخشی “خطبوں اور نماز جمعہ کے بعد آپ(ع) اپنے اصحاب کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے بیت مبارک پر تشریف لے گئے جھاں جشن غدیر منانے کا انتظام کیاگیا تھا اور مفصل طور پر پذیرائی بھی کی گئی تھی۔[30]

۲۳۔حضرت علی علیہ السلام کی ظاھری خلافت کے دور میں آپ(ع) کے حکم سے مسجد کوفہ اور دارالامارہ کے سامنے کو فہ کے سب سے وسیع میدان میں ایک اجتماع هوا جس میں عظیم مجمع جمع هواتھا اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب بھی مو جود تھے آپ(ع) منبر پر تشریف لے گئے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے منبر سے قسم دے کر فرمایا جو شخص غدیر خم میں حا ضر تھا وہ کھڑا هو جائے اور جو کچھ اس نے غدیر خم میں دیکھا ھے اس کی گو اھی دے ۔آپ(ع) کی درخواست پرمجمع سے تقریبا ً تیس آدمی اٹھے اور جو کچھ انھوں نے غدیر خم میں مشاھدہ کیا تھا اس کی شھادت دی ۔لیکن غدیر میں حاضر آٹھ آدمیوں نے جا ن بوجھ کر گواھی دینے سے انکار کیا تو آپ(ع) نے ان سے اس انکار کی علت دریافت کی تو انھوں نے کھا ھم بھول گئے ھیں !!!

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :”اگر تم یہ بھانہ کرکے جھوٹ بو ل رھے هو اور جان بوجھ کر گواھی نھیں دے رھے هو تو تم میں سے ھر ایک بلا و مصیبت میں گرفتار هو“اور آپ(ع) نے ھر ایک کےلئے ایک خاص بلا ومصیبت بیان فر مائی ۔

یہ تمام کے تمام آٹھ آدمی آپ(ع) کے فر مان کے مطابق آشکار مصیبت میں گرفتار هوئے اور لوگوں کے درمیان اسی بلا کے ذریعہ پہچا نے جا تے تھے ۔اور لوگوں کے درمیان مشهور تھا کہ یہ علی بن ابی طالب علیہ السلام کے نفرین شدہ ھیں۔[31]

۲۴۔حضرت علی علیہ السلام نے جنگ نھروان کے بعد اپنے سن مبارک کے آخری مھینوں میں ایک مفصل نوشتہ ایک کتابچہ کی شکل میں املا فرمایا اور مولا کے کاتب نے اس کو تحریر کیا اور یہ طے پایا کہ جمعہ کے دن آپ (ع) کے خاص دس اصحاب کی مو جودگی میں آپ کایہ کتابچہ لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے اس کتابچہ کے کچھ جملے یہ ھیں :ولایت کے سلسلہ میں میری دلیل یہ ھے کہ لوگوں کا صاحب اختیار صرف میں هوںقریش نھیں ۔۔۔چونکہ اس امت کی ولایت کے تمام اختیارات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تھے اور آنحضرت (ص)کے بعد اس امت کا صاحب اختیار میں هوں ۔۔۔اسلئے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے غدیر خم میں فرمایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[32]

۲۵۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اپنے امتیازات کے سلسلہ میں جو آپ(ع) کے علا وہ کسی اور کو عطا نھیں کئے گئے فرمایا ھے :خداوند عالم نے میری ولایت کے ذریعہ اس امت کے دین کو کا مل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں ۔۔۔جس وقت پیغمبر اکرم(ص) سے یو م الولایة”غدیر خم کے دن “فرمایا :اے محمد (ص) لوگوں کو خبر دیدیجئے :[33]

۲۶۔حضرت علی علیہ السلام نے اس حدیث ”ھم اھل بیت علیھم السلام کا امر لوگوں کےلئے بہت دشوار ھے انبیائے مرسل،ملائکہ مقرب اور جن مو منین کے قلوب کا پروردگار عالم نے امتحان لیا ھے ان کے علاوہ کو ئی اس(امر )کو برداشت نھیں کرسکتا ھے “کو بیان کرتے هو ئے فرمایا ھے :۔۔۔آنحضرت (ص) نے غدیر خم کے دن میرھاتھ اپنے ھاتھ میں پکڑکر فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کیا مومنوں نے اسے قبول کیاان لوگوں کے علاوہ جنھیں اللہ نے لغزش اور گمراھی سے بچالیا تھا؟[34]

۲۷۔حضرت علی علیہ السلام سے یہ درخواست کی گئی کہ آپ اپنے متعلق حضرت رسول(ص) خدا کی سب سے بڑی منقبت بیان فرمائیں تو آپ(ع) نے فرمایا :آنحضرت (ص) کا غدیر خم کے میدان میں خدا کے حکم سے میری ولایت کا اعلان فرمانا “[35]

۲۸۔ایک دن حضرت علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ایک دوسرے کے سامنے اپنے فضائل بیان کررھے تھے تاکہ یہ فضائل ھمارے یاد رھیں ۔منجملہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں وہ هوں کہ جس کے سلسلہ میں خداوند عالم نے فرمایا ھے :

ًمیں وہ نباٴ عظیم هوں کہ خداوند عالم نے غدیر خم کے میدان میں میرے ذریعہ دین کا مل فرمایا ۔میں وہ هوں کہ جس کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“[36]

۲۹۔ایک شخص نے حضرت علی (ع) سے عرض کیا یا علی (ع) میرے لئے ایمان کی اس طرح کامل تعریف کیجئے کہ کسی دوسرے سے سوال کرنے کی ضرورت نہ رھے ۔تو آپ نے چند مطالب بیان فرمائے منجملہ یہ بیان فرمایا کہ گمراہ هونے کا سب سے کم سبب حجت خدا کی معرفت حاصل نہ کرنا ھے اس نے آپ(ع) سے عرض کیا کہ مجھے حجج الٰھی سے روشناس کیجئے ۔آپ(ع) نے فرمایا :جسکو پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اپنا جانشین معین فرمایا اور یہ خبر دی کہ میرا یہ جا نشین تم پر تمھارے نفسوں سے زیادہ حق رکھتا ھے ۔[37]

۳۰۔ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میرے ستّر فضائل ایسے ھیں جن میں سے کسی ایک میں بھی پیغمبر(ص) کا کوئی صحابی میرے ساتھ شریک نھیں ھے ۔اس کے بعد ان میں سے اکیاون وے مقام کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں مجھ کو سب کا مو لا مقرر کرتے هوئے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔ظالمین رحمت الٰھی سے دور رھیں اور ان پر خداوند عالم کا عذاب نازل هو ۔[38]

۳۱۔امیر المومنین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں کہ وہ غدیر خم کی بیعت کے بعدلو گوں کی طرفسے هو نے والی ھر قسم کی کو تا ھی کے وہ خود ذمہ دار ھیں فرمایا :پیغمبر اسلام (ص)نے مجھ سے وصیت کر تے هوئے فرمایا:اے علی اگر تمھیں کو ئی ایسا گروہ مل جا ئے کہ دشمنوں سے جنگ کرسکوتو اپنے حق کا مطالبہ کرنا ورنہ خا نہ نشین هو جانا چونکہ میں نے غدیر خم کے میدان میں تمھارے سلسلہ میں یہ پیمان لے لیا ھے کہ تم میرے اور لوگوں کے خودان کے نفسوں سے زیادہ صاحب اختیار هو ۔[39]

۳۲۔ایک دن حضرت علی علی (ع) نے لوگوں کی طرف نظریں اٹھا تے هو ئے فرمایا :تم نے خودمشاھدہ کیا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) غدیر خم کے روز کس طرح کھڑے هوئے اور مجھے اپنے پاس کھڑا کیا اورمیرا ھاتھ پکڑکر میرا تعارف کرایا۔[40]

۴۔غدیر کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کااتمام حجت کرنا

۱۔حضرت ام کلثوم نے اپنے تین سال کے سن مبارک میں اپنی والدہ گرا می کو یہ حدیث فرماتے سنا ھے کہ جن لو گوں نے صاحب غدیر کو چھوڑ دیا تھا اور سقیفہ کی سخت حمایت کررھے تھے آپ(ع) نے ان سے خطاب کرتے هو ئے فر مایاتھا :کیا تم نے پیغمبر اکرم(ص) کے غدیر خم کے اس پیغام کو فراموش کردیا ھے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔[41]

۲۔حضرت رسول خدا(ص) کی رحلت کے بعد حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا اُحد کے شھیدوں کی قبروں کے پاس تشریف لے جاتیں اور گریہ فرماتی تھیں ۔محمود بن لبید نے آپ سے سوال کیا :کیا پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی وفات سے پھلے صاف طور پر حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے با رے میںکچھ فر مایا تھا ؟!

حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا :وا عجبا ،کیا تم نے غدیر خم کے دن کو بھلا دیا ھے ؟![42]

۳۔جس وقت اھل سقیفہ نے بیعت کےلئے حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف پر دھاوا بولا تو حضرت زھرا علیھا السلام پشت در آئیں اور فرمایا :”گو یا تم کو یہ نھیں معلوم کہ پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے دن کیا فرمایا تھا ؟!خدا کی قسم اس دن علی بن ابی طالب کی ولایت کا عھد لیاتھا تاکہ اس(ولایت) سے تمھاری امیدیں منقطع هو جا ئیں۔ لیکن تم نے پیغمبر اکرم(ص) سے اپنا رابطہ منقطع کرلیا! خدا وند عالم تمھارے اور ھمارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا “[43]

۴۔حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے سن مبارک کے آخری ایام میں مھاجر و انصار کی کچھ عورتیں آپ کی عیادت کے لئے آئیں ۔اس موقع پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں مطالب بیان فر ما ئے، عورتوں نے وہ مطالب اپنے مردوں سے بیان کئے ، اسکے بعد انصار و مھا جرین کے کچھ سرکردہ افراد عذر خوا ھی کے عنوان سے آپ کے پاس آئے اورکہنے لگے :اے سیدة النسا ء اگر ابو الحسن نے یہ مطالب اھل سقیفہ کی بیعت سے پھلے بیان فرما ئے هو تے تو ھم ھر گز ان کی جگہ پر دوسروں کی بیعت نہ کرتے !!

آپ علیھا السلام نے فرمایا :مجھ سے دور هو جا ؤ تمھارا عذر قابل قبول نھیں ھے ۔۔۔خدا وند عالم نے غدیر خم کے بعد کسی کےلئے کسی عذرکی کو ئی گنجائش باقی نھیں رکھی ھے ۔[44]

۵۔ غدیر کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

۱۔حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی شھادت اور حضرت امام حسن علیہ السلام سے صلح کے بعد معا ویہ کو فہ پہنچا اور یہ طے پایا کہ امام حسن (ع) اور معا ویہ منبر پر جائیں اور لوگوں کےلئے صلح کا مسئلہ بیان فر ما ئیں جب معا ویہ اپنی باتیں کہہ چکا تو حضرت امام حسن علیہ السلام نے منبر سے حضرت علی (ع) کی مظلومیت کے سلسلہ میں مطالب بیان کر تے هو ئے فرمایا :اس امت نے میرے پدر بزر گوار کو چھو ڑ کر دو سروں کی بیعت کرلی حالانکہ خود انھوں نے اس چیز کا مشا ھدہ کیاتھا کہ پیغمبر (ص) نے غدیر خم کے میدان میں میرے پدر بزرگوار کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “[45]

۲۔ایک دن معا ویہ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جلسہ کیا جس میںامام حسن علیہ السلام کو بھی دعوت دی اس (معاویہ ) کے اصحاب نے ھر طرح سے آپ (امام حسن (ع) )کی شان اقدس میں جسارت کی اور آپ(ع) کے پدر بزرگوار حضرت امیر المو منین علیہ السلام کو ناسزا جملے کھے ۔

امام حسن علیہ السلام نے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے سلسلہ میں مفصل استدلال کیا منجملہ آپ(ع) نے فر مایا :پیغمبر اکرم(ص) نے منبرپر حضرت علی علیہ السلام کو بلا یا اس کے بعد آپ(ع) کے ھاتھوں کو پکڑکر فر مایا: ”اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ “[46]

۶۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

مرگ معاویہ اور واقعہٴ عا شوراسے ایک سال پھلے حضرت امام حسین علیہ السلام نے موسم حج میں منیٰ کے مقام پر سات سو افراد کو اپنے خیمہ میں دعوت دی جس میں پیغمبر اسلام(ص) کے دو سواصحا ب تھے ان کے درمیان آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے خلاف معا ویہ کے اقدامات کی مذمت کی آپ(ع) کے فضائل و مناقب بیان فرمائے اور ان سے اقرار لیا منجملہ آ پ(ع) نے فرمایا: میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں کیا تم جا نتے هو کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو منصوب کیا آپ(ع) کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا :حاضرین غا ئبین تک یہ پیغام پہنچادیں ؟ مجمع نے کھا :ھاں خدا کی قسم (رسول(ص) نے یھی فرمایا تھا )۔[47]

۷۔غدیر کے سلسلہ میں امام زین العا بدین علیہ السلام کااتمام حجت کرنا

ایک شخص نے حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“کا کیا مطلب ھے ؟آپ نے فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) نے لوگوںکو خبر دی کہ میرے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام امام ھیں ۔[48]

۸۔غدیر کے سلسلہ میں امام باقر علیہ السلام کا احتجاج

۱۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ان خاص حالات میں جو بنی امیہ کے دورکا اختتام کا تھا واقعہ غدیر کی تفصیلی داستان خطبہٴ غدیر کے مکمل متن کے ساتھ بیان فر ما ئی جو اس تاریخی خطبہ کےلئے امام معصوم علیہ السلام کی محکم سند ھے ۔[49]

۲۔بصرہ کے ایک شخص نے حضرت امام باقر (ع) سے عرض کیا :حسن بصری آیت کو پڑھتا ھے اور کہتا ھے :ایک شخص کی شان میں نا زل هو ئی ھے لیکن اس شخص کا نام بیان نھیں کرتا ھے ۔حضرت امام باقر علیہ السلام نے فر مایا :اس کو کیا هو گیا ھے ؟وہ اگر چا ہتا تو یہ بتا دیتا کہ کس شخص کے سلسلہ میں نا زل هو ئی ھے !جبرئیل نے پیغمبر اسلام (ص) کی خدمت با برکت میں حاضر هو کر عرض کیا : خدا وند عالم نے آپ کو یہ حکم دیا ھے کہ آپ امت کےلئے یہ بیان فرمادیں کہ آپ کے بعد ان کا ولی کون ھے اور یہ آیت نازل فرما ئی پیغمبر اسلام(ص) بھی کھڑے هوئے اور حضرت علی (ع) کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لیا اوربلند کرکے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[50]

۳۔ابو بصیر نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں عرض کیا :لوگ کہتے ھیں : پر وردگار عالم نے قرآن کریم میں صاف طور پر اھل بیت علیھم السلام کے ناموں کا تذکرہ کیوں نھیں فرمایاھے؟ حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا :خدا وند عالم نے نماز نازل فرما ئی ھے لیکن نماز کی رکعتوں کی تعداد پیغمبر اسلام(ص) نے بیان فر ما ئی ھیں اسی طرح زکات اور حج ھیں ،اور آیت نازل فرما ئی جو حضرت علی ،حسن اور حسین علیھم السلام کی سلسلہ میں ھے ، کلمہٴ ”اولوالامر “کو بیان کرتے هو ئے پیغمبر اسلام(ص) نے بیان فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ “اگر آنحضرت (ص) سکوت فرماتے اور آیہٴ اولوالامر کے اھل کا تعارف نہ کراتے تو آل عباس ،آل عقیل اور دوسرے افراد اس کا دعویٰ کر بیٹھتے ۔جب حضر ت رسول خدا نے اس دنیا سے رحلت کی تو لوگوں کے صاحب اختیار حضرت علی علیہ السلام تھے ،چونکہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کالوگوں کے لئے اعلان کیا تھااور آپ کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا تھا۔[51]

۴۔ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کا کیا مطلب ھے ؟حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فر مایا : کیا اس طرح کے مطلب میں بھی کو ئی سوال کی گنجا ئش باقی رہ جا تی ھے ؟!ان کو سمجھا یا کہ وہ آپ کے جا نشین و خلیفہ هو ں گے ۔[52]

۵۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے امت کی طرف سے حقیقت ِ غدیر کے انکار کے سلسلہ میں تعجب سے فرمایا: کیا یہ امت اس فرمان و عھد کا انکار کرتی ھے جس کو پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کےلئے اس دن لیا تھا جس دن آنحضرت (ص) نے ان کو ان ھی لوگوں کا خلیفہ و امام معین فرما یا تھا اور اپنے دور حیات ھی میں لوگوںکو ولایت و اطاعت کی طرف دعوت دی تھی اور ان کو اس مطلب کا گوا ہ بنایا تھا ۔ [53]

۶۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ ولایت و برائت کو بیان کرتے هوئے فر مایا :یہ امت جب حضرت علی علیہ السلام کی خد مت میں پہنچتی ھے تو کہتی ھے: ھم علی علیہ السلام کے دو ستوں کو دوست رکھتے ھیں لیکن ان کے دشمنو ں سے بیزاری نھیں کر تے ،بلکہ ان کو بھی دوست رکھتے ھیں !ان کا یہ دعویٰ کس طرح صحیح هو سکتا ھے جبکہ پیغمبر اسلام(ص) کا فر مان ھے : ”اللَّھُمَّ وَال مَنْ وَا لَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ “لیکن اس کے با وجود وہ ان کے دشمنوں سے دشمنی نھیں کر تے ھیں اور ان کو ذلیل و خوار کرنے والے کو ذلیل و خوار نھیں کرتے ھیں۔یہ انصاف نھیں ھے !!![54]

۹۔غدیر کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

۱۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فر مایا :لوگوں نے غدیر کے سلسلہ میں خود کوغفلت میں ڈال دیا ھے۔[55]

۲۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے واقعہ ٴ غدیر نقل فرمانے کے بعد اس آیت کی تلاوت فر ما ئی ، یعنی خدوند عالم کی نعمتوں کی معرفت هو جا نے کے بعد ان کا انکار کر تے ھیں “اور فر مایا :غدیر کے دن ان کو پہچا نتے ھیں اور سقیفہ کے دن ان کا انکار کر تے ھیں ۔[56]

۳۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے امیر المو منین علیہ السلام کے رنج و محن کے سلسلہ میں تعجب سے فر مایا :غدیر کے دن آپ(ع) کے اتنے شاھد و گواہ تھے لیکن پھر بھی آپ(ع) اپنا حق نہ لے سکے حالانکہ لوگ دو گوا هوں کے ذریعہ اپنا حق لے لیتے ھیں !![57]

۴۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیرپر ثابت قدم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے حا ضرین سے عھد و پیمان لیا اور ان سے آپ(ع) کی ولایت کا اقرار کرایا ۔بڑے خو ش نصیب ھیں وہ لوگ جو آپ(ع) کی ولایت پر ثابت قدم رھے اور وائے هو ان لوگوں پر جنھوں نے آپ(ع) کی ولایت کو چھوڑدیا “۔[58]

۵۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر کیلئے قرآن سے استناد کر تے هو ئے فرمایا :خدا وند عالم کا فرمان ھے :اور یھیں پر پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “[59]

۶۔غدیر پیغمبر اسلام کی رسالت کا آخری پیغام تھا اس سلسلہ میں آپ(ع) نے فر مایا :خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فر ماتا ھے :یعنی ”جب آپ رسالت سے فارغ هو جائیں تو اپنے علَم اور نشانی کو منصوب فرمادیں اپنے وصی کا تعارف کرائیں اور اس کی فضیلت بیان فر ما دیں ۔۔۔“پیغمبر اکرم(ص) نے بھی حجة الو داع سے واپسی پر ندا دی تا کہ لوگ جمع هوجا ئیں اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔“۔ [60]

۷۔حضرت اما م جعفر صادق علیہ السلام نے ابو بکر ،عمر اور عثمان کے کفر کے سلسلہ میں فرمایا:جب ان کے سامنے ولایت پیش کی گئی اور پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “تو انھو ں نے اس کا انکار کیا بعدمیں (ظاھری طور پر اقرار کیا )لیکن جب پیغمبر اکرم(ص) نے اس دنیا سے کوچ کیا تو یہ کا فر هوگئے ۔۔۔اس کے بعد انھوں نے اپنے کفر میںاور شدت اختیار کی کہ جن لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی تھی ان سے اپنے لئے بیعت لی یہ ایسے لوگ تھے جن کے لئے ایمان نام کی کو ئی چیز باقی نھیں رہ گئی تھی ۔[61]

۸۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جس سفر میں مدینہ سے مکہ تشریف لے جا رھے تھے راستے میں مسجد غدیر سے گزرے تو آپ(ع) نے مسجد غدیر کے بائیں طرف نظر ڈالتے هو ئے فرمایا :یہ پیغمبر اکرم(ص) کے پائے اقدس کاوہ مقام ھے جھاں پر آپ نے کھڑے هوکر یہ فرمایا تھا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔“[62]

۹۔حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ھے :روز غدیر وہ دن ھے کہ جس میں امیر المو منین (ع) کو خلیفہ و جا نشین بنایاگیا پیغمبر اکرم(ص) نے آپ(ع) کےلئے پیمان ولایت کو مردوں اور عورتوں سب کی گردن میںڈال دیا۔[63]

۱۰۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غدیر خم کی عظمت کو اس طرح یاد فرمایا :روز غدیر بہت اھم دن ھے ،خداوند عالم نے اس کی حرمت کو مو منین کے لئے عظیم قرار دیا اس دن دین کامل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں اور (عالم ذر )میں جو عھد و پیمان ان سے لیا گیا تھا وہ دوبارہ لیا گیا ۔[64]

۱۱۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس زمانہ میں فوری طور پر شھروں میں غدیر کی خبر منتشرهو نے کے سلسلہ میں فر مایا :جس وقت پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی (ع) کی ولایت کا اعلان کیا اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “،یہ خبر شھروں میں منتشر هو ئی ۔پیغمبر اسلام(ص) نے اس سلسلہ میں فرمایا :”اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کو ئی خدا نھیں ھے یہ مسئلہ خدا کی طرف سے ھے “[65]

۱۲۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اسلام(ص) کے اس فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “کا کیا مطلب ھے ؟امام جعفر صادق علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کی یہ حدیث نقل فر ما ئی :”جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور اس کے نفس پرخود اس سے زیادہ اختیار رکھتا هوں یہ علی بن ابی طالب اس کے صاحب اختیار ھیں اور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حق رکھتے ھیںاور اس کے مقابلہ میں اسے کوئی اختیار نھیں ھے “[66]

۱۰۔غدیر کے سلسلہ میں امام کاظم علیہ السلام کااتمام حجت کرنا

۱۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے ایک حدیث میں واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل فرمایا: پیغمبر(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا مشهور و معروف واقعہٴ غدیر میں تعارف کرایا اور لوگوں سے سوال کیا :کیا میں تمھا رے نفسوںپر تم سے زیادہ حاکم نھیں هوں ؟سب نے کھا : ؟ھاں، یا رسول اللہ۔آنحضرت (ص) نے آسمان کی طرف اپنی نظریں اٹھا تے هو ئے فر مایا :خدایا ،تو گواہ رہنا “،اور اس عمل کی آپ نے تین مرتبہ تکرار فرما ئی ۔اس کے بعد فرمایا :جا ن لو جس شخص کا میں مو لا هوںاور اس کے نفس پر اس سے زیادہ حاکم هوں یہ علی اس کے مو لا اور صاحب اختیار ھیں “۔[67]

۲۔ حضرت امام مو سیٰ کاظم علیہ السلام نے غدیر میں منافقوں کی فریب کاریوں کے سلسلہ میں فرمایا :جس وقت پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کا اعلان فر مایا اور مھا جرین و انصارکے بزرگوں کو ان کی بیعت کرنے کا حکم صادر فرمایا تو انھوں نے ظاھری طور پر تو بیعت کی لیکن اپنے درمیان دو منصوبے بنا ئے :ایک پیغمبر اسلام(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام سے خلافت چھین لیں ،دوسرے اگر ممکن هو تو ان دونوں شخصیتوں کو قتل کر ڈالیں۔[68]

۳۔جن ایام میں حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام قید میں تھے تو ایک دن ھارون رشید نے آپ(ع) کو بلا بھیجا اور کچھ مسا ئل دریافت کئے منجملہ لوگوں پر اھل بیت علیھم السلام کی ولایت کے سلسلہ میں تھے ۔ سلسلہ میں تھے ۔حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام نے فر مایا : تمام خلائق پر ھماری ولایت ھے اور اس دعوے کےلئے ھمارے پاس پیغمبر اسلام(ص) کا یہ فرمان ھے جو آپ نے غدیر خم کے میدان میں فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔ “[69]

۱۱۔غدیر کے سلسلہ میں امام رضا علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

۱۔حضرت امام رضا علیہ السلام کے زمانہ کے مخصوص حالات اور خراسان کا علاقہ جومخالفوں کا علمی مرکزتھااور اس بات کا متقاضی تھا کہ پیغمبر اسلام(ص) سے مستند حدیثیں نقل کی جا ئیں لہٰذا حضرت امام رضا علیہ السلام نے حدیث غدیر کی سند کا سلسلہ اپنے آباء و اجداد حضرت مو سیٰ بن جعفر علیہ السلام امام صادق علیہ السلام ،امام باقر علیہ السلام ، امام سجاد علیہ السلام ،امام حسین علیہ السلام ،امیر المو منین علیہ السلام اور پیغمبر اسلام (ص) سے نقل فرمایا کہ آنحضرت (ص) نے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔“[70]

۲۔جب حضرت امام رضا علیہ السلام خراسان کے شھر مرو پہنچے تو آپ کی تشریف آوری کے پھلے ایام میںلوگ امامت کے سلسلہ میں بہت زیادہ گفتگو کیا کر تے تھے خاص طور سے جمعہ کے روز شھر کی جامع مسجد میں جمع هو کر اس سلسلہ میں محو گفتگو رھے ۔جب یہ خبرحضرت امام رضا علیہ السلام تک پہنچی تو آپ(ع) نے مسکرا کر فرمایا: ۔۔۔خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کے سن مبارک کے آخری حج حجة الوداع میں آیت : نازل فرمائی۔ پیغمبر اکرم(ص) اس دنیا سے نھیں گئے مگر یہ کہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام منصوب فرمایا۔[71]

۱۲۔غدیر کے سلسلہ میں امام علی نقی علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

۱۔جس سال معتصم عباسی نے حضرت امام ھا دی علیہ السلام کو مدینہ سے سا مرا ء بلایا تو آپ(ع) اس سال غدیر کے دن کوفہ تشریف لائے اور امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت کےلئے نجف اشرف تشریف لے گئے وھاں پر آپ نے غدیر کی ثقافت کے سلسلہ میں مکمل اعتقادی زیارت کی قرائت فرمائی اور اس کے ضمن میں واقعہٴ غدیر کو اس طرح بیان فرمایا :پیغمبر اکرم(ص) سفر کی سختیاں طے کیں اور گرمی کی شدت میں ظھر کے وقت ایک خطبہ ارشاد کیا اور ۔۔۔فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“لیکن کچھ لوگوں کے علاوہ کوئی ایمان نھیں لا یا ۔ [72]

۲۔اهواز کے لوگوں نے حضرت امام ھادی علیہ السلام کی خد مت اقدس میں ایک خط لکھا جس میں کچھ سوالات تحریر کئے ۔حضرت امام ھادی علیہ السلام نے اس خط کے جواب میں سوالات کے جوابات تحریر فرمائے ۔منجملہ تحریر فرمایا :ھم قرآن کریم میں اس آیت کا مشا ھدہ کرتے ھیں ،اور تمام روایات اس بات پر متفق ھیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا زل هو ئی ھے ۔ھم یہ بھی مشا ھدہ کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے اصحاب سے جدا کیا اور فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“ ان دونوں کے رابطہ سے ھم یہ مطلب اخذ کرتے ھیں کہ قرآن ان روایات کے صحیح هو نے اور ان شواھد کی حقانیت کی گواھی دیتا ھے ۔[73]

۱۳۔غدیر کے سلسلہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

۱۔اسحاق بن اسما عیل نے نیشاپور سے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےلئے ایک خط تحریر کیا جس میں کچھ مسائل تحریر کئے ۔آپ(ع) نے ان کے خط کا جواب اپنے نمایندوں کے ذریعہ بھیجا جس کا ایک حصہ یہ ھے :

جب خداوند عالم نے اپنے آخری پیغمبر کے بعد اپنے اولیا ء کو منصوب کرکے تمھارے اوپر احسان کیا تو پیغمبر اکرم(ص) سے خطاب فرمایا :

[74]

۲۔حسن بن ظریف نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں ایک خط تحریر کیا جس میں’ ’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“ کے معنی دریافت کئے ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اس کا اس طرح جواب تحریر فرمایا: آنحضرت (ص) کا مقصد تھا کہ ان (علی (ع) )کو علامت اور نشانی قرار دے دیں کہ اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے گروہ کی ان کے ذریعہ شناخت هو جا ئے ۔[75]

۲ اصحاب پیغمبر (ص)اور امیر المو منین علیہ السلام کے دوستوں کا غدیرکے ذریعہ اتمام حجت کرنا

۱۔ابن عباس کے جلسہ میں جناب ابوذر نے کھڑے هو کر عرض کیا :میں جندب بن جنادہ ابوذر غفاری هوں ۔میں تم کو خدا اور اس کے رسول کے حق کی قسم دے کر سوال کرتا هوں :کیا تم نے پیغمبر اکرم (ص)کا یہ فرمان سنا ھے: زمین وآسمان میں ابوذر سب سے سچے ھیں ؟سب نے کھا : ھاں جناب ابوذ رۺ ۻنے کھا : کیا تم اس بات کو قبول کرتے هو کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں ھم سب کو جمع کر کے فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔؟سب نے کھا :ھاں ،خدا کی قسم ۔ [76]

۲۔غدیر کے ذریعہ جناب عماریاسر کا اتمام حجت کرنا

جنگ صفین میں عمار یاسر اور عمرو عاص کے مابین مناظرہ هوا اور کچھ مطالب ردوبدل هوئے

منجملہ جناب عما ر ۺنے کھا :اے ابتر ،کیا تجھ کو پیغمبر اکرم(ص) کا یہ فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“یاد ھے ؟اس بنا پر میرے مو لا و صاحب اختیار خدا وند عالم اس کا رسول (ص)اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام ھیں لیکن تیرا کو ئی مو لااور صاحب اختیار نھیں ھے !![77]

۳۔غدیر کے ذریعہ مالک بن نویرہ کا اتمام حجت کرنا

قبیلہٴ بنی حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ مدینہ کے نزدیک کے رہنے والے غدیر خم میں مو جود تھے۔ آپ (مالک بن نویرہ )پیغمبر کی رحلت کے بعد مدینہ آئے اور تعجب سے ابوبکر کو پیغمبر اکرم(ص) کے منبر پر دیکھا تو اس سے مخا طب هو کر کھا :”اے ابو بکر کیا تم نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کو بھلا دیا ھے ؟یہ منبر تمھاری جگہ نھیں ھے جس پر تم بیٹھ کر خطاب کر رھے هو “!یہ کہہ کر آپ اپنے قبیلہ میں واپس پلٹ آئے ۔

ابو بکر نے مالک سے انتقام کی خا طر خالد بن ولید کو لشکر کے ساتھ روانہ کیا تو لشکر نے مالک بن نویرہ اور ان کے اصحاب کو قتل کر دیا اور ان کی عورتو ں کو اسیر کر کے مدینہ لے آئے !امیر المو منین علیہ السلام نے اس سلسلہ میں اھل سقیفہ سے مقابلہ کیا۔[78]

۴۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن یمان ۺکا اتمام حجت کرنا

۱۔حذیفہ غدیر خم میں حاضر تھے اور ان افراد میں سے تھے جنھو ں نے خطبہٴ غدیر کے کامل اور مفصل متن کو حفظ کیا اور وھاں پر غیر مو جود افراد تک پہنچایا ۔[79]

۲۔ایک مو قع پر حذیفہ ۺداستان غدیر کو اس طرح نقل کر تے ھیں :خدا کی قسم میں غدیر خم میں رسول خدا(ص) کے سامنے بیٹھا هوا تھا اور مھا جرین و انصار اس مجلس میں مو جود تھے ۔رسول اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے دائیں طرف کھڑے هو نے کا حکم دیا اس کے بعد فر مایا:

”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[80]

۳۔جناب حذیفہ قتل عثمان کے بعد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی ظاھری حکو مت کے دور میں شھر مدائن کے گور نر تھے ۔آپ نے لوگوں سے امیر المو منین علیہ السلام کےلئے بیعت لینے کی خاطر منبر پر جا کر اس طرح خطبہ دیا : اس وقت تمھا را حقیقی صاحب اختیار امیر المو منین اور وہ ھے جو اس نام کا حقیقت میں حق دار ھے “!بیعت کا پروگرام تمام هو جا نے کے بعدایران کے ایک مسلم نامی جوان نے جناب حذیفہ کے پاس آکر سوال کیا آپ نے جو یہ ”امیرالمو منین حقیقی “کھکر اس سے پھلے خلفاء کی طرف اشارہ کیا ھے ۔اگر پھلے تین خلفا ء حقیقی نھیں تھے تو اس مطلب کی میرے لئے وضاحت کیجئے !

جناب حذیفہ ۺنے اس کےلئے تاریخ کے مفصل مطالب بیان کئے یھاں تک کہ غدیر کے واقعہ تک پہنچ گئے آپ نے واقعہٴ غدیر کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا کہ کسی روایت میں اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نھیں هوا ھے ۔آپ نے غدیر کے اصلی حصہ کو اس طرح بیان کیا :پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں بلند آواز سے علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا اور ان کی اطاعت لوگوں پر واجب فرمائی ۔۔۔اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“۔اس کے بعد سب کو حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر نے کا حکم دیا ،اور سب نے آپ(ع) کی بیعت کی ۔[81]

۵۔غدیرکے ذریعہ بلال حبشی کا اتمام حجت کرنا

حضرت رسول اکرم(ص) کے موٴذن جناب بلال ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ابو بکر کی بیعت نھیں کی تھی ،حالانکہ ابو بکر نے ھی اپنے پیسوں سے جناب بلال کو غلامی سے نجات دلا ئی تھی اور آپ (بلال)کو آزاد کر دیا تھا ۔ایک دن عمر نے جناب بلال کا گریبان پکڑ کر کھا :کیا ابو بکر کی تجھے آزاد کرانے کی یھی جزا ھے ؛کیا اب بھی تم ان(ابوبکر )کی بیعت نھیں کروگے ؟

جناب بلال نے کھا :اگر اس نے مجھے خدا کےلئے آزاد کرا یا تھا توخدا کے لئے مجھے میرے حال پر چھوڑدے ،اور اگر غیر خدا کے لئے آزاد کرایا تھا تو تمھاری بات پر عمل کرنا چا ہئے !!لیکن رھا ابو بکر کی بیعت کر نے کا مسئلہ ،تو جس شخص کو پیغمبر اسلام(ص) نے خلیفہ مقررنھیں فرمایا اور اس کو مقدم نھیں رکھا تو میں اس کی بیعت نھیں کرونگا ۔۔۔اے عمر تم اچھی طرح جا نتے هو کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے چچا زاد بھائی کے لئے عھد لیا اور قیامت کے دن تک کے لئے ھما ری گردنوں پر ان کو غدیر خم کے میدان میں ھمارا مو لا و صاحب اختیار قرار دیا ۔کس شخص میں ھمت هو سکتی ھے کہ وہ اپنا صاحب اختیار رکھتے هو ئے کسی دوسرے کی بیعت کرے ؟!

اس کے بعد ان لوگوں نے جناب بلال کو مدینہ سے باھر جا کر کسی دوسری جگہ زند گی بسر کرنے پر مجبور کیا [82]

۶۔ غدیرکے ذریعہ اصبغ بن نباتہ کااتمام حجت کرنا

جنگ صفین میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے اصبغ بن نباتہ کے ذریعہ معاویہ کےلئے ایک خط ارسال فرمایا ۔اصبغ بن نباتہ نے معاویہ کے پھلو میں بیٹھے هو ئے ابو ھریرہ سے خطاب کرتے هو ئے فرمایا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا هوں۔۔۔ کیا تم غدیر خم میں حا ضر تھے ؟

ابو ھریرہ نے کھا :ھاں ۔اصبغ بن نباتہ نے سوال کیا :پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کیا فرمایاتھا ؟ ابو ھریرہ نے کھا :میں نے رسول اسلام(ص) کو یہ فرماتے سنا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“۔اصبغ نے کھا :اگر ایسا ھے تو تم نے ان کے دشمن کی ولایت تسلیم کی اور ان سے دشمنی کی ھے !!

ابوھریرہ نے ایک گھری سانس لی اور کھا :اِنَّاللہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔[83]

۷۔غدیر کے ذریعہ ابو الھیثم بن تیھان کا اتمام حجت کرنا

بارہ آدمیوں نے حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام کی اجازت سے جمعہ کے دن ابوبکر کے منبر کے سامنے کھڑھے هو کر اس پر اعتراض کرنے اور اتمام حجت کے عنوان سے مطالب بیان کرنے کا ارادہ کیا ۔ان میں سے ایک ابو الھیثم بن تیّھان تھے جنھوں نے اپنی جگہ پر کھڑے هو کر کھا :میں گوا ھی دیتا هوں کہ پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم کے دن حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ و جا نشین مقرر فرمایا انصار کے ایک گروہ نے رسول خدا(ص) کی خدمت با برکت میں ایک شخص کو ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔‘ کے مطلب کے سلسلہ میں سوال کرنے کی غرض سے بھیجا ۔تو آنحضرت (ص) نے فرمایا ان سے کہنا کہ:علی علیہ السلام میرے بعد مو منوں کے صاحب اختیار اور میری امت کےلئے سب سے زیادہ ھمدردو خیرخواہ ھیں ۔[84]

۸۔غدیر کے ذریعہ ابو ایوب انصاری کا اتمام حجت کرنا

ایک مسافر نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر هوکر عرض کیا: اے میرے مولا اور صاحب اختیار آپ پر میرا سلام!حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا یہ کو ن ھے ؟

تو عرض کیا گیا :یہ ابو ایوب انصاری ھیں ۔

آپ(ع) نے فرمایا : اس کے راستہ سے ہٹ جا وٴ !لوگ راستہ سے ہٹے اور انھوں نے آگے آکر عرض کیا :میں نے پیغمبر اسلام(ص) کو یہ فرماتے سنا ھے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،[85]

۹۔غدیر کے ذریعہ قیس بن سعد بن عبادہ کا ااتمام حجت کرنا

۱۔ قیس اور ان کے باپ جوانصار کے سردار اور ابو بکر کے مخالف تھے ۔ایک دن ابو بکر نے قیس سے کھا :خدا کی قسم تم وہ کام انجام نھیں دو گے جس سے تمھا رے امام اور دوست ابو الحسن علیھما السلام نا راض هو تے هوں ۔قیس نے غضبناک هوکر کھا :اے ابو قحافہ کے بیٹے ،۔۔۔خدا کی قسم اگر چہ میرے ھاتھوں نے تیری بیعت کر لی ھے لیکن میرے دل اور زبان نے تو تیری بیعت نھیں کی ھے ۔حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں میرے لئے غدیر سے بلند و بالا کو ئی حجت نھیں ھے۔ھم کو ھمارے حال پر چھوڑ دے کہ ھم تیرے راستہ میں اندھے هوکر غرق هو جا ئیں اور تیرے سلسلہ میں گمرا ھی میں مبتلاهو جا ئیں حالانکہ ھمیں معلوم هو کہ ھم نے حق کا راستہ چھوڑ دیا ھے اور با طل کے راستہ کو اپنا لیا ھے!![86]

۲۔حضرت امام مجتبیٰ علیہ السلام سے صلح هو جا نے کے بعد معاویہ سفر حج کے ارادے سے مدینہ پہنچا تو انصار نے اس کی کو ئی پروا نہ کی تومعاویہ نے اس سلسلہ میں قیس سے اعتراض کیا ۔ قیس نے اس کے جواب میں امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور ان کی مظلومیت کی یاد دلا ئی تو معاویہ نے سوال کیا :ان مطالب کی آپ کو کس نے تعلیم دی ھے ؟ قیس نے کھا : امیر المو منین حضرت علی علیہ السلام سے تعلیم حاصل کی ھے ۔۔۔جب پیغمبر اکرم(ص) نے ان (علی علیہ السلام)کو غدیر خم کے میدان میں اپنا خلیفہ و جانشین بناکر فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[87]

۱۰۔غدیر کے ذریعہ ابو سعید خدری ۺکا اتمام حجت کرنا

۱۔ابو سعید خدری ان افراد میں سے ھیں جنھوں نے واقعہٴ غدیر کو مفصل طور پر نقل کیا ھے انھوں نے اپنی گفتگو کے ایک حصہ میں اس طرح کھا ھے :پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز لوگوں کو دعوت دی ۔۔۔حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر بلند کئے ۔۔۔اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہ۔۔“۔اس کے بعد آیہ ٴ :اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ ۔۔۔>نازل هو ئی ۔اس کے بعد حسان بن ثابت نے اشعار پڑھے ۔[88]

۲۔عبد اللہ بن علقمہ وہ شخص تھا جو بنی امیہ کے پروپگنڈے سے بہت متاٴ ثر تھااور امیر المو منین علیہ السلام کو نا سزا الفاظ کہتا تھا ۔ایک دن ابو سعید خدری سے اس نے پوچھا :کیا تم نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں کو ئی منقبت سنی ھے ؟ابو سعید نے کھا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے روز ان کے سلسلہ میں تبلیغ کامل فر مائی اور ۔۔۔اور ان کے دونوں ھاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“اورآپ نے اس جملہ کی تین مرتبہ تکرارفرمائی۔

عبد اللہ بن علقمہ نے تعجب سے سوال کیا :کیا تم نے پیغمبر اسلام (ص) کے اس فرمان کو خود سنا ھے ؟ابو سعید نے اپنے کانوں اور سینہ کی طرف اشارہ کرتے هو ئے کھا :پیغمبر اکرم(ص) کے اس فرمان کو میرے دونوں کا نوں نے سنا ھے اور میرے دل نے اس کو اپنے اندر جگہ دی ھے ۔اسی مقام پر عبد اللہ نے کھا :میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے نا سزا الفاظ کہنے سے استغفار اور توبہ کرتا هوں ۔[89]

۱۱۔غدیر کے ذریعہ اُبیّ بن کعب کا اتمام حجت کرنا

معروف صحابی ابی بن کعب نماز جمعہ میں ابو بکر پر اعتراض کے عنوان سے کھڑے هو گئے اور لوگوں سے مخاطب هوکر کہنے لگے :اے مھا جرین و انصار کیا تم نے خود کو فراموشی میں ڈالدیا ھے یا تم کو بفراموش کردیا گیا ھے یا تم تحریف کا قصد رکھتے هو یا حقیقتوں میں رد و بدل کرتے هو یا ذلیل و خوار کرنے کا قصد رکھتے هو یا عاجز هو گئے هو ؟!کیا تمھیں نھیں معلوم کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ایک اھم مو قع پر قیام فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کو ھمارا مو لا وآقا بنا کر فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[90]

۱۲۔غدیر کے ذریعہ جابر بن عبد اللہ انصاری کا اتمام حجت کرنا

۱۔جناب جابر غدیر کا واقعہ اس طرح نقل کرتے ھیں :خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کوحکم دیا کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا خلیفہ و امام معین فر ما دیں اور لوگوں کو ان (علی (ع) )کی ولایت کی خبر دیدیں ۔اس حکم کے بعد حضرت رسول اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں تشریف فر ماکر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فر مایا ۔[91]

۲۔حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام کی موجود گی میں ایک عراقی نے جناب جابر کے گھر میں داخل هوکر کھا :اے جا بر میں تم کو خدا کی قسم دیتا هوں جو کچھ تم نے پیغمبر اسلام (ص)سے دیکھا اور سنا ھے وہ میرے لئے بیان کریں۔جناب جابر نے کھا :ھم جحفہ کے علاقہ میں غدیر خم کے میدان میں تھے اور وھاںپر مختلف قبیلوں کے کثیر تعداد میں لوگ مو جود تھے تو آنحضرت (ص) اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے ،آپ نے اپنے دست مبارک سے تین مرتبہ اشارہ فر مایا اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے ھاتھ کو اپنے ھاتھ میں لیکر فر مایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[92]

۱۳۔غدیر کے ذریعہ زید بن صوحان کا اتمام حجت کرنا

زید پیغمبر اسلام(ص) کے بہترین اصحاب میں سے تھے جو جنگ جمل میں شھید هو ئے تھے جب وہ میدان جنگ میں زمین پر گرے تو حضرت امیرالمو منین علیہ السلام ان کے سرھانے تشریف لے گئے اور فرمایا :اے زید خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔تم سبک بار تھے یقیناتمھاری مدد بہت اھمیت کی حا مل تھی زید نے اپنے سر کو امیر المو منین علیہ السلام کی طرف بلند کر تے هو ئے عرض کیا :۔۔۔خدا کی قسم میں آپ(ع) کے لشکر میں جھالت کی حالت میں قتل نھیں هونگا ،بلکہ میں نے رسول اسلا م(ص) کی زوجہ ام سلمہ کو یہ کہتے سنا ھے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا تھا:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“۔خدا کی قسم میںنے ھر گز آپ کو خوار کرنا نھیں چاھاچونکہ میں نے یہ دیکھا کہ اگر میں آپ(ع) کو خوار کروں تو خدا مجھ کو ذلیل و خوار کرے گا ۔ [93]

۱۴۔غدیر کے ذریعہ حذیفہ بن اسید غفاری ۺکا اتمام حجت کرنا

حذیفہ بن اسید واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کر تے ھیں :پیغمبر اسلام(ص) نے حجة الوداع سے واپس پلٹتے وقت فرمایا :خداوند عالم میرا صاحب اختیار ھے اور میں ھر مسلمان کا صاحب اختیار هوں اور میں مومنین کے نفوس پرخود ان کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا هوں ۔آگاہ هو جاوٴ !”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[94]

۱۵۔غدیر کے ذریعہ عبد اللہ بن جعفرکا اتمام حجت کرنا

معاویہ اپنی حکومت کے پھلے سال مدینہ آیا اور اس نے وھاں پر ایک جلسہ کیا جس میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیھما السلام ،عبد اللہ بن جعفر ،ابن عباس اور دوسرے افراد کو دعوت دی ۔اس جلسہ میں معا ویہ کے خلاف بہت زیادہ آوازیں بلند هوئیںمنجملہ جناب عبد اللہ بن جعفر نے کھا :”اے معا ویہ ،پیغمبر اکرم(ص) منبر پر تشریف فرما تھے اور میں ،عمربن ابی سلمہ ،اسامہ بن زید،سعد بن ابی وقاص ، سلمان ،ابوذر ، مقداد، اور زبیر آنحضرت (ص) کے سامنے بیٹھے هو ئے تھے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : کیا میں مو منوں کے نفوس پر خود ان کی نسبت زیادہ اختیار نھیں رکھتا؟ ھم سب نے عرض کیا : ھاں (کیوں نھیں ) یا رسول اللہ ۔تب آنحضرت (ص) نے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “۔

معاویہ نے اس سلسلہ میں حضرت امام حسن اور امام حسین علیھما لسلام اور ابن عباس سے سوال کیا تو ابن عباس نے کھا :تو جوکچھ کہہ رھا ھے اس پر ایمان کیوں نھیں لاتا ۔اب جن اشخاص کے اس نے نام لئے ھیںان کو بلاکر ان سے سوال کر ۔معاویہ نے عمر بن ابی سلمہ اور اسامہ کو بلا بھیجا اور ان سے سوال کیا انھوںنے گواھی دی کہ جو کچھ عبد اللہ نے کھا ھے وہ با لکل صحیح ھے اور ھم نے اسی طرح پیغمبرا سلام(ص) کو فر ماتے سنا ھے ۔[95]

۱۶۔غدیر کے ذریعہ ابن عباس کا اتمام حجت کرنا

۱۔مدینہ میں معاویہ کی اسی نشست میں ابن عباس نے معا ویہ پر احتجاج کر تے هو ئے کھا: پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم میں لوگوں میں سب سے افضل ،ان میں سب سے سزاواراور ان میں سب سے بہترین شخص کو امت کےلئے منصوب فرمایا اور حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ اس امت پر حجت تمام فرمائی اور ان کو حضرت علی علیہ السلام کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔۔۔اور ان کو با خبر فرمایا کہ جس کا صاحب اختیار پیغمبر اکرم(ص) ھے علی علیہ السلا م بھی اس کا صاحب اختیار ھے ۔(اور ایک روایت میں آیا ھے اے معا ویہ کیا تجھ کو اس بات پر تعجب ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں اور دوسرے متعدد مقامات پر امامو ں کے نا م بیان فر مائے ، ان (لوگوں) پرحجت تمام کی اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم صادر فر مایا ۔[96]

۲۔ابن عباس نے ایک مقام پر غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :خداوند عالم نے پیغمبر اکرم(ص) کو حکم دیا کہ آپ حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کا امام معین فر ما دیں اور ان کو ان(علی (ع) ) کی ولایت کی خبر سے آگاہ فر ما دیں ۔اسی لئے آنحضرت (ص) نے غدیر خم کے میدان میں آپ(ع) کی ولایت کا اعلان کرنے کے لئے قیام فر مایا ۔[97]

۳۔ایک دوسرے مقام پر ابن عباس واقعہ غدیر کو یوں نقل کرتے ھیں :پیغمبر اکر م(ص) نے لوگوں کے حضور میں حضرت علی علیہ السلام کے بازو پکڑ کر فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔“ اس کے بعد ابن عباس نے کھا : خدا کی قسم اس اقدام سے لوگوں پر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت واجب هو ئی ۔[98]

۱۷۔غدیر کے ذریعہ اسامہ بن زید کا اتمام حجت کرنا

پیغمبر اسلام(ص) کے سن مبارک کے آخری ایام میں اسامہ نے آنحضرت (ص)کے کمانڈر کے عنوان سے ایک فوج تیار کی اور رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے حرکت کی ۔اسی دوران ابوبکر نے خلافت غصب کرلی اور اس نے اسامہ کو ایک خط تحریر کیا جس میں اسامہ کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی، اسامہ نے خط کا جواب اس طرح تحریر کیا :۔۔۔تم حق کو صاحب حق تک واپس پہنچا نے کی فکر کرو اور ان کے حوالہ کردو اس لئے کہ وہ تم سے کھیں زیادہ سزاوار ھیں ۔تمھیں اچھی طرح معلوم ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کےلئے کیا فر ما یا ھے اتنا زیادہ عرصہ بھی تو نھیں هوا جو تم بھول گئے هو![99]

۱۸۔غدیر کے ذریعہ محمد بن عبد اللہ حِمیَری کا اتمام حجت کرنا

ایک دن معاویہ کے پاس تین شاعر موجود تھے جن میں سے ایک محمد حمیری تھے ۔معاویہ نے سونے کی ایک تھیلی باھر نکالتے هو ئے کھا :میں تم میں سے یہ تھیلی اس شخص کو دونگا جو حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں حق کے علاوہ اور کچھ نہ کھے دو شاعروں نے اٹھ کر حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نا سزا اشعار پڑھے ۔اس کے بعد محمد بن عبد اللہ حمیری نے اٹھ کر امیر المو منین علی علیہ السلام کی مدح میں اشعار پڑھے جس کی ایک بیت غدیر خم سے متعلق تھی :

تَنَاسُوْا نَصْبَہُ فِیْ یَوْمِ خُمٌّ مِنَ الْبَارِیْ وَمِنْ خَیْرِالاَنَامِ

یعنی :غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ وامام و جانشین رسول معین هو نے کو بھلا دیا جو خدا وند عالم اور لوگوں میں سب سے بہترین شخص کے ذریعہ منصوب هوئے تھے !معاویہ نے کھا :تم نے ان سب میں سب سے صحیح اور سچ کھا !!یہ مال وزر کی تھیلی تم لے لو![100]

۱۹۔غدیر کے ذریعہ عمرو بن میمون اودی کا اتمام حجت کرنا

عمرو بن میمون اودی کہتے تھے :حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی نسبت بد گوئی کرنے والے جہنم کی لکڑیاں ھیں ۔میں نے پیغمبر اکرم(ص) کے بعض اصحاب کہ یہ کہتے سنا ھے کہ حضرت علی بن ابی طالب کو وہ صفات عطا کئے گئے ھیں جو کسی اور کو نھیں دئے گئے ھیں ۔منجملہ یہ کہ وہ صاحب غدیر خم ھیں پیغمبر اکرم(ص) نے صاف طور پر ان کے نام کا اعلان فر مایا ،ان کی ولایت کو امت پر واجب قرار دیا ،ان کے بلند و بالا مقام کا تعارف کرایا ، ان کی منزلت کو روشن کیا ۔۔۔اور فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “[101]

۲۰۔غدیر کے ذریعہ بَرد ھمدانی کا اتمام حجت کرنا

قبیلہٴ ھمدان کا ایک (بَرد )نامی شخص معاویہ کے پاس آیاحالانکہ عمرو عاص امیر المو منین (ع) کی شان میں بدگوئی کر رھا تھا ۔برد نے کھا :اے عمر و عاص ھمارے بزرگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کو یہ فر ما تے سنا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “کیا یہ حق ھے یا باطل ھے ؟عمرو عاص نے کھا حق ھے، اس سے بڑھکر میں یہ کہتا هوں کہ پیغمبر اکرم(ص) کے ا صحاب میں کو ئی بھی علی علیہ السلام جیسے منا قب نھیں رکھتا ھے !!

اس مر د نے اپنے قبیلہ کے پاس واپس آکر کھا :ھم اس قوم کے پاس سے آئے کہ جن سے ھم نے خود ان کے اپنے خلاف اقرار لے لیاھے !آگاہ هوجاؤکہ علی علیہ السلام حق پر ھیں اور ان کے پیرو کار بنو ![102]

۲۱۔غدیر کے ذریعہ زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کا اتمام حجت کرنا

زید بن علی (ع) کے پاس پیغمبر اکرم(ص) کے اس فر مان”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“کا تذکرہ هوا تو زید نے کھا :پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو اس علامت کے طور پر معین فرمایا کہ جس سے اختلاف کے وقت خدا وند عالم کے حزب و گروہ کی شناخت هو جا ئے [103]

۲۲۔پیغمبر اکرم(ص) کے چالیس اصحاب کا غدیرکے ذریعہ اتمام حجت کرنا

سقیفہ کے واقعہ کے بعد ،اصحاب میں سے چا لیس افراد نے امیر المو منین علی علیہ السلام کی خدمت با بر کت میں آکر عرض کیا :خدا کی قسم ھم آپ کے علاوہ کسی کی اطاعت نھیں کریں گے حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :کس طرح ؟انھوں نے عرض کیا : ھم نے پیغمبر اکرم (ص)کو غدیر خم کے میدان میں آپ(ع) کے سلسلہ میں ان مطالب کو بیان فرماتے هو ئے سنا ھے ۔آپ(ع) نے فرمایا :کیا تم اپنے عھد و پیمان پر باقی هو؟ انھوں نے کھا :ھاں ۔آپ(ع) نے فرمایا :کل تم اپنے سرکے بال منڈاکر آنا ( تا کہ ھم ان سے جنگ کرنے کےلئے جا ئیں )۔[104]

۲۳۔انصا ر کے ایک گروہ کا غدیر کے ذریعہ اتمام حجت کرنا

انصار کے کچھ افراد نے کوفہ میں امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر هوکر عرض کیا :اے ھما رے مو لا آپ(ع) پر ھمارا سلام !۔۔۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا :میں تمھارا مو لا کیسے هوسکتا هو ں جبکہ تم نئی قوم هو؟انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم میں پیغمبر اسلام(ص) کو آپ(ع) کے بازو پکڑکر یہ فر ما تے سنا ھے :خدا وند عالم میرا صاحب اختیار ھے اور میں مو منوں کا مو لا هوں اور جس شخص کا میںصاحب اختیار هوں یہ علی (ع) اس کے صاحب اختیار ھیں “[105]

۲۴۔پیغمبر اکرم(ص) کے چار اصحاب کے ذریعہ غدیرکے سلسلہ میں اتمام حجت

چار آدمیوں نے کو فہ میں حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضرهو کر عرض کیا :السلام علیک یا امیر المومنین ورحمة اللہ و برکاتہ ۔حضرت علی علیہ السلام نے فر مایا : علیکم السلام کھاں سے آئے هو ؟ انھوں نے عرض کیا : ھم فلاں شھر سے آپ (ع) کے موالی ھیں ۔

آپ(ع) نے فرمایا :تم کھاں سے ھما رے موالی هو ؟

انھوں نے عرض کیا :ھم نے غدیر خم کے میدا ن میںپیغمبر اکرم (ص) کو یہ فر ما تے سنا ھے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[106]

۲۵۔غدیر کے ذریعہ عبد الر حمن بن ابی لیلیٰ کااتمام حجت کرنا

۱۔عبد الرحمن بن ابی لیلی نے حدیث غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدان میں سب کے سامنے پیش کیا اور ان کااس طرح تعارف فرمایاکہ وہ ھر مومن مرد و عورت کے صاحب اختیار ھیں ۔[107]

۲۔ایک دن عبد الرحمن نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت اقدس میں کھڑے هو کر عرض کیا : ھم آپ سے خلافت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لینے والوں کو کیسے خلافت کے آپ کی نسبت زیادہ سزوار کہہ سکتے ھیں ؟اگر ایسا کھیں تو پھرکیوں پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حجة الوداع کے بعد آپ(ع) کو خلیفہ منصوب کرتے هو ئے فرمایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“۔[108]

۲۶۔غدیر کے ذریعہ عمران بن حصین کا اتمام حجت کرنا

عمران بن حصین نے واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا :تم نے مجھ سے سوال کیاھے کہ میرے بعد تمھارا صاحب اختیار کو ن ھے اور میں نے تم کو اس کی خبر دیدی ھے ۔اس کے بعد غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ اپنے ھاتھ میں لے کر فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[109]

۲۷۔غدیر کے ذریعہ زید بن ارقم کا اتمام حجت کرنا

۱۔زید بن ارقم وہ شخص ھیں جنھوں نے غدیر خم کے دن پیغمبر اکرم(ص) کے سر کے اوپر سے درختوں کی شاخوں کو پکڑرکھا تھا کہ خطبہ ارشاد فرماتے وہ آنحضرت (ص) کے سر مبارک سے نہ ٹکرائیں ۔ فطری طور پر وہ پیغمبر اکرم(ص) کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے بلند کئے جانے اور ان کا تعارف کراتے و قت آنحضرت (ص)کا سب سے زیادہ نزدیک سے مشاھدہ کر رھے تھے ۔یہ وھی شخص ھے جس نے آنحضرت (ص) کے خطبہ ٴ غدیر کو مفصل طورپر حفظ کیا اور بعد میں آنے والی نسلوں کےلئے نقل کیا ھے ۔[110]

۲۔حساس مواقع پرزید بن ارقم جیسے شخص کی گواھی کی ضرورت تھی جس نے غدیر میںپیغمبر اکرم(ص) کا اتنے نزدیک سے مشاھدہ کیاتھا ۔کوفہ میں حضرت علی (ع) نے اس سے فرمایا کہ وہ لوگوں کے سامنے غدیر کے ماجرے کی گواھی دے لیکن اس نے اٹھ کر گواھی نھیں دی اور کھا کہ میں بھول گیا هوں !!!

اس وقت مو لا ئے کا ئنات علیہ السلام نے فر مایا :اگر تم جھوٹ بول رھے هو تو خدا وندعالم تمھاری آنکھو ں کو اندھا کرے وہ ابھی اس جلسہ سے باھر بھی نھیں گیا تھا کہ اندھا هو گیا اور لوگوں کے درمیا ن امیر المو منین علیہ السلام کے نفرین شدہ کے عنوان سے اس کی شناخت کی جا نے لگی ۔اس نے یہ معجز ہ دیکھنے کے بعد یہ قسم کھا ئی کہ اس کے بعد جو بھی اس سے غدیر کے سلسلہ میں سوال کرے گاتو جو کچھ سنا اور دیکھا ھے اس کوضرور بتا وٴں گا ۔[111]

۳۔زید بن ارقم کے بھا ئی کا کہنا ھے :ایک دن ھم زید کے ساتھ بیٹھے هو ئے تھے ایک گھوڑا سوار اپنا سفر طے کر کے آیا اور اس نے سلام کرنے کے بعد زید کے بارے میں پوچھااور اس سے یوں عرض کیا: میں مصر کی فسطاط نامی جگہ سے آپ کے پاس اس لئے آیا هوں تاکہ آپ سے پیغمبر اکرم (ص)سے سنی هوئی اس حدیث غدیر کے بارے میں سوال کروںجو حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ولایت پر دلالت کرتی ھے ۔زید نے غدیر کے واقعہ کو مفصل طور پر بیان کرنے کے دوران کھا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر میں منبر پر فرمایا : لوگو! کون شخص تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق رکھتا ھے ؟مجمع نے کھا :خدا اور اس کا رسول ھما رے صاحب اختیار ھیں ۔آنحضرت (ص) نے فر مایا :”خدایا گواہ رہنا اور اے جبرئیل تو بھی گواہ رہنا ‘ اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فرمائی ۔اس کے بعد علی بن ابی طالب(ع) کے ھاتھ کو تھام کر اور اپنی طرف بلند کرتے هو ئے فر مایا :

”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“

اور اس جملہ کی آپ نے اپنی زبان اقدس سے تین مرتبہ تکرار فر مائی ۔[112]

۴۔عطیہ عو فی نے زید بن ارقم سے کھا :میں واقعہ ٴ غدیر کو آپ سے سننے کا متمنی هوں ۔زید نے کھا:پیغمبر اکرم (ص)غدیر میں ظھر کے وقت اپنے خیمہ سے باھر تشریف لائے اور حضرت علی (ع) کے بازو تھام کر فر مایا :اے لوگو!کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے هو کہ میں تمھا رے نفسوں کا تم سے زیادہ صاحب اختیار هوں ؟ لوگوں نے جواب دیا :ھاں ۔تب آنحضرت (ص) نے فرمایا :

”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔ ۔۔۔“[113]

۲۸۔غدیر کے ذریعہ برا ء بن عازب کااتمام حجت کرنا

براء بن عازب بھی وہ شخص تھے جو زید بن ارقم کی مدد کرنے کے لئے غدیر خم میں پیغمبر اکرم (ص) کے سراقدس کے اوپر سے درختوں کی شاخیں اٹھا ئے هو ئے تھے تا کہ پیغمبر اکرم(ص) بالکل آرام و سکون کے ساتھ خطبہ ارشاد فر ما سکیں ۔وہ غدیر خم میں آنحضرت (ص)کے سب سے نزدیک تھے جب کوفہ میں علی بن ابی طالب (ع) نے لوگوں کے مجمع میں اس سے غدیر کے سلسلہ میں گو اھی دینے کےلئے فرمایا تو اس نے انکار کیا اور وہ آپ (ع) کی نفرین میں گرفتار هوا۔

وہ اس کے بعد اپنی اس حرکت پر شرمندہ هوا اور واقعہٴ غدیر کو اس طرح نقل کیا کرتا تھا :میں حجة الوداع میںپیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ تھا کہ جب آنحضرت (ص) غدیر خم میں اترے نماز جماعت کا حکم صادر هوا اورپیغمبر اکرم(ص) کےلئے درختوں کے درمیان جگہ صاف کئی گئی آنحضرت (ص) نے نماز ظھر ادا فرمائی اور حضرت علی علیہ السلام کے بازو تھام کر فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[114]

۲۹۔غدیر کے ذریعہ شریک کااتمام حجت کرنا

شریک نخعی قاضی سے سوال کیا گیا :جو شخص ابو بکر کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلاجا ئے اس کا کیا حشر هو گا ؟شریک نخعی نے جواب دیا : کچھ نھیں ،اس کے ذمہ کو ئی چیز نھیں ھے ۔سوال کیا گیا :اگر حضرت علی علیہ السلام کی معرفت حا صل کئے بغیر دنیا سے چلا جا ئے تو اس کا کیا حشر هوگا؟ جواب دیا : اس کا ٹھکانا جہنم ھے ،اس لئے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان راہنما کے طور پر منصوب فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[115]

۳۰۔غدیر کے ذریعہ ام سلمہ کااتمام حجت کرنا

رسول اسلام(ص) کی زوجہ ام سلمہ غدیر خم میں موجود تھیں ، وہ حدیث غدیر کو اس طرح نقل فر ما تی ھیں :پیغمبر اسلام(ص) نے فر مایا :

”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“[116]

۳۱۔غدیر کے ذریعہ خو لہٴ حنفیہ کااتمام حجت کرنا

جب قبیلہٴ حنیفہ کے سردار مالک بن نویرہ نے غدیر کے ذریعہ استدلال کرتے هوئے ابو بکر کی ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تو خالد بن ولید کے لشکر نے ان کے قبیلہ کے مردوں کو قتل کردیا اور عورتو ں کو قیدی بنا کرمدینہ لے آئے ۔ان ھی قیدیوں میں سے ایک خو لہٴ حنفیّہ نا می لڑکی کو مسجد میں لایا گیا وھاں پر اس نے امیر المو منین علیہ السلام سے عر ض کیا : آپ کون ھیں ؟آپ(ع) نے فر مایا :میں علی بن ابی طالب هوں؟ حنفیّہ نے عرض کیا : آپ (ع) وھی شخص ھیں جن کو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان میں لوگوں کا راہنما بنایا ؟آپ (ع) نے فرمایا :ھاں، میں وھی هوں ۔حنفیّہ نے عرض کیا : آپ(ع) ھی کی وجہ سے ھم نے غضب کیا اور آپ (ع) ھی کی وجہ سے ھم پر دھاوا بولا گیا اور ھم کو قیدی بنا لیا گیا ،چونکہ ھما رے مردوں نے کھا تھا :ھم اپنے اموال کے صدقات (زکات و فطرہ وخمس وغیرہ)اور اپنی اطاعت ھر کسی کے اختیار میں قرار نھیں دیں گے مگر یہ کہ پیغمبر اسلام(ص) نے اسے ھمارا اور تمھارا امام و خلیفہ معین فر مایا هو ۔[117]

۳۲۔غدیر کے ذریعہ دارمیّہ حجونیہ کااتمام حجت کرنا

(دارمیہ) نا م کی ایک سیاہ فام خاتون امیر المو منین علیہ السلام کے شیعوں میں سے تھی ،معا ویہ جب حج کی غرض سے مکہ آیا تو اس نے اس خاتون کو بلا بھیجا اور اس سے سوال کیا :تم علی (ع) کو کیوں دوست رکھتی هو اور مجھ کو کیوں دشمن رکھتی هو ؟اور ان کی ولایت کو کیوں قبول کرتی هو اور مجھ سے کیوں دشمنی رکھتی هو ؟ دارمیّہ نے کھا : میں حضرت علی (ع) کی ولایت کو اس عھد و پیمان کی بنا پر قبول کر تی هوں جو پیغمبر اسلام (ع) نے هوں جو پیغمبر اسلام (ص) نے غدیر خم کے روز ان(علی (ع) )کی ولایت کےلئے لیا تھا اور تو بھی اس وقت مو جود تھا ۔! [118]

یہ غدیر کے سلسلہ میں منا ظروں اور استدلالات کے بعض نمو نے تھے ۔تاریخ میں ہزاروں ایسے مواقع ھیں جن میں غدیر کے سلسلہ میں شیعہ اور ان کے مخا لفوں کے ما بین بحثیںاورمنا ظرئے هو ئے ھیں اورحدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں اتمام حجت کےلئے بہت سے مطالب بیان هو ئے ھیں جن کو ایک مستقل کتاب میں بیان کر نے کی ضرورت ھے ۔

۳ غدیر کے سلسلہ میں دشمنوں کے اقرار

تاریخ میں بہت سے ایسے مواقع آئے ھیں جھاں پرخود دشمنان غدیر نے غدیر کی حجت کا اقرار کیا ھے یہ بات خود ان کے خلاف ایک حجت ھے ،ھم ذیل میں اس کے کچھ نمونے بیان کر رھے ھیں ۔

۱۔ غدیر کے سلسلہ میں ابلیس کا اقرار

جناب سلمان جن کی چشم بصیرت امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت کی روشنی کے پر تو میں ظاھر کے علاوہ باطن کا بھی نظارہ کرتی تھی وہ اس طرح نقل کرتے ھیں : ایک دن ابلیس ( آدمی کی شکل میں )کا ایسی جگہ سے گذر هوا جھاں پر کچھ لوگ امیر المو منین علیہ السلام کو کچھ نا سزا جملے کہہ رھے تھے ابلیس نے ان سے کھا :تم لوگوں کا برا هو جو اپنے مولا علی بن ابی طالب (ع) کو برا بھلا کہہ رھے هو! انھوں نے کھا : یہ کھاں سے معلوم هو گیا کہ وہ ھما رے مو لا ھیں ؟ابلیس نے کھا :تمھارے پیغمبر کے اس فر مان کے ذریعہ :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[119]

۲۔غدیر کے سلسلہ میں ابو بکر کا اقرار

ایک دن ابوبکر خلافت غصب کر نے کی تاویل کر نے کےلئے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حاضر هوا اور کھا :پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر خم میں ایام ولایت کے بعد کسی چیز میں کو ئی تغیر و تبدل نھیں فرمایا اور میں گواھی دیتا هوں کہ آپ(ع) میرے مو لا ھیں اور میں ان تمام مطالب کا اقرار کرتا هوں اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں بھی آپ(ع) کو امیر المو منین (ع) کہہ کر سلام کیا ھے۔[120]

۳۔ غدیر کے سلسلہ میں عمر کا اقرار

عمر بن خطاب نے بھی حدیث غدیر کو اس طرح نقل کیا ھے :پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا اعلان کر تے هوئے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔“خدایا تو ان کا گواہ رہنا!

حضرت عمر کا کہنا ھے :میں نے غدیر خم میں ایک شخص کو یہ کہتے هوئے سنا ھے :خدا کی قسم پیغمبر اسلام(ص) نے تم سے وہ عھد لیا جس کو منافق کے علاوہ اور کو ئی توڑنھیں سکتا ھے ۔۔۔اے عمر تو بھی اس پیمان کو توڑنے یا اس کی مخالفت کرنے سے پر ھیز کرنا !![121]

۴۔ غدیر کے سلسلہ میں ابو ھریرہ کا اقرار

۱۔سقیفہ کے قوی بازو ابو ھریرہ داستان غدیر کی اس طرح توصیف کرتے ھیں :غدیر خم میں پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا بازو تھام کر فر مایا :کیا میں مو منوں کا صاحب اختیار نھیں هوں؟ جواب ملا :ھاں ،یا رسو ل اللہ ۔آنحضرت (ص) نے فر مایا ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔۔۔“اور یہ آیت :نا زل هو ئی ۔[122]

۲۔جنگ صفین میں اصبغ بن نباتہ حضرت امیر المو منین علیہ السلام کا ایک خط لیکر معاویہ کے پاس آئے۔وھاں پر آپ(اصبغ بن نباتہ )نے ابو ھریرہ کو دیکھ کر کھا :میںتجھ کو خدا کی قسم دےتا هوں ۔۔۔کیا تم روز غدیر، غدیر خم کے میدان میں مو جو د تھے؟اس نے کھا : ھاں ۔سوال کیا :تم نے حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم(ص) کا کیا فر مان سنا ھے: ابو ھریرہ نے کھا میں نے سنا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فر مایا ھے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“[123]

۳۔حضرت امام حسن علیہ السلام سے صلح کر نے کے بعد معاویہ کو فہ پہنچا ۔تو ھر رات ابوھریرہ مسجد کوفہ میںمعاویہ کے پھلو میں بیٹھتا تھا ۔ایک رات ایک جوان نے اس سے کھا :میں تجھ کو خدا کی قسم دیتا هوں یہ بتا کیا تو نے پیغمبر اسلام(ص) کو حضرت علی علیہ السلام کے با رے مےں یہ فر ما تے سنا ھے :اَللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ“؟ابو ھریرہ نے معا ویہ کی مو جو د گی میں کھا :ھاں ۔اس جوان نے کھا :میںخدا وند عالم کو گواہ بنا کر کہتا هوںکہ تو نے ان کے دشمن (معا ویہ ) کی ولایت تسلیم کی ھے اور ان (علی علیہ السلام )کے دوستوں سے دشمنی کی ھے ![124]

۵۔ غدیر کے سلسلہ میں سعد بن ابی وقاص کا اقرار

۱۔سعد بن ابی وقاص سقیفہ کے لشکریو ں کا سردار ھے اور اس نے ان کی بڑی خد مات انجام دی ھیں ۔وہ امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل کا اقرار کر تے هو ئے کہتا ھے :حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں ان کےلئے سب سے افضل غدیر خم ھے ۔پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے دو نوں با زووٴ ں کو تھام کر بلند کیااور میں یہ سب کچھ دیکھ رھاتھا اور فرمایا: کیا میں تم پر تمھا رے نفسوں سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا هوں ؟انھوں نے کھا :ھاں۔آنحضرت (ص) نے فرمایا : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“۔[125]

۲۔سعد (جس نے قتل عثمان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نھیں کی تھی )کی مکہ کے سفر میں دوعراقیوں سے ملاقات هو ئی اس نے ان سے امیر المو منین علیہ السلام کی پانچ بژی فضیلتوں میں سے غدیر کی ایک فضیلت کی اس طرح تو صیف کی ھے :ھم حجة الوداع میں پیغمبر اسلام(ص) کے ھمراہ تھے ۔ حج سے واپسی پر پیغمبر اسلام (ص)نے غدیر خم میں قیام فر مایا اور منادی کو ندا دی کہ وہ مردوں کے درمیان یہ اعلان کرے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔۔“[126]

۶۔ غدیر کے سلسلہ میں انس بن مالک کا اقرار

انس بن مالک پیغمبر اسلام(ص) کے خدمت گذار اور غدیر خم میں مو جو د تھے ۔اس نے سب سے حساس مو قع (جب حضر ت علی علیہ السلام نے کوفہ میں سب لوگوں کی مو جو د گی میں اس سے غدیر کے سلسلہ میں گوا ھی دینے کےلئے فر مایا )پر آپ(ع) کی گوا ھی دینے سے انکار کیا اور آپ (ع) کی نفرین سے مرض برص میں اس طرح مبتلا هوا کہ اس کی پیشانی پر سفید داغ هو گیا جس کا سب مشاھدہ کر تے تھے اور سب اس کی وجہ سے واقف تھے ۔

اس نے اس مرض میں مبتلا هو جا نے کے بعد سے غدیر کو مخفی نہ کرنے کا ارادہ کیا اس کا ایک نمونہ کچھ یوں ھے :میں نے غدیر خم کے میدان میں پیغمبر اسلام(ص) کو اس وقت جب آپ حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ تھا مے هو ئے تھے یہ فر ما تے سنا ھے :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ ۔۔[127]

۷۔ غدیر کے سلسلہ میں عمرو عاص کا اقرار

معاویہ نے عمرو عاص کو ایک خط لکھا جس میں حضرت علی علیہ السلام کو نا سزا الفاظ لکھتے هو ئے اس کو اپنی مدد کےلئے طلب کیا ۔عمرو عاص نے معاویہ کے خط کا جواب دیا اوراس کی باتوں کو رد کر تے هو ئے مو لا ئے کا ئنات کے فضا ئل و مناقب شمار کئے منجملہ یہ تحریر کیا :پیغمبر اکرم(ص) نے ان کے سلسلہ میں فر ما یا ھے:”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“[128]

۸۔ غدیر کے سلسلہ میں حسن بصری کا اقرار

حسن بصری حدیث غدیر کو یوں نقل کر تے ھیں :پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدان میں امام مقرر کرتے هو ئے فر مایا :”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“[129]

۹۔ غدیر کے سلسلہ میں عمر بن عبد العزیز کا اقرار

ایک شخص نے ملک شام میں عمر بن عبد العزیز سے کھا :میں علی (ع) کے مو الیوں میں سے هوں اس نے بھی اپنے سینہ پر ھاتھ مارکر کھا :خدا کی قسم میں بھی موالیان علی (ع) میں سے هوں ۔ اس کے بعد کھا: کچھ لوگوں نے مجھ سے یہ روایت بیان کی ھے کہ ھم نے پیغمبر اسلام(ص) کو یہ فر ما تے سنا ھے : ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ“[130]

۱۰۔ غدیر کے سلسلہ میں ابو حنیفہ کا اقرار

ابو حنیفہ ایک ایسی مجلس میں پہنچے جس میں غدیر کے سلسلہ میں گفتگو هو رھی تھی تو اس نے کھا: میں نے اپنے اصحاب سے کہہ دیا ھے کہ شیعوں کے سامنے حدیث غدیر کا اقرار نہ کریں کہ وہ تمھاری مذمت کر یں !!اس مجلس میں موجود صیرفی نے نا راضگی کا اظھار کر تے هو ئے کھا :اس کا اقرار کیوں نہ کریں؟کیا یہ مطلب تمھارے نزدیک ثابت نھیں ھے ؟ابو حنیفہ نے کھا :ثابت ھے اورخود میں نے ھی اس کو نقل کیا ھے۔[131]

۱۱۔غدیر کے سلسلہ میں مامون عباسی کا اقرار

مامو ن نے بنی ھاشم کو ایک خط لکھا جس میں امیر المو منین علیہ السلام کے فضائل رقم کئے تھے منجملہ اس نے یہ تحریر کیا تھا :”حدیث غدیر خم میں وہ(علی (ع) )صاحب ولا یت تھے “۔[132]

۲۔مامون نے خراسان میں ایک جلسہ منقعد کیا جس میں اسلام کی چالیس بڑی بڑی ھستیوں کواپنے ساتھ مناظرہ کے لئے دعوت دی ۔اس جلسہ میں اس نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے سلسلہ میں حدیث غدیر کے بارے میں استدلال کیا اور انھوں نے قبول کیا ۔[133]

۱۲۔ غدیر کے سلسلہ میں طبری کا اقرار

اھل سنت کے مشهور و معروف مورخ طبری کے دور میں ابو بکر بن داوٴد نے حدیث غدیر خم کے سلسلہ میں کچھ نادرست باتیں بیان کر دی تھیں ۔جب یہ خبر طبری تک پہنچی تو اس نے ابو بکر بن داوٴد کے جواب میںحدیث غدیر کے متعلق ایک مستقل کتاب تحریر کی اور اس میں حدیث غدیر کے اسناد کو صحیح ثابت کیااور ضروری منابع و مدارک بھی تحریر کئے ۔[134]

یہ سب سقیفہ کے طرفداروں کے حدیث غدیر کے سلسلہ میں اقرار کے بعض نمونے تھے ۔ان چودہ صدیوں میں اھل سنت کے بہت بڑے بڑے بزگوں نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں حدیث غدیر کا اعتراف کیا ھے یھاں تک کہ انھوں نے اس سلسلہ میں کتا بیں بھی لکھی ھیں ۔

۴ غدیر سقیفہ کے مد مقابل

حالا نکہ غدیر ایک بہت بڑا وسیع بیابان تھا جو پیغمبر اسلام(ص) کی تقریر کے لئے آمادہ و تیار کیا گیا تھا ،لیکن جس دن رسول اسلام(ص) نے اس میں خطبہٴ غدیر ارشاد فرمایا تھا اسی دن سے وہ سقیفہ اور غدیر کامیدان جنگ قرارپایا ۔سقیفہ کے لشکر کے سردار منبر غدیر کے سامنے بیٹھنے کے با وجود اپنے تیز و طرار دانتوں کو پیس پیس کر غدیر اور غدیریوں کو ڈرا رھے تھے ،ان کے کمانڈر اور ان کے وفادار ساتھیوں کو جنگ کے لئے تیار رہنے کا چیلنج کر رھے تھے یھاں تک کہ صاحب غدیر کو برا بھلا کہہ رھے تھے ۔

سقیفہ کے لشکر کی تشکیل

ماجر ا ئے غدیر کے واقع هو نے کے ساتھ ھی سقیفہ کی بنیاد رکھنے والوں نے فوجی ،سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی عھد نامہ پر دستخط کئے اور اپنا لشکر تیار کر نے میں جٹ گئے ۔

انھوں نے اس کام کو عملی جا مہ پہنا نے میں اتنی جلدی کی کہ ستر دن گزر نے کے بعد ایک بڑا لشکر لیکر صاحب غدیر کے گھر پر دھا وا بول دیا اور گھر کو آگ لگا دی ۔وہ بڑی ضرب و شتم کے ساتھ گھر میں گھس گئے اور غدیر کا دفاع کرنے والوں میں پیش قدمی کرنے والوں یعنی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا اور محسن (ع) کو شھید کر دیا ،صاحب غدیر کی گردن میں رسی کا پھندا ڈالا اور غدیریوں پر اس وحشیانہ حملہ سے انھوں نے اپنے خیال خام میں غدیر کافا تحہ پڑھ دیا۔

سقیفہ کے با لمقابل غدیر کی مقا ومت

اھل سقیفہ اس بات سے غافل تھے کہ خدا وند عالم ،پیغمبر اسلام (ص)اور ائمہ معصومین علیھم السلام غدیر کے محا فظ ھیں اور اس جنگ کے فاتح بھی وھی ھیں ۔ غدیرکے حا می بھی صاحبان غدیر کے انتخاب کے ساتھ اپنے اندر لشکر غدیر کاممبر هو نے کی صلا حیت پیدا کرلیں گے ۔

غدیرکے سلسلہ میںسب سے پھلی بارهونے والی جنگ یعنی سقیفہ میں حقیقتاً دونوں(یعنی غدیریوں اور اھل سقیفہ ) کا پلّہ برابر نھیں تھا ؛غدیری اگرچہ مغلوب هو گئے لیکن صاحب غدیر کی موجودگی میں صحیح طور پر حقا ئق کو واضح کرنے اور آنے والی نسلوں کےلئے حجت تمام کر نے میں کا میاب و کامران رھے ۔غدیر یوں کی صف میں پھلے توتین آدمی تھے لیکن آھستہ آھستہ اس حسن تدبیر سے سات آدمی هو ئے اسی طرح آج ان کی تعدادکروڑوںاور اربوں افراد تک پہنچ گئی ھے ۔

غدیر،جنگ جمل ،صفین اور نھر وان میں

اگر وھی پھلے دن والی ھی سقیفہ هو تی توھر گز یہ نوبت نھیں آسکتی تھی کہ پچیس سال کے بعدلوگ حضرت امیر المو منین (ع) سے خلافت قبول کرنے کےلئے التماس کریںیہ اُن ھی کا موں کا اثر تھا جو غدیریوں نے سقیفہ کے دن انجام دئے تھے ۔ان ھی ایام میں جمل ،صفین اور نھروان جیسی جنگو ں کےلئے صف آرائی هوئی

اگرچہ سقیفہ میں صف آرائی کی نو بت نھیں آئی اور غدیری بظاھر جلدی ھی خاموش هو گئے اور غدیریوں کی تعداد چا لیس افراد تک نہ پہنچ سکی لیکن امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ هو نے والی ان تینوں جنگوں میں بہت سے صاحبان ِ شمشیر (ایمان کے مختلف درجات کے ساتھ ) آپ(ع) کے ھمراہ تھے جن میں صرف پانچ ہزار افراد شرطة الخمیس [135]یعنی فدائیان غدیر تھے کہ جنھوں نے مولیٰ ،امیر المو منین کا صاحب اختیار هونے اور مقام ولایت مطلقہ کی مطلق اطاعت کا عملی نمونہ پیش کیا۔

ان میں سے ایک اصبغ بن نباتہ تھے کہ جس وقت ان سے سوال کیا گیا :تمھا رے نزدیک امیر المو منین علیہ السلام کی منزلت کس حد تک ھے ؟انھوں نے کھاھم نے تلواروں کو اپنے کند ھوں پر رکھ لیا ھے اور جس پر وہ اشارہ کر دیں گے اس پر چلا دیں گے ۔۔۔[136]

غدیر کے مقابلہ میں سقیفائی چھرے

اھل سقیفہ جن کا پھلے دن صرف ایک ھی چھرہ تھالیکن بعد میں تین خاص اور سیکڑوںعام چھرے هوگئے کہ جن کا خلاصہ یھی تین چھرے تھے اور غدیر یوں کے ساتھ جنگ کر نے کےلئے آمادہ هوگئے ۔یہ وہ افراد تھے جو پھلے دن اپنے باطن کو چھپا ئے هو ئے تھے صرف غا صبوں کی پیٹھ پیچھے ھی ان کے حق میں باتیں کیا کر تے تھے لیکن اب انھوں نے یہ بتلا دیا کہ وہ اصحاب سقیفہ کا کس لئے دم بھر ر ھے تھے ۔

ایسے ایسے گروہ مو جود تھے جن کی پیشانیوں پرعبادت کی وجہ سے گھٹے پڑے هو ئے تھے اور وہ ظاھری طور پر زاھدمعلوم هو تے تھے لیکن اس کے با وجود وہ حضرت علی (ع) کے مد مقابل آرھے تھے کچھ لوگ ریاست طلبی کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام کے مد مقابل آرھے تھے، کچھ گروہ مال و دولت کے لالچ میں آپ(ع) سے جنگ کر نے آئے تھے ،کچھ گروہ عیاش تھے وہ اپنی عیاشی کے چکر میں حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کر رھے تھے ،کچھ گروہ اسلام اورپیغمبر اسلام(ص) کی نسبت شدید محبت کا اظھار کر نے کے با وجود صاحب غدیر کے مد مقابل هو رھے تھے!!کچھ گروہ پیغمبر کی نسبت اپنے کفر و عناد کا مظاھرہ کر رھے تھے ،کچھ افراد صاف طور پر پیغمبر اور قر آن کے مخالف عقائد کا دم بھر نے کے با وجود اپنے کو اسلام کے وفادار سمجھتے تھے اور اسی نظریہ کے مد نظر امیر المو منین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کر نے کےلئے آئے تھے۔

غدیر کے مد مقابل سقیفہ کی پُرفریب صورتیں

دوسری طرف سقیفہ میں کچھ ظاھر فریب چھرے نمایاں طوپر نظر آئے کہ جنھو ں نے اپنے مدمقابل معاشرہ کی کمر توڑکر رکھ دی ھے ۔

پھلی مر تبہ جنگ میں رسول اسلام(ص) کی زوجہ حضرت علی علیہ السلام کے مد مقابل آئیں حالانکہ پیغمبر اسلام کے دو صحا بی طلحہ و زبیر بھی اس کے ساتھ تھے ۔

ایک طرف عورت کا میدان جنگ میں آنا اور دوسری طرف پیغمبر اکرم(ص) کی زو جہ هو نا عوام کو دھوکہ دینے کا نرالا طریقہ تھا جس کا بظاھر اثر بھی هوا لیکن سقیفہ کے بانی کی بیٹی هو نے اور اپنے پدر بزر گوار کےلئے پیغمبر اکرم (ص)کے دورحیات اور آنحضرت (ص) کی رحلت کے بعد جا سوسی جیسے کارنامے اس کے نامہٴ اعمال میں درج تھے جس کی بنا پر اس کو غدیر کے مد مقابل سقیفہ کابہترین نمائندہ تصور کیا جاسکتاتھا

دوسری مرتبہ قتل عثمان کے بھانے سے جو سقیفہ کا تام الاختیار آخری لیڈر تھا جس کو سقیفہ میں بنائے گئے منصوبے کے تحت منتخب کیا گیا تھا ،معاویہ اور سقیفہ کے بقیہ دوسرے افراد نے مل کر ایک گروہ تیار کیا اور سقیفہ کے مقتول خلیفہ کا انتقام لینے کی غرض سے قیام کیا ۔سقیفہ کے کُرتے کو دمشق کے اس منبر پر لٹکایا جس کی بنیاد سقیفہ میں محکم کی گئی تھی ،خال المو منین اور کاتب وحی جیسے زیور سے آراستہ کیا اور غدیر سے جنگ کے لئے نکل آئے ۔

غدیروالوں نے بھی عمار یاسر ،اویس قرنی اور مالک اشتر جیسے فدا کاروں کے ساتھ جتنا هو سکتا تھا فدا کاری کا مظاھرہ کیا اور ایسے حالات پیدا کردئے کہ غدیر کا سنھرا نقش آسمان پر ابھر آیا ۔

تیسری مرتبہ نھروان کے کج فکر افراد جودرحقیقت سقیفہ کی پیدا وار تھے خود خواھی اور پروردگار عالم کی طرف سے منصوب امام کی اطاعت نہ کرنے کا سقیفہ والوں کی طرح عھد کرچکے تھے وہ بھی غدیر کے میدان میں آئے ۔

اس کے بعدصاحب غدیر کی اس شمشیر سے شھادت کہ جس پر انھوں نے اسلام کے نام کا سنھرا پا نی چڑھا رکھا تھا اوراسے خالص سقیفہ کے زھر میں بجھا ئے هو ئے تھے یہ سقیفہ وا لوں کوطرف سے غدیر کو ذبح کرنے کا راستہ صاف نظر آرھا تھا ۔

مقتل غدیر!!

معا ویہ نے بیس سال کی طویل مدت میں غدیر کےلئے ایک بہت بڑا مقتل تیار کیاتھا اور اس میں ہزاروں غدیریوں کے سر کا ٹ کر ان کے خون سے لشکر سقیفہ کو سیراب کیا تاکہ کربلا کےلئے قوی هو جا ئیں مرگ معاویہ اور یزیدکے بر سر اقتدار آجا نے کے بعد یہ بڑا مقتل غدیر کا سر کا ٹنے کےلئے تیار تھا اور یھی غدیر کو کر بلا تک کھینچ کر لایا تا کہ سقیفہ کے لیڈروں کے خواب کی صحیح تعبیر هو جا ئے ۔

غدیر یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام

اس مرتبہ غدیر اپنی پوری طاقت اور چندفداکار ساتھیوں کے ساتھ کر بلا کے میدان میں پہنچی،یہ حسین (ع) تھے جو اپنے ایسے با وفاساتھیوں کے ساتھ آئے تھے جو شھادت اور ٹکڑے ٹکڑے هو نے کےلئے اپنی کمر با ندھے هو ئے تھے اورجس کا دوسرا گروہ اسیر هو نے ،سر بریدہٴ غدیر کےلئے آنسو بھانے اور شام کے بے خبروں کو غدیر کی خبر سے با خبر کر نے کےلئے تیار تھے۔

اس مقام پر حضرت امام صادق علیہ السلام کے فرمان کے عملی نمونہ کا مشاھدہ کیا جا سکتا ھے :

”اِذَاکُتِبَ الْکِتَابُ قُتِلَ الْحُسَیْنُ عَلَیْہِ السلامُ “

جس وقت غدیر کے با لمقابل سقیفہ کا عھد نا مہ لکھا گیا تھا حضرت امام حسین علیہ السلام شھید هو گئے تھے “!

ھاں !غدیر کا اس کے با وفا ساتھیوں سمیت سر قلم کردیا ،اس کے با عظمت خیموں کو غارت کر دیا ، ان میں آگ لگا دی ،غدیر کے عزیز و اقربا کو قید ی بنا لیا تا کہ سقیفہ کے دوسرے شھر والے اس پر فخر و مباھات کریں اور یہ اعلان کریں کہ غدیر کا کام تمام هو گیا ھے ،لیکن۔۔۔!

غدیر کی حقیقی زندگی

غدیر نے اپنی واقعی اور حقیقی زندگی کا آغاز کر بلا کے دن سے کیا اور پچاس سال سقیفہ کے اوباش افراد کے ھاتھوں میںگرفتار رہنے کے بعد پھر سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد دو بارہ غدیرکی آواز دنیا کے آخری گو شہ تک پہنچی یھاں تک کہ کفار اور مشرکین نے اھل سقیفہ پر لعنت کی اور غدیر کی سر افرازی کو مبارکباد پیش کی ھے ۔

اس مر تبہ پھرسقیفہ اور غدیر کی جنگ کے شعلے بھڑکے اور اھل سقیفہ کے کینہ و حسد کے شعلے اتنے بھڑکے کہ انھوں نے سقیفہ کا جا نشین حجاج جیسے خو نخوار وںکو بنا دیا ۔وہ بھی چراغ لیکر آئے اور غدیر کے فدا ئیوں کو چُن چُن کرمقتل سقیفہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ قنبرجیسوں نے بذات خود اپنے کو غدیر میں شھید هو نے کےلئے اپنا تعارف کرایا ۔اگرچہ ان کی زبان کاٹ دی گئی یا ان کی زبان گُدّی سے نکال لی گئی لیکن یہ سب غدیر کی وہ بیش بھا قیمت تھی جو وہ اپنے جان و دل سے ادا کر رھے تھے ۔

گو یا سقیفا ئی پارٹی کو بخو بی اس بات کا پتہ تھا کہ ابھی غدیر زندہ و جا وید ھے اورھر دن اس کو نئی زندگی مل رھی ھے ۔غدیر ان نسلوں کی منتظر ھے جو اپنی کسی چیز کے کھو جا نے کے بعد اپنے ھاتھو ں کو پھیلا ئے هو ئے اس کے استقبال کےلئے کھڑی رھیںاوردل کے پیروں سے صحرائے غدیر میںحا ضرهوں اور صاحب غدیر کی بیعت کریں ۔

غدیر اور سقیفہ تا ریخ کے آئینہ میں

اموی حکو مت کے ختم هو نے کے ساتھ ھی سقیفہ کا دفتر بند هو گیا لیکن پھر دو سری مرتبہ حکو مت عباسی کے آنے کے بعد اس دفتر کو غدیر سے مقابلہ کر نے کے لئے کھول دیا گیا ۔گو یا سقیفہ نے مختلف طریقو ں سے مختلف زمانوں میں اپنے جلوے دکھلا ئے ۔پا نچ سو سال برسر اقتدارعباسیوں نے غدیریوں کے لئے کو ئی خو شی کامو قع نھیں آنے دیا ان کو قتل کیا ،تختہٴ دار پر چڑھا یا اور قید خا نوں میں ڈال دیا اور غدیر کے اماموں کو یکے بعد دیگرے شھید کردیا ۔

لیکن زمانے نے جو چھوٹا سا راستہ تشیع کےلئے چھوڑ رکھا تھا اس میں غدیر کو ھر دن دو سروں کی توقعات کے خلاف کا میابی ملتی رھی اور اسلامی سرحدوں کے باھر سے اپنے عا شقوں کو جذب کرنے لگی اور صراط مستقیم ڈھونڈھنے والوں کی کشتیٴ نجات، سقیفہ کے فتنوں کے دریا کی مو جو ں سے ٹکرا تی هو ئی رواں دواں هو ئی ۔

اگرچہ خلافت کو غصب کرنے کے دن صاحب غدیر کے ساتھ صرف تین افراد باقی رہ گئے تھے اور کربلا میں کو ئی باقی نھیں رھا !!سقیفہ کے غا صبین آج آئیں اور اپنی آنکھیں کھول کر پوری دنیا میں ان چو دہ صد یوںمیں کروڑوں غدیریوں کا مشاھدہ کریں ۔اتنے غدیری کہ غا صبوں کے وھم و گمان میں بھی نھیں تھا۔

۵ غدیر سے متعلق کتب کی وا قعیت

پھلی صدی ھجری سے غدیر کی روایت کے سینہ بہ سینہ منتقل هو نے کے ساتھ ساتھ کتاب نے بھی مسلمانو ں کی نسلوں تک غدیر کا پیغام پہنچا نے میں اپنا کر دار ادا کیا ھے اور غدیر کا دفتر اسی طرح کھلاهوا ھے اور دوسری صدی ھجری سے کتاب اور کتاب نویسی نے جدیت کے ساتھ اس با رے میں بڑا کردار اداکیا ھے ۔

اس کے با وجود کہ رسول اسلام(ص) کے ایک لاکھ بیس ہزار مخا طب افراد (جو غدیر خم میں مو جود تھے )کو اس عظیم وا قعہ کے لکھنے کےلئے اقدام کر نا چا ہئے تھا لیکن انھوں نے ایسا نھیں کیا حالانکہ پیغمبر اسلام(ص) نے غدیر کے پیغام کو آئندہ آنے والی نسلوں کےلئے پہنچانے کی بہت تا کید فر ما ئی تھی لیکن حکو متوں کے ڈر نے اس میں رکا وٹ ڈالی لیکن ان تمام حیلوں اور بھانوں کے با وجود اسلام کی ثقافت غدیر کے نام سے پر ھے اوراسلام کی اعتقادی ،تا ریخی اور حدیثی کتا بوں (وہ کھیں پر اور کسی زمانہ میں بھی تا لیف هو ئی هوں ) میں نور غدیر قابل کتمان نھیں تھا ۔

مو ضوع غدیر سے متعلق سب سے پھلی کتابیں

سب سے پھلے تین کتابوں کا نام لیاجا سکتا ھے جن میں واقعہٴ غدیر کو نقل کیا گیا :

۱۔”کتاب علی علیہ السلام “جس کو حضرت علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کے املا ء کے ذریعہ تحریر فر مایا ۔”معروف “نام کے ایک شخص نے حضرت امام محمد با قر علیہ السلام کی خدمت با برکت میں حا ضر هو کر واقعہٴ غدیر کو ابو الطفیل کے نقل کے مطابق بیان کیا ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اس کی تا ئید کر تے هو ئے فر مایا :اس مطلب کامیں نے کتاب علی علیہ السلام میں مشاھدہ کیا ھے اور ھمارے نزدیک یہ مطلب صحیح ھے ۔“[137]یہ کتاب ودایع امامت میں سے ھے اور امام کے علا وہ کسی اور کی اس تک رسائی نھیں ھے۔

۲۔تا لیفات بشری میں سب سے پھلی ی کتاب جس میں مسئلہ غدیر نقل کیا گیا ھے ”کتاب سلیم بن قیس ھلا لی “ھے ۔یہ پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد کے سا لوں میں تا لیف هو ئی اور اس کتاب کے مو ٴ لف نے ۷۶ھجری میں وفات پائی ،غا صبان خلافت کی نظروں سے دور رہ کر اس کتاب میں غدیر سے متعلق مختلف مسائل کا تذکرہ کیا ھے یھاں تک کہ مستقل طور پر حدیث میں غدیر کے پورے واقعہ کو تحریر کیا ھے یہ چودہ سو سالہ یاد گارآج بھی اسی طرح باقی ھے اورمتعدد مرتبہ طبع هو چکی ھے ۔

۳۔غدیر کے مو ضوع سے متعلق مستقل طور پر تالیف هو نے والی کتاب پھلی کتاب ” خطبةالنبی (ص) ھے جس کو ادبیات عرب کے بڑے عالم خلیل بن احمد فرا ھیدی نے تحریر کیا ھے جنھوں نے ۱۷۵ ھ میں وفات پائی اور اس کتاب میں غدیر خم میں حضرت رسول اکرم(ص) کے خطبہ کو مفصل طور پر تحریر کیا ھے ۔

چودہ صدیوں میں غدیر کے قلمی آثار

دین کے مختلف پھلووٴں میں غدیر اتنی راسخ هو چکی ھے کہ یہ متعدد مو ضو عات میںزیربحث قرار پائی ھے ۔کتب حدیث میں سند اور متن کے اعتبار سے ،کتب تا ریخ میں اسلام کے سب سے اھم واقعہ کے عنوان سے ،کتب کلام میں سب سے اھم اعتقادی عنوان سے جو یھی خلافت وولایت ھے ،کتب تفسیر میں خلافت کے متعلق آیات کی تفسیر کے عنوان سے ،کتب لغت میں کلمہ”مو لیٰ “کے معنی کے اعتبار سے اور کتب ادب و شعر میں تا ریخ اسلام کے زیبا قطعہ کے عنوان سے نظم و نثر میں بیان کیا گیا ھے ۔

پھلی صدی ھجری میں افراد کے امین سینے اورقوی حا فظے تھے انھوں نے کتاب کی طرح عمل کیا اور سو سال کے راستے کواچھی طرح طے کیا اورآل محمد(ص) کی امانت کو محفوظ رکھا بہت سے صحابہ اور تا بعین واقعہٴ غدیر کو محفلوں میں بیان کر تے تھے اور اس کو اپنے بعد آنے والی نسلوں تک منتقل کر تے تھے اگر چہ کتاب سلیم کے مانند کتابیں بھی مخفی طور پر تا لیف هو رھی تھی اور ان میں غدیر کو ثبت(لکھا ) جا رھا تھا ۔

دو سری ھجری کے آغاز میں جس میں نسبتاً معا رف دینی کو تد وین کر نے کی آزا دی تھی تبلیغ غدیر کو بھی نئی زندگی ملی اور آھستہ آھستہ روایت سے تالیف کی شکل میں نقل کی جا نے لگی ۔

چو تھی ھجری میں حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں تحقیق اور بحث کا آغاز هوا اور خطبہٴ غدیر کا اصلی فقرہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ فَھٰذا عَلِیٌ مَوْ لَاہُ“شیعہ اور اس کے مخا لفوں کے درمیان منا ظروں میں بیان کیا جا نے لگا رجال اسناد اور حدیث غدیر کے ناقلین کے بارے میں بھی اس سلسلہ میں بڑی تحقیق و جستجو کر نے لگے ۔

یہ تحقیقات چو تھی ،پا نچویں اور چھٹی ھجری میں اوج پر پہنچ گئیں اور ہزارسال تک اسی طرح جا ری و ساری رھیں کہ ان صدیوں کے بر جستہ آثار آج بھی موجود ھیں ۔

گیا رهویں ھجری کے آغاز سے لیکر آج تک میدان علمی کوباز رکھتے هوئے محققین اور اسلامی دانشمندوں نے غدیر کے سلسلہ میں مفصل اور مطالب سے پُراور اھم کتابیں تا لیف کی ھیں اور بڑے اچھے طریقہ سے ہزار سالہ زحمتوںسے نتیجے اخذ کئے ھیں ۔بڑی بڑی تحقیقات کر نے والے جیسے قاضی شوستری، علامہ مجلسی ،شیخ حر عا ملی ،سید ھاشم بحرانی ،میر حا مد حسین ہندی ،علا مہ امینی اور دو سرے علماء اس مد عا کے بہترین شا ھد ھیں ۔

کتب غدیر کی تعداد

غدیر کے سلسلہ میں زیادہ تر کتا بیں عربی ،فارسی اور اردو زبانوں میں لکھی گئی ھیں ،کچھ کتا بیں انگریزی زبان میںبھی ھیں اور کچھ کتابیں تر کی، آذری ،استا نبولی ، بنگا لی اور نو رو زی زبان میں بھی لکھی گئی ھیں ان میں سے بعض تالیفات اوربعض تر جمہ و تلخیص کی صورت میں ھیں ۔

علمی تقسیم بندی کے اعتبار سے ان میں سے بعض کتا بوں میں مکمل طور پروا قعہٴ غدیر کو نقل کیا گیا ھے اور کچھ کتا بوں میں صرف خطبہٴ غدیر کا مکمل متن تحریر کیا گیا ھے ۔بہت سی کتا بوں میں حدیث غدیر کی اسناد کی جمع آوری اور رجا لی بحث کی گئی ھے ۔

زبر دست علمی تحقیقات مخا لفوں کے جواب میں ھیں جوکلمہ ”مو لیٰ “کے معنی،سند کی تحقیق اور دلالت کے سلسلہ میں کی گئی ھیں بچوں اور نو جوانوںکے شعر و ادبیات بھی غدیر سے متعلق تا لیفات کاایک جلوہ ھیں ۔

غدیر سے متعلق کتا بیں

علا مہ سید عبد العزیز طبا طبا ئی قدس سرہ نے کتاب ”الغدیرفی التراث الاسلامی “میں غدیر سے متعلق مستقل ۱۸۴ مستقل کتابو ں کی فھر ست تحریر کی ھے اور ان کے مو لفین کی حالات زند گا نی پر رو شنی بھی ڈالی ھے ۔

اسی طرح دانشمند بزرگ محمد انصاری نے کتاب ”غدیر در آئینہٴ کتاب “میں غدیر سے متعلق ۴۱۴ مستقل کتا بوں کے نام درج کئے ھیں اور ان میں مکمل طور پر کتا بوں کا تعارف اور ان کی تعداد کو بڑے خو بصورت انداز میں تحریر کیا ھے ۔

کتا بوں کے ذریعہ غدیر کی وسیع تبلیغ

غدیر کے قلمی آثار پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے مختلف جلووں کا نظارہ هوتاھے چھو ٹی بڑی کتا بیں ،رسالے ،بروشر،مقالات،مجلے،اخبار،کامپیوٹری علمی پرو گرام،خوبصورت خطاطی، اعلانات ،کارڈ اور پو سٹرکی شکل میں مشاھدہ کر تے ھیں ۔

یہ طریقہ ھر سال اوج پر ھے اور حضرت بقیة اللہ الاعظم کے زیر سایہ پیغام غدیر کے ابلاغ میں موٴثر کردارادا کرا رھا ھے ۔

۶ شعرا ور ادبیات غدیر

اسلام کے واقعات میں سے صرف غدیر ایسا واقعہ ھے کہ جس کے رونما هو نے کے وقت سے شعر کی سند بھی اپنے ساتھ لئے هو ئے ھے ۔شعر اپنے وزن و قافیہ کے ساتھ غدیر کے دفتر میں ھمیشہ باقی رہنے والی سند ھے جو یکے بعد دیگرے سینوں میں حفظ هوتی رھی اور ادبی اھمیت کے مد نظر کتا بوں میں لکھی جاتی رھی ھے ۔بعد میں آنے والی نسلیں جو دشمنوں کے غلط پروپگنڈے کے پنجے میںاپنے معا رف سے بہت زیادہ دور هو گئی ھیںنے غدیر کے متعلق حسان اور اس کے ما نند افرادکے ا شعار سے اسے دوبارہ درک کیا ھے ۔

طول تاریخ میں حدیثی اور تا ریخی اسناد و مدارک کے ساتھ ساتھ مختلف صدیوں میں مختلف شعرا ء کے اشعار نے بھی اس واقعہ کی حفاظت کر نے میں ایک اھم کردار ادا کیا ھے۔

شعر میں ایک دو سری بات یہ پا ئی جا تی ھے کہ اس نے غدیر کو کتا بوں اور محفلوں میں اس طرح پیش کیا جو دو سرے طریقوں سے ممکن نھیں ھے یا کم از کم آسان نھیں ھے بہت سی ادبی کتا بو ں میں یھاں تک کہ اھل بیت علیھم السلام کے مخالفوں نے اپنی کتابوں میں غدیر کے سلسلہ میںایک بڑے شاعر کے شعرکو ادبی شہ پارے کے طورپر نقل کیا ھے اسی طرح وہ بہت سے افراد جن کے پاس مطالعہ اور علمی متون کو سننے کا وقت نھیں ھیں وہ بھی ا شعارکے ایک قطعہ سے ھی معارف غدیر سے سر شار هو جا تے ھیں ۔

غدیرعربی ،فارسی ،اردو اور تر کی اشعار کے آئینہ میں

چو دہ صدیوں کے عر صہ میںمسئلہ ٴ غدیر عربی ،فارسی ،اردو،تر کی اور دو سری زبانوں میں اشعار میں نظم هو تا رھا ھے ۔اس سلسلہ میں سب سے پھلا زبردست شاعرقدم حسان بن ثابت نے اٹھایا اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقاعدہ اجا زت سے غدیر خُم ھی میں واقعہٴ غدیر کے متعلق کھے هو ئے اشعار پڑھے ۔

خود حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے غدیر خم کے متعلق اشعار کھے ھیں چند اصحاب پیغمبر نیز ائمہ علیھم السلام کے بعض اصحاب نے بھی غدیر کے سلسلہ میں اشعار کھے ھیں منجملہ قیس بن سعد بن عبادہ ،سید حمیری ،کمیت اسدی ،دعبل خزا عی اور ابو تمام وغیرہ ھیں ۔

اشعار سے دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے علماء نے بھی غدیر کے سلسلہ میں اشعار کھے ھیں منجملہ شریف رضی ،سید مر تضیٰ ،قطب راوندی ، حا فظ بر سی ، شیخ کفعمی ، شیخ بھا ئی ، شیخ کر کی ، شیخ حر عا ملی ، سید علی خان مدنی ،اور آیت اللہ شیخ محمد حسین غر وی اصفھا نی (کمپانی ) ھیں ۔

اپنے وقت کے بڑے بڑے عرب شعرا ء جیسے ابن رو می ، وا مق نصرانی ، حما نی، تنو خی ، ابو فراس حمدانی، بشنوی کردی ، کشا جم ، نا شی صغیر ،صا حب بن عباد ، مھیار دیلمی ، ابو العلا معر ی ، اقساسی ، ابن عرندس ، ابن عو دی، ابن داغر حلی ، بولس سلامہ مسیحی نے غدیر کے سلسلہ میں اشعار کھے ھیں ۔

شعرائے عرب کے علاوہ فارسی ،اردو اور ترکی زبان کے شعراء نے بھی غدیر کے مطالب کو شعر میں ڈھال کر غدیر کے پیغام کی حفاظت اور اس کو نشر کرنے میں اھم کردار ادا کیا ھے۔

اس بات کی یاد دھانی ضروری ھے کہ بعض شعراء نے داستان غدیر کو بطور مفصل یا مختصر طور پر اشعار میں نظم کیا ھے ان میں سب سے پھلے شاعر حسان بن ثابت ھیں ۔دوسرے بعض شعراء نے غدیر کے فقط حساس مطلب ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌ مَوْ لَاہُ “کو شعر میں نظم کر کے غدیر کے پیغام کی حفا ظت کی ھے ایک گروہ نے غدیر کے ادبی اور اعتقادی پھلو کو شعر میں نظم کیا ھے اور جھا ں تک ان سے ممکن هوا انھوں نے غدیر کے معنوی پھلو کو اشعار میں ڈھال کر ایک شیعہ شخص کی زندگی کو نشاط بخشی ھے کہ جب بھی وہ اشعار پڑھے جا تے ھیں تو ان سے ان کے جسم و روح میں ولایت کی خنکی کا احساس هو تا ھے ۔

غدیر کے اشعارسے متعلق کتا بوں کی تد وین

بعض موٴ لفین نے غدیر سے متعلق اشعار کو کتابوں میں جمع کیا ھے اور غدیر کی اس ادبی اسناد کو منظم اور مرتب مجمو عوں کی شکل میں پیش کیا ھے ۔ان میں سے بعض کتا بیں صرف اشعار غدیر سے متعلق ھیں جن میں سے کچھ کتا بوں کے نام ھم ذیل میں پیش کر رھے ھیں :

ا۔الغدیر فی الکتاب والسنة والا دب ،علامہ امینی ۔

۲۔شعراء الغدیر ،موٴ سسة الغدیر بیروت ۔

۳۔الغدیر فی الادب الشعبی ،حسین بن حسن بھبھانی ۔

۴۔غدیر یات علا مہ امینی ،بر گزیدہ الغدیر ۔

۵۔الغدیریة ،شیخ ابراھیم کفعمی ۔

۶۔غدیریات ھا دفة ،سید طالب خر سان ۔

۷۔غدیر در شعر فا رسی ،سید مصطفےٰ مو سوی گر ما رودی ۔

۸۔سرود غدیر ،علا مہ سید احمد اشکو ری ،۲ جلد ۔

۹۔شعراء غدیر از گزشتہ تا امروز ،محمد ھا دی امینی ،۰اجلد ۔

۰ا۔غدیر در شعر فا رسی از کسا ئی مروزی تا شھر یار تبریزی ،محمد صحتی سر درودی ۔

اا۔پا سداران حما سہٴ غدیر ،پرویز عبا سی ۔

۲ا۔بیعت با خو رشید ،ادارہٴ ارشاد خر اسان ۔

۳ا۔در سا حل غدیر ،احمد احمدی بیر جندی ۔

۴ا۔گلبانگ غدیر ،محمد مھدی بھداروند ۔

۵ا۔دریا در غدیر ،ثابت محمو دی ۔

۶ا۔خطبة الغدیر محمد حسین صغیر اصفھا نی ۔

۷ا۔خطبہٴ غدیر خم ،عباس جبروتی قمی ۔

۸ا۔خطبہٴ غدیریہ ،عا صی محمد میرزا ۔

۹ا۔غدیریہ ملا مسیحا ۔

۲۰۔غدیریہ ،ملا محمد جعفر ۔

ا۲۔مھر آب خم ،سید علی رضوی ۔

۲۲۔یک جر عہ از غدیر ،شعرائے قم ۔

۲۳۔صھبا ئے غدیر ،شعرا ئے ہند ۔

۲۴۔ترانہٴ غدیر سید محمد رضا سا جد زید پوری ۔

عصر حا ضر میں شعر غدیر

ھما رے دور میں شعر غدیر نے ادبی پھلو وٴں سے بڑھکر مخصوص تبلیغی شکل اختیار کر لی ھے اور اس کا مشاھدہ بہت سی کتابوں ،رسالوں ، اخباروں ،ریڈیو ،ٹیلیویزن اور کمپیوٹرکے پروگراموں میں کیا جا سکتا ھے محفلوں میں مدح کی صورت، آڈیواور ویڈیو کیسٹ اور کمپیو ٹر سی ڈی یھاں تک کہ انٹر نیٹ کے ذریعہ نشر کئے جا نے والے پرو گراموں سے استفادہ کیا جا سکتا ھے جن سے غدیر ی اشعار کو ایک نئی زندگی ملی ھے ۔

ھم کتاب کے اس حصہ میں آپ کی خدمت میں عربی ،فارسی ،اردو اور ترکی ادب میں اعتقاد، ولایت اور ادبی اعتبار سے خاص اھمیت کے حامل اشعارچار حصوں میں پیش کرتے ھیں :

شعر اور ادب عربی

سب سے پھلے پیغمبر اکرم (ص)کی اجازت خود آپ ھی کے حضور حسان بن ثابت کے اشعار پڑھے گئے ان میں سے حساس اشعار مندرجہ ذیل ھیں :[138]

اٴلم تعلمو ا اٴنَّ النَّبیَّ محمَّداً لدیٰ دَوح خم حین قام منادیاً

فقال لھم من کنت مولاہ منکم وکان لقولی حافظاً لیس ناسیاً

فمولاہ من بعدی علیّْ وانَّنی بہ لکم دون البر یَّة راضیاً

ترجمہ :”کیا تم کونھیں معلوم کہ پیغمبر اکرم(ص) جب مقام خم کے درختوں کے نیچے قیام پذیر هوئے

تو مسلمانوں سے کھا کہ میں تم میںسے جس کا مولا هوں اور اسکو میر ی بات یاد بھی رھے

تو اس کو معلوم هونا چاہئے کہ میرے بعد علی مولا ھیں اور میں مولاکے عنوان سے فقط انھیں سے راضی هوں کسی اور سے نھیں ۔

معاویہ نے ایک خط میں علی (ع) کے مقابلے میں اپنے افتخارات کا دعویٰ کیا تو مولائے کائنات نے اس خط کے جواب میں اشعار تحریر فرمائے جس میں بعض اشعار غدیر کے بارے میں تھے : [139]

محمد النبی اٴخی وصنوی وحمزة سید الشھداء عمّی

واوجب لی ولایتہ علیکم رسول اللہ یوم غدیر خم

واوصانی النبی علی اختیار لاٴمّتہ رضیً منکم بحکمی

اٴلا من شاء فلیوٴمن بھذا والا فلیمُتْ کَمَداً بغمّ

فویل ثم ویل ثم ویل لمن یلقی الالہ غداً بظلمی

ترجمہ :”محمد نبی میرے بھائی میں اورحمزہ سیدا الشھداء میرے چچا ھیں ۔

غدیر خم کے مقام پر ۱۸ ذی الحجہ کو رسول خدا نے تم پر مجھ کو اپنی جانب سے حاکم قرار دیا ھے ۔

اور نبی نے مجھ کو اپنی امت کے سلسلہ میں منتخب هونے کی وصیت کی کیونکہ تم میرے حاکم هونے پر راضی تھے ۔

آگاہ رهو کہ جس کا دل چاھے وہ اس مطلب پر ایمان لائے ورنہ حسد اور غم کے مارے مرجائے

تو افسوس ھے افسوس ھے افسوس ھے اس شخص پر جو بروز قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے کہ مجھ پر ظلم کرچکا هو ۔

ہناد بن سری کہتا ھے کہ: میں نے حضرت علی علیہ السلام کو ایک شب خواب میں دیکھا تو آپ نے فرمایا :میرے لئے کمیت کے وہ اشعار پڑھو جس میں اس نے کھا ھے کہ :”ویوم الدوح دوح غدیرخم ۔۔۔“

میں نے آپ کی خدمت اقدس میں وہ اشعار پڑھے تو آپ نے فرمایا :میرا یہ شعر بھی اس میں اضافہ کرلو :[140]

ولم اٴر َمثل ذلک الیوم یوماً ولم اٴرَ مثلہ حقاً اٴُضیعا

ترجمہ :”میں نے اس دن کی طرح کسی دن کونھیں پایا اور نہ مولائے علی کے حق جیساضائع هونے والا حق دیکھا۔

جنگ صفین میں امیر المو منین علیہ السلام کے لشکر کے کمانڈرقیس بن سعد بن عبادہ نے آپ کے لئے یہ اشعار پڑھے :[141]

قلت لما بغی العدوّعلینا حسبنا ربنا و نعم الو کیل

وعلیُّ امامنا وامام لِسِوانا اٴَتی بہ التنزیل

ومن قال النبی:من کنت مولاہ فھذا مولاہ خطب جلیل

ترجمہ :”جب ھم پر دشمن نے حملہ کیا تو میں نے کھا کہ ھمارے لئے ھمارا پروردگار کافی ھے ۔اور وہ بہتر ین ضامن ھے ۔

علی علیہ السلام ھمارے امام ھیں اور ھمارے غیروں کے بھی امام ھیں اس سلسلہ میں قرآن کی آیت گواہ ھے ۔

اس سلسلہ میں نبی کا یہ قول بھی اھمیت رکھتا ھے ھے کہ جس کا میں مولا هو ں اس کے علی بھی مولا ھیں سید باقر رضوی ہندی متوفی (۱۳۲۹ ء) کہتے ھیں :

میں نے شب عید غدیر امام زمانہ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ بڑے غمگین اور گریہ کررھے تھے ۔میں آپ کی خدمت بابرکت میں پهونچا ،سلام کیا ھاتھوں کا بوسہ لیا لیکن میں نے مشاھدہ کیا کہ آپ متفکر ھیں میں نے عرض کیا میرے مولا یہ ایام تو خو ش هونے اور عید غدیر کا جشن منانے کے ایام ھیں لیکن میں آپ کو ملول، رنجیدہ خاطر اور گریاں دیکھ رھا هوں ؟فرمایا :مجھے اپنی جدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کا غم یاد آگیا ھے۔اس کے بعد آپ (ع) نے یہ شعر پڑھا :

لا ترانی اتّخذتُ لا و عُلا ھا بعد بیت الاٴ حزان بیت سرور!

ترجمہ :”جناب فاطمہ کے عظیم مرتبہ کی قسم بیت الا حزان کے بعد تم مجھ کو کوئی خوشی کا گھر انتخاب کرتے هوئے نھیں دیکھوگے ۔

سید باقر کہتے ھیں میںنیند سے بیدار هوا، غدیر اور مصائب حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے بارے میںچند اشعار لکھے جن کا کچھ حصہ مندرجہ ذیل ھے :

کلُّ غدر وقول افک وزور ھو فرع عن جحد نص الغدیر

یوم اٴوحی الجلیل یاٴمرطہ وھوسارً اٴن مُر بترک المسیر

حطَّ رحل السری علی غیر ماء وکِلا ،فی الفلا بحرَّ الھجیر

ثمَّ بلَّغھم والا ّفما بلَّغت وحیاً عن اللطیف الخبیر

اٴقِم المرتضی اماماًعلی الخل ق و نور اًیجلودجی الدیجور

فرقی آخذا ً بکفَّ علیَّ منبراً کان من حدوج وکور

ودعا والملا حضور جمیعاً غَیَّبَ اللہ رشد ھم من حضور

انَّ ھذا اٴمیر کم وولیّ ال اٴمربعدی ووارثی ووزیری

ھو مولی لکل من کنت مولا ہُ من اللہ فی جمیع الاٴمور

اٴفصبراً یاصاحب الاٴمر والخط ب جلیل یذیب قلب الصبور

وکاٴنّی بہ یقول ویبکی بسلوَّ نزر و دمع غزیر

لا ترانی اتّخذتُ لا وعُلا ھا بعد بیت الاٴ حزان بیت سرور!

فمتیٰ یابن احمد تنشرالطاغوت والجبت قبل یوم النشور

ترجمہ :”ھر طرح کی غداری اور بہتان ،اور جھوٹ روایت غدیر کا انکار کرنے کی وجہ سے ھے ۔

جس دن خداوند جلیل نے رسول گرامی کو وحی کے ذریعہ یہ حکم دیا کہ

بے آب دانہ مقام پر جنگل مےں تپتی دھوپ مےں قافلہ روک دیا جائے یہ اس حال مےں تھا کہ رسول مکہ مدینہ کی طرف روانہ هوئے

پھر رسول کو حکم ملا کہ لوگوں تک پیغام الٰھی پہنچا دیجئے ورنہ آپ نے خدا وند لطیف وخبیر کی جانب سے کوئی حکم نھیں پہنچایا ۔

علی مرتضیٰ کو مخلوقات کا امام اور ایسا نور قرار دید یجئے جو تاریکیوں کے اند ھیرے کو ختم کردے اسی وقت رسول کجاووں کے منبر پر مولا ئے کائنات کے ھاتھ کو پکڑ کر تشریف لے گئے

اور دعا کی جبکہ تمام لوک موجود تھے وہ لوک اس طرح کے تھے کہ ھدایت الٰھی سے فیض اٹھا نے سے قاصر تھے۔

رسول نے فرمایا یہ تمھارے امیر اور میرے بعد تمھارے امور کے ذمہ داروارث اور وزیر ھیں ۔

تمام امور مےں خدا کی جناب سے ھر اس شخص کے مولا ھیں جس کا مےں مولاهوں۔

لہٰذا اے امام زمانہ آپ صبر کیجئے حالانکہ مصیبت اتنی عظیم ھے کہ صابر شخص کے دل کو پگھلادیتی ھے۔

اس وقت مجھ کو محسوس هوا گویا ا مام زمانہ شدت سے روتے هوئے فرمارھے ھیں :

جناب فاطمہ کے عظیم مرتبہ کی قسم بیت الا حزان کے بعد تم مجھ کو کوئی خوشی کا گھر انتخاب کرتے هوئے نھیں دیکھوگے ۔

اے فرزند رسول قیامت سے پھلے آپ کب سرکشوں کو سزا دیں گے ۔

اب آپ کے بعد مختلف شعراء کے اشعار ملا حظہ فرما ئیں

سید حمیری

وکم قد سمعنا من المصطفی وصایا مخصَّصة فی علیّ

وفی یوم خم رقی منبراً یبلغ الرکب و الرکب لم یرحل

فبَخبَخَ شیخک لمّا رآی عری عقد حیدر لم تحلل

ترجمہ: ”ھم نے مولا ئے کا ئنات کے سلسلہ مےں رسول گرامی سے کتنی زیادہ خصوصی سفارشیں سُنی ھیں

اور غدیر خم کے میدان مےں آپ منبر پر تشریف لے گئے اور وھاں جاکر موجود افراد تک حکم الٰھی پہنچا یا ۔

اس وقت جب تمھارے بزرگ نے دیکھا کہ مولا ئے کائنات کے عقدوں کو کھلتے هو ئے نھیں دیکھا تو مبارک بادپیش کی ۔

ابن رومی

قال النبی لہ مقالاًلم یکن یوم الغدیر لسامعیہ مُجمجماً

من کنت مولاہ فھذا مولی لہ مثلی واٴصبح بالفخار متوّجاً

ترجمہ :”نبی(ص) نے غدیر کے میدان مےں علی (ع) کے متعلق ایک ایسی بات کھی جو سامعین کےلئے مبھم نہ تھی ۔

آپ نے فرمایا جس جس کا مےں مولاهو ں اس کے علی بھی مولا ھیں چنانچہ آپ کے سرپر فخر کا تاج پہنا دیا گیا ۔

شریف رضی

غدر السرور بنا وکان وفاوٴہ یوم الغدیر

یوم اٴطاف بہ الوصی وقد تلقّب بالاٴمیر

فتسلّ فیہ وردَّعا ریة الغرام الی المعیر

ترجمہ :”خوشی نے ھم سے بے رخی کی اور وفاداری غدیر کے دن کی ۔

جس دن میدان غدیر مےں رسول(ص) کے وصی علی (ع) پہنچے

لہٰذا غدیر کے دن اپنا غم دور کرو اور آسودہ خاطر هوکر رهو ۔

سید مر تضیٰ

للہ درّ یوم ما اٴشرفا ودرّ ما کان بہ اٴعرفا

ساق الینا فیہ ربّ العلی مااٴمرض الاٴعداء اٴو اٴتلفا

ترجمہ :”اور غدیر کا کیا کہنا اس کے شر ف کا کیا کہنا اور اس مےں پہچنوائی جانے والی ھستی کا کیا کہنا۔

اس دن پر وردگار عالم نے ھم کو ایسی خوشی تحفہ مےں دی جس کی وجہ سے دشمن یا بیمار پڑگئے یا نابود هوگئے ۔

مھیار دیلمی

واساٴ لھم یوم خم بعد ما عقدوا لہ الو لایة لِمَ َ خانوا ولِمََ خَلَعوا

قول صحیح ونیّات بھا نَفَل لاینفع السیف صقل نحتہ طبع

انکار ھم یااٴمیرالموٴمنین لھا بعد اعترافھم عاربہ ادّر عوا

ترجمہ :”ذرا ان سے پو چھو توکہ جب وہ غدیرمےں علی سے ولایت کاعھد کرچکے تھے توکیوں خیانت کی اور علی کو منصب خلافت سے کیوں دور کردیا ۔

اے مولا ئے کائنات اقرار کے بعد منکر ولایت هوجانا باعث ننگ دعارھے جسکو انھوں نے سپر قرار دے رکھاھے ۔

فنجکر دی

لا تنکرنَّ غدیر خمّ انّہ کا لشمس فی اشراقھا بل اٴظھر

ماکان معروفاً باٴسناد الی خیر البر ایا اٴحمد لا یُنکر

فیہ امامة حیدر وکمالہ وجلالہ حتی القیامة یذکر

ترجمہ :”خبر دارکبھی غدیر خم کا انکار نہ کرنا کیو نکہ غدیر خم درخشند گی مےںسورج کے مانند بلکہ اس سے بھی زیادہ رو شن ھے ۔

جو واقعہ بہترین مخلوق محمد مصطفٰے کی جانب بہت سی اسناد کے ذریعہ مشهور هواس کا انکار نھیں کیا جاسکتا ۔

اس مےں مولا ئے کائنات کی امامت مستقرهوگی اور قیامت تک آپ کے کمال اور جلال کا ذکر کیا جائیگا

ابو محمد حلّی

واذا نظرت الی خطاب محمد یوم الغدیر اذاٴستقرالمنزل

من کنت مولاہ فھذاحیدر مولاہ لایر تاب فیہ محصّل

لعرفتَ نصّ المصطفی بخلافة من بعدہ غرّاء لایتاٴوَّل

ترجمہ :”جب کا روا ن ٹھھر نے کے وقت غدیر میں رسول کے اس خطاب کی طرف آپ توجہ کریں گے کہ میں جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی بھی مو لا ھیں ۔

تو آپ کو معلوم هوجا ئیگا کہ رسول نے جو اپنے بعد علی کی خلافت کی بات کھی ھے وہ بہت روشن ھے اور اس کی تاویل نھیں کی جا سکتی ھے ۔

ابو عبداللہ خصیبی

انَّ یوم الغدیریوم سرور بیَّن اللہ فیہ فضل الغدیر

وحباخمّ با لجلالة والتف ضیل والتحفة التی فی الحبور

یوم نادی محمد فی جمیع ال خلق اذقال مفصح التخییر

قائلا للجمیع من فوق دوح جمعوہ لاٴمرہ المقدور

فصدد تم عنہ ولم تستجیبوا وتعرَّضتم لافک وزور

ثم قلتم قد قال :من کنت مولاہ فھذا مولاہ غیر نکیر

ترجمہ :”غدیر کا دن یقیناً خوشی کا دن ھے اس میں خدوند عالم نے غدیر کی فضیلت کا تذکرہ فرمایا ھے

اور غدیر خم کو جلالت ،فضیلت اور تحفہ بخشا ھے جو دانشمندوں سے مخصوص ھے ۔

جس دن رسول نے تمام مخلوقات کو مخاطب کیا اور آپ نے یہ خطاب بڑے بڑے درختوں کے نیچے سے کیا ۔

لیکن تم نے ان کی بات نہ مانی اور جھوٹ و بہتان کا سھارا لیا ۔

پھر تم نے کھا کہ رسول نے فرمایا ھے کہ جس کا میں مولا هوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں ۔

ناشی صغیر

وصارمہ کبیعتہ بخمًّ معاقدھا من القوم الرقاب

علیّ الدّر والذھب المصفّی وباقی الناس کلھم تراب

ترجمہ :”غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کی تلوار آپ کی بیعت کی طرح ھے کہ جس طرح تلوار گردنوں پر پڑتی تھی اسی طرح یہ بیعت ان کی گردنوں میں آگئی ۔

علی (ع) موتی اور خالص سونا ھیں اور باقی لوگ مٹی کی طرح بے حیثیت ھیں۔

بولس سلامہ مسیحی

عاد من حجة الو داع الخطیر ولفیف الحجیج موج بحور

لجة خلف کا نتشار الغیم صبحاً فی الفدفد المغمور

بلغ العائدون بطحاء خمًّ فکاٴنَّ الرکبان فی التنور

عرفوہ غدیر خم و لیس الغ ور الاّ ثمالة من غدیر

جاء جبریل قائلاً :یا نبی اللہ بلَّغ کلام ربّ مجیر

اٴنت فی عصمة من الناس فانثر بینات السماء للجمھور

واٴذِعھا رسالة الله وحیاً سر مدیاً و حجة للعصور

مادعاھم طہ لاٴمریسیر وصعید البطحا ء وھج حرور

وارتقی منبرالحدا ئج طہ یشھرالسمع للکلام الکبیر

اٴیھاالناس انما الله مو لا کم و مو لا ی نا صری و مجیری

ثم انی ولیُّکم منذ کان الدھر طفلاًحتی زوال الدھور

یاالھی من کنت مو لاہ حقاً فعلیٌ مو لاہ غیر نکیر

یاالھی وال ِ الذین یوالوان ابن عمی وانصرحلیف نصیری

کن عدوّاً لمن یعا دیہ واخذل کل نکس وخاذل شریر

قالھاآخذاًبضبع علی رافعاًساعد الھمام الھصور

لاح شَعر الابطین عند اغتناق الزند للزند فی المقام الشھیر

بثَّ طہ مقالہ فی علی واضحاًکالنھار دون ستور

لامجازولاغموض ولبس یستحثّ الاٴ فھام للتفسیر

فاٴ تاہ المھنَّؤ ن عیون القوم یبدون آیة التو قیر

جاء ہ الصا حبان یبتدران القول طلاّ علی حقاق العبیر

بتَّ مولی للموٴ منین ھنیئاً للمیامین بالامام الجدیر

ھنّاٴ تہ اٴزواج اٴحمد یتلوہنَّ رتل من الجمیع الغفیر

عیدک العید یا علی فان یص مت حسود اٴوطا مس للبدور

ترجمہ :”عظیم المرتبت رسول (ص)حجة الوداع سے واپس هوئے جبکہ حاجیوں کا مجمع ٹھاٹھیں مار رھاتھا ۔

مجمع بہت زیادہ پانی کی طرح تھا لگ رھاتھا جیسے صبح کے وقت

حج سے لوٹنے والے وادی خم میں پهونچے لگ رھاتھا گویا وہ لوگ تنور میں پهونچ گئے ھیں ۔

انھوں نے اس جگہ کو غدیر خم کے نام سے پہچانا

جبرئیل نے آکر نبی سے کھا اے نبی خدا ،خدا کا پیغام پهونچا دیجئے

آپ لوگوں کے شر سے محفوظ رھیں گے لہٰذا آسمانی پیغام لوگوں تک پهونچا دیجئے ۔

اس پیغام کو پهونچا دیجئے تاکہ یہ پیغام آنے والے زمانوں کیلئے حمیت رھے ۔

پیغمبر نے ان کو ایک آسان امر کیلئے دعوت نھیں دی جبکہ سر زمین غدیر دھوپ سے تپ رھی تھی ۔

رسول کجاووں کے منبر پر تشریف لے گئے تا کہ پورا مجمع ان کا کلام سن سکے۔

لوگو! بیشک اللہ تمھارا اور میرا مولا و مددگار ھے اور مجھے پناہ دینے والا ھے ۔

پھر اس کے بعد میں بچگی سے لیکر قیامت تک تمھارا ولی هوں ۔

بار الٰھا جس کا میں حقیقی مو لا هوں یقیناً علی بھی اس کے مو لا ھیں ۔

بار الٰھا جو میرے چچا زاد بھا ئی سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت کر اور جو ان کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر ۔

جو ان سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور ھر رسوا کرنے والے کو رسوا کردے ۔

آپ نے مولائے کا ئنات کا بازو پکڑ کر اس حال میں کھا کہ آپ کی سفیدی ٴ بغل نمودار تھی۔

آپ نے مولائے کائنات کے سلسلہ میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح طور پرکھی۔

مجاز گو ئی اور پیچید گی کا استعمال نھیں کیا کہ سمجھنے والوں کو دشواری کا سامنا هوتا ۔

اس وقت مبارکباد پیش کرنے والے قوم کے نمایاں افراد آپ کے پاس تہنیت پیش کرنے آئے ۔

ابو بکر اور عمر بھی تیزی سے آپ کے پاس مبارکباد پیش کرنے کے لئے آئے ۔

مو لائے کائنات مو منین کے مولا هو گئے لائق امام کے ذریعہ برکت پانے والوں کا کیا کہنا

آپ کو ازواج نبی نے بھی مبارکباد پیش کی اس کے بعد جم غفیر نے بھی مبارکباد پیش کی

اے علی (ع) آپ کی عید عید ھے اس مو قع پر حسد رکھنے والا ھی خا موش هوگا یا چاند کو بے نور سمجھنے والا ھی آپ کی ولایت کا انکار کرے گا ۔

معرو ف عبد الجید مصری

وُلّیتَ فی یوم الغدیر بآ یة شھدالحجیج بھا ،فکیف توٴوَّل؟

اٴنت الو لیُّ،ومن سواک معطّل عنھا ،واجماع السقیفةبا طل

فا ذا اٴتی یوم الغدیر تنزَّلت آیات ربَّک کا لنجوم اللمّعِ

قم یامحمد انّھا لرسا لة ان لم تبلّغھا فلست بصادع ِ

وقف الرسول مبلَّغاًومنادیا ً فی حجة التودیع بین الاٴربُعِ

و اٴ بو تراب فی جوارالمصطفیٰ طلق المحیّا کا لھلال الطالعِ

رفع النبیّ ید الوصیّ وقال فی مراٴ یٰ من الجمع الغفیر و مسمعِ

”من کُنت مولاہ فھٰذا المر تضیٰ مولی لہ “۔۔۔فبخٍ بخٍ لسمیدعِ۔۔۔!

وسَعَت جموعُ الناس نحواٴمیرھا مابین مقطوع الرجا ،و مبا یعِ۔۔۔!

وصیّ بھا مو سی، و ھذا اٴحمدٌ وصیّ اٴخا ہ،فذلَّ من لم یبخعِ ۔۔۔!!

ترجمہ :”غدیر کے دن آپ ایسے عھدے کے ذمہ دار قرار دئے گئے جس کا حجاج نے مشاھدہ کیا تو بھلا اس کی کیسے تاویل ممکن ھے ؟!

آپ ولی ھیں آپ کے علاوہ سب ولایت سے در کنار ھیں اور سقیفہ کا اجماع باطل ھے ۔

تو جب غدیر کا دن آیا تو آپ کے پروردگار کی آیات درخشاں ستاروں کی طرح نازل هوئیں ۔

اے محمد آپ کھڑے هو جائیے کیونکہ یہ ایسا پیغام ھے کہ اگر آپ نے اس کو نھیں پهونچایا تو گویا رسالت کا کو ئی کام ھی انجام نھیں دیا ۔

اس وقت رسول حجة الوداع کے مو قع پر اس حالت میں حکم الٰھی کی تبلیغ کے لئے کھڑے هوئے آ پ کے پھلو میں مو لائے کا ئنات تھے ۔

آپ نے مو لائے کائنات کا ھاتھ اٹھاکر مجمع کے سامنے کھا

جس جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی مو لا ھیں اس سردار کو ولایت مبارک هو ۔

لوگوں کا مجمع اپنے امیر کی طرف بڑھنے لگا کچھ لوگوں کی اس ولایت کے ذریعہ امیدیں ٹوٹ گئی تھیں اور کچھ نے دل سے بیعت کی تھی ۔

اس ولایت کے سلسلہ میں مو سیٰ نے بھی وصیت کی تھی اور یھاں پیغمبر نے اپنے بھائی کو وصیت کی تو اس کا انکار کرنے والا ذلیل ھے ۔

معروف عبد المجید مصری کا ایک ادبی شہ پارہ :

واختزنت ذاکرةُ العالمِ

اٴحداثَ الیوم الموعودِ

لتشھدھاالاٴجیالُ

و یفطنَ مغزاھاالحکماء ۔۔۔

و تد لَّت من اٴغصان الغرقَد

حبّاتُ ند یً فضّیًّ

و قفت تقطفھاالزھراء ۔۔۔

ھی ذی اٴودیة سالت لعلیًّ

بالوحی علی البطحا ء ۔۔۔

فاندثرت اٴ حلام قریشٍ

وتلاشت محضَ ھبائ

ویقال باٴنّک الماٴموربتبلیغ التنزیل

افترش الصحراء

وجمع وفودالرحمٰن

عن شطآن غدیرالوعی

وآخذبیدک ۔۔۔ونادی :

من کنت اٴنامولاہ ۔۔۔فھذامولاہ ۔۔۔

ذیل میں ایک ادبی قطعہ معروف عبد المجید مصری سے ملا حظہ فر مائیے :

دنیا کے ذہن میں اس یوم مو عود کے واقعہ محفوظ ھیں تا کہ نسلیں اس کی گواہ رھیں اور حکماء اس کے مفهوم کی طرف متوجہ رھیں ۔

درخت کی شاخوں پر چاندی جیسی شبنم کے قطرے آویزاں تھے

جن کو جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کھڑی هو کر چُن رھی تھیں

یہ شبنم کے قطرے ایسی وادی رکھتے تھے

جو علی کے لئے غدیر کے مقام پر وحی کے ذریعہ جاری هو ئیں ۔

اس وقت قریش کے خواب ٹوٹ گئے

اور بکھرے هوئے ذروں کی طرح پھیل گئے ۔

اس وقت رسول سے کھا جا رھا تھا کہ آپ کی ذمہ داری پیغام الٰھی کو پهونچانا ھے

بیابان لوگوں سے پُر هو گیا

خدا وند عالم کے وفد اکٹھا هو گئے ۔

تاکہ غدیر کا پیغام سنیں

رسول نے آپ کا ھاتھ پکڑ کر آواز دی

جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی بھی مو لا ھیں ۔

سب سے پھلے آنحضرت (ص) کے حضور میں جو اشعار پڑھے گئے وہ حسان بن ثابت کے اشعار ھیں کہ جن کی حساس بیت یہ ھے :[142]

--------------------------------------------------------------------------------

[1] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۹۳۔بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۶،۱۶۲،۱۶۷۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۵۶، ۵۷، ۱۲۹، ۱۴۴۔ اس واقعہ کی تفصیل اسی کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم میں ملا حظہ کیجئے ۔

[2] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۰،۱۶۱۔عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۸۵،۱۳۶۔اس واقعہ کی تفصیل اسی کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم میں ملا حظہ کیجئے ۔

[3] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۵۳۔

[4] بحا رالانوار جلد ۴۱صفحہ ۲۲۸۔

[5] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۵۴حدیث ۸۹۔

[6] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۵۴حدیث ۸۹۔

[7] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۰۹حدیث ۲۔

[8] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۱۱حدیث ۴۶۵۔

[9] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۶حدیث ۵۳۵۔

[10] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۸حدیث ۷۲۔

[11] بحا الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۲۴۸۔

[12] بحا الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۱۸۶،اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۱۵۔

[13] بحار الانوار جلد ۲۸ صفحہ ۲۷۳۔

[14] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ ۳۔۱۸۔

[15] بحا الانوار جلد ۴۱ صفحہ ۲۲۸۔

[16] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ۵ ۳۔۳۷۔

[17] بحا الانوار جلد ۲۹ صفحہ ۴۶۔۶۲۔

[18] کتاب سلیم حدیث ۱۴۔

[19] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۳۳۲،۳۵۱،۳۷۳،۳۸۱۔

[20] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۳۶۱۔

[21] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۱۰۔۴۱۲۔

[22] بحا الانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۱۶،۴۱۷۔

[23] کتاب سلیم حدیث۱۱۔

[24] الغدیر جلد ۱صفحہ ۱۸۶۔

[25] بحا رالا نوار جلد ۳۲صفحہ ۳۸۸۔

[26] کتاب سلیم حدیث ۲۵۔

[27] کتاب سلیم حدیث ۲۵۔

[28] بحا ر الانوار جلد ۳۸صفحہ ۲۳۸حدیث ۳۹۔

[29] مناقب ابن شھر آشوب جلد ۳صفحہ ۸۰۔

[30] بحارالانوار جلد ۹۴صفحہ ۱۱۴۔۱۱۵۔

[31] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۷،جلد ۳۷صفحہ ۱۹۹۔ عوالم ۱۵/۳صفحہ ۸۹۔۴۹۰۔الغدیر جلد ۱صفحہ ۹۳۔

[32] بحا رالانوار جلد ۳۰صفحہ ۱۴۔

[33] بحا رالانوار جلد ۳۹صفحہ ۳۳۶حدیث/۵۔

[34] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۳۴۔

[35] کتاب سلیم حدیث/ ۶۰۔

[36] فضائل شاذان صفحہ ۸۴۔

[37] کتاب سلیم حدیث /۸۔

[38] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۳۔

[39] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۱۱۱حدیث/۴۶۵۔

[40] بحا رالانوار جلد ۳۸صفحہ ۲۴۰۔

[41] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۹۷۔

[42] بحارالانوار جلد ۳۶صفحہ ۳۵۲،الغدیرجلد ۱صفحہ ۱۹۷،اثبات الھدات جلد ۲صفحہ ۱۱۲۔

[43] بحارالانوار جلد ۲۸صفحہ۲۰۵۔

[44] بحار الانوار جلد ۴۳صفحہ ۱۶۱۔

[45] بحار الانوار جلد ۱۰صفحہ۳۹ ۱۔

[46] بحار الانوار جلد ۴۴صفحہ ۷۵۔

[47] کتا ب سلیم حدیث ۲۶۔

[48] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ حدیث ۱۳۹۔

[49] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۰۱حدیث ۸۶۔

[50] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۰حدیث ۳۴۔

[51] بحار الانوار جلد ۳۵صفحہ ۳۱۱۔

[52] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ حدیث ۱۴۰۔

[53] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۴ ۱حدیث ۵۸۴۔

[54] بحار الانوار جلد ۲۱صفحہ ۳۳۹۔

[55] اثبات الھدات جلد ۱صفحہ ۵۲۶حدیث ۲۸۵۔

[56] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۶۴ ۱حدیث ۷۳۶۔

[57] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۴۰ حدیث ۳۳۔

[58] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۰۸ ۔

[59] بحا رالا نوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۰۳ ۔

[60] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۴حدیث ۷۔

[61] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۷حدیث ۱۸۔

[62] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۶حدیث ۶۷،صفحہ ۲۱حدیث۸۷۔

[63] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۸ ۷حدیث ۳۲۷۔

[64] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۹۱۔

[65] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۲حدیث ۵۰۵۔

[66] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۶ ۱۲حدیث ۵۳۵۔

[67] بحا ر الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۲۔

[68] بحا رالانوار جلد ۶ صفحہ ۵۳۔

[69] بحا رالانوار جلد ۴۸صفحہ ۱۴۷۔

[70] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ۱۰۳حدیث ۴۲۵۔

[71] غیبت نعمانی صفحہ ۲۱۸حدیث۶۔

[72] بحا رالانوار جلد ۹۷صفحہ ۳۶۰۔

[73] بحا رالانوار جلد ۲صفحہ۲۲۶حدیث ۳۔

[74] بحا رالانوار جلد ۵۰صفحہ ۳۲۱۔

[75] اثبات الھداة جلد ۲صفحہ ۱۳۹حدیث۶۰۶۔

[76] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۹۳حدیث۷۶۔

[77] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۳۳حدیث۳۰۔

[78] نز ھة الکرام (رازی):جلد ۱صفحہ ۳۰۱۔۳۰۲۔ قبیلہٴ مالک کی بیٹیوں میںسے حنفیہ کی داستان جو قید کر لی گئیں تھیں اسی اتمام حجت کے چوالیسویں(۴۴) نمبر میں بیان کی جا ئے گی ۔

[79] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۷،۱۳۱۔

[80] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۹۳،۱۹۴۔

[81] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۹۸۔اثبات الھداةجلد ۲ صفحہ ۱۵۹حدیث۷۱۰۔

[82] مثالب النواصب (ابن شھر آشوب)خطی نسخہ صفحہ ۱۳۴۔

[83] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۰۳۔

[84] بحا ر الانوار جلد ۲۸صفحہ ۲۰۰۔

[85] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۱۸۸۔

[86] بحا رالانوار جلد ۲۹صفحہ ۱۶۶۔

[87] کتاب سلیم حدیث ۲۶۔

[88] کتاب سلیم حدیث ۳۹۔

[89] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۳،۱۲۴۔

[90] بحا رالا نوار جلد ۲۸صفحہ ۲۲۳۔

[91] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۲۰حدیث ۴۹۸۔

[92] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۵۔

[93] بحار الانوار جلد ۳۲صفحہ ۱۸۸حدیث ۱۳۸۔

[94] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۷۱حدیث ۳۰۹۔

[95] بحا ر الانوار جلد ۳۳صفحہ ۲۶۶۔

[96] کتاب سلیم حدیث ۴۲۔

[97] اثبات الھداة جلد ۲صفحہ ۱۲۰ حدیث۴۹۸۔

[98] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ۶۳۔

[99] بحار الانوار جلد ۲۹صفحہ ۹۲۔

[100] بحا رالانوار جلد ۳۳ صفحہ ۲۵۹۔

[101] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۶۸حدیث۱۰۴۔

[102] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۱۔

[103] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۳۴۔

[104] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۲۵۹حدیث۴۲۔

[105] الغدیرجلد۱ صفحہ۱۸۷۔۱۹۱۔

[106] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۵۷حدیث۳۶۴۔

[107] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۰۴حدیث ۴۲۸۔

[108] بحار الانوار جلد ۲۹صفحہ ۵۸۲حدیث۱۶۔

[109] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۷۳حدیث ۸۰۳۔

[110] العدد القویہ صفحہ ۱۶۹،التحصین صفحہ ۵۷۸،الصراط المستقیم جلد ۱ صفحہ ۳۰۱۔

[111] بحا رالانوار جلد ۳۱صفحہ ۴۴۷،جلد ۳۷صفحہ ۱۹۹۔الغدیر جلد ۱ صفحہ ۹۳۔

[112] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۵۲۔

[113] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۹۔

[114] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۴۹۔

[115] المسترشد صفحہ ۲۷۰حدیث۸۱۔

[116] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۴۹حدیث ۶۵۲۔ اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۴۹حدیث ۶۵۲۔

[117] ۔اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۲حدیث ۱۷۰۔

[118] بحا رالانوار جلد ۳۳صفحہ ۲۶۰حدیث۵۳۲۔

[119] بحا رالانوار جلد ۳۹صفحہ ۱۶۲حدیث۱۔

[120] بحا رالانوار جلد ۴۱صفحہ ۲۲۸۔

[121] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ۰ ۲حدیث ۱۰۱۵۔

[122] بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۰۸حدیث۱۔

[123] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۰۳۔

[124] بحا رالانوار جلد ۱ ۳۷صفحہ ۱۹۹۔

[125] کتاب سلیم حدیث ۵۵۔

[126] بحا رالانوار جلد ۴۰صفحہ ۴۱۔

[127] ثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۳۵حدیث ۱۴۷،صفحہ ۴۴حدیث۱۷۹۔

[128] الغدیر جلد ۱ صفحہ ۲۰۳۔

[129] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۔

[130] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۱۰۔

[131] کشف المھم صفحہ ۱۸۸۔

[132] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۱۲۔

[133] الغدیر جلد ۱صفحہ ۲۱۰۔

[134] تاریخ الاسلام (ذھبی )جلد ۲۳صفحہ ۲۸۳۔

[135] حا رالانوار جلد ۴۲صفحہ ۱۵۱۔

[136] بحا رالانوار جلد ۴۲صفحہ ۱۵۰ حدیث ۱۶۔

[137] بحار الانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۲۱حدیث ۱۵۔عوا لم جلد ۱۵/۳صفحہ ۴۴۔

[138] اس کا تفصیلی واقعہ کتاب کے دوسرے حصہ کی تیسری قسم میں بیان هوا ھے ۔

[139] بحارالانوار جلد ۳۷صفحہ ۱۳۱حدیث ۴۱۷،جلد ۳۸ صفحہ ۲۳۸حدیث۳۹۔

[140] بحارالانوار جلد ۳۵ صفحہ ۳۸۳ جلد ۲۶صفحہ۲۳۰۔

[141] بحارالانوار جلد ۳۷ صفحہ ۱۴۸۔

[142] اس کا مفصل واقعہ اسی کتاب کے تیسرے حصہ کے دو سرے بخش میں آیا ھے ۔                                       

اسرار غدیر

شعروادب فارسی

نظیری نیشاپوری

قسم بہ جان تو ای عشق ای تمامیِ ھست

کہ ھست ھستیِ ماازخمِ غدیرِتومَست

در آن خجستہ غدیرتودیددشمن ودوست

کہ آ فتاب بودآفتاب برسرِدست

فرازمنبر یوم الغدیراین رمزاست

کہ سرزجیب محمدعلی برآوردہ

حدیث لحمک لحمی بیان این معناست

کہ برلسان مبارک پیمبرآوردہ

”اے وجود کامل اے عشق تیری جان کی قسم کہ ھماری ھستی تیرے غدیر کے خم سے مست ھے۔

تیرے اس خجستہ اور مبارک غدیر میں دشمن اور دوست نے دیکھاکہ ایک آفتاب دوسرے آفتاب کے ھاتھوں پرتھا۔

یوم الغدیر کے منبر کے اوپر یہ راز ھے کہ محمد کے وجود سے علی نکلے ۔

حدیث” لحمک لحمی“ اس معنی کی بیان گر ھے کہ جس کو نبی (ص) نے اپنی زبان پر جاری کیا“

محمدجوادغفورزادہ(شفق)

جلوہ گرشدباردیگرطورسینادرغدیر

ریخت از خم ولایت می بہ مینادرغدیر

رودھابایکدگرپیوست کم کم سیل شد

موج می زدسیل مردم مثل دریادرغدیر

ھدیہٴ جبریل بود<الیوم اَکمَلْتُُ لَکُم>

وحی آ مددرمبارک بادمولی درغدیر

باوجودفیض<اَتْمَمتُ عَلَیکم نعمَتی>

ازنزول وحی غوغابودغوغادرغدیر

برسردست نبی ھر کس علی رادیدگفت

آفتاب وماہ زیبابودزیبادرغدیر

برلبش گلواژہٴ<مَنْ کُنْتُ مَولا>تانشست

گلبن پاک ولایت شدشکوفادرغدیر

(برکہٴ خور شید)درتاریخ نامی آشناست

شیعہ جو شیدہ ست ازآن تاریخ آنجادرغدیر

گرچہ درآن لحظہٴ شیرین کسی باورنداشت

می توان انکاردر یاکردحتی درغدیر

باغبان وحی می دانست ازروزنخست

عمرکوتاھی ست درلبخندگلھادرغدیر

دیدہ ھادرحسرت یک قطرہ ازآن چشمہ ماند

این زلال معرفت خشکیدآیادرغدیر؟

دل درون سینہ ھا در تاب وتب بود ای دریغ

کس نمی داند چہ حالی داشت زھرا درغدیر

” غدیر میں ایک بار پھر طور سینا متجلی هوگیاغدیر میںخم ولایت سے مینا میں شراب گری

دریا ایک دوسرے سے مل گئے اور رفتہ رفتہ سیلاب بن گئے غدیر میں لوگوں کا سیلاب دریا کی طرح مو جیں مار رھاتھا۔

غدیر میں جبرئیل کا ھدیہ ”الیوم اکملت لکم دینکم “تھاغدیر میں مولائے کائنات کو مبارکباد پیش کرنے کے لئے وحی نازل هوئی۔

”اتممت علیکم نعمتی “نبی کے فیض ِ وجود کی بناپرغدیر میں بہت شور وغل تھا۔

نبی کے ھاتھوں پرجس نے بھی علی کو دیکھا اس نے کھاغدیر میں آفتاب و ماہتاب نھایت ھی خوبصورت تھے ۔

حضور لب مبارک پر جیسے ھی ”من کنت مو لاہ “آیاغدیر میں ولایت کا چمن کھل اٹھا۔

تاریخ میں خورشید کا تالاب آشنا نام ھے وھاں غدیر میں اس سے شیعہ وجود میں آئے ھیں۔

اگرچہ اس شیرین لمحہ میں کسی کو یقین نھیں تھا کہ غدیر میں بھی دریا کا انکار کیا جا سکتا ھے ۔

غدیر میں وحی کا باغبان پھلے دن سے ھی جانتا تھا کہ غدیر میں پھولوں کی مسکراہٹ کی عمر مختصر ھے

اس چشمہ کی ایک بوند کی حسرت میںآنکھیں کھلی رھیں کیا غدیرمیں یہ معرفت کا چشمہ ٴ زلال خشک هوگیا۔

بیشک سینوں کے اندر دل بے چین تھے کہ کسی کو نھیں معلوم کہ غدیرمیںجناب فاطمہ (ص) کی کیا حالت تھی ؟“

سید رضا موید :

از ولا یتعھدی حیدرخدا تاج شرف

باردیگر بر سر زھرا ی اطھر می زند

در حریم ناز وعصمت زین ھمایون افتخار

فاطمہ لبخندبرسیمای شوھرمیزند

این بشارت دوستان راجان دیگر می دھد

دشمنان را این خبر ،بر قلب خنجر می زند

باز تابید از افق روز درخشانِ غدیر

شد فضا سر شار عطرِگل زبستان غدیر

موج زددریای رحمت در بیابان غدیر

چشمہ ھای نو رجاری شد زدامان غدیر

شد غدیر خم تجلیگاہ انوار خدا

تا در آنجا جلوہ گر شد نور مِصباحُ الھُدا

آفرینش را بُوَد بر سوی آن سامان نگاہ

ماسوی اللّٰہ منتظر تا چیست فرمان اِلہ

ناگھان خَتمِ رُسُل آن آفتاب دین پناہ

بر فراز دست می گیردعلی را ھمچو ماہ

تا شناساند بہ مردم آن ولی اللّٰہ را

والِ مَن والا ہ خواند ،عادِمَن عادہ را

ای غدیر خم کہ ھستی روز بیعت باامام

بر تو ای روز امامت از ھمہ امت سلام

از تو مُحکم شد شریعت ،وز تو نعمت شد تمام

مابہ یاد آن مبارک روز و آن زیبا پیام

ازوِلای مُرتضی دل را چراغان می کنیم

بار علی بار دگر تجدید پیمان می کنیم

خط سُرخی کز غدیر خم پیمبر باز کرد

باب رحمت را از اول تا آخر باز کرد

بر جھان ما سوی حق را ہ دیگر باز کرد

از بھشت آرزوھا بر بشر دَر باز کرد

از غدیر خم کمالِ شرع پیغمبر شدہ است

مُھر این فرمان بہ خون مُحسن و اصغر شدہ است

این خدائی روز ،بر شیر خدا تبریک باد

بر تمام اَنبیا واولیا تبریک باد

یا امام العصر این شادی تو را تبریک باد

چھاردہ قرن امامت بر شما تبریک باد

سینہ ھا از داغ ھِجران داغدارت تابہ کِی

چون(موٴید) شیعیان در انتظارات تابہ کِی

”خدا نے حیدر کی ولایت عھدی کاتاج شرف دوسری مرتبہ زھرائے اطھر کے سر پر رکھا

اس قابل فخر کی ھستی کی بنا پرحریم عصمت میںفاطمہ (ص) اپنے شوھر نامدار کے چھرے کو دیکھ کر مسکراتی ھیں

یہ بشارت دوستوں کا حو صلہ بڑھا تی ھے اور اس خبر سے دشمنوں کے دل پرخنجر لگتا ھے ۔

زمین سے دوبارہ غدیر کا چمکتا هوا دن نکلابوستان غدیرکے پھول سے فضا معطر هو گئی

صحرائے غدیر میں دریائے رحمت موج مارنے لگاغدیر کے دامن سے نورکے چشمے بہنے لگے

غدیر خم انوار خدا کی تجلی گاہ بن گیایھاں تک کہ وھاں سے مصباح الھدیٰ کا نور جلوہ گر هو گیا

خدا کے علاوہ خلقت کی نگاہ اس طرف تھی سب منتظر تھے کہ خدا کا فرمان کیا ھے ؟ناگھاں خاتم الانبیاء چاند کی طرح علی کو ھاتھوں پر اٹھایا۔

تاکہ لوگوں کو اس ولی اللہ کا تعارف کرائیں اور وال من والاہ اور عاد من عاداہ کھیں

اے غدیر خم امام کی بیعت کے دن تیرا کیا کہنااے روز امامت ساری امت کا تجھے سلام

تیری بنا پر شریعت محکم هوئی اور نعمت کا مل هوئی ھم

اس مبارک دن اورنیک پیام کی یاد میں

علی مرتضیٰ کی محبت کی بنا پردل کو چراغاں کرتے ھیں

علی کے ساتھ دوبارہ تجدید عھد کرتے ھیں ۔

”غدیر خم سے پیغمبر(ص) نے جو سرخ راستہ کھولاتو گویا ابتدا سے انتھا تک باب رحمت کھول دیا

ھمارے دنیا کے لئے حق کی جانب ایک اور راستہ کھول دیا

لوگوں کے لئے جنت کی امیدوں کا ایک اور راستہ کھول دیا

غدیر خم سے پیغمبر کی شریعت کا مل هوئی ھے

اس دستاویز کی مھر جناب محسن اور علی اصغر (ع) کے خون سے لگی ھے

یہ خدائی دن شیر خدا کو مبارک هو

اے امامت کی چودہ صدیوں تم کو مبارک هو

تمھارے سینے کب تک داغ حجراں سے داغدار رھیں گے

موٴید کی طرح شیعہ تیرے انتظار میں کب تک رھیں گے “

مصطفی محدّثی خراسانی

ملتھب درکنار برکہ روح تاریخ پیر منتظر است

دست خور شید تانھد دردست آسمان در غدیر منتظر است

برسر آسمانی آن ظھر آیہ ھای شکوہ نازل شد

مژدہ دادند آیہ ھای شکوہ دین احمد تمام کامل شد

ایک حوض کے کنارے تاریخ کی بے چین روح منتظر ھے تاکہ آسمان غدیر ھاتھ میں خورشید کا ھاتھ رکھ دے

پس دور پھر میں با شکوہ آیات نازل هوئیں

باعظمت آیات نے خو شخبری دی کہ دین کامل هوگیا

حاج غلامر ضا ساز گار

غدیر عیدھمہ عُمْرباعلی بودن غدیر آینہ دارعلی ولی اللہ ست

غدیر حاصل تبلیغ انبیا ھمہ عمر غدیر نقش ولای علی بہ سینہٴ ماست

غدیر یک سند زندہ یک حقیقت محض غدیر ازدل تنگ رسول عقدہ گشاست

غدیر صفحہٴ تاریخ وال من والاہ غدیر آیہٴ توبیخ عاد من عادست

ھنوز لالہٴ (اکملت دینکم )روید ھنوز طوطی (اتممت نعمتی )گویاست

ھنوز خواجہٴ لولاک رانِداست بلند کہ ھرکہ راکہ پیمبر منم علی مولاست

بگوکہ خصم شودمنکر غدیرچہ باک کہ آفتاب بہ ھرسو نظرکنی پیداست

چوعمر صاعقہ کوتاہ باد دورانش خلافتی کہ دوامش بہ کشتن زھراست

”غدیر ساری زندگی علی کے ساتھ رہنے کی عید ھے غدیر علی ولی اللہ کی آئینہ دار ھے

غدیر انبیاء کی ساری عمر تبلیغ کا نتیجہ ھے غدیر ھمارے سینوں پر علی کی ولایت کا نقش ھے

غدیر ایک زندہ سنداور ایک خالص حقیقت ھے غدیر رسول کے پریشان دل کا عقدہ کھولتی ھے

غدیر وال من والاہ کی تاریخ کا صفحہ ھے غدیر عاد من عاداہ کی مذمت کی آیت ھے

ابھی” اکملت دینکم “کا پھول اگتا ھے ابھی ”اتممت نعمتی“ کی صدا بلند ھے

ابھی سید لولاک کی صدا بلند ھے کہ جس کا میں پیغمبر هوں علی اس کے مولا ھیں

کھدو اگر دشمن غدیر کا انکار کردے تو کیا ڈر کیونکہ ھر طرف آفتاب نظر آئے گا

اس خلافت کا زمانہ بجلی کی مدت کی طرح مختصر هو جائے جس کی بقا سید ہ ٴ کونین کو شھید کرنے کے ذریعہ ھے

دکتریحیی حدّادی ابیانہ

ستارہٴ سحر از صبح انتظار دمید

غدیر از نفس رحمت بھار چکید

گرفت دست قدر،رایت شفق بر دوش

زمین بہ حکم قضا آب زندگی نوشید

برآسمان سعادت ز مشرق ھستی

سپیدہ داد نویدِ تولدِ خورشید

بہ باغ ،بلبل شوریدہ رفت بر منبر چو از نسیم صبا بوی عشق یار شنید

زخویش رفتہ ،نواخوان عشق بود وسرود

بہ بانگ زیر وبم،اسرار خطبہٴ توحید

فتاد غلغلہ در باغ و شورشی انگیخت

کہ خیل غنچہ شکفت وبہ روی او خندید

ھوا زعطر گلاب محمدی مشحون

زمین بہ عترت وآل رسول بست امید

رسول،سدرہ نشین شد ،علی بہ صدر نشست

پیِ تکامل دینش خدای کعبہ گزید

گرفت پرچم اسلام را علی در دست

از این گزیدہ زمین وزمان بہ خود بالید

بہ یُمنِ فیضِ ولایت شراب خمّ اَلَست

بہ عشق آل علی از غدیر خم جوشید

”صبح انتظار سے ستارہ چمکا غدیر رحمت بھار کے سانس سے ظاھر هوئی

شفق کے پرچم کو قدر کے ھاتھوں نے دوش پر اٹھایا زمین نے قضا کے حکم سے آب حیات پیا

آسمان سعادت پرمشرق وجود سے خورشید کے طلوع هونے کی خبر سپیدہٴ صبح نے دی

بلبل باغ میں منبر پر اس وقت گئی جب اس نے نسیم صبا کے عشق یار کی خوشبو سونگھی

عشق کا نوا خواں بے هوش هو گیا تھا اور اس نے با آواز بلند خطبہ تو حید کے اسرار پڑھ کر سنائے

باغ میں شور مچ گیاکلیاں کھل کھلاکر مسکرا اٹھیں

فضا گلاب محمدی کے عطر سے معطر هو گئی زمین نے آل محمد سے امید لگا ئی

رسول سدرة المنتھیٰ پر بیٹھ گئے علی صدر نشین هو گئے

خدائے کعبہ نے اپنا دین کا مل کر لیا

علی نے پرچم اسلام کو ھاتھ میں پکڑ لیا اس انتخاب سے زمین و زمان پھولے نہ سمائے

فیض ولایت کی برکت سے ”اَلَسْتُ “کے خم کی شراب آل علی کے عشق میںجوش مارنے لگی “

محمد علی سالا ری

سر زد از دوش پیمبر ،ماہ در شام غدیر

تا کہ جبرائیل او را داد پیغام غدیر

مژدہ داد او را ز ذات حق کہ بافرمان خویش

نخل ھستی بارو بر آرد در ایام غدیر

دین خود را کن مکمَّل با ولا ی مرتضیٰ

خوف تاکی باید از فرمان و اعلا م غدیر

می شود مست ولای مرتضیٰ،از خود جدا

ھرکہ نوشد جرعہ ای از بادہٴ جام غدیر

شد بپا ھنگامہ ای درآسمان ودر زمین

تا ولایت شد علی را ثبت ،ھنگام غدیر

شور شوقی شد در آن صحرای سوزان حجاز

مرغ اقبال آمد وبنشست بر بام غدیر

عشق مولا در دلم از زاد روز من نشست

جبینم حک بود تا مرگ خود نام غدیر

” دوش پیغمبر (ص) سے شام غدیر میںچاند چمکا یھاں تک کہ جبرئیل نے حضور کوپیغام غدیر پهونچایا

خدا کی جانب سے حضور کے لئے خوشخبری دی کہ اپنے حکم سے کہ تم میوہ دار درخت خرما هو جس کے پھل ایام غدیر میں نکلیں گے

ولائے مرتضیٰ سے اپنا دین مکمل کرو اعلان غدیر کرنے سے کب تک ڈرتے رهوگے

ولائے مرتضیٰ میں مست انسان خود سے بے خود هو جاتا ھے جو بھی جام غدیر کا ایک گھونٹ پی لیتا ھے

آسمان و زمین میں ایک ہنگامہ هو گیا یھاں تک کہ غدیر کے وقت علی کی ولایت ثبت هو گئی

حجاز کے اس تپتے صحرا میں ایک جوش و ولولہ پیدا هو گیا قسمت کا پرندہ بام غدیر پرآکر بیٹھ گیا

میرے دل میں مو لائے کا ئنات کا عشق میری ولادت کے دن سے ھی بیٹھ گیامیری پیشا نی پر مرتے دم تک غدیر کا نام کندہ رھے گا “

محمود شاھرخی

بہ کا م دھر چشاندی مِیی ز خم غدیر

کہ شورو جوشش آن در رگ زمان جاری است

زچشمہ سارو لای تو ای خلا صہٴ لطف

بہ جو یبار زمان فیض جاودان جاری است

”تم نے زمانہ کو غدیر خم کی شراب چکھا دی جس کا جوش زمانہ کی رگ میں جاری ھے

اے خلاصہٴ لطف تیری ولایت کے چشمہ سے زمانہ کی نھر کی جا نب ھمیشگی فیض جا ری ھے “

حکیم ناصر خسرو

بیا ویزد آن کس بہ غدر خدا ی کہ بگریزد از عھد روز غدیر

چہ گوئی بہ محشر اگر پرسدت از آن عھد محکم شبر یا شبیر

”جوشخص عھد غدیر سے فرار اختیار کرے گا وہ خداکے عذاب میں مبتلا هوگا

اگر تم سے اس شبیر و شبر کے محکم عھد کے بارے میں سوال کیا جائے تو تم کیا جواب دوگے “

طائی شمیرانی

سائباں با ور نکردم مہ شود بر آفتاب تا ندیدم بر فراز دست احمد بو تراب

آری آری ماہ بر خو رشید گردد سا ئباں مصطفےٰ گر آفتاب آید علی گر ما ھتاب

”مجھے یقین نھیں آیا کہ سورج کے اوپرچاند کا سایہ هو سکتا ھے جب تک میں نے احمد کے ھاتھوں پرابو تراب کو نھیں دیکھا تھا ۔

ھاں ،ھاں چاند خورشید کے لئے سائبان بن سکتا ھے اگر مصطفےٰ آفتاب هوں اور علی ما ہتاب“

طاھرہ مو سوی گرما رودی

ای شرف اھل ولایت ،غدیر بر کہٴ سر شار ھدایت ،غدیر

زمزم و کو ثر زتو کی بہتر ند آبرو ی خویش زتو می خرند

این کہ کند زندہ ھمہ چیز آب ز آب غدیر است نہ از ھر سراب

از ازل این بر کہ بجا بودہ است آینہٴ لطف خدا بودہ است

”اے اھل ولایت کے شرف غدیر ھدایت کے سرشار حوض غدیر

زمزم و کوثر تجھ سے کب بہتر ھیںاپنی آبرو تجھ سے خریدتے ھیں

یہ جو کہتے ھیں کہ پانی تمام چیزوں کو زندہ کرتا ھے اس سے مراد آب غدیر ھے نہ ھر سراب

یہ حوض ازل سے قائم تھاآئینہ ٴ لطف خدا تھا “

مکرم اصفھا نی

اندیشہ مکن زانکہ کند و سوسہ خناس

در باب علی یعصمک اللہ من الناس

باید بشناسانیش امرو ز بہ نشناس

بازار خَزَف بشکنی از حُقّہٴ الماس

حق را کنی آنگو نہ کہ حق گفت مد لّل

”خیال بد مت کروکیونکہ خناس وسوسہ کرتا ھے

علی کے سلسلہ میں خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا

آج تم ان کا نا جاننے والوں کے سامنے تعارف کرادو

اینٹ ،پتھر اور الماس میں فرق ڈالو

جس طرح خدا نے کھا ھے حق کو دلیل کے ساتھ ثابت کرو

خو شدل کرما نشاھی

در غدیر خم نبی خشت از سر خم بر گرفت

خشت از خم ولا ی ساقی کو ثر گرفت

از خم خمر خلافت در غدیر خم بلی

ساقی کو ثر ز دست مصطفی ساغر گرفت

غدیر خم میں نبی نے خم سے اینٹ لی

ساقی کو ثر کی ولایت کے لئے خم سے اینٹ لی

بلیٰ کے غدیر خم میںخلافت کی شرافت کے خم سے

ساقی کو ثر نے مصطفےٰ کے ھاتھ سے ساغر لیا

یو سف علی میر شکاک

ماہ صد آئینہ دارد نیمہ شبھا در غدیر

روز ھا می گسترد خورشید ،خود را بر غدیر

پیش چشم آسمان ،پیشانی باز علی

آفتاب روی زھرا در پس معجر غدیر

”غدیر میں آدھی رات کے وقت چاند کے سو آئینے هوتے ھیں

خورشید خود کو پورے دن غدیر کے اوپرتاباں رکھتاھے

آسمان کی نگاهوں کے سامنے علی کی کھلی هو ئی پیشا نی

غدیر کے بعد گویا جناب فاطمہ زھرا َ کے چھرے کا آفتاب ھے “

سید مصطفی مو سوی گرما رودی

گلِ ھمیشہ بھار غدیر آمدہ است شراب کھنہٴ ما در خم جھان باقی است خدا گفت کہ (اکملت دینکم)آنک نوای گرم نبی در رگ زمان باقی است

قسم بہ خون گل سرخ در بھارو خزان ولایت علی وآل جاودان باقی است

گل ھمیشہ بھارم بیا کہ آیہٴ عشق بہ نام پاک تو در ذھن مردمان باقی است

۔۔۔”میری بھار کا پھول ھمیشہ غدیر هواھے دنیا کے خم میں ھماری کہنہ شراب باقی ھے

خدا نے اس کے لئے اکملت کھا کیونکہ نبی کی گرم آواز زمانہ کی رگ میں باقی ھے

بھار و خزاں کے سرخ پھولوں کے خون کی قسم علی وآل کی ولایت ھمیشہ باقی رھے گی

میرے ھمیشہ بھاری رہنے والے پھول آ کیونکہ آیہ ٴ عشق تیرے پاک نام کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں باقی ھے

در روز غدیر ،عقل اوّل آن مظھر حق نبیَّ مرسل

چو ن عرش تو را کشید بر دوش آنگاہ گشود لعل خاموش

فرمود کہ این خجستہ منظر بر خلق پس از من است رھبر

بر دامن او ھر آن کہ زد دست چون ذرہ بہ آفتاب پیوست

”غدیر میں عقل اول اور مظھر حق نبی مرسل نے جب آسمان کو دوش پراٹھایا اس وقت گویا هوئے یہ مبارک شخص میرے بعد لوگوں کا رھبر ھے ۔

اس کے دامن سے متمسک رهووہ ذرہ کی طرح آفتاب سے جا ملا“

علی رضا سپاھی لائین

دشت غوغا بود غوغا بود غوغا در غدیر

موج می زند سیل مردم مثل دریا در غدیر

در شکوہ کاروان آن روز باآھنگ زنگ

بی گمان باری رقم می خورد فردا در غدیر

ای فرامو شان باطل سر بہ باطل افکنید

چون پیمبر دست حق را برد بالا در غدیر

حیف اما کاروان منزل بہ منزل می گذشت

کاروان می رفت وحق می ماند تنھا در غدیر !!

”دشت غدیر میں بے حد شور و غل تھا

غدیر میں دریا کی طرح لوگوں کا سیلاب مو جیں مار رھا تھا

اس وفا کے کاروان کی عظمت میں غدیرمیں مستقبل کے سلسلہ میں گفتگو کی جا رھی تھی

اے باطل پرستوں سر جھکالو

جب غدیر میںپیغمبر اپنے دست مبارک کو اٹھائیں

افسوس لیکن کاروان منزل بہ منزل گذر رھا تھا

کاروان جا رھا تھااور حق غدیر میں تنھارھا جا رھا تھا “

محمد علی صفری (زرافشان )

آن روز کہ با پر تو خورشید ولایت

رہ را بہ شب از چار طرف بست محمد

صحرائے غدیر است زیارتگہ دلھا

از شوق علی داد دل از دست محمد

تا جلوہٴ حق را بہ تماشا بنشینند

بگرفت علی را بہ سر دست محمد

”جس دن خورشید ولایت کے پرتو کی بنا پر

محمد نے رات کے لئے چاروں طرف سے راستہ بند کردیا

صحرائے غدیر دلو کی زیارت گاہ ھے

علی کی محبت میں محمد سر شار هوگئے

تاکہ لوگ جلوئہ حق کا نظارہ کریںکہ محمد نے علی کا ھاتھ پکرلیا“

یحیٰ سا قی ای قدت طو بی ای لبت کو ثر

کوثری مِیَم امروز از غدیر خم آور

آور از غدیر خم ،خم خُمَم مِیِ کوثر

من منم بدہ سا غر ،خم خمم بدہ صھبا

بادہ در غدیرم دہ ،از غدیر خم ،خم خم

ھمچون زاھدان شھر ،در غدیر خم شو گم

می زخم وصلم دہ ،تا کف آورم بر لب

خم دل کنم دجلہ ،دجلہ را کنم دریا

”ساقی جس کا قد طوبیٰ کی طرح ھے تیرا لب کو ثر ھے

تو کوثر ھے آج میرے لئے غدیر خم کی شراب لے کر آ

غدیر میں مجھ کو بادہ دے غدیر کا مجھ کو خم دے

شھر کے زاھدوں کی طرح غدیر میں کھوجا

تاکہ میرے لب پرجھاگ آجا ئیں

خم دل کو دجلہ کروں اوردجلہ کو دریا کروں “

ناصر شعار بوذری

گفت بر خیز کہ از یار سفیر آمدہ است

بہ چرا غانی صحرا ئے غدیر آمدہ است

مو ج یک حا دثہ در جان غدیر است امروز

و علی چھرئہ تابان غدیر است امروز

بیعت شیشہ ای و آہن پیمان شکنی

داد از بیعت آبستن پیمان شکنی

پس از آن بیعت پر شور علی تنھا ماند

و وصایای نبی در دل صحرا جا ماند

مو ج آن حا دثہ در جان غدیر است ھنوز

و علی چھرئہ تابان غدیر است ھنوز

”اس نے کا کہ اٹھ یار کا سفیرصحرائے غدیر کی چراغانی لے کر آیاھے

آج غدیر کی جان میں ایک واقعہ کی مو ج ھے

آج علی غدیر کے چھرئہ تاباں ھیں

شیشہ کی بیعت اور پیمان شکنی کا لوھے نے بیعت سے پیمان شکنی کا درس دیا

اس ولولہ انگیز بیعت کے بعد علی تنھا رہ گئے ھیں

نبی کی وصیتیں صحرا میں رہ گئیں

ابھی غدیر کی جان میں اسی واقعہ کی مو جیں ھیںاور ابھی بھی علی غدیر کے رخ تاباں ھیں “

محمد تقی بھار

ای نگار رو حانی ،خیز و پردہ بالا زن

در سرادق لا هوت ،کوس ”لا “و”الّا زن

در ترانہٴ معنی ،دم ز سرّ مو لا زن

و انگہ از غدیر خم با دہٴ تو لّا زن

تا زخود شوی بیرون ،زین شراب رو حا نی

در خم غدیر امروز ،بادہ ای بجوش آمد

کز صفای اورو شن ،جان بادہ نوش آمد

وان مبشّر رحمت ،بازدر خروش آمد

کان صنم کہ از عشاق بردہ عقل وھوش آمد

با ھیولی تو حیددر لباس انسانی

او ست کز خم لاھوت ،نشئا ئہ صفا دارد

در خریطہ ٴ تجرید ،گوھر وفادارد

در جبین جان پاک ، نور کبر یا دارد

در تجلی ادراک جلو ئہ خدا دارد

در رُخَش بود روشن ،راز ھای رحمانی

”اے روحانی نقش اٹھ اور پردہ کو اوپر اٹھا

لاهوت کے ماحول میں لا اور اِلّا کا طبل بجا

معنی کے ترانہ میں مولاکا راز بتا

پھر غدیر خم سے مولا کا جام لا

تا کہ اس روحا نی شراب کی وجہ سے خود سے بھار آجائے

آج خم غدیر میں ایک لاکھ بادہ جوش میں آئے

جس کی صفا سے بادہ نوش کی جان روشن هو گئی

وہ مبشر رحمت پھر جو ش میں آیا

وہ صنم جو عشاق سے لے گیا تھاهوش میں آیا

توحید کی شکل میں انسان کے لباس میں

وہ ھے جو خم لاهوت سے صفا کی ابتدا رکھتا ھے

تجرید سے گوھر وفا رکھتا ھے

جان پاک کی پیشا نی میں نور کبریا رکھتا ھے

تجلی ادراک میں جلوئہ خدا رکھتا ھے

اس کے رُ خ میں روحا نی راز روشن هوتے ھیں “

آیة الله کمپانی

ولا یتش کہ در غدیر شد فریضہ امم

حد یثی ازقدیم بود ثبت دفتر قدم

کہ زد قلم بہ لوح قلب سیّد امم رقم

مکمل شریعت آمد ومتمّم نعم

شد اختیار دین بہ دست صاحب اختیار من

باد ہ بدہ ساقیا ،ولی زخمَّ غدیر چنگ بزن مطربا، ولی بہ یاد امیر

وادی خم ّ غدیر منطقہ نور شد باز کف عقل پیر ،تجلّی طور شد

”ان کی ولایت جو غدیر میں اقوام پر واجب هو گئی

یہ ازل سے دفتر قِدم میں ثبت تھی

قلم نے حضور کے قلب پر لکھاکہ شریعت کامل هوگئی اور نعمت تمام هو گئی صاحب اختیار کے ذریعہ میں نے دین کو اختیار کیا

اے ساقی غدیر خم کا بادہ دے اے مطرب مو لائے کا ئنات کی یاد میں طرب کی باتیں کر

وادی غدیر خم منور هو گئی دوبارہ عقل تجلی طور هو گئی

ناظم زادہ کرمانی :

عارفان راشب قدر است شب عید غدیر بلکہ قدر است ازاین عید مبارک تعبیر

کرد ہ تقدیر بدینسان چو خداوند قدیر ای علی ،ای کہ تویی بر ھمئہ خلق امیر

بھترین شاھد این قصہ بود خمِّ غدیر کرد تقدیر چنین لطف خداوند قدیر

”شب غدیر عارفوں کی شب قدر ھے بلکہ اس عید کوقدر کہنا زیادہ بہتر ھے خدانے یوں فیصلہ کیا کہ اے علی تم تمام مخلوق کے امیر هو

اس قصہ کا بہترین شاھدغدیر خم تھاخدا کے لطف سے یہ فیصلہ هوا “

احمد عزیزی

غدیر خم از غیرت بہ جوش است ببین قرآن ناطق را خموش است

خمّ غدیر از کف این می تَرَست زانکہ علی ساقی این کوثر است

”غدیر خم غیرت کے جوش میں ھے دیکھو کہ قرآن ناطق خا موش ھے

شراب کی وجہ سے ھاتھ سے خم غدیر تر ھے چونکہ اس کو ثر کے ساقی علی ھیں

حالی اردبیلی

صبح سعادت دمید ،عید ولایت رسید فیض ازل یار شد، نوبت دولت رسید

از کر مش برگد ا ،داد ھمی جان فزا گفت بخور زین ھلا ،کز خُم جنت رسید

”صبح سعادت نمودار هو ئی کہ ولایت اب پهونچی فیض ازل یار هوادولت کی نوبت آئی

اس کے کرم سے فقیر کے لئے حوصلہ افزا بات هو گی اس نے کھا اسے کھاؤ کیونکہ یہ جنت کے خم سے آیا ھے

فرصت شیرازی

این خم نہ خم عصیر باشد این خم ،خم غدیر باشد

از خم غدیر می کنم نوش تا چون خم برآورم جوش

”یہ خم انگور کا خم نھیں ھے یہ خم ،خمِ غدیر ھے

میں خم غدیر پیتا هوں تاکہ خم کی طرح جوش میں آجاؤں“

آیة الله میرز ا حبیب خراسانی

امروز بگو ،مگو چہ روز است؟ تا گویمت این سخن بہ اکرام

موجود شد از برای امروز آغاز وجود تا بہ انجام

امروز زروی نص قرآن بگر فت کمال ،دین اسلام

امروز بہ امر حضرت حق شد نعمت حق بہ خلق اتمام

امروز وجود پردہ برداشت رخسارئہ خویش جلو ہ گر داشت

امروز کہ روز دار وگیراست می دہ کہ پیالہ دلپذیر است

از جام وسبو گذشت کارم وقت خم ونوبت غدیر است

امروز بہ امر حضرت حق بر خلق جھان علی امیراست

امروز بہ خلق گردد اظھار آن سرّ نھان کہ در ضمیر است

عالم ھمہ ھر چہ بود وھستند امروز بہ یک پیالہ مستند

”آج کهو ،نہ کهو کو نسا دن ھے تاکہ میں تمھیں یہ بات اچھے انداز میں بتاؤں

آج کے لئے وجود کا آغاز انجام تک موجود هو گیا

آج قرآن کی نص کے اعتبار سے دین اسلام کا مل هو گیا

آج خدا کے حکم سے نعمت حق مخلوق پرکامل هو گئی

آج وجود کا پردہ ہٹا اور رخسارہ جلوہ گر هو گیا

آج جو پریشانیوں کا دن ھے مجھے شراب دے چونکہ پیالہ دل کو لبھانے والاھے

میرا کام جام و صبو سے گذر گیاخم کا وقت اور غدیر کی باری ھے

آج خدا کے حکم سے علی تمام مخلوقات عالم کے امیر ھیں

آج لوگوں پرضمیروں کا پوشیدہ راز آشکار هوجا ئے گا

دنیا جو بھی تھی اور ھے آج ایک پیالہ میں مست ھے “

فارسی ادبیات میں نثر لکھنے والوں نے غدیر کے سلسلہ میں زبر دست قطعے لکھے ھیں جس کے ھم دو نمونہ ذیل میں پیش کررھے ھیں :

غدیر میں گو یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فکر فر ما رھے تھے :حضرت علی علیہ السلام کے بغیر کیسے کام کا انجام هو گا ؟

اور حضرت علی علیہ السلام یہ فکر کر رھے تھے کہ :حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر کیسے زندگی بسر هو گی ؟

لوگ اسی آنے اور جا نے کے پس و پیش میں ھیں ایک مشکل میں گرفتار ھیں :

یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھیں کہ اگر حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کر لی تو باقی رہ جا ئیںگے ۔

یہ علی علیہ السلام ھیں اگر ان کی بیعت توڑ لی تو ھاتھ سے نکل جا ئیں گے !!

لوگوں کے گروہ کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں فکر کرتے ھیں اور ان کے قائد بیعت کو توڑنے کی سا زش کرتے ھیں ۔۔۔!!؟

اسماعیل نوری علاء

آری ۔۔۔خم ! ھاں ،خم

شربدار ولایت ولایت کی شراب کی جگہ

غدیر حا دثات غدیر واقعات

ومیان منزل افشای راز ھا ست ۔ رازوں کے افشا کے درمیان ھے

بنگریدش اس کو دیکھو

کہ بر اوج دست و بازو دست و بازو کی بلندی پر

در چنگ چنگا لی از نور نور کے پنجہ میں

ایستا دہ است کھڑا ھے

بہ ابر ھا نزدیکتر تا بہ ما ھمارے مقابلہ میں بادلوں سے زیادہ نزدیک ھے

و نگاہ نمی کند نہ در چشمان مشتاق اور مشتاق آنکھوں کو نھیں دیکھتا ھے

نہ در دیدگان دریدہ از حسد ۔ نہ حسد سے پھٹی هو ئی آنکھوں کو

بہ این ترانہ گو ش کنید اس ترانہ کو سنو

کہ در ھفت آسمان می طپد : جو ساتوں آسمانوں میں گونج رھا ھے

”جو مجھ کو اپنا مو لا سمجھتا هواس کو معلوم هوتا ھے کہ میرے برابر میں کھڑا هو ا شخص بھی اس کا مو لا ھے “

آری ھاں

امروز ھمہ چیز کا مل است آج تمام چیزیں کامل هو گئیں

معیاری بہ دنیا آمدہ دنیا کو ایک معیار مل گیا

کہ در سایہ اش جس کے سایہ میں

نیک و بد از ھم مشخصند۔ نیک و بد ایک دوسرے سے ممتاز ھیں۔

شعر اور اردو ادب

پیمبروں نے جو ما نگی ھے وہ دعا ھے غدیر

جو گو نجتی رھے تا حشر وہ صدا ھے غدیر

جو رک سکے نہ وہ اعلان مصطفےٰ ھے غدیر

کہ ابتداء ذو العشیرہ ھے انتھا ھے غدیر

غدیر منزل انعام جا ودانی ھے

غدیر مذ ھب اسلام کی جوانی ھے

غدیر دامن صدق و صفا کی دولت ھے

غدیر کعبہ و قر آن کی ضما نت ھے

غدیر سر حد معراج آدمیت ھے

غدیر دین کی سب سے بڑی ضرورت ھے

غدیر منزل مقصود ھے رسولوں کی

غدیر فتح ھے اسلام کے اصولوں کی

متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ھیں

چراغ خا نہٴ جاں کو غدیر کہتے ھیں

صدا قتوں کی زباں کو غدیر کہتے ھیں

عمل کی روح رواں کو غدیر کہتے ھیں

غدیر منزل تکمیل ھے سفر نہ کهو

نبی کی صبح تمنا ھے دو پھر نہ کهو

ستم کئے ھیں بہت وقت کے شریروں نے

مٹائے نقش وفا خنجروں نے تیروں نے

حدیثیں ڈھا لی ھیں دنیا کے بے ضمیروں نے

فسا نے لکھے ھیں در بار کے اسیروں نے

علی کے لال کا جب ھاتھ تھام لے گی غدیر

ستمگروں سے ضرور انتقام لے گی غدیر

کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب آگے آگے مصطفےٰ ھیں پیچھے پیچھے بو تراب

فکر کے ظلمت کدے میں نور بر ساتا هوا ذہن کی بنجر زمیں پر پھول بر ساتا هوا

قافلہ تھا اپنی منزل کی طرف یوں گا مزن جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن

خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ھے یعنی مر ھم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ھے

ذہن کی دیوار ٹو ٹی باب خیبر کی طرح دل میں در وازے کھلے اللہ کے گھر کی طرح

مو ج نفرت میں محبت کے کنول کھلنے لگے خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے

ذو العشیرہ میں هوا پھلے پھل اعلان حق یعنی یہ آغاز تھا آئینہٴ انجام حق

بن گئی ھجرت کی شب دین الٰھی کی سحر بستر احمد پہ سو ئے شیر داور رات بھر

بزم پیغمبر میں دیکھو آدمیت کا جلال یعنی سر داروں کے پھلو میں نظر آئے بلال

آخرش بدر و احد کے معر کے سر هو گئے جب اٹھی تیغ علی پسپاستم گر هو گئے

غدیر نام ھے اللہ کی عبا دت کا غدیر نام ھے انسان کی شرافت کا

غدیر نام ھے نوع بشر کی عظمت کا غدیر نام ھے ربط کتاب و عترت کا

جھاں میں جو ھے اسی اک سفر کا صدقہ ھے

ھر ایک صبح اسی دو پھر کا صدقہ ھے

کھیں سکوں کھیں جھنکار بن گئی ھے غدیر کبھی صدا ئے سرِداربن گئی ھے غدیر

کھیں قلم کھیں تلوار بن گئی ھے غدیر کھیں دعا کھیں انکار بن گئی ھے غدیر

یہ سب اثاثہ ٴ علم و یقین مٹ جاتا

اگر غدیر نہ هو تی تو دین مٹ جاتا

دل پیمبر اعظم کا چین بھی ھے غدیر نمود قوت بدر و حنین بھی ھے غدیر

لب بتول پہ فر یاد و شین بھی ھے غدیر حسن کی صلح بھی جنگ حسین بھی ھے غدیر

کبھی صدا ئے جرس بن کے راہ میں آئی

کفن پہن کے کبھی قتل گاہ میں آئی

نبی کے بعد صف اشقیاء جب آئی تھی عدا وت آل پیمبر کی رنگ لا ئی تھی

ستم پر ستوں نے کب آستیں چڑھا ئی تھی جمل کی اور نہ صفین کی لڑائی تھی

نہ سمجھو تھا وہ شہٴ قلعہ گیر پر حملہ

کیا تھا اھل هوس نے غدیر پر حملہ

یہ آرزو تھی مٹا دیں گے نقش پائے غدیر سمجھ رھے تھے کہ مقتل ھے انتھا ئے غدیر

مگر نہ رک سکی تیغوں سے بھی هوا ئے غدیر سنا ںکی نوک پہ بھی گونج اٹھی صدا ئے غدیر

لهو میں غرق ھر اک حق پسند هو کے رھا

مگر غدیر کا پرچم بلند هو کے رھا

نفاق و کفر کے گھیروں نے را ستہ رو کا جفا و ظلم کے ڈیروں نے راستہ رو کا

جھا لتوں کے اندھیروں نے را ستہ رو کا قدم قدم پہ لٹیروں نے را ستہ رو کا

جو سدّ راہ بصد نخوت و غرور هو ئے

وہ سب غدیر سے ٹکرا کے چورچور هو ئے

جو حق پرست تھے وہ دار پر چڑھا ئے گئے نہ جانے کتنے غریبوں کے گھر جلا گئے

نقوش حق و صدا قت تھے جو مٹا ئے گئے زبا نیں کا ٹی گئیں اور لهو بھا ئے گئے

جو ایک مریض کو بیڑی پہنا نے آئے تھے

وہ سب غدیر کو قیدی بنا نے آئے تھے

ستم گروں سے کهو قتل عام کر تے رھیں نبی کے قول کی تا ویل خام کر تے رھیں

جو کر گئے ھیں اب و جد وہ کام کر تے رھیں ہزار ظلم صبح و شام کر تے رھیں

مگر غدیر کا اعلان رک نھیں سکتا

اٹھا تھا خم سے جو طوفان رک نھیں سکتا

لئے ھے تیغ علی قلعہ گیر کا وا رث نمو د قوت نان شعیر کا وارث

نبی کے لال جناب امیر کا وارث نکل کے آئے گا جس دن غدیر کا وارث

زبان تیغ بتا ئے گی عزّ و شان غدیر

کھیں پناہ نہ پا ئیں گے دشمنان غدیر

جب شکست فاش با طل کو هو ئی جنگاہ میں بد دعا دینے کو آ پهونچے نصا ریٰ راہ میں

تب نبی و فا طمہ حسنین و حیدر آگئے اپنے اھل بیت کو لیکر پیمبر آگئے

منزل خندق پہ پہنچا جب غدیری کا رواں کل ایماں بن کے نکلے تب امام انس و جاں

سورہٴ تو بہ حرم میں لے کے جا ئیگا وھی جس نے چو سی ھے زباں قرآں سنا ئے گا وھی

فتح مکہ میں جھا لت کے صنم تو ڑے گئے پتھروں کے بت روایت کے صنم تو ڑے گئے

آچکا ھے اب وھاں پر کا روان انقلاب انبیاء نے مد توں دیکھا تھا جس منزل کا خواب

هو گیا اعلان جب مو لا علی کے نام کا چھرہ رو شن هو گیا مستقبل اسلام کا

مصطفےٰ کو تا ابد محمود حق نے کر دیا حد پہ جو آئے تو لا محدود حق نے کر دیا

ذمہ دار دین حق پڑھ کر ولا یت هو گئی دو سرے لفظوں میں تو سیع نبوت هو گئی

۔۔۔۔۔۔

بزم ھستی میں جلا ل کبریا ئی ھے غدیر

بھر امت امر حق کی رو نما ئی ھے غدیر

اے مسلماں دیکھ یہ دو لت کھیں گم هونہ جا ئے

مصطفےٰ کی زندگی بھر کی کما ئی ھے غدیر

دا من تا ریخ انسان کی دو لت ھے غدیر

بیکسوں کی شان کمزوروں کی طاقت ھے غدیر

اک ذرا سا ذکر آیا اور چھرے فق هو ئے

دشمنوں کے واسطے روز قیامت ھے غدیر

عظمت دین الٰھی کا منا رہ ھے غدیر

دو پھر میں جو تھا روشن وہ ستارہ ھے غدیر

تھام کر با زوئے حیدر مصطفےٰ بتلا گئے

ایک کیا سا رے رسولوں کا سھارا ھے غدیر

پیچ و خم کو ئی نہ کھا ئی نہ کھا نچہ ھے غدیر

جس میں ڈھلتی ھے صداقت ایسا سا نچہ ھے غدیر

پھر گیا رخ دشمنان مذ ھب اسلام کا

کفر کے رخسار پر حق کا طما نچہ ھے غدیر

منزل تکمیل دین کبریا ئی کی عید ھے

نقطہٴ معراج کار انبیاء کی عید ھے

آدمی کیا عترت و قرآن ملتے ھیں گلے

عید سب بندوں کی یہ دین خدا کی عید ھے

شعر و ادب تر کی

یو سف شھاب

امامی حضرت باری گرَگ ایدہ تعیین

محوّل ھر کَسَہ او لماز امور ربانی

منا دی آیہ ٴ قرآنیدور،علیدی ولی

علینی رد ایلین ،رد ایدو بدی قرآنی

منہ وصی ،سیزہ اولی بنفسدوربو علی

مباد ترک ایلیہ سیز بو وصایانی

بو امر امر الھیدی ،نہ مینم راٴ ییم

امین وَحیِدی نا زل ایدن بو فرمانی

دو توب گو گہ یوزین عرض ایتدی اول حبیب خدا

کہ ای خدا ئے روؤف و رحیم و رحما نی

عم او غلو می دو تا دشمن او کس کہ ،دشمن دوت

محب و نا صر ینہ ،نصرت ایلہ ھر آنی

بو ما جرانی گو رندہ تمام دشمن و دو ست

غریو و غلغلہ دن دو لدی چرخ دا ما نی

او کی محبیدی مسرور او لوب ،عدو غمگین

نہ او لدی حدی سرور ونہ غصہ پایا نی

”امام کو خداوند عالم معین کرتا ھے یہ امر ربانی ھر شخص کے حوالے نھیں کیا جاسکتاھے

علی آیہ ٴ قرآن کے منادی اور خدا کے ولی ھیں،جس شخص نے علی کا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کردیاھے

یہ علی میرے وصی اور تم میں سب سے اولیٰ ھیں ھر گز ان سفارشات کو ترک نہ کرنا

یہ امر ،امر الٰھی ھے میری اور تمھاری رائے نھیں ھے امین وحی نے یہ فرمان نازل کیا ھے

حبیب خدا نے اپنی صورت آسمان کی طرف کرکے کھااے خداوند رؤوف و رحیم و رحمان جو شخص میرے چچازاد بھائی کا دشمن ھے تو اس کو دشمن رکھ جو اس کو دوست رکھےتو ھمیشہ اس کی مدد کر

تمام دوست اور دشمنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دنیا میں خو شی کر لھر دوڑ گئی

دوست خوشحال هوگئے اور دشمن رنجیدہ هوگئے غصہ کافور هوگیا اور خو شی و شادمانی کے حالات فراهو هوگئے “

قمری

حکم خطاب آیہٴ یا ایھا الرسول

تبلیغنہ وصایتوہ مد عا علی

حکم غدیر ہ منزلی حج الوداعدہ

قیلدی سنی یرندہ وصی ،مصطفیٰ علی

”یا ایھا الرسول ۔۔۔کا حکم خطاب ،اے علی تیری وصایت و خلافت کا مدعا ھے

حجة الوداع میں حکم غدیر کے اقتضا کے مطابق پیغمبر اکرم نے تجھے اپنا جا نشین منتخب فرمایا“

یوسف معزی ارد بیلی

پروردگار عالم ایدو بدور حما یتین

بیلد یر دی یر یو زندہ پیمبر رسالتین

گلدی غدیر خُمَیدہ رجعتدہ نا گھان

روح الامین گتور دی پیام و بشارتین

بعد از سلام عرض ایلدی امر ایدور خدا

امّت لَرہ یتور سون علی نون ولا یتین

فرمان و یروب رسول امین کا روان دو شوب

فر ما نیون گور و بدور اولارد ا طاعتین

منبر دو زَلدی چخدی ھمان منبر او ستنہ

اوّل پشیتدی امتی قرآن تلا وتین

خیر البشر علی کمرین دو تدی قا لخِزوب

حضار تا گور و بدور او صاحب شجا عتین

مو لا یم ھر کیمہ دیدی من ھر زماندہ

مو لا سی دور عم او غلوی ھمان با دیانتین

جبریل گتدی آیہ ٴ اکملت دینکم

اسلامون آرترو بدو بو گون حق جلا لتین

”پروردگار عالم نے اپنی حمایت کا اعلان کیا جب رسالت پیغمبر کا زمین پر اعلان فرمایا

ناگھاں غدیر خم آئی روح الامین ان کے لئے پیغام اوربشارت لے کر آئے

سلام کے بعد عرض کیاخداوند عالم کا امر ھے :ولایت علی کا پیغام امت تک پهونچا دیجئے رسول امین کے فرمان سے تمام قافلے ٹھھر گئے انھوں نے بھی رسول کے فرمان کی اطاعت کی

منبر بنایا گیا اور رسول منبر پر تشریف لے گئے پھلے قرآن کی آیت لوگوںکو پڑھ کر سنا ئی

پیغمبر خیر البشر نے علی کو اپنے ھاتھوں پر بلند کیااور حاضرین نے اس صاحب شجاعت شخص کا مشاھدہ کیا ۔

فرمایا :جس شخص کا میں ھر زمانہ میں مو لاهو ں یہ علی بھی اس کے مولا ھیں

جبرئیل آیہ ٴ اکملت لکم دینکم لیکر آئے آج اللہ نے اسلام کی جلالت و عظمت بڑھا دی ھے “

۷ غدیر کی یا دیں

غدیر کی یاد کو زندہ رکھنااس کے مطالب و محتوا کو زندہ رکھنے کا سب سے موٴثر سبب ھے ،طول تا ریخ میں غدیر کی یا دگا ری کے طور پر مختلف چیزیں دیکھنے کو ملتی ھیں چو نکہ مسلمانوںکی مختلف اقوام و ملل نے اپنے حالات کے مطابق اپنے معا شرہ میں غدیر کی یادگا ریں بپا کی ھیں۔

مسجد غدیر ،غدیر کے بیا بان میں مسلمانوں کی زیا رتگاہ کے عنوان سے ایک متبرک جگہ تھی۔غدیر کی یاد میں منا ئی جا نے والی سالانہ محفلیں دو سرے مختلف قسم کے پروگرام ،غدیر کو زندہ کر نے کے دو سرے جلوے ھیں ،غدیرمیں زیارت امیر المو منین علیہ السلام پڑھنا صاحب غدیر سے تجدید بیعت اور غدیر کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے ھے ۔ یہ تمام مظا ھرے غدیرکے معتقد معاشروں میں غدیر کی حفا ظت اور اس کے مخا لفوں کے با لمقابل اس کے دفاع کے لئے ھیں ۔ان ھی یادوں کے سایہ میں چو دہ صدیوں سے غدیر تا ریخ اسلام میں درخشاں و تا بندہ ھے اور غدیر کی نا بودی کی ہزاروں سازشیں ناکام هو چکی ھیں ۔

ا مسجد غدیر

غدیر وہ سر زمین مقدس ھے جس نے دسویں ھجری میںپیغمبر اکرم (ص)کے حجة الوداع میں ایک اھم کر دار ادا کیا اور ”و صایت و ولایت “امیر المو منین علی بن ابی طالب اس مقام پر انجام پا ئی آج اس کی کیا حا لت ھے ؟

کیا تا ریخ کایہ اھم نقطہ دشمنی و لجا جت کے گرد و غبار میں فر ا موشی کے سپرد کر دیا گیا ھے؟کیا اس مقدس وا دی کو شیعہ بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی زیا رتگاہ نھیں هو نا چا ہئے ؟ کیا چودہ صدیاں گزر نے کے با وجود اس معطرخاک نے رسالت و وصایت کی شمیم روح پرور کی نگھداری نھیں کی ھے ؟کیا ابھی بھی اس مقدس و پا کیزہ سر زمین پر پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت علی علیہ السلام کے مقدس قدموں کے نشانات نقش نھیںهوئے؟کیا یھی خاک و بالو اس عظیم منظر کے وا قعہ کے شاھد و گواہ نھیں ھیں ؟کیا غدیر کی اس پگھلا دینے والی گرم هوا کی امواج میں پیغمبر اکرم(ص) کی نجات دینے والی صدا نھیںآ رھی ھے ؟

کیابیت اللہ الحرام کے زا ئروں کو اس سر زمین پاک سے گزر نے اور اپنے روح و جسم کو اس فضا میں تا زگی اور شا دابی سے معطر کر نے کی اجا زت ھے جس ۸ا ذی الحجہ کوپیغمبر اکرم (ص) ملکوتی صدا بلند هو ئی تھی ؟

مسجد غدیرکی تا ریخ

جس دن سے پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی علیہ السلام کو غدیر خم کے میدا ن میں امامت کے منصب پرمتعا رف فر مایایہ وہ وادی اور مقدس هو گئی ۔دو نورانی ھستیوں حضرت رسول اکرم(ص) اور حضرت علیہ السلام کے ذریعہ اس مقام پر تین دن کے پروگرام نے اس وادی کو ایسی رو حانی کیفیت عطا کر دی کہ چودہ سو سال سے لیکر آج تک (غدیر میں پیغمبر اکرم(ص) کی مسجد )کا نام زبان زد عام ھے اور لاکھوں حا جی خا نہ ٴ کعبہ جا تے اور آتے وقت اس کی زیارت کر تے ھیں اور اس میں نماز پڑھ کر خدا وندعالم سے لو لگا تے ھیں ۔

ائمہ علیھم السلام نے اپنے اصحاب کو غدیر خم کی مسجد کی زیارت کر نے کی تا کید فر ما ئی تھی اوریہ کہ

۱۔بحا رالا نوار جلد ۸ قدیم صفحہ ۲۲۵،جلد ۳۷ صفحہ ا۲۰،جلد ۵۲ صفحہ ۵ حدیث ۴،جلد ۰۰ا صفحہ ۲۲۵۔اثبات الھداةجلد ۲ صفحہ ۷ا حدیث ۶۷ ،صفحہ ا۲ حدیث ۸۷ ،صفحہ ۹۹ا حدیث ۰۰۴ا ۔معجم البلدان جلد ۲ صفحہ ۳۸۹،مصباح المتھجدصفحہ ۷۰۹،الوسیلہ (ابن حمزہ) صفحہ ۹۶ا ۔الغیبہ(شیخ طو سی )صفحہ ۵۵ا۔الدروس صفحہ ۵۶ا۔مزارات اھل البیت علیھم السلام و تا ریخھاموٴلف سید جلا لی صفحہ ۴۲۔

مسجد کی زیارت کر نے سے با لکل غافل نہ هونا ۔حضرت امام حسین علیہ السلام جب مکہ سے کربلاکی طرف تشریف لے جا رھے تھے تو آپ نے غدیر میں توقف فر مایا ۔حضرت امام باقر اور حضرت اما م صادق علیھما السلام مسجد غدیر میں تشریف فر ما هو ئے اور انھوں نے اپنے اصحاب کےلئے غدیر میں هو نے والے پرو گرام کی انھیں نشاندھی کی اور اس کی تشریح فر ما ئی ۔

محدثین اور بڑے علمائے کرام بھی غدیر خم میں آتے اور اس وا دی کا احترام کر تے تھے ۔تیسری صدی ھجری میں علی بن مہز یار اهوا زی اپنے سفر حج کے دوران وھاں پر آئے تھے ۔شیخ طو سی چھٹی ھجری ابن حمزہ ساتویں ھجر ی اور شھید اول اور علامہ حلی آٹھویں صدی ھجری کے کلا م میں ھم مسجد غدیر کا اسم مبارک اور اس کے با قی رہنے کے آثار کے متعلق پڑھتے ھیں ۔

سید حیدر کا ظمی نے ۲۵۰ا ھجری میں مسجد غدیر کے وجود مبارک کی خبر دی ھے اور اس زمانہ میں اگرچہ سڑک غدیر سے بہت دور تھی لیکن غدیر کی مسجد مشهور و معروف تھی ۔محدث نوری نے بھی ۳۰۰اھجری میں اس کے وجودکی خبر دی ھے وہ بذات خود مسجد غدیر میں گئے اور وھاں کے اعمال بجا لائے ۔

مسجد غدیر کا دشمنوں کے ھا تھوں خراب هو نا[143]

جس طرح تاریخ میں غدیر کا پرچم بلند و بالا ھے اور اس سے ”علی ولی اللہ “کا نور در خشاں ھے اسی طرح مسجد غدیر بھی دشمنان و لا یت کی آنکھوں میں خار تھی کہ جس کی مٹی اور اینٹوں کی بنیادیں زندہ سند کے عنوان سے صحرا ئے غدیر کے دل پر درخشاں ھے ۔اسی وجہ سے مو لا ئے کا ئنات سے بغض و عناد رکھنے والے جنھوں نے آپ (ع) کے گھر کوبھی جلا دیا تھا اوران کی اتباع کر نے والوں میں اس طرح کی اعتقاداتی اور تا ریخی عمارت کو دیکھنے کی ھمت نھیں تھی ۔

مسجد غدیر کے آثار جن کی پیغمبر اکر م(ص) اور ان کے اصحاب نے بنیاد رکھی تھی سب سے پھلی مر تبہ عمر بن خطاب کے ذریعہ سے نیست و نابود کئے گئے اور ان کی نشانیوں کو مٹا دیا گیا ۔

حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے زمانہ میں اسے دوبارہ زندہ کیا گیا لیکن آپ(ع) کی شھا دت کے بعد معاویہ نے دو سو آدمیو ں کو بھیج کر پھر مسجد غدیر کو خاک میں ملادیا !

بعد کے زمانوں میں پھر مسجد غدیر کو بنا یا گیا اور وہ حجاج کے راستہ کے نزدیک قرار پا نے کی وجہ سے بہت زیادہ مشهور و معروف تھی یھاں تک کہ سنی تا ریخ نو یسوں اور جغرافیہ دانوںنے بھی اس کا نام لیا اور اس جگہ کی نشاندھی کی ھے ۔

سو سال پھلے تک مسجد غدیر اپنی جگہ پر قا ئم تھی اگر چہ مسجد مخالفین کے علاقہ میں تھی لیکن باقاعدہ طورپر محل عبادت اور مسجد غدیر کے نام سے مشهو ر و معروف تھی یھاںتک کہ اس کو آخر ی ضربہ وھا بیوں نے لگایا ۔انھوں نے مسجد غدیر کو بر باد کر نے میں بغض و حسد سے بھرے هو ئے دو اقدام کئے: ایک طرف تو انھوں نے مسجد کو منھدم کیا اور اس کے آثار نیست و نا بود کئے اور دو سری طرف انھوں نے راستہ بدل کراسے مسجد غدیر سے بہت دورکر دیاھے ۔

اسوقت مسجد غدیر کا مقام [144]

غدیر اس وقت بھی بیابان کی صورت میں ھے جس میں ایک تالاب اور پانی کا چشمہ ھے اور مسجد جس کا اب نام و نشان نھیں ھے چشمہ اور تالاب کے درمیان تھی ۔یہ علا قہ مکہ سے دو سو کیلو میٹر کے فاصلہ پر شھر رابغ کے نزدیک جحفہ نامی دیھات کے پاس ھے جو حا جیوں کا میقات ھے اور اب بھی یہ علاقہ غدیر کے نام سے ھی جانا پہچانا جاتا ھے اور وھاں کے باشندے اس کے نام سے بخوبی آگاہ ھیں اور انھیں یہ بھی معلوم ھے کہ شیعہ حضرات اس کی تلاش و جستجو میں وھاں پر آیا کرتے ھیں ۔

اس وقت وادی غدیر تک پہنچنے کے دو راستے ھیں :

ا۔راہ جحفہ

رابغ کے هو ائی اڈے سے لیکر جحفہ نامی دیھات کے شروع هونے تک ،اس کے بعدپانچ کلو شمال کی طرف ریگستان میں قصر علیا تک ریت کے ٹیلوں سے گزر کر ،اس کے بعد چھو ٹے سے بیابان سے گزر کر دائیں طرف غدیر کا راستہ ھے ۔مشرق کی طرف سے غدیر کا فاصلہ میقات جحفہ سے آٹھ کیلو میٹر ھے

۲۔راہ رابغ

مکہ”مدینہ “رابغ روڈ کے چو راھے سے مکہ کی طرف سڑک کے بائیں جانب دس کیلو میٹر اس کے بعد دائیں جانب غدیر کی طرف ایک چھو ٹا راستہ ھے کہ جس کا فا صلہ جنوب مشرق سے رابغ تک ۲۶ کیلو میٹر ھے ۔

اس آرزو و امید کے ساتھ کہ صاحب غدیر کے ظهور کے ساتھ خو شگوار اور روح انگیز علاقہ دوبارہ زندہ هو اور تالاب اور اس کے چشمہ کے درمیان بڑی شان و شوکت کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر هواور پیغمبر اکرم (ص)کے منبر اور خیمہ کی جگہ مکمل طور پر بنا ئی جا ئے اور پھر سے اس عظیم واقعہ کی یاد تازہ هو اور پوری دنیا کے افراد کی زیارت گاہ بن جا ئے ۔

۲ غدیر کے دن حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی زیارت

ھر شیعہ انسان کی یہ دلی آرزو و تمنا ھے کہ اے کاش زمانہ پیچھے پلٹ جاتا اور ھم غدیر میں حا ضر هو تے اور اپنے مو لا کے ھاتھ پر بیعت کرتے اور ان کو مبارکباد دیتے ۔اے کاش حضرت امیر المو منین (ع) اب زندہ هو تے اور ھم ھر سال غدیر خم میں آپ (ع) کی خدمت اقدس میں حا ضر هو تے اور ان سے تجدید بیعت کرتے اور پھر انھیں تبریک و تہنیت پیش کرتے ۔

اس آرزو کا محقق هو نا کو ئی مشکل نھیں ھے ۔نجف اشرف میں آپ(ع) کے حرم مطھر میں حاضر هو نا اور صمیم دل سے آپ (ع) کی ساحت مقدس میں دلی آرزو کے ساتھ آپ(ع) سے گفتگو کرنا شیعہ نظریہ کے مطابق حقیقی بیعت کی تجدید اور واقعی طور پر تبریک و تہنیت کہنا ھے ۔غدیر کا عالم ھستی کے اس دوسرے نمبر کے شخص پرسلام جو ھما ری آواز کو سنتا ھے ھمارا جواب دیتا ھے غدیر میں حا ضر هو نے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کر نے کا حکم انھیں کے حو الہ ھے ۔

حضرت امام صادق اور حضر ت امام رضا علیھما لسلام نے سفارش فر ما ئی ھے کہ جس حد تک ممکن هو ھمیں غدیر کے روز حضرت امیر المو منین علیہ السلام کی قبر مبارک کے پاس حا ضر هو نا چا ہئے اور غدیر کی اس عظیم یاد کو صاحب غدیر کے حرم میں منا ئیں ۔یھاں تک کہ اگر ھم ان کے حرم مبارک میں حا ضر نھیں هو سکتے تو ھم کھیں پر بھی هوں ھما رے لئے یھی کا فی ھے کہ ان کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کر یں ان پر سلام بھیجیں اور اپنے دل کو حرم مطھر میں حا ضر کریں اور اپنے مو لا سے گفتگو کریں۔[145]

غدیر کی یہ سالانہ یاد غدیر کے واقعہ کو دو بارہ زندہ کرنا اور صاحب غدیر سے تجدید بیعت کر نا ھے اور یہ یاد ائمہ علیھم السلام کے زمانہ سے لیکر آج تک اسی طرح بر قرار ھے ۔سالانہ غدیر کے دن ہزاروں افراد حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں جمع هو تے ھیں اور ان کی غلا می کے ھار کو اپنی گردن میں ان کے مبارک ھاتھوں سے ڈالتے ھیں اور اپنے نفوس کے مطلق طور پر ان کے با اختیار هو نے پر فخر کر تے ھیں اور اسے ان کے فرزند حضرت قائم عجل اللہ تعا لیٰ فر جہ الشریف سے بیعت سمجھتے ھیں،وہ ھما رے سلام کا جواب دیتے ھیں اور ھما رے ھاتھ کو اپنے دست ید اللّٰھی سے دبا تے ھیں ۔

حضرت امام ھادی علیہ السلام جس سال معتصم عباسی نے آپ(ع) کو مدینہ سے سا مرا شھر بدر کیا غدیر کے دن نجف اشرف تشریف لا ئے اور اپنے جد محترم حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے حرم مطھر میں حاضر هو ئے اور ایک مفصل زیارت میں آپ(ع) (حضرت علی علیہ السلام) سے مخاطب هوکر فر مایا[146] یہ زیارت مطالب و محتوا کے اعتبار سے شیعوں کے حضرت امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں عقائداور آپ(ع) کے فضائل اور محنت و مشقت کاایک مکمل مجموعہ ھے ۔اس مقام پر ھم اپنے تجدید عھد کے لئے اس زیارت کے چند جملے بیان کر تے ھیں نیزان دعاؤں کا بھی تذکرہ کریں گے جن میں مسئلہ ٴ غدیر بیان کیا گیا ھے۔

ا۔دعائے ندبہ میں آیا ھے :

فَلَمَّااِنْقَضَتْ اَیَّامُہُ اَقَامَ وَلِیَّہُ عَلِیَّ بْنَ طَالِبٍ صَلَوَاتُکَ عَلَیْہِمَاوَآلِہِمَا ھَادِیاًاِذْکَانَ ھُوَالْمُنْذِرُوَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍفَقَالَ وَالْمَلَاُاَمَامَہُ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ،اللَّھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“

”پھر جب آپ (ع) کی رسالت کے دن تمام هو گئے تو انھوں نے اپنے ولی علی بن ابی طالب علیہ السلام کو قوم کا ھا دی مقرر کر دیا اس لئے کہ خود عذاب الٰھی سے ڈرا نے والے تھے اور ھر قوم کے لئے ھا دی کی ضرورت ھے آپ نے مجمع عام میں اعلا ن کر دیا جس کا میں صاحب اختیار هوں اس کے یہ علی (ع) صاحب اختیار ھیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر اور جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “

۲۔دعا ئے عدیلہ میں آیا ھے :

آمَنَّابِوَصِیِّہِ اَلَّذِیْ نَصَبَہُ یَوْمَ الْغَدِیْرِوَاَشَارَبِقَوْلِہِ ”ھٰذَا عَلِیٌ“اِلَیْہِ “

”ھم ایمان لا ئے ان کے وصی پر جن کو غدیر کے دن منصوب کیا اور اپنے اس قول کے ذریعہ اشارہ فر مایا کہ علی میرے جا نشین ھیں “

۳۔زیارت غدیر میں آیا ھے :

اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ یٰا مَوْلاٰیَ وَمَوْ لَی الْمُوْ مِنینَ ۔

السّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا دینَ اللہِ الْقَو یمَ وَصِرٰطَہُ الْمُسْتَقیمَ ۔

اَشْھَدُ اَنَّکَ اَخُورَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ آلہ ۔۔۔وَاَنّہُ قَدْ بَلَّغَ عَنِ اللہِ مٰا اَنْزَلَہُ فیکَ،فَصَدَعَ بِاٴمْرِہِ وَاَوْجَبَ عَلیٰ اُمَّتِہِ فَرْضَ طٰاعَتِکَ وَوِلاٰیَتِکَ وَعَقَدَ عَلَیْھِمُ الْبَیْعَةَ لَکَ وَجَعَلَکَ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ کَمٰاجَعَلَہُ اللہُ کَذٰلِکَ ثُمَّ اَشْھَدَاللہَ تَعٰالیٰ عَلَیھم فَقٰالَ اَلَسْتُ قَدْ بَلَّغْتُ ؟فَقٰا لُوااللھم ۔بلیٰ ۔فقال: اللّٰھُمَّ اشْھَدْ وَکَفٰی بِکَ شَھیداًوَحَاکِماً بَیْنَ الْعِبٰادِ فَلَعَنَ اللہُ جٰاحِدَ وِلاٰیَتِکَ بَعْدَ الاِقْرٰارِوَنٰاکِثَ عَھْدِکَ بَعْدَ الْمیثٰاقِ ۔

”سلام هو آپ پر اے میرے مو لا اور مومنوں کے مولا۔

سلام هو آپ پر اے اللہ کے دین محکم اور اس کے صراط مستقیم

میں گو اھی دیتا هوں کہ آپ رسول خدا(ص) کے بھا ئی ھیں ۔۔۔اور میں گو اھی دیتا هوں کہ انھوں نے آپ کے سلسلہ میں اللہ کی طرف سے جو نا زل هوااسے پہنچا دیا اور خدا کے امر کو اجرا کیا اور انھوں نے اپنی امت پر آپ کی اطاعت اور ولا یت کوواجب کیا اور انھوں نے امت سے آ پ کے لئے بیعت لی اور آپ کو مو منین پر ان کے نفسوں کے مقابلہ میں اولیٰ قرار دیا جیسا کہ انھیں اللہ نے ایسا ھی بنایا تھا۔ پھر اللہ کو ان پر گواہ بنایا اور کھا کیا میں نے پہنچا دیا ؟ان لوگوں نے کھا ھاں پہنچا دیا پھر فر مایا خدا یا گواہ رہنا کیونکہ تیری گو اھی کا فی ھے اور تیرا حکم بندوں کے درمیان کا فی ھے پس خدا کی لعنت هو تیری و لایت کا اقرارکر نے کے بعد انکار کر نے والے پر اور عھد کے بعد عھد شکنی کر نے والے پر“

۴۔ غدیر کی زیارت کے دوسرے حصہ میں یوں آیاھے:

اَشْھَدُ اَنَّکَ اَمیرُ الْمُوْ مِنین الْحَقُّ الَذِی نَطَقَ بِوِلاٰیَتِکَ التَّنْز یلُ وَاَ خَذَ لَکَ الْعَھْدَ عَلَی الْاُ مَّةِ بِذٰ لِکَ الرَّ سُولُ۔

اَ شْھَدُ یٰااَمیرَالْمُوْمِنینَ اَنَّ الشٰاکَّ فیکَ مٰاآمَنَ بِالرَّسُولِ الْاَمینِ وَاَ نَّ الْعٰادِلَ بِکَ غَیْرَکَ عٰانَدَ عَنِ الدینِ القویم الَّذِیْ ارْتَضَاہُ لَنَارَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَاَکْمَلَہُ بِوِلَایَتِکَ یَوْمَ الْغَدِیْرِ۔ضَلَّ وَاللّٰہِ وَاَضلَّ مَنِ اتَّبَعَ سِوٰ اکَ وَعَنَدَ عَنِ الْحَقَّ مَنْ عٰادٰاکَ۔

میں گوا ھی دیتا هوں کہ آپ برحق امیر المو منین ھیں آ پ کی ولایت پر قرآن نا طق ھے اور رسول نے اس کا عھد اپنی امت سے آپ کے با رے میں لے لیا ھے۔

اے امیر المو منین آپ کے با رے میں شک کرنے والا پیغمبرامین پر ایمان نھیں لایا اور جس نے آپ کوکسی غیر کے برابر قرار دیاوہ دین محکم کا دشمن ھے جس کو خدا وند عالم نے ھما رے لئے پسند کیا ھے اور جس کو آپ کی ولایت کے ذریعہ روز غدیر مکمل کیا ھے۔

خدا کی قسم وہ گمراہ هوا اور دوسروں کو گمراہ کیا جس نے تیرے علا وہ کسی اور کا اتباع کیا “

۵۔زیارت غدیر کے ایک اور مقام پر آیا ھے :

اَ شْھَدُ اَنَّکَ مَااتَّقَیْتَ ضٰارِعاًوَلاٰاَمْسکْتَ عَنْ حَقِّکَ جٰازِعاًوَلاٰ اَحْجَمْتَ عَنْ مُجاھَدةِ غٰاصِبیکَ نٰاکِلاًوَلاٰاَظْھَرْتَ الرِّضٰابِخِلاٰفِ مٰایُرْضِی اللہَ مُدٰاھِناًوَلاٰوَھَنْتَ لِمٰااَصٰابَکَ فی سَبیلِ اللہِ وَلاٰضَعُفْتَ وَلاَاسْتَکَنْتَ عَنْ طَلَبِ حَقِّکَ مُرَاقِباً ۔

مَعَاذَاللہِ اَنْ تَکُوْ نَ کَذَالِکَ، بَلْ اِذْظُلِمَتَ احْتَسَبْتَ رَبَّکَ وَفَوَضّْتَ اِلَیْہِ اَمْرَکَ وَذَکَّرْتَھُمْ فَمَاادَّکَرُوْاوَوَعَظْتَھُمْ فَمَااتَّعَظُوْاوَخَوَّفْتَھُمْ فَمَا تَخَوَّفُوْا ۔

اور میں گو ھی دیتا هوں کہ آپ نے ذلت کی وجہ سے تقیہ نھیں کیا اور نہ آپ اپنے حق سے عاجزی کی وجہ سے رکے اور نہ آپ نے اپنے غاصبوں کے مقابلہ میںعقب نشینی کرتے هوئے صبر کیا اور نہ آپ نے کسی سازش کے تحت خدا کی مر ضی کے خلاف مطلب کا اظھار کیا اور جو آپ کو راہ خدامیں تکلیف هو ئی تو اس کو کمزوری اور سستی کی وجہ سے قبول نھیں کیا اور خوف کی وجہ سے اپنے حق کے مطالبہ میں کو ئی کو تا ھی نھیں کی ۔

معاذ اللہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ھیں بلکہ جب آپ پر ظلم کیا گیا تو آپ نے رضائے خدا کو نگاہ میں رکھا اور اپنا امر اللہ کے حوالہ کر دیا اور آپ نے ظالموں کو نصیحت کی لیکن انھوں نے قبول نھیں کیا آپ نے ان کو مو عظہ کیا انھوں نے نھیں مانا آپ نے انھیںخدا سے ڈرایا لیکن وہ خائف نھیں هوئے ۔

۶۔زیارت غدیرکے ایک اور مقام پر آیا ھے :

لَعَنَ اللہُ مُسْتَحِلّیْ الْحُرْمَةِ مِنْکَ وَذَائِدیِ الْحَقِّ عَنْکَ وَاَشْھَدُ اَنَّھُمْ الاَخْسَرُوْنَ الَّذِیْنَ تَلْفَحُ وَجوْھَھُمُ النَّارُ وَھُمْ فِیْھَا کَالِحُوْنَ۔

لَعَنَ اللہُ مَنْ سٰاوَاکَ بِمَنْ نَاوَاکَ ۔

لَعَنَ اللہُ مَنْ عَدَلَ بِکَ مَنْ فَرَضَ اللہُ عَلَیْہِ وِلَایَتَکَ ۔

”پس خدا کی لعنت هو آپ کی حرمت ختم کر نے والے پر اور آپ کے حق کو آپ سے دور کر نے والے پر اور میں گو اھی دیتا هوں کہ وہ لوگ گھاٹا اٹھانے والوں میں ھیں ان کے چھرے جہنم میں جھونک دئے جا ئیں گے اور وہ اسی میں پڑے جلتے رھیں گے ۔

پس اس پر خدا کی لعنت هو جو آپ کے دشمن کو آپ کے برابر کرے ۔

خدا کی لعنت هو اس پر جو اسے آپ کے برابر قرار دے جس پر اللہ نے آپ کی اطاعت فرض کی ھے “

۷۔زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ھے :

اِنَّ اللہَ تَعالیٰ اسْتَجَابَ لِنَبِیِّہِ صلی اللہ علیہ وآلہ فِیْکَ دَعْوَتَہُ،ثُمَّ اَمَرَہُ بِاِظْھَارِمَااَوْلَاکَ لِاُمَّتِہِ اِعْلَاءً لِشَانِکَ وَاِعْلَاناًلِبُرْھَانِکَ وَدَحْضاً لِلاَبَاطِیْلِ وَقَطْعاً لِلْمَعَا ذِیْرِ ۔

فَلَمَّااَشْفَقَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَاسِقِیْنَ وَاتَّقیٰ فِیْکَ الْمُنَافِقِیْنَ اَوْحیٰ اِلَیْہِ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ<یَااَیُّھَاالرَّسُوْلُ بَلّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکْ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رَسَالَتَہُ وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ >فَوَضَعَ عَلیٰ نَفْسِہِ اَوْزَارَالْمَسِیْرِوَنَھَضَ فِیْ رَمْضَاءِ الْھَجِیْرِفَخَطَبَ وَاَسْمَعَ وَنَادیٰ فَاَبْلَغَ ،ثُمَّ سَاٴَلَھُمْ اَجْمَعَ فَقَالَ:ھَلْ بَلَّغْتُ؟ فَقَالُوْا:اَللَّھُمَّ بَلیٰ ۔فَقَالَ اللَّھُمَّ اشْھَدْ۔ثُمَّ قَالَ:اَلَسْتُ اَوْلیٰ بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ؟ فَقَا لُوْا:بلیٰ ۔فَاَخَذَ بِیَدِکَ وَقَالَ:مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَہَذَا عَلِیٌّ مَوْلَا ہُ،اَللَّہُمّّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِمَنْ عَادَاہُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہ“فَمَا آمَنَ بِمَااَنْزَلَ اللہُ فِیْکَ عَلیٰ نَبِیَّہِ اِلَّا قَلِیْلٌ وَلَازَادَاَکْثَرَھُمْ غَیْرَتَخْسِیْرٍ ۔

خداوند عالم نے آپ کے سلسلہ میں اپنے نبی کی دعا قبول فر ما ئی پھر ان کوحکم دیا آپ کی ولا یت کوظاھر کر نے ،آپ کی شان کو بلند کر نے ،آپ کی دلیل کا اعلان کرنے ،اور با طلوں کو کچلنے اور معذرتوں کو قطع کر نے کےلئے ۔

تو جب منافقین کے فتنہ سے ڈرے اور آپ کے با رے میں انھیںمنافقین کی طرف سے خوف پیدا هواتو عالمین کے پرور دگار نے وحی کی” اے رسول آپ اس پیغام کو پہنچا دیجئے جس کا ھم آپ کو حکم دے چکے ھیں اگر آپ نے وہ پیغام نھیں پہنچایا تو گو یا رسالت کا کو ئی کام ھی انجام نھیں دیا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکھے گا“ تو انھوں نے سفر کی زحمتوں کو اٹھایا اورظھر کے وقت کی سخت گرمی میں غدیر خم میں ٹھھر کر خطبہ دیا اور سنا یا اور آواز دی پھر پهو نچا دیا پھر ان سب سے پو چھا کیا میں نے پہنچا دیا تو سب نے کھا ھاں خدا کی قسم آپ نے پہنچا دیا پھر کھا کہ خدا یا گو اہ رہنا پھر کھا کیا میں مو منوں کی جان پر خود ان کی نسبت اولیٰ نھیں هوں انھوں نے کھا ھاں پھر آپ نے علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑا اور فر مایا جس کا میں مو لا هوں اس کے یہ علی مو لا ھیں خدا یا اس کو دو ست رکھنا جو انھیں دو ست رکھے اور اسے دشمن رکھنا جو انھیں دشمن رکھے اس کی مدد کرنا جو ان کی مدد کرے اس کو ذلیل کرجو انھیں رسواکرے تو آپ کے با رے میں جو خدا نے اپنے نبی پر نا زل کیا ھے اس پر چند لوگوں کے علاوہ اور کو ئی ایمان نھیں لایا اور زیادہ تر لوگوں نے گھا ٹے کے علا وہ کچھ بھی نھیں پایا۔

۸۔زیارت غدیر میں ایک اور مقام پر آیا ھے :

اَللَّھُمَّ اِنَّانَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَاھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ۔فَالْعَنْ مَنْ عٰارَضَہُ وَاسْتَکْبَرَوَکَذبَّ بِہِ وَکَفَرَوَسَیَعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوااَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ۔

لَعْنَةُ اللہِ وَلَعْنَةُ مَلاٰ ئِکَتِہِ وَرُسُلِہِ اَجْمَعینَ عَلیٰ مَنْ سَلَّ سَیْفَہُ عَلَیْکَ وَسَلَلْتَ سَیْفَکَ عَلَیْہِ ۔یٰااَمیرَالمُوٴمِنینَ مِن الْمُشْرِکینَ وَالْمُنٰافِقینَ اِلیٰ یَوْمِ الدّ ینِ وَعَلیٰ مَنْ رَضِیَ بِمٰاسٰائَکَ وَلَمْ یُکْرِھْہُ وَاَغْمَضَ عَیْنَہُ وَلَمْ یُنْکِرْاَوْاَعٰانَ عَلَیْکَ بِیَدٍ اَوْ لِسٰانٍ اَوْقَعَدَعَنْ نَصْرِکَ اَوْخَذَلَ عَنِ الْجِِھٰادِ مَعَکَ اَوْغَمَطَ فَضْلَکَ وَجَحَدَ حَقَّکَ اَوْعَدَلَ بِکَ مَنْ جَعَلَکَ اللہُ اَوْلیٰ بِہِ مِنْ نَفْسِہِ ۔

”خدایا میں جانتا هوں بیشک یہ حق تیری طرف سے ھے تو تو لعنت کر اس پر جو علی سے ٹکرائے، سر کشی کرے ،تکذیب کرے اور کفر کرے اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کھاں جا ئیں گے۔

اللہ اس کے ملائکہ اور تمام رسولوں کی لعنت هو اور ان سب پر جنھوں نے اپنی تلوار کو آپ کے مقابلہ میں کھینچا اورجن پر آپ نے اپنی تلوار کھینچی اے امیر المو منین چا ھے وہ مشرکوں میں سے هوں یا منافقین میں سے روز قیامت تک ،اور ان سب پر جو آپ کی برا ئی سے راضی هو ئے اور اس کو نا پسند نہ کیا اور چشم پوشی کی اور انکار نہ کیا یا آپ کے خلاف مدد کی ھاتھ یا زبان سے یا آپ کی نصرت سے بیٹھارھا یا آپ کے ساتھ جھاد سے باز رھا یا آپ کے فضل کو کم کیا اور آپ کے حق کا انکار کیا یااس کو آپ کے برابر کیا جس سے خدا نے آپ کو اولیٰ بنایا تھا ۔

۹۔زیارت غدیر کے ایک اور حصہ میں ھم پڑھتے ھیں :

وَالْاَمْرُالْاَعْجَبُ وَالْخَطْبُ الْاَفْزَعُ بَعْدَجَحْدِکَ حَقَّکَ غَصْبُ الصَّدّ یقَةِ الطَٰاھِرَةِ الزَّھْرٰاءِ سَیَّدَةِ النَّساءِ فَدَکاًوَرَدُّشَھٰادَتِکَ وَشَھٰادَةُُُُ السَّیَّدَ یْنِ سُلاٰلَتِکَ وَعِتْرَةِ الْمُصْطَفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْکُمْ۔وَقَدْاَعْلَی اللہُ تَعٰالیٰ عَلَی الْاُمَّةِ دَرَجَتَکُمْ وَرَفَعَ مَنْزِلَتَکُمْ وَاَبٰانَ فَضْلَکُمْ وَشَرَّفَکُمْ عَلَی الْعٰالَمینَ ۔

اور عجیب ترین امر اور سب سے نا گوار واقعہ آپ کے حق کے انکار کے بعد جناب صدیقہ طاھرہ فا طمہ زھرا (ع) سید ة النساء علیھا السلام کے حق فدک کا غصب کرنا ھے اور آپ کی گو اھی اور سردار جوانان جنت امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی گو اھی (جو آپ کی نسل اور عترت مصطفےٰ سے ھیں )کا رد کرنا ھے جبکہ خدا وند عالم نے آ پ (ع) کے مرتبہ کو امت پر بلند کیا ھے اور آپ کی منزلت کو رفعت دی ھے اور آپ کے فضل کو ظاھر کیا ھے اور تمام عالم پر آپ کو شرف دیا ھے ۔

۰ا۔زیارت غدیر میں آیا ھے :

مٰااَعْمَہَ مَنْ ظَلَمَکَ عَنِ الْحَقِّ ۔

فَاَشْبَھَتْ مِحْنَتُکَ بِھِمٰا مِحَنَ الْاَنْبِیٰاءِ عِنْدَ الْوَحْدَةِ وَعَدَمِ الْاَنْصٰارِ ۔

مٰا یُحیطُ الْمٰادِحُ وَصْفَکَ وَلاٰیُحْبِطُ الْطٰاعِنُ فَضْلَکَ

تُخْمِدُ لَھَبَ الْحُرُوبِ بِبَنٰانِکَ وَتَھْتِکُ سُتُورَ الشُّبَہِ بِبَیٰانِکَ وَتَکْشِفُ لَبْسَ الْباطِلِ عَنْ صَریحِ الْحَقَّ۔

تو وہ کتناسرگشتہ اور اندھا ھے جس نے آپ کے حق پر ظلم کیا ۔

تنھائی اور ناصرو مددگار نہ هو نے کی صورت میں آپ کی مظلومی انبیا ء علیھم السلام کی مظلومی سے کتنی مشابہ ھے ۔

پس آپ کی مدح کر نے والا آپ کی صفت کا احاطہ نھیں کر سکتا اور نہ کو ئی طعنہ دینے والا آپ کے فضل کا احاطہ کرسکتا ھے ۔

آپ نے اپنی انگلیوں (اپنی قدرت )سے جنگ کے شعلوں کو خاموش کیا اوراپنے بیان سے شبہ کے پردوں کوچاک کیااور باطل کے اشتباہ کوحق کی وضاحت سے کھول دیا ۔

اا۔زیارت غدیر میں آیا ھے :

اللّٰھُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ اَنْبِیٰا ئِکَ وَاَوْصِیٰاءِ اَنْبِیٰائِکَ بِجَمیعِ لَعَنٰا تِکَ وَاَصْلِھِمْ حَرَّنٰارِکَ وَالْعَنْ مَنْ غَصَبَ وَلِیَّکَ حَقَّہُ وَاَنْکَرَعَھْدَہُ وَجَحَدَہُ بَعْدَ الْیَقینِ وَالْاقْرَارِ بِالْوِلاٰیَةِ لَہُ یَوْمَ اَکْمَلْتَ لَہُ الدّ ینَ ۔

اللّٰھُمَّ الْعَنْ قََََتَلَةَ اَمیرالْمُوْمِنِیْنَ وَمَنْ ظَلَمَہُ وَاَشْیٰاعَھُمْ وَاَنصٰارَھُمْ۔

اللّٰھُمَّ الْعَنْ ظٰالِمِی الْحُسَیْنِ وَقٰٰاتِلیہِ وَالْمُتٰابِعینَ عَدُوَّہُ وَنٰاصِریہِ وَالرّٰاضینَ بِقَتْلِہِ وَخٰاذِلیہِ لَعْناًوَبیلاً۔

خدایا لعنت کر اپنے انبیاء کے قا تلوں پر اور ان کے اوصیا کے قاتلوں پر مکمل لعنت اور ان کو جہنم کی گر می میں ڈال دے اور لعنت کراس پر جس نے تیرے ولی کا حق غصب کیا اور اس کے عھد کا انکار کیا اور یقین اور اقرار و لایت کے بعد ان سے منحرف هوا جس روز تو نے دین کو مکمل کیا ۔

خدایا لعنت کر امیر المو منین کے قاتلوں پر اور اس پر جس نے ان پر ظلم کیا اوران (ظلم کرنے والوں) کے ماننے والوں اور نا صروں پر ۔

خدایالعنت کرحسین کے ظالموں اور قا تلوں اور ان کے دشمنوں کا اتباع کرنے والوں اور مدد گاروں پر اور ان کے قتل پرراضی رہنے والوں پر اور انھیں چھو ڑنے والوں پر سخت عذاب و لعنت کر “

۲ا۔زیارت غدیر میں ھم پڑھتے ھیں :

اللّھمّ العن اولّ ظالم ظلم آل محمّد ومانعیھم حقوقھم ۔

اللّھمّ خُصَّ اوّل ظالم وغاصب لآل محمّد باللعن وکل مستنّ بما سنّ الی یوم القیامة۔

اللَّھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِیّنَ وَعَلیٰ عَلِیٍّ سَیَّدِ الْوَصِیِیّنَ وآلہِ الطّاھرین واجْعَلْنَابِھِمْ مُتَمَسِّکِیْنَ وَبِوِلَایَتِھِمْ مِنَ الْفَائِزِیْنَ الآمِنِیْنَ الَّذِیْنَ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔

خدا یا آل محمد پر سب سے پھلے ظلم کرنے والے پرلعنت کر اور ان کے حقوق کے رو کنے والوں پر

خدایا آل محمد پر پھلے ظالم اور غاصب پر مخصوص لعنت کر اور اس پر بھی جو اس کے طریقہ پر چلے روز قیامت تک ۔

خدایا درود نا زل فرما محمد پر جو خا تم النبیین ھیں اور علی پر جو سید الو صیین ھیں اور ان کی آل پاک پر اور ھم کو ان سے اور ان کی ولا یت سے متمسک قرار دے کر کا میاب فرمااور ان صاحبان امان میں سے قرار دے جن کےلئے کو ئی خوف اور حزن نھیں ھے ۔

۳ا۔ھم روز غدیر کی دعا میں پڑھتے ھیں :

اللَّھُمَّ صَدَّقْنَاوَاَجَبْنَادَاعِیَ اللّٰہِ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ فِیْ مُوَالَاةِ مَوْلَانَاوَمَوْلیَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَمِیْرِالْمُوٴْمِنِیْنَ عَلِیٍ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ۔اللَّھُمَّ رَبَّنَااِنَّنَاسَمِعْنَامُنَادِیاًیُنَادِیْ لِلاِیْمَانِ اَنْ آمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا ۔۔۔فَاِنَّایٰارَبَّنَا بِمَنِّکَ وَلُطْفِکَ اَجَبْنَادَاعِیْکَ وَاتَّبَعْنَاالرَّسُوْلَ وَصَدَّقْنَاہُ وَصَدَّقْنَامَوْلیَ الْمُوْمِنِیْنَ وَکَفَرْنَابِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ،فَوَلِّنَامَاتَوَلَّیْنَا ۔۔۔

”بار الٰھاھم نے تصدیق کی اللہ کی جا نب بلانے والے کی دعوت پر لبیک کھا اور ھم نے رسول کا اتباع کیا اپنے اور مو منین کے مو لا امیر المو منین علی بن ابی طالب کی دو ستی میں ۔۔۔اے خدا اے ھما رے پرور دگار ھم نے ایمان کے لئے آواز دینے والے کی آواز کو سناکہ ایمان لا وٴ اپنے رب پر تو ھم ایمان لے آئے ۔

بیشک اے ھمارے پروردگار ھم نے تیرے لطف و احسان کی وجہ سے تیری طرف بلانے والے کی دعوت پر لبیک کھی اور رسول کا اتباع کیا اور اس کی تصدیق کی اور اسی طرح ھم نے مو منین کے مو لا کی تصدیق کی اور جبت و طاغوت کا انکار کیا لہٰذا تو ھماری ولایت اور ایمان کی حفاظت فر ما “

۴ا۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ھیں :

اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَسْاٴَلُکَ ۔۔۔اَنْ تَجْعَلَنِیْ فِیْ ھَذَالْیَوْمِ الَّذِیْ عَقَدْتَ فِیْہِ لِوَلِیِّکَ الْعَھْدَ فِیْ اَعْنَاقِ خَلْقِکَ وَاَکْمَلْتَ لَھمُ الدِّ یْنَ، مِنَ الْعَارِفِیْنَ بِحُرْمَتِہِ وَالْمُقَرِّیْنَ بِفَضْلِہِ ۔۔ ۔ اللَّھُمَّ فَکَمَاجَعَلْتَہُ عَیْدَکَ الاَکْبَرَوَسَمَّیْتَہُ فِی السَّمَاءِ یَوْمَ الْعَھْدِ الْمٍعْھُوْدوَفِیِ الاَرْضِ یَوْمَ الْمِیْثَاقِ الْمَاخُوْذِ وَالْجَمْعِ الْمَسْوٴُوْلِ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْرِرْبِہِ عُیُوْنَنَا وَاجْمَعْ بِہِ شَمْلَنَاوَلَاتُضِلَّنَابَعْدَ اِذْھَدَیْتَنَاوَاجعَلْنٰا لِاَنْعُمِکَ مِنَ الشٰاکِرینَ یااَرْحَمَ الرّٰاحِمینَ۔

اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا هوں ۔۔۔مجھ کو اس روزمیں قرار دیدے جس دن تو نے اپنے ولی کےلئے اپنی مخلوق کی گردن میں عھد ڈالا ھے اوران کے دین کو مکمل کیا ھے کہ مجھے اس کی حرمت کو پہچا ننے والوں اور اس کی فضیلت کا اقرار کرنے والوں میںقرار دے۔۔۔اے خدا جس طرح تو نے اس کو عید اکبر قرار دیا ھے اس کا نام آسمان میں عھد معهو د اور زمین میں روز میثاق ما خوذ اور جمع مسئو ل قرار دیا ھے درود نا زل کر محمد وآل محمد پر اور اس سے ھما ری آنکھوں کو روشن کر اور ھما ری پراگندگی کو جمع کر اور ھما ری ھدا یت کے بعد ھم کو گمراہ نہ کرنا اور ھم کو اپنی نعمت کا شکر ادا کر نے والوں میں قرار دے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

۱۵۔ھم دعائے روز غدیر میں ایک اور مقام پر پڑھتے ھیں :

الْحَمْدُلِلِّٰہ الَّذی عَرَّفَنٰافضلَ ھٰذَاالیَوْمِ وَبَصَّرَنٰاحُرْمَتَہُ وَکَرَّمَنٰابِہِ وَشَرَّفَنٰابِمَعْرِفَتِہِ وَھَدانٰابِنُورِہِ ۔۔۔اللّٰھُمَّ اِنیّ اَساَلُکَ۔۔۔اَنْ تَلْعَنَ مَنْ جَحَدَ حَقَّ ھٰذَاالْیَوْمَ وَانْکَرَحُرْمَتَہُ فَصَدَّ عَنْ سَبیلِکَ لِاطْفَا ءِ نُوْرِکَ۔

خدا کی حمد ھے جس نے ھم کو اس دن کی فضیلت پہچنوا ئی اور اس کی حرمت کی بصیرت عطاکی، اور اس کے ذریعہ ھم کو عزت دی اور اس کی معرفت سے ھم کوشرف بخشا اور اس کے نور سے ھما ری ھدایت کی ۔۔۔اے خدا میں تجھ سے سوال کرتا هوں ۔۔۔اور ان پر لعنت کر جس نے اس روز کے حق کا انکار کیا اور اس کی حرمت کا انکار کیااور جس نے تیرے نور کو بجھا نے کےلئے تیری راہ بند کر دی ھے ۔

۶ا۔عید غدیر کی دعا میں ایک اور مقام پرآیا ھے :

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اَلَّذِیْ جَعَلَ کَمَالَ دِیْنِہِ وَتَمَامَ نِعْمَتِہِ بِوِلَایةِ اَمِیْرَالْمُوٴمِنِیْن عَلی بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ عَلَیہِ السلام۔

حمد ھے اس خدا کےلئے جس نے اپنے دین کو مکمل اور اپنی نعمت کو تمام کیا امیر المو منین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت کے ذریعہ ۔

۳ غدیرکی محفلیں[147]

ھر سال غدیر کے سلسلہ میں۸ا/ذی الحجہ کوجو پوری دنیا میں محفلیں منا ئی جا تی ھیں وہ غدیر کی یاد کاسب سے مشخص و معین آئینہ ھیں اور غدیر کے مطالب کو محفوظ کر نے میں اس کا معا شرتی اثر لوگوں کے اذھان میں غیرمعمولی ھے ۔

جس طرح غدیر کی یاد گا ر محفل ھر سال آسمان پر ملائکہ کے در میان منا ئی جا تی ھے اسی طرح زمین پربھی شیعہ حضرات اس دن غدیر کی یاد میں محفلیں برپا کر تے ھیں ۔

سب سے پھلی محفل غدیر اسی بیابان غدیر میں منا ئی گئی اور پیغمبر اکرم(ص) اور حضرت امیرالمو منین (ع) کومبارکباد پیش کر نے والوں کا ایک سیلاب ا مڈ آیا اور اس دن اتنے زور شور سے محفل هو ئی کہ اس جیسی محفل آج تک اس بیابان میں نہ هو سکی ۔

اس کے بعدپچیس سال تک غدیر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فا طمہ زھرا سلام اللہ علیھا کے جلے هو ئے دروازے کے پیچھے رو تی رھی یھاں تک مو لا ئے کا ئنات نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھا لی اور غدیر کی پھلی محفل مسجد کو فہ میں آپ کی مو جود گی میں بپا هو ئی ۔عید غدیر جمعہ کے دن سے مقارن هوئی اور حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مفصل طور پر غدیر کی عظمت بیان فر ما ئی نماز جمعہ کے بعد تمام افراد حضرت علی علیہ السلام کے ھمراہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے دو لت کدہ پر غدیر کا مخصوص طعام کھانے کےلئے گئے ۔

اس کے بعد غدیر کی مفصل محفل منا نے کے لئے حالات سازگار نہ هوئے یھاں تک کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اپنے دور میں خراسان میں اپنے مخصوص اصحاب کے ایک گروہ کو عید غدیر کا روزہ افطار کر نے کی دعوت فر ما ئی اور ان کے گھروں میں تحفے تحا ئف اور عیدی بھیجی اور ان کے لئے غدیر کے فضائل کے سلسلہ میں مفصل خطبہ بیان فر مایا۔

آل بویہ کے زمانہ میں ایران اور عراق میں اور فا طمی حکو مت کے دور میں شام ، مصر اور یمن میں مفصل طور پر غدیر کی محفلیں منائی جا تی رھیں اور ان محفلوں کو خا ص اھمیت دی جا تی تھی ۔[148]صفوی دور سے لیکر ھما رے دور تک غدیر کی محفلیں بڑے ھی زور و شور سے منائی جا تی ھیں اور ایران ،عراق ،لبنان ، پاکستان اور ہند و ستان میں بڑے وسیع پیمانہ پر غدیر کاجشن منا یا جا تا ھے ۔

متعدد بر سوں سے علما ء و بزرگان ،اور بلند عھدوں پر فائز افراد اور مختلف طبقوں کے لوگ غدیر کے دن ایک دو سرے کو مبار کباد ی پیغام بھیجتے ھیں اور اس کی بڑی عزت و توقیر کرتے ھیں ۔غدیر کی محفلیں بڑے بڑے شھروں سے لیکر چھو ٹے سے چھوٹے گا وٴں میں بھی برپا هو تی ھیں یھاں تک پوری دنیا میں جھاں جھاں بھی شیعہ آباد ھیں چا ھے وہ کتنی ھی کم تعداد میں کیوں نہ هوں ایک دو سرے کے پاس جا تے ھیں اور غدیر کے دن محفل کر تے ھیں ۔

۰ا۴ا ھ میں غدیر کی چودهویں صدی کی منا سبت سے لندن میں ایک عظیم الشان سیمینار منعقدکیا گیاجو کئی دن تک جاری اور اس کی رپورٹ بھی طبع هوچکی ھے اس کے بعد ایک مرتبہ پھر غدیر کی عظمت کی بین الاقوامی سطح پر نما ئش هو ئی ۔

اب ھم چودہ سو گیارہ سالہ کا جشن غدیر منا رھے ھیں اور غدیر کو سورج کی طرح روشن و منور دیکھ رھے ھیں ھم اس پر فخر کرتے ھیں اور غدیر کی کامیابی کی خو شی منا ئیں گے اور سقیفہ کی مایوسی کو دیکھیں گے ۔

غدیر کی محفلوں میں غدیر کے سلسلہ میں تقریروں اورقصیدوںکے علاوہ غدیر میں پیغمبر اکرم (ص) کے خطبہ کی حفا ظت اور اسے حفظ کر نے والوں کو تحفے تحا ئف عطا کرنا برسوں سے رائج ھے اور اس کے مثبت آثار دیکھنے کو ملتے ھیں ۔

آخر میں ھم یہ پیشکش کر تے ھیں :

ھر سال غدیر سے متعلق هو نے والی محفلوں اور پروگراموں میں ”خطبہٴ غدیر “اور واقعہٴ غدیرکو مفصل طور پر بیان کیاجا ئے تا کہ اس طرح ھم پیغمبر اسلام(ص) کے اس کے ابلاغ کے بارے میںدئے هو ئے حکم کی تعمیل کر سکیں اور صاحبان ولایت مطلقہٴ الٰھیہ کی پیغمبر اکرم(ص) ،حضرت امیر المو منین علیہ السلام ،فا طمہٴ زھرا سلام اللہ علیھا اور ائمہ معصو مین علیھم السلام سے تجدید عھد و پیمان کر سکیں ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حواله جات

 [143] مثالب النواصب (ابن شھر آشوب )خطی نسخہ صفحہ /۶۳۔

[144] مجلہ تراثنا شمارہ ا۲ صفحہ ۵ سے ۲۲ تک۔

[145] عوالم جلد ۵ا/۳صفحہ ۲۲۰۔

[146] ا رالانوار جلد ۹۷ صفحہ ۳۶۰۔

[147] عوالم جلد ۵ا/۳صفحہ ۲۰۸،ا۲۲،۲۲۲۔

[148] کتاب ”عید الغدیر فی عھد الفاطمیین “میں رجوع کیجئے ۔

وا قعہٴ غدیرکے منابع

۱ کتب شیعہ

ا۔اثبات الھداة جلد ۳ صفحہ اا۳،۴۷۶،۵۸۴،ا۶۰۔جلد ۴ صفحہ ۶۶ا،۴۷۲۔

۲۔الا حتجاج:ج اصفحہ ۶۶،۸۴ ۔

۳۔ احقاق الحق :ج ۲ صفحہ ۵ا۴ ۔ا۵۰ ج ۳صفحہ ۳۲۰ ج ۶ صفحہ ۲۲۵ ،۳۶۸ ج ۲ا ،صفحہ ا ۔۹۳ ج ۴ا صفحہ ۲۸۹ ۔۲۹۲ ج ا۲صفحہ ۹۴ ۔ا۲ا،ج ۳۰ صفحہ ۷۷ ۔۷۹ ۔

۴۔الا ختصاص :صفحہ ۷۴ ۔

۵۔ الا ربعین(ابی الفوارس ):صفحہ ۳۹ ۔

۶۔الاربعین (منتجب الدین ):ح ۳۹۔

۷۔الا مالی (صدوق ):صفحہ ۲ا ، ۰۶ا ،۰۷ا،۲۸۴۔

۸۔الا مالی (طوسی ):ج ا صفحہ ۲۴۳ ،۲۵۳،۲۷۸،ج ۲ صفحہ ۵۹ا ،۷۴ا۔

۹۔ اقبال الا عمال :صفحہ ۴۴۴،۴۵۳ ۔۴۵۹ ،۴۶۶ ،۶۷۳۔

۰ا۔بحار الا نوار ۔ج ۷۳،اوردیگر تمام جلدیں۔

اا۔البرھان فی تفسیر القرآن :ج اصفحہ اا۷،ج ۲ صفحہ ۴۵ا۔

۲ا۔بشارة المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ:صفحہ ا۵ ،۰۳ا،۴۸ا،۵۰ا،۶۶ا۔

۳ا۔تاویل الا یات الظاھرة:ج ا صفحہ ۶۰ا ج ۲ صفحہ ۴۷۳، ۶۲۳،۷۳۳، ۲ا۸۔

۴ا۔البتیان :ج اصفحہ ۳اا۔

۵ا۔تفسیر الامام العسکری علیہ السلام :صفحہ ااا۔۹اا۔

۶ا۔تفسیر العیاشی :ج ا صفحہ ۲۹۲ ،۲۹۳،۳۳۲۔۳۳۴

۷ا۔تفسیر القمی :صفحہ ۵۰ا،۲۷۷،۴۷۴،۵۳۸۔

۸ا۔تفسیر فرات :صفحہ ۳۶،۸۷ا،۸۹ا۔

۹ا۔التنزیہ :صفحہ ۲۰ا۔

۲۰۔تہذیب الا حکام : ج ۳صفحہ ۴۳اج ۴ صفحہ ۳۰۵۔

ا۲۔جامع الا خبار :صفحہ اا۔

۲۲۔الجنةالواقیة:صفحہ ۷۰ ۔

۲۳۔الجواھر السنیة:صفحہ ۲۲۷۔

۲۴ ۔الخصال :صفحہ ۶۵،۹ا۲،۲۶۴،۴۶۶،۵۵۰۔

۲۵۔رجال الکشی :صفحہ ۶۶۔

۲۶ ۔روضةالواعظین:صفحہ ۰۹ا ،۲۴ا۔

۲۷۔الشافی:ج ۲ صفحہ ۲۵۸۔۳۲۵۔

۲۸۔صحیفة الرضا علیہ السلام :صفحہ ۷۲ا۔

۲۹۔الصراط المستقیم ج ۲ صفحہ ۷۹،۲۳ا۔

۳۰۔الطرائف :صفحہ ا۲ا،ا۵ا۔

ا۳۔عبقات الا نوار :ج ا ۔۰ا۔

۳۲۔العمدة (ابن البطریق ):صفحہ ۹۰ ۔۰۳ا ،۴۴۸۔

۳۳۔علل الشرائع :صفحہ ۴۳ا۔

۳۴۔عوالم العلوم :ج ۵ا/۳۔

۳۵۔عیون اخبار الرضا علیہ السلام :ج ۲ ۔صفحہ / ۴۷ ۔

۳۶ ۔غا یة المر ام :ج ا صفحہ / ۲۳۵ ۔۳۳۴۔۳۳۵۔۳۵۲ ۔۳۹۲ ۔

۳۷ ۔الغدیر :ج ا ۔اا۔

۳۸ ۔فرحة الغری :صفحہ / ۴۶ ۔

۳۹ ۔فضائل الخمسة ۔ج ا صفحہ / ا۳۶ ۔۳۸۳ ۔

۴۰ ۔قرب الا سنا د ۔صفحہ / ۷۔ ۲۷ ۔۲۹ ۔

ا۴ ۔الکافی ۔ ج ا صفحہ / ۲۹۴ ۔۴۲۲ ۔ج ۴ ۔صفحہ / ۴۸ا ۔۵۶۶ ۔

۴۲ ۔کتاب سلیم ۔صفحہ / ۴۷ ۔۸۵ا ۔۹ا۔ ۶ ۲۰ ۔

۴۳ ۔کشف الغمة ۔ج ا صفحہ ۸ا۳ ۔۳۲۳ ۔ج۲ صفحہ / ۳ا۲ ۔۲۲۲ ۔ج ۳ صفحہ / ۴۷۔

۴۴۔ کشف المھم ۔مکمل ایک جلد ۔

۴۵ ۔کشف الیقین ۔صفحہ /۳۴ ۔۴۶ ۔۳اا ۔

۴۶ ۔کمال الدین ۔ج ۲ صفحہ /۵۹ا ۔۷۴ا ۔

۴۷ ۔کنز الفو ائد ۔صفحہ /۹۰ا ۔

۴۸ ۔مجمع البیان ۔ج ۰اصفحہ/ ۳۵۲ ۔

۴۹ ۔المحتضر ۔صفحہ /۴۵ ۔ااا۔

۵۰ ۔مدینة المعا جز ۔صفحہ/ ۰ا ۔ا۳ ۔

ا۵ ۔المزار الکبیر ۔صفحہ /۹۰ا ۔

۵۲ ۔مستدر ک الو سائل ۔ج ۳ صفحہ/ ۲۵۰ ۔ج ۶ صفحہ/ ۲۷۷ ۔ج ۷صفحہ/ ۲۰ا ۔

۵۳ ۔مصباح الزائر ۔صفحہ /۲۲۹۔

۵۴ ۔مصباح المتھجد ۔صفحہ/ ۲۷ ۔۳ا۵ ۔ا۵۲ ۔۵۲۵ ۔۵۲۶ ۔

۵۵ ۔معانی الا خبار ۔صفحہ/ ۶۶ ۔

۵۶ ۔المنا قب ۔(ابن شھر آشوب )۔ج ۲ صفحہ /۲۲۴۔۲۲۶۔ ۲۲۷ ۔۲۲۸ ۔۲۳۶ ۔ج ۳ ۔ صفحہ /۳۸ ۔۴۲ ۔۴۳ ۔

۵۷ ۔من لا یحضر ہ الفقیة ۔ج ۲ ۔صفحہ /۹۰ ۔۵۵۹ ۔

۵۸ ۔المھذب ۔(ابن فھد )۔ج ا ۔صفحہ/۹۴ا ۔

۵۹ ۔وسائل الشیعة ۔ج ۳ صفحہ/ ۵۴۸ ۔ج ۷ ۔صفحہ / ۳۲۳ ۔۳۲۴ ۔

۲ کتب اھل سنت

۶۰ ۔اخبار اصفھان ۔ج ا ۔صفحہ /۰۷ا ۔۲۳۵ ۔ج ۲ ۔صفحہ/ ۲۲۷ ۔

ا۶ ۔اخبار الد ول وآثار الا ول ۔صفحہ/ ۲ ۰ا ۔

۶۲ ۔ اربعین الھروی ۔صفحہ / ۲ا ۔

۶۳ ۔ار جح المطالب ۔صفحہ/ ۳۶ ۔۵۶ ۔۵۸ ۔۶۷ ۔۳ ۲۰ ۔۳۳۸ ۔۳۳۹ ۔۳۸۹ ۔ا۵۸ ۔ ۵۴۵ ۔ا۶۸ ۔

۶۴ ۔الا ر شاد صفحہ / ۴۲۰۔

۶۵ ۔ اسباب النزول صفحہ ۳۵ا ۔

۶۶۔ الا ستیعاب ج ۲ صفحہ ۴۶۰ ۔

۶۷ ۔اسد الغا بة ج ا صفحہ ۳۰۸ ،۳۶۷ ،ج ۲ صفحہ ۲۳۳ ،ج ۳ صفحہ ۹۲ ، ۹۳ ،۲۷۴ ، ۳۰۷ ، ا۳۲ ، ج ۴ صفحہ ۲۸ ، ج ۵ صفحہ ۶ ، ۲۰۵ ، ۲۰۸ ۔

۶۸ ۔اسعاف الراغبین صفحہ ۷۴ا ،۷۸ا ۔

۶۹ ۔اسنی المطالب صفحہ ۴ ،ا۲۲ ۔

۷۰ ۔اشعة اللمعات فی شرح المشکا ة ج ۴ صفحہ ۸۹ ۔۶۶۵ ،۶۷۶ ۔

ا۷ ۔الاصا بة ۔ج ۱صفحہ۳۷۲،۵۵۰،جلد ۲ صفحہ ۲۵۷،۳۸۲،۴۰۸،۵۰۹،جلد ۳ ص ۵۱۲،جلد۴ صفحہ ۸۰۔

۷۲۔الاعتقاد(بیھقی)۱۸۲۔

۷۳۔الاغانی:ج۸ص۳۰۷۔

۷۴۔الامامةوالسیاسہ:ج۱ص۱۰۹۔

۷۵۔امالی الشجری:ج۱ص۱۷۴،۱۷۸۔

۷۶۔انساب الاشراف:ج۱ص۱۵۶۔

۷۷۔انسان العیون:ج۳ص۲۷۴۔

۷۸۔الانوارالمحمدیّة:ص۲۵۱۔

۷۹۔بدائع ا لمنن:ج۲ص۵۰۳۔

۸۰۔البدا یةوالنھایة:ج۵ص۲۰۸،۲۰۹،۲۱۱،۲۱۲،۲۱۳،۲۱۰،۲۲۷،۲۲۸،ج۷ص

۳۳۸،۳۴۴،۳۴۶،۳۴۷،۳۴۸،۳۴۹۔

۸۱۔البریقةالمحمدیة:ج۱ص۲۱۴۔

۸۲۔بلاغات النساء :ص۷۲۔

۸۳۔بلوغ الامانی:ج۱ص۲۱۳۔

۸۴۔البیان والتعریف:ج۲ص۳۶۔

۸۵۔التاج الجامع:ج۳ص۲۹۶۔

۸۶۔تاریخ الاسلام:ج۲صفحہ ۱۹۶،۱۹۷۔

۸۷۔تلخیص المستدرک:ج۳صفحہ۱۱۰۔

۸۸۔تاریخ بغداد :ج۸صفحہ۲۹۰،ج۷صفحہ۳۷۷،ج ۱۲ صفحہ۳۴۳ ج۱۴ صفحہ۲۳۶۔

۸۹۔تاریخ الخلفاء :ص۱۱۴،۱۵۸،۱۷۹۔

۹۰۔تاریخ الخمیس :ج۲ص۱۹۰۔

۹۱۔تاریخ دمشق:ج۱ص۳۷۰،ج۲ص۵،۸۵،۳۴۵،ج ۵ص۳۲۱۔

۹۲۔التاریخ الکبیر :ج۱ص۳۷۵،ج۲قسم ۲نمبر۱۹۴۔

۹۳۔تجھیزالجیش :صفحہ ۱۳۵،۲۹۲۔

۹۴۔التحفة العلیة:صفحہ ۱۰۔

۹۵۔تذکرةالحفاظ:ج۱ص۱۰۔

۹۶۔تذکرةالخواص :ص۳۰،۳۳۔

۹۷۔تفریح الاحباب :ص۳۱،۳۲،۳۰۷،۳۱۹،۳۶۷۔

۹۸۔تفسیر الثعلبی :ص۷۸،۱۰۴،۱۸۱،۳۲۵۔

۹۹۔تفسیر الطبری :ج۳ص۴۲۸۔

۱۰۰۔تفسیر فخر الرازی:ج۳ص۶۳۶۔

۱۰۱التمھید (باقلانی):ص۱۷۱۔

۱۰۲۔التنبیہ والاشراف :ص۲۲۱۔

۱۰۳۔التمھید والبیان (اشعری):ص۲۳۷۔

۱۰۴۔تھذیب التھذیب:ج۱ص۳۳۷،ج۲ص۵۷،ج۷ص۲۸۳،۴۹۸۔

۱۰۵۔تیسیرالوصول:ج۲ص۱۴۷،ج۳ص۲۳۷۔

۱۰۶۔ثمارالقلوب(ثعالبی):ص۵۱۱۔

۱۰۷۔الجامع الصغیر :ح۹۰۰،۵۵۹۸۔

۱۰۸۔الجرح والتعدیل:ج۴ص۴۳۱۔

۱۰۹۔الجمع بین الصحاح:ص۴۵۸۔

۱۱۰۔الحاوی للفتاوی:ج۱ص۷۹،۱۲۲۔

۱۱۱۔الحبائک فی اخبار الملائک:ص۱۳۱۔

۱۱۲۔حبیب السیر:ج۱ص۱۴۴،ج۲ص۱۲۔

۱۱۳۔حلیةالاولیاء :ج۵ص۲۶،۳۶۳،ج۶ص۲۹۴۔

۱۱۴۔حلی الایام :ص۱۹۷۔

۱۱۵۔حیاةالصحابة:ج۲ص۷۶۹۔

۱۱۶۔الخصائص:ص۴،۴۹،۵۱۔

۱۱۷۔خصائص النسائی:ص۲۱،۴۰،۸۶،۸۸،۹۳،۹۴،۹۵،۱۰۰،۱۰۴،۱۲۴۔

۱۱۸۔الخصائص (السیوطی):ص۱۸۔

۱۱۹۔الخطط والاثار(مقریزی):۲۲۰۔

۱۲۰۔الدرالمنثور:ج۲ص۲۵۹،۲۹۸۔

۱۲۱۔دول الاسلام (ذھبی):ج۱ص۲۰۔

۱۲۲۔ذخائر العقبی:ص۶۷،۶۸۔

۱۲۳۔ذخائر المواریث:ج۱ص۵۷،۲۱۳۔

۱۲۴۔الرصف :ص۳۷۰۔

۱۲۵۔روح المعانی:ج۶ص۵۵۔

۱۲۶۔روضات الجنات (زمجی):ص۱۵۸۔

۱۲۷۔الروض الازھر:ص۹۴،۳۵۷،۳۶۶۔

۱۲۸۔روضةالاحباب:ص۵۷۶۔

۱۲۹۔الریاض النضرة:ج۲ ص۱۶۹،۱۷۰،۲۱۷،۲۴۴،۳۴۸۔

۱۳۰۔سرالعالمین(غزالی):ص۱۶۔

۱۳۱۔سعد الشموس والاقمار:ص۲۰۹۔

۱۳۲۔السمط المجید:ص۹۹۔

۱۳۳۔سنن الترمذی:ج۵ص۵۹۱۔

۱۳۴۔سنن ابن ماجة:ج۱ص۴۳۔

۱۳۵۔سنن النسا ئی :جلد ۵ صفحہ ۴۵۔

۱۳۶۔سنن المصطفی صلی الله علیہ وآلہ :جلد ۱ صفحہ ۴۵۔

۱۳۷۔السیرة الحلبیة :جلد ۳صفحہ ۲۷۴ ،۲۸۳، ۳۶۹ ۔

۱۳۸۔السیرة النبویة (زینی ):جلد ۳صفحہ ۳۔

۱۳۹۔الشذرات الذھبیة :صفحہ ۵۴۔

۱۴۰۔شرح مشکاة المصابیح : جلد ۱۱صفحہ ۳۴۰۔

۱۴۱۔شرح المقاصد :جلد ۲صفحہ ۲۱۹۔

۱۴۲۔شرح نھج البلا غة (ابن ا بی الحدید ):جلد ۱صفحہ ۳۱۷ ،۳۶۲ ،جلد ۲صفحہ ۲۸۸ ،جلد ۳ صفحہ ۲۰۸ ،جلد ۴صفحہ ۲۲۱ :جلد ۹صفحہ ۲۱۷۔

۱۴۳۔الشرف الموٴ بد (نبھا نی )):صفحہ ۵۸ ،۱۱۳ ۔

۱۴۴۔الشفاء ((قاضی عیاض ):جلد ۲صفحہ ۴۱۔

۱۴۵۔شواھد التنزیل :جلد ۱صفحہ ۱۵۸ ،۱۹۰۔

۱۴۶۔صحیح الترمذی :جلد ۱صفحہ ۳۲ ،جلد ۲صفحہ ۲۹۸ ،جلد ۵صفحہ ۶۳۳ ۔

۱۴۷۔صحیح مسلم :جلد ۴صفحہ ۱۸۷۳۔

۱۴۸۔صفوة الصفوة :جلد ۱صفحہ ۱۲۱۔

۱۴۹۔الصفین (ابن دیز یل ):صفحہ ۹۷ ۔

۱۵۰۔صلح الا خوان :صفحہ ۱۱۷۔

۱۵۱۔الصواعق المحرقة :صفحہ ۲۶ ،۲۹ ،۷۳ ،۷۴۔

۱۵۲۔طبقات ابن سعد :جلد ۳ صفحہ ۳۳۵۔

۱۵۳۔العثمانیة:صفحہ ۱۴۵۔

۱۵۴۔العقد الفرید :جلد ۵صفحہ ۳۱۷۔

۱۵۵۔العلل المتنا ھیة :جلد ۱صفحہ ۲۲۶ ۔

۱۵۶۔عمدة الا خبار :صفحہ ۱۹۱۔

۱۵۷۔فتح الباری :جلد ۶صفحہ ۶۱۔

۱۵۸۔فتح البیان :جلد ۳صفحہ ۸۹ ،جلد ۷صفحہ ۲۵۱ ۔

۱۱۵۹۔فتح القدیر :جلد ۳صفحہ ۵۷۔

۱۶۰۔الفتح الکبیر :جلد ۲صفحہ ۲۴۲ ،جلد ۳صفحہ ۸۸۔

۱۶۱۔الفتوح (ابن الا عثم ):جلد ۳صفحہ ۱۲۱ ۔

۱۶۲۔فرائد السمطین :جلد ۱صفحہ ۵۶،۶۴ ،۶۵ ،۶۷ ،۶۸ ،۶۹،۷۲،۷۵،۷۶،۷۷۔

۱۶۳۔الفصول المھمة :صفحہ ۲۳ ،۲۴ ،۲۵،۲۷،۷۴۔

۱۶۴۔الفضائل(ابن حنبل ):جلد ۱صفحہ ۴۵ ،۵۹،۷۷،۱۱۱،جلد ۲صفحہ۵۶۰،۵۶۳،۵۶۹، ۵۹۲،۵۹۹،جلد ۳صفحہ ۲۷،۳۵۔

۱۶۵۔فضائل الصحابة :جلد ۲صفحہ ۶۱۰ ،۶۸۲ ۔

۱۶۶۔فیض القدیر :جلد ۱صفحہ ۵۷،جلد ۶ صفحہ ۲۱۷ ۔

۱۶۷۔القول الفصل :جلد ۲ صفحہ ۱۵۔

۱۶۸۔قضاء قرطبة :صفحہ ۲۵۹۔

۱۶۹۔الکافی الشافی :صفحہ ۹۵ ،۹۶۔

۱۷۰۔کتاب اھل البدر :صفحہ ۶۲۔

۱۷۱۔الکفا یة :صفحہ ۱۵۱۔

۱۷۲۔کفایة الطالب :صفحہ ۱۳ ،۱۷ ،۵۸،۶۲،۱۵۳،۲۸۵،۲۸۶۔

۱۷۳۔کنز العمال :جلد ۱صفحہ ۴۸،جلد۶صفحہ ۳۹۷،۴۰۵،جلد ۸صفحہ ۶۰ ،جلد ۱۲ صفحہ ۲۱۰ ،جلد

۱۵ صفحہ ۲۰۹۔

۱۷۴۔کنوز الحقائق :صفحہ ۴۱،۹۸۔

۱۷۵۔کنوز الد قائق :صفحہ ۹۸۔

۱۷۶۔الکنی والا سماء :جلد ۱صفحہ ۱۶۰ ،جلد ۲صفحہ ۸۸۔

۱۷۷۔الکوکب الدری :جلد ۱صفحہ ۳۹۔

۱۷۸۔لسان المیزان :جلد ۱صفحہ ۴۲۔

۱۷۹۔مجمع الفوائد :جلد ۹صفحہ ۱۰۳ ۔۱۰۸،۱۶۳۔

۱۸۰۔المختار :صفحہ ۳۔

۱۸۱۔مختصر تاریخ دمشق :جلد ۱۷ صفحہ ۳۵۸۔

۱۸۲۔مختلف الحدیث (ابن قتیبة):صفحہ ۵۲،۲۷۶۔

۱۸۳۔مرقاة المفاتیح :جلد ۱صفحہ ۳۴۹ ،جلد ۱۱صفحہ ۳۴۱ ،۳۴۹۔

۱۸۴۔مروج الذھب :جلد ۲صفحہ ۱۱۔

۱۸۵۔مستدرک الحاکم :جلد ۳صفحہ ۱۰۹ ،۱۱۰،۱۱۸،۳۷۱،۶۳۱۔

۱۸۶۔مسند ابن حنبل :جلد ۱صفحہ ۸۴،۱۱۹،۱۸۰،جلد ۴صفحہ ۲۴۱،۲۸۱،۳۶۸،۳۷۰ ،۳۷۲، جلد ۵صفحہ ۳۴۷،۳۶۶،۳۷۰،۴۱۹۔۴۹۴،جلد ۶صفحہ ۴۷۶۔

۱۸۷۔مسند الطیا لسی :صفحہ ۱۱۱۔

۱۸۸۔مشکل الا ثار :جلد ۲صفحہ ۳۰۸۔

۱۸۹۔مصابیح السنة :جلد ۲صفحہ ۲۰۲،۲۷۵۔

۱۹۰۔مطالب السئوول :صفحہ ۱۶۔

۱۹۱۔المطالب العالیة :صفحہ ۴۵۶۔

۱۹۲۔معارج النبوة :جلد ۱صفحہ ۳۲۹۔

۱۹۳۔المعارف (ابن قتیبة ):صفحہ ۵۸۔

۱۹۴۔معا لم الا یمان (دبا غ ):ج ۲ صفحہ ۲۹۹۔

۱۹۵ ۔المعتصر من المختصر :ج ۲ صفحہ ۳۰۱،۳۳۲۔

۱۹۶۔معجم البلدان :ج ۲ صفحہ۳۸۹۔

۱۹۷ ۔المعجم اصغیر :ج ۱صفحہ ۶۴،۷۱۔

۱۹۸۔المعجم الکبیر (طبرا نی ):ج ۱ صفحہ ۱۴۹،۱۵۷،۳۹۰،ج ۵ صفحہ ۱۹۶۔

۱۹۹۔معجم ما استعجم : ج ۲ صفحہ ۳۶۸۔

۲۰۰۔مفتاح النجا : صفحہ ۴۱، ۵۸ ۔

۲۰۱مقا صد الطا لب : صفحہ ۱۱۔

۲۰۲مقتل الحسین علیہ السلام (خوا رزمی ):صفحہ ۴۷ ۔

۲۰۳مقصد الر ا غب :صفحہ ۳۹۔

۲۰۴المنار :ج ۱ صفحہ ۴۶۳۔

۲۰۵منا قب الا ئمہ (با قلا نی ):صفحہ ۹۸ ۔

۲۰۶المنا قب (ابن جو زی ): صفحہ ۲۹۔

۲۰۷المنا قب (ابن مغا زلی ):صفحہ ۱۶،۱۸،۲۰،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵،۲۲۴،۲۲۹۔

۲۰۸المنا قب (خوا رز می ):صفحہ ۲۳،۷۹،۸۰،۹۲،۹۴،۹۵،۱۱۵،۱۲۹،۱۳۴۔

۲۰۹المنا قب (عبدا للهشا فعی ): صفحہ ۱۰۶،۱۰۷،۱۲۲۔

۲۱۰المنا قب العشرة: صفحہ ۱۵ ۔

۲۱۱منال الطا لب : صفحہ ۷۳۔

۲۱۲منتخب کنز العما ل :ج ۵ صفحہ ۳۰،۳۲،۵۱۔

۲۱۳المو ا قف : ج ۲ صفحہ ۶۱۱۔

۲۱۴الموا ھب اللد نیة: ج ۵ صفحہ ۱۰۔

۲۱۵مو دة القر بی : صفحہ ۵۰۔

۲۱۶المو رود فی شرح سنن اٴبی دا ود : ج ۱ صفحہ ۲۱۴۔

۲۱۷مو ضح اٴو ھا م الجمع والتفریق : ج ۱ صفحہ ۹۱۔

۲۱۸نز ل الاٴبرار :صفحہ ۲۰۔

۲۱۹نز ھة النا ظرین : صفحہ ۳۹۔

۲۲۰نظم درر السمطین :صفحہ ۷۹ ،۱۰۹،۱۱۲۔

۲۲۱النھا یة (ابن الٴا ثیر ) : ج ۴صفحہ ۳۴۶۔

۲۲۲نھا یة العقول :صفحہ ۱۹۹۔

۲۲۳وفا ء الو فا ء : ج ۲ صفحہ ۱۷۳۔

۲۲۴وسیلة المآل : صفحہ ۱۱۷۔

۲۲۵الوفیات(ابن خلکان):ج۱صفحہ۶۰،ج۲صفحہ۲۲۳۔

۲۲۶۔ینابیع الموٴدة صفحہ ۲۹۔۴۰ ،۵۳ ۔۵۵،۸۱ ،۱۲۰،۱۲۹،۱۳۴،۱۵۴،۱۵۵،۱۷۹۔۱۸۷

۲۰۶،۲۳۴،۲۸۴۔

Add new comment