کيا غدير کا هدف امام کا معين کرنا تها ؟

ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاھدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ھوتا ھے تو ھمارے لوگ اس دن کو صرف ’امام علی(ع) کی ولایت ‘ کی نسبت سے یاد کرتے ھیں اور غدیر کے دیگر اھم اور تاریخ ساز پھلوٴوں سے غافل نظر آتے ھیں ۔ غدیر کے اصلی اھداف، نہ ھونے کے برابر تصانیف

غدیر کے مختلف پھلووں پرلوگوں کی جانب سے تنگ نظری

پھلی بحث :  پھلے سے تعیین شدہ امامت

دوسری بحث :  لوگ اور انتخاب

تیسری بحث :  تحقق امامت کے مراحل واقعہٴ غدیر کے مقاصد کے اذھان سے پوشیدہ رھنے کی ایک اور افسوسناک وجہ یہ ھے کہ بعض لوگ اپنے قصیدوں یا تقاریر میں یہ کہتے ھیں کہ روز غدیر اسلامی امّت کے لیے امامت کی تعیین کا دن ھے ۔  روز غدیر ” حضرت امیر المؤمنین(ع) “ کی ولایت کا دن ھے ۔

  یہ تنگ نظری اور محدودفکر اس قدر مکرّر بیان ھوئیں کہ بہت سے لوگ غدیر جےسے عظیم واقعہٴ  کے دیگر نکات کی طرف توجّہ دینے سے قاصر رھے ۔

    کوتہ نظر ببین کہ سخن مختصر گرفت:

ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاھدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ھوتا ھے تو ھمارے لوگ اس دن کو صرف ’امام علی(ع) کی ولایت ‘ کی نسبت سے یاد کرتے ھیں اور غدیر کے دیگر اھم اور تاریخ ساز پھلوٴوں سے غافل نظر آتے ھیں ۔

غدیر کے اصلی اھداف، نہ ھونے کے برابر تصانیف اور کتابوں میں ذکر ھوئے ھیں اور جس طرح  غدیر کے وسیع اور با مقصد ابعاد کو منابر کے ذریعے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیاجانا چاھےے بیان نھیں کےے جاتے ۔ مجلّوں اور اخباروں میں بھی صرف ”ولایت امام (ع) کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ھے یھی وجہ ھے کہ روز  غدیر لوگوں کے درمیا ن  فقط ولایت علی(ع) کے ساتھ خاص ھو کر رہ گیا ھے۔

۱۔  پھلے سے تعیین شدہ امامت :

  شیعہ نظریہ ،یہ ھے کہ حضرت علی(ع) اور انکے گیارہ بیٹوں کی امامت غدیر سے پھلے ھی معیّن ھو چکی تھی اس دن کہ جب موجودات اور ھماری اس کائنات کی خلقت کی کوئی خبر نہ تھی اس دن کہ جب ابھی تک پیغمبر ان ِ الٰھی کی ارواح بھی خلق نہ ھوئیں تھیں ۔

جناب رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور پنجتن آلِ عباء علیھم السلام کی ارواح خلق ھوچکی تھیں ۔ جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور حضرت علی(ع) کے وجود کی انوار اس وقت خلق کی جا چکی تھیں کہ جب ابھی آدم (ع) خلق نہ ھوئے تھے ۔

 سارے پیغمبران خدا اپنے خدا ئی انقلاب کی ابتداء میں پنجتن آلِ عباء علیھم السلام کے اسمائے مبارک کی قسم کھاتے تھے ۔اور سخت مشکلات کے وقت خدا وند عالم کو  محمّد ، علی فاطمہ ، حسن اور حسین صلوٰةُ الله ِ عَلےہِم اٴَجمعین کے ناموں کا واسطہ و قسم دیتے اور انکی برکت سے توبہ کرتے اور خدا وند منّان کی بارگاہ میں عفو اور بخشش طلب کرتے تھے ۔

 حضرت آدم(ع) نے ان اسمائے مبارک کو جب عرش معلّیٰ پر دیکھا؛انکی نورانیّت کیو جہ سے حضرت آدم(ع) کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورخدا وند عالم سے ان ناموںکے ذریعے بات کی۔

حضرت نوح  (ع) نے ا نھیں مبارک  اسما ء کو اپنی کشتی کے تختے پر لکھا اور جب شدید اور سخت طوفان میں گھر گئے تو ان ھی ناموںکا واسطہ دے کر خدا وند عالم سے مدد طلب کی۔ تمام پیغمبران خدا جانتے تھے کہ ایک پیغمبر خاتم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آئیں گے اور انکے  اس راستے کو کمال  کے درجہ تک پھنچائیں گے ،اور اس بات سے بھی واقف تھے کہ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد آنے والے امام کون ھونگے اور دین و بشریت کو کمال تک  پھنچانے میں اُن اٴَئمّہ کو کن کن ناگوار حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انھوں نے حضرت علی(ع) کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی اور امام حُسین(ع) کی کربلا کو یاد کر کے اشک بھائے ۔ ا ن کے نام اور پیش آنے والے حوادث کواپنی امّتوں کے لےے بیان کےے؛ اسی لےے جب یھودی عالم نے امام حُسین(ع)  کو گھوارہ میں دیکھا تو اس کو وہ تمام نشانیاں یاد آگئیں جوذکرکی گئیں تھیں ؛وہ اسلام لے آیا اور امام حُسین(ع) کے بوسے لینے لگا۔

تو معلوم ھو اکہ روز غدیر صرف” تعیین امامت “کا دن نھیں تھا ؛بلکہ آغاز بعثت میں ھی پیغمبر گرامی  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امام کو معیّن کر دیا تھا ۔ جس وقت عالم شیر خواری میں حضرت علی(ع)  کو پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مبارک ھاتھوں میں دیا گیا تو حضرت علی(ع) نے پیغمبر گرامی  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود و سلام بھیجا اور قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت فرمائی جب کہ بظاھر ابھی قران نازل نھیں ھوا  تھا۔

آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جب بھی اور جھاں بھی ضرورت محسوس کی بارہ ا ئمہ علیھم السّلام کے اسمائے مبارک ایک ایک کرکے بیان فرمائے ، اور اپنے بعد آنے والے امام (ع) کو مختلف شکلوں اور عبارتوں کے ذریعے بیان فرمایا۔ ائمہ علیھم السّلام کے ادوار میں رونما ھونے والی سیاسی تبدیلییوں کو آشکار کیا ؛مدینہ کے منبر سے  بار و بار ائمّہ علیھم السّلام کے اسماء مبارک انکی تعداد،حالات زندگی ، انکے زمانے کے ظالم حکمرانوںاور انکے نابکار قاتلوں کا تعارف کروایا۔

حضرت مھدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانہٴ غَیبت کے بارے میں بار بار بات کی اورغَیبت کے دوران انکی راھنمائی کے بارے میں سننے والوں کے اعتراضات کے جواب دےئے ؛ حضرت مھدیعجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف  کی ساری دنیا پر حکومت کے بارے میں اتنا بیان کیا کہ اُمَوی و عبّاسی دور میں بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ وہ اُمّت کے مھدی ھو سکتے ھیں قیام کیا تاکہ جو لوگ حضرت مھدی عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار میںھیں ا ُن کو آسانی سے گمراہ کیاجا سکے۔ لہٰذہ امامت کا عھدہ خدا وند عالم کی جانب سے مقرّر کردہ ھے جو ھمیشہ سے انسانوں کی ھدایت اور راھنمائی کرتا رھا ھے اور تا قیام قیامت انسانوں کی ھدایت اور راھنمائی کرتا  رھے گا ۔اگر انسان کی ھدایت ضرور ی ھے تو امام کا وجود بھی ضروری ھے ؛ اور صرف خدا وند عالم کی پاک اور بابرکت ذات ھی پیغمبران اور ائمہ(ع) کی تعیین اور انتخاب کر سکتی ھے۔

< ولله ُ اٴَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰالَتَہُ>

خداوند عالم سب سے زیادہ آگاہ ھے کہ اپنی رسالت کو کھاں قرار دے) کیونکہ ایک انسان کے ليے دوسرے انسان کی شناخت مشکل ھے اور وہ ایک دوسر ے کے باطن سے آگاھی حاصل نھیں کر سکتے ۔ لہٰذا اسی دلیل کے تحت کہ جس کے تحت  پیغمبران خدا کا انتخاب اور چناؤ خدا کی طرف سے ھوتا ھے ائمّہٴ معصومین علیھم السّلام کا تعیّن اور انتخاب بھی  خدا وند عالم کی جانب سے ھے اور فرشتہٴ وحی کے توسّط سے رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ابلاغ حکم ھوا۔

واقعیت یہ ھے کہ ا س حقیقت (تعیین امامت )کا غدیر کے دن سے کوئی تعلّق نھیں ھے بلکہ آغاز بعثت ھی میں اس کو مطرح کیا جا چکا تھا ۔ہجرت کے دوران اور مختلف جنگوں کے درمیان رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امامت کا تعیّن اور تعار ف کروا دیا تھا جب حضرت زھرا علیھا سلام کے یھاں امام حسین(ع) کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو جناب ختمی مرتبت  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت زھرا علیھا سلام کو خبر دی کہ تمھارے یھاں بیٹے کی ولادت ھو گی اور اسکا نام حُسین(ع) ھوگا جس کا ذکر گذشتہ آسمانی کتابوںمیں آچکا ھے جناب زھرا علیھا سلام کے چھرے پر خو شی کے آثار نمودار ھوے ا ور جب آپ(ص) نے امام حُسین(ع)کی کربلا میں شھادت کی خبر دی  تو جناب زھراعلیھا سلام نے فرمایا:

” یٰا اٴَبَتٰاہُ مَنْ یَقْتُلُ وَلَدیْ وَ قُرَّةَ عَیْنیْ وَثَمَرَةَ فُؤَادیْ ؟ قٰالَ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! شَرُّ اٴُمَّةٍ مِنْ اٴُمَّتیْ ۔قٰالَتْ! یٰا اٴَبَتٰاہُ إِقْرَاٴْ جِبْرَئیْلَ عَنّیْ السَّلٰامَ  وَقُلْ لَہُ فی اٴَیِّ مَوْضِعٍ یُقْتَلُ ؟[1]۔  فیْ مَوْضِعٍ یُقٰالَ لَہُ کَرْبَلٰا!!  >

اے بابا جان!  میری آنکھوں کے قراراوردل کے ثمر بیٹے کو کون قتل کرےگا ؟ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: میری امت کے سب سے زیادہ بدترین اور برُے لوگ۔ دوبارہ پوچھا ؛اے بابا جان:  جبرائیل کو میرا سلام کھےے اور پوچھےے کہ میرے بیٹے حُسین(ع) کو کس جگہ شھید کیا جائے گا ؟ جناب رسولِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا اس سر زمین پر جس کو کربلا کھا جاتا ھے ایک دوسری روایت میں ھے کہ حضرت زھراعلیھا سلام نے فرمایا :

” یٰا اٴَبَةَ سَلَّمْتُ وَ رَضیْتُ وَ تَوَکَّلْتُ عَلَی الله۔“ اے بابا جان: میں خواستہ خدا پر تسلیم اور راضی ھوں اور خدا وند عالم کی ذات پر توکّل کرتی ھوں [2] جب جناب زھر  = کے یھاں حضرت امام حُسین(ع) کی ولادت ھونے  والی تھی خدا کے رسول  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی بیٹی کو اطلاع دیتے ھوئے فرمایا کہ: (حضرت جبرئیل نے مجھے خبر دی ھے کہ ؛ تمھار ا بیٹا کربلا میں شھید کر دیا جائے گا ۔)

جناب فاطمہ علیھا سلام نے انتھائی غم و اندوہ کے عالم میں ارشاد فرمایا:

< لَیْسَ لیْ فیْہِ حٰاجَةٌ یٰا اٴَبَةَ > اے بابا جان ! مجھے ایسے بیٹے کی کوئی حاجت نھیں ھے ۔

جناب رسول خد ا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا :(میری بیٹی تمھارا یہ بےٹا حُسین(ع) ھے اور نو معصوم امام اسکے وجود سے پیدا ھونگے جودین خدا کی بقاء کا سبب ھونگے ۔)                              

(ب)  بحارالانوار ، ج ۴۴ ص ۲۶۴  : علّامہ مجلسی (رہ) ( متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ )

(ج)  تفسیر فرات الکوفی  ،  ص  ۵۵  :  فرات الکوفی  ( متوفّیٰ   ۳۰۰    ھ  )

جناب زھرا علیھا سلام نے فرمایا:” یٰا رَسُوْلَ الله ِ قَدْ رَضیْتُ عَنِ الله ِ عَزَّ وَ جَلَّ۔“ (اے خدا کے رسول! میںخدا وند بزرگ و برتر سے راضی ھوں )[3] اس قسم کے اظھارات بہت سطحی فکر اور کوتاہ نظری ھیں کہ یہ کھا جائے :

غدیر خم کے دن لوگوں کی امامت مشخّص ھوئی۔  غدیر کا دن امامت کے تعیّن کا دن ھے ۔ غدیر کا دن ولایت کے تعیّن کا دن ھے ۔کیونکہ امامت، رسالت ھی کی طرح الٰھی اصولوں میں سے ایک اصل ھے جو خلقت کے آغاز میں ھی معین ھو گئی تھی اور گذشتہ پیغمبروں کی لائی ھوئی آسمانی کتابوں میں اس کو بیان کر دیا گیا تھا ۔اور بعثت سے غدیر تک سینکڑوں بار بے شمار احادیث وروایات میں پیغمبر گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جھان والوں کی رھنمائی کرتے ھوئے امامت کا تعارّف کر وا دیا تھا۔

۲۔  لوگ اور انتخاب

یہ درست ھے کہ شیعوں کے امام خدا وند عالم کی طرف سے پھلے سی ھی منتخب ھو گئے تھے اور بعثت کے بعد سے ھر اھم مقام اورموقع پر خود رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زبانی انکا تعارف ھو چکا تھا لیکن ابھی بھی یہ کام مکمّل نھیں ھوا کھیں لوگ خود امام کا انتخاب نہ کرلیں ، اور اپنی کج فکری اور گمراھی کے سبب اٴَئِمّہ معصومین علیھم السّلام کی امامت کو قبول نہ کریں نیز اسلام کی اصیل ثقافت اور امامت کے درمیان فاصلہ ڈال دیں اور حضرت علی (ع)اوربا قی ا ماموں کی بیعت نہ کریں تو رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا                             

بتا یا ھوا راستہ خطرے میں پڑجائیگا اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت ان تمام ز حمتوں اور قربا نیو ں کے باوجود نامکمّل ر ھے ۔ چنانچہ خدا وند عالم نے بھی ھوشیار کرنے والے کلمات کے ساتھ فرمایا:

  <وَ إِنْ لَم  تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰا لَتَکَ >

  ترجمہ ۔ اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو میری رسالت کا کوی کام نھیں کیا اگر لوگ امام بر حق کی بیعت نہ کریں اور امام کو لوگوں کی حمایت حاصل نہ ھو تو امام سیاسی طاقت اور قدرت اپنے ھاتھ میں نھیں لے سکتا ،بعنوان امام اور حاکم دستور نھیں دے سکتا؛ امر و نھی نھیں کرسکتا حکومتی کام انجا م دینے والے افراد کا تعیّن نھیں کرسکتا۔

یہ جو سیاسی جما عتوں کے سربراھوں ، جاہ طلب منافقوں اور ثقیفہ کے مکاّروں نے غدیر کے دن تک سکوت اختیار کیا اور کوئی خطرناک اقدام نھیں کیا صرف اس وجہ سے تھا کہ ابھی تک امّت کی رھنمائی و رھبری کا مسئلہ تحریرو تقریر تک محدود تھا ۔ صرف رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تقاریر میں ولایت امیرالمؤمنین(ع) کا ذکر ھوا تھا اور وہ لوگ بھی تحمّل کر رھے تھے ۔

لیکن غدیر کے دن ، اس عظیم اور کم نظیر اجتماع کے درمیان اور چونکا دینے والی خصوصیات کے ساتھ ؛ سب نے دیکھا کہ جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے صرف خطبہ اور بیان پر اکتفاء نھیں کیا بلکہ عملاً سب سے پھلے حضرت علی(ع) کا ھاتھ بلند کرکے خود بیعت کی اور اسکے بعد سب لوگوں کو حضرت علی(ع) کی بیعت کرنے کا دستور دیا اور آخر کار  ایک زیبا اور شانداربیعت وجود میں آئی۔ مخالفین اور منافقین بھی ایسے حالات اور شرائط سے دُچار ھو گئے تھے

کہ اب انکے پاس سوائے بیعت کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا۔یھاں انکی خواہشات کو ٹھیس پھنچی اور انھوں نے اپنی تمام سیاسی آرزوؤں اور شیطانی امیدوں پر پانی پھرتا محسوس کیا ۔وہ یہ بات صاف طور پر محسوس کر رھے تھے کہ اب انکے لےے اور حکومت کے پیاسے سیاستدانوں کی لیے کوئی مقام نھیں ھے اوریہ کہہ رھے تھے کہ!

علی (ع) خدا کی طرف سے بھی معیّن ھوئے ھیں اور پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بھی انکی بیعت کی ھے اور سارے مسلمانوں نے بھی انکی بیعت کی ھے ۔عقلی اور عقیدتی حمایت کے ساتھ ساتھ  لوگوں کی سیاسی حمایت بھی ھے ، او ر پھر فرشتہٴ وحی نے بھی ا نھی کو معیّن کیا ھے اور اس طرح حضرت علی (ع)کے لےے عمومی بیعت نے حقیقت کا روپ بھی دھارا ھے ۔ لہٰذا پیغمبر اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد سیاسی طاقت اور حکومت حاصل کرنے کے تمام راستے اور طریقے بند ھیں ۔اب اسکے سوا کوئی چارہ نھیں کہ پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو قتل کر دیا جائے اور  (سازشی اور قابل نفرین ) تحریر لکھی جائے۔ اسکے علاوہ کوئی چارہ باقی نھیں رہ گیا کہ ایک فوجی بغاوت کی جائے اور مخالفوں کا قتل عام کیا جائے ۔  اگر غدیر کے دن عمومی بیعت نہ ھوئی ھو تی تو منا فق اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ اتنے غضب ناک نہ ھوتے اور رسول خدا(ص)  کے مسلّحانہ قتل کا منصوبہ نہ بناتے ۔ لہٰذ ا  غدیر کا دن صرف تعیین امامت کا دن نھیں تھا بلکہ:  روز غدیر ” امام اور عترت کی ولایت‘ کے تحقق کا دن تھا۔ غدیر کا دن مسلمانوں کی حضرت علی(ع) کے ساتھ اور دوسرے اٴَئمّہ کے ساتھ تا قیامت عمومی بیعت کا دن تھا۔

غدیر کا دن وہ دن ھے ! جس دن رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد مسلمانوں کی رھبری اور امامت کا مسئلہ روشن ھوا ؛ خاندان علی ابن ابی طالب(ع) سے گیارہ ائمّہ کی تا قیامت جاری رھنے والی امامت کا اعلان ھو ا اور اس سلسلے میں عمومی بیعت لی گئی۔ولایت کے غاصبوں پر لعنت ملامت ھوئی اور امامت و رھبری کے تعیّن اور مسلمانوں کی قیامت تک کے لیے بیعت عام نے راہ رسالت کو دو ا م بخشا ۔

۳۔ تحقق امامت کے مراحل

کچھ لوگ یہ سمجھتے ھیں چونکہ خدا وند عالم نے امام کو چنا اور معیّن فرمایا تھا اور رسول اسلام(ص) نے بھی اس امر کی تبلیغ کر دی تھی تو بس یہ کافی ھے ۔ ائمّہ معصومین علیھم السّلام (حضرت امیرالمؤمنین(ع) سے لے کر حضرت مھدی ’عجل فرجہ الشریف ‘ تک ) انسانوں کے امام ، رھبر اور پیشوا خدا کی طرف سے منصوب کےے گئے ھیں ۔اٴُمّت مسلمہ کے حقیقی اور واقعی رھبر تو ائمّہ ھیں ؛ چاھے لوگ انکو منتخب کریں یا نہ کریں ،چاھے ظاھری امامت کے حامل ھوں یانہ ھوں سیاسی قدرت کواسلامی معاشرے میں اسلامی آئین و قوانین کا إجراء کر یں یا نہ کریں یہ نظریہ اور طرز تفکّر ”  شخصی اعتقاد ‘ ‘کے لحاظ سے تو صحیح ھے حضرت علی(ع) اور دیگر ائمہ معصومین علیھم السّلام جھان کی خلقت کے شروع ھونے سے بھی پھلے منتخب ھو چکے تھے اور انکے بابرکت اور نورانی اسماء دیگر آسمانی کتابوں بھی ذکر کےے گئے ھیں۔ چاھے لوگ ان بزرگواروں اور رھبران حق کو پہچانے یا نہ پہچانے کوئی فرق نھیں پڑتا۔

جب حضرت علی(ع)  کو غربت و فقر کی ھی زندگی گزارنی ھے اور سیاسی طاقت اپنے ھاتھ میں نھیں لینی ھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ لوگ انکو پہچانے یا نہ اور ا ن کے مقام و منزلت سے واقف ھوں یا نہ؟کیونکہ امام علی(ع) کو خدا وندعالم نے منتخب کیا ھے اور وہ تمام لیاقتیں و اوصاف جو ایک امام بر حق میں ھونا ضروری ھیں ان سب کے حامل ھیں ، اس بات پر یقین اور اعتقاد بھی محکم ترین عقائد میں سے ایک ھے ۔ لیکن اس عقیدے کا اجتماعی فائدہ کیا ھے ؟مقام إجراء میں اس کی کیا حیثیت ھے؟

اس کی مثا  ل بالکل ایسی ھی ھے جیسے ایک ما ھر طبیب اور قابل ولائق ڈاکٹر ایک شھر میں گوشہ نشینی اختیار کر لے اور غریبانہ ، تنھا اور گمنام زندگی گزارے جبکہ مختلف امرا ض میں مبتلا  ہزاروں مریض اس طبیب کے علاج و درمان سے محروم رھیں معا لجے کے لیے اس کا انتخاب نہ کریں ، اس کے پا س نہ جا ئیں اور اس کے علم ودانش سے استفادہ نہ کر یں ۔

سب سے اھم بات تو یہ ھے کہ امام اسلامی حکومت کی سیاست میں عمل دخل رکھتا ھو سیاسی قدرت اس کے ھا تھ میں ھو اور احکام دین کا اجرا ھو ، اجتماعی عدالت کاتحقق اور اس میں توسیع ھو،

وہ کون ھے جسے احکام الھی کی تفسیر کرنی چاھے ،

وہ کو ن ھے جسے اسلامی اقتدار کو اسلامی معاشرے پر حاکم بنانا چاھیے ،

وہ کون ھے جسے حدود الھی کو پا س کرتے ھوے اسلامی معاشرے پر قانون لاگو کرنا چاھیے    وہ کون ھے جو قصاص کرے ، شرعی حد جاری کرے ،وجوھات شرعی کی جمع اوری کرے اور صلح وجنگ میں رھنمائی کرے، خدا اور اسکے فرشتے تو مسلمانوں کی سیاسی اور اجرائی قدرت کو عملاً اپنے ھاتھ میں نھیں لیتے ، لہذا خدا کے منتخب بندوں کو ھونا چاھیے جومعاشرے میں یہ سارے امور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں لیکن کو ن اور کیسے ؟۔

یھیں پر لوگوں کا انتخاب اپنا کردار ادا کرتا ھے لوگوں کا قبو ل کرنا امام کی سیاسی اور اجرائی قدرت کیے لیے موثر ھو تا ھے لھذا اس بنا پر امامت کا تحقق پانا چند مراحل میں بہت اھم اور ضروری ھے جیسے۔

اوّل ۔ انتخاب الٰھی

 کیونکہ لوگ انسان شناس نھیں ھیں اور دوسروں کے باطنی رموزو اسرارسے واقفیت نھیں رکھتے ، لہٰذا امام بر حق کا انتخاب خدا وند عالم کو کرنا چاھےے جو کہ خالق انسان بھی ھے اور اسکی باطنی کیفیت سے بھی آگاہ ھے ۔ < اَلله ُ اٴَعْلَمُ حَیْثَ یَجْعَلَ  رِّسٰا لَتَہُ >

(خدا وند عالم بہتر جانتا ھے کہ رسالت و امامت کو کس خاندان میں قرار دے ۔ خدا وند عالم نے ھی تمام قوموں کے لیے پیغمبروں اور اماموں کا انتخاب کیا ھے اور انکا تعارّف کرایا ھے ۔

دوّم۔ پیغمبرا ن خدا کا اعلان 

 خدا وند عالم کے انتخاب کر لینے کے بعد آسمانی رھنماؤں اور اٴَئمّہ معصو مین علیھم السّلام کا تعارف پیغمبر ان خدا کے توسّط سے ھونا چاھےے ،انکی اخلاقی خصوصیات کا ذکر ھونا چاھيے ،انکی اجرائی اور سربراھی طاقت کو لوگوں کے درمیان بیان ھونا چاھےے،تاکہ یہ بر گزیدہ ھستیاں پیغمبر خاتم  (ص)کے بعد سے تا قیام قیامت امت کی رھنمائی کر سکیں اور احکام خدا وند کو معاشرے میں عام کر سکیں۔

چنانچہ جناب امیر المؤمنین(ع) نے ارشاد فرمایا:

” وَخَلَّفَ فیْکُمْ مٰاخَلَّفَتِ الْاٴَنْبِیٰاء ُفیْ اٴُمَمِھٰا،إِذْلَمْ یَتْرُکُوْھُم ھَمَلاً، بِغَیْرٍ طَریْقٍ وَاضِحٍ  وَلَا عَلَمٍ قٰائِمٍ۔“

رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تمھارے درمیان ایسے ھی جانشین مقرر کئے جیسے کے گذشتہ پیغمبروں نے اپنی اپنی امت کے لیے مقرّر کےے کیونکہ وہ اپنی امت کو سر گردان اور لاوارث چھوڑ کر نھیں گئے ، واضح و روشن راستہ  نیز محکم  نشانیاں بتائے بغیرلوگوں کے درمیان سے نھیں گئے ۔[4] 

لیکن اب بھی منتخب اٴَئمّہ کی ولایت عمل و اجراء کے لحاظ سے نامکمّل ھے کیونکہ اگر خدا وند عالم معصوم رھنماؤں کا انتخاب بھی کرلے اور اسکا رسول  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)انکا ابلاغ بھی کر دے لیکن مقام عمل اور میدان زندگی میں لوگ انکو قبول نہ کرتے ھوں تو ولایت کا وقوع معاشرے میں نا تمام و نا مکمّل ھے ۔ اس لےے ایک تیسرے عامل ( لوگوں کا انتخاب ) کا وجود لازمی و ضروری ھے۔

سوّم۔ لوگوں کی بیعت عام

اگر لوگ انتخاب الٰھی اور پیغمبر خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ابلاغ کے بعد راستے کو پہچان لیں ، اپنے اما م بر حق کو چن لیں ، کارھائے امامت میں ممد و معاون ھوں ، اپنے امام کا دل وجان سے انتخاب کریں،اسلامی اقدار کے تحقق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور شھادت کی آرزو کے ساتھ امام کے حکم جھاد کو بجا لانے میں دریغ نہ کریں ، عقیدے و یقین میں بھی اور زندگی کے میدان عمل میں بھی امام پر ایمان رکھتے ھوں تب ھی امامت کا تحقق اور ایک واقعی وجودقائم ھوتا ھے ۔امام کو احکام الٰھی کے اجراء کی قدرت و طاقت ملتی ھے اور انسانوں کی میدان زندگی میں دین خدا کو وجود ملتا ھے ۔

جیسا کہ امام(ع) نے فرمایا !

” اٴَمٰاوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ،وَبَرَاٴَالنَّسَمَةَ،لَوْلاَحُضُوْرُالحٰاضِر وَقِیٰامُ الْحُجَّة بِوُجُوْ دِا لنّٰاصِرِ،وَمٰا اٴَخَذَالله ُعَلیَ الْعُلَمٰاءِ اٴَلا یُقٰا رُّوْا عَلیٰ کِظَّة ظٰالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ،لَاٴَ لْقَیْتُ حَبْلَہٰا عَلیٰ غٰارِبِہٰا،وَلَسَقَیْتُ آخِرَھٰا بِکَاٴْسِ اٴَوَّلِھٰا،وَلَاٴَلْفَیْتُمْ دُنْیٰاکُمْ ھٰذِہ اٴَ زْھَدَعِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ!۔“[5][6]

اس خدا کی قسم! کہ جس نے دانے میں شگاف ڈالا اور جان کو خلق کیا ، اگر بیعت کرنے والوں کی بڑی تعداد حاضر نہ ھوتی اور چاھنے والے مجھ پر حجّت تمام نہ کرتے اور  خدا وند عالم نے علماء سے عھد و پیمان نہ لیا ھوتا کہ وہ ظالموں کی ھوس اور شکم پری، اور مظلوموں کی گرسنگی پر خاموشی اختیار نہ کریں تو میں آج بھی خلافت کی رسّی انکے گلے میں ڈال کر ھا نک دیتا اور خلافت کے آخر کو اول ھی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ھے ۔ [7]

اگرانتخاب الھی  وابلاغ ر سا لت کے بعدلوگ ائمہ معصومین کو قبول نہ کریں اور امام برحق کو تنھا چھوڑ دیں یا قتل کر دیں تو اس صورت میں امامت اور ولایت کا تحقق نھیں ھو گا اور امام سیاسی طور پر لوگوں میں حاضر نھیں ھو سکتے اور کوئی بھی ان کے امر باالمعروف اور نھی عن المنکر پر عمل نھیں کرے گا اور اگرفرمان صادرفرمائیں گے تو کوئی اطاعت نھیں کرے گا۔

حضرت  علی(ع) نے فرما یا  :

دَعُونِِِِِِِِِي وَالَتمِسُوا غَیرِی ،فَاِنََّا  مُستَقبِلُون اَمراً  لَہُ  وُجُوہُ  وَاَلوَانُ، لَاتَقُومُ لَہ القُلُوبُ،وَلَاتَثبُتُ عَلَیہِ العُقُولُ وَاِن الافَاقَ قَد اَغَامَت،وَالمحَجَّةَ قَدتَنَکَّرَت وَاعلَمُوا اَنَّي اِن اَجَبتُکُم رَکِبتُ بِکُم مَااَعلَمُ وَلَم اُصغِ اِ لَی قَولِ اَلقَائَل     وَعَتبِ اَلعَا تِب وَاِن تَرَکتُمُونِي فَاَنَاکَاَحَدِکُم،وَلَعَلِّي اَسمَعُکُم وَاَطوَعُکُم لِمَن وَلَّیتُمُوہُ اَمرَکُم،وَ اَنَا لَکُم وَزِیراً ،خَیرُلَکُم مِنِّی اَمِیراً :[8]

جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کی بیعت کا  ارداہ کیا تو آپ نے فرما یا مجھے چھوڑ  دو جاؤ کسی اور کو تلاش کر لو [9] ھمارے سامنے وہ معاملہ ھے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ھیں جن کی نہ دلوں میں تاب ھے اور نہ عقلیں انھیں برداشت کر سکتی ھیں دیکھو اٌفق کس قدر ابر آلودھے اور راستے  کس قدر انجانے ھیں ، یاد رکھو اگر میں نے تمھاری بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمھیں اپنے علم ھی کے راستے پر چلاوں گا اور کسی کی کوئی بات او ر سرزنش نھیں سنوں گا لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمھارے ھی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا بلکہ شاید تم سب سے زیادہ تمھارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمھارے لیے وزیر کی حیثیت سے ا میر کی بہ نسبت ز یادہ  بہتر رھوں گا ۔[10] نا پختہ اور سست عقائد کے مالک کوفیوں کی سرزنش کرتے ھوئے ایک تقریر میں حضرت امیر المؤمنین(ع) نے واضح طور پر اساسی اور بنیادی اصل کی طرف اشارہ فرمایا ! کہ اگر لوگ امام کی اطاعت نہ کریں تو امام عملاً ایک جامعہ اسلامی میں جامعہ ساز فعالیّت نھیں انجام دے سکتا۔                             

۱۔  تاریخ طبری  ،  ج  ۶  ص  ۳۰۶  :  طبری  ( متوفّیٰ   ۳۱۰    ھ )

۲۔  النّھایة  ( ۳۵  ھ  کے حوادث سی مربوط  )  :  ابن اٴَثیر  ( متوفّیٰ  ۶۰۶ھ )

۳۔  کتاب جمل  ،  ص  ۴۸  :  شیخ مفید  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۱۳    ھ )

۴۔  تذکرة الخواص  ،  ص  ۵۷  :  ابن جوزی  ( متوفّیٰ  ۵۶۷    ھ )

۵۔  شرح قطب راوندی  ،  ج  ۱  ص  ۴۱۸  :  ابن راوندی  ( متوفّیٰ  ۵۷۳    ھ )

۶۔  نسخہٴ خطّی  ۴۹۹    ھ  ،  ص  ۷۳  :  مؤلفہ ابن مؤدب پانچویں صدی کا عالم دین

۷۔  نسخہٴ خطّی نہج البلاغہ  ،  ص  ۷۰  :  مؤلّفہ   ۴۲۱    ھ

۸۔تجارب  الامم:،  ج  ۱   ص  ۵۰۸  :  ابن  مسکویہ  ( متوفّی   ۴۲۱  ھ)

۹۔  بحارالانوار  ،  ج  ۳۲  ص۳۵۔   مرحوم  مجلسی(رہ)  ( متوفی   ۱۱۱۰   ھ )    

حرف مترجم :  امیر المؤ منین(ع) کے اس ارشاد سے تین باتوں کی مکمّل وضاحت ھوتی ھے۔ (خطبہ ۹۲ نہج البلاغہ)

۱۔  آپ (ع)کو خلافت کے سلسلے میں کوئی حرص اور طمع نھیں تھی اور نہ ھی آپ (ع) اس سلسلے میں کسی قسم کی تگ و دو کرنےکے قائل تھے ۔ الٰھی عھدہ عھدیدار کے پاس آتا ھے عھدیدار خود اسکی تلاش میں نھیں جاتا۔

۲۔ آپ (ع) کسی قیمت پر اسلام کی تباھی برداشت نھیں کر سکتے تھے آپ کی نظر میں خلافت کا لفظ اپنے اندر مشکلات اور مصائب لےے تھا اور قوم کی طرف سے بغاوت کا خطرہ نگاہ کے سامنے تھا لیکن اسکے باوجود اگر ملت کی اصلاح اور اسلام کی بقا ء کا دارومدار اس خلافت کو قبول کرنے میں ھے تو آپ اس راہ میں ھر قسم کی قربانی دینے کے لےے آمادہ و تیارھیں ۔

۳۔ آ پ (ع) کی نگاہ میں امت کے لیے ایک درمیانی راستہ وھی تھا جس پر آج تک چل رھی تھی کہ اپنی مرضی سے ایک امیر چن لے اور وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر آپ (ع) سے مشورہ کرتی رھے آپ (ع) مشورہ دینے سے بھر حال گریز نھیں کرتے ھیں جس کامسلسل تجربہ ھو چکا ھے ۔ اور اس مشاورت کو آپ نے وزارت سے تعبیر کیا ھے ۔ وزارت فقط اسلامی مفاد تک بوجھ بانٹنے کے لےے حسین ترین تعبیر ھے ۔ ورنہ جس حکومت کی امارت قابل قبول نھیں اسکی وزارت بھی قابل قبول نہ ھوگی ۔

” یٰااٴَشْبٰاہَ الرِّجٰالِ وَلاَرِجٰالَ!حُلُوْمُ الْاٴَطْفٰالِ،وَعُقُوْلُ رَبَّات الْحِجٰالِ لَوَدِدْتُ اٴَ نِّیْ  لَمْ اٴَ رَکُمْ  وَلَمْ اٴَعْرِفکُمْ مَعْرِفَةً وَاللهجَرَّتْ نَدَماً وَاٴَ عَقَبَت سَدَ ماً قَا تَلَکُمُ الله ُ! لَقَدْ مَلَاٴْتُمْ  قَلْبی قَیْحاً وَشَحَنْتُمْ صَدْری غَیْظاً وَجَرَعْتُمُوْنیْ نُغَبَ التَّہْمٰام اٴَنْفٰاساً وَاٴَفْسَدْتُمْ عَلَیَّ  رٰاٴْیِیْ بِالْعِصْیٰان وَالْخِذْلاَنِ حَتّیٰ لَقَد   قٰالَتْ قُرَیْش إِنَّ اٴبْنَ اٴَبیْ طٰالِبٍ رَجُل ٌشُجٰاع ٌ،  وَلٰکِنْ لاَعِلْمَ لَہُ بِالْحَرْبِ لِلّٰہِ اٴَبُوْھُمْ وَھَلْ اٴَحَدٌمِنْھُمْ اٴَشَدُّلَھٰامِرٰاسا وَاٴَ قْدَمُ فیْھٰامَقٰاماً مِنِّیْ لَقَدْنَھَضْتُ فِیْھٰاوَمٰابَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ وَھٰااٴَنَذَا قَدْذَرَّفْتَ عَلَی السِّتِّیْنَ وَلٰکِنْ لاَ رَاٴْیَ لِمَنْ لاَ یُطٰاعُ ۔“[11]

ترجمہ ( اے مرد وں کی شکل وصورت والو،  اور ،  واقعا،  نا مردو ، تمھاری فکریں بچوں جیسی اور تمھاری عقلیں حجلہ نشین دلھنوں جیسی ھیں میری خواہش تھی کاش میں تمھیں نہ دیکھتا  اور تم سے متعارف نہ ھوتا، جس کا نتیجہ صرف ندا مت اور رنج و ا فسوس ھے الله تمھیں غارت کرے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا،  اور میرے سینہ کو رنج وغم سے چھلکا دیا ھے ، تم نے ھر سانس میں ھم و غم کے گھونٹ پلائے ، اور اپنی نافرمانی ا ور سر کشی سے میری رائے کو بھی بیکار و بے ا ثر بنا دیا ھے ،یھاں تک کہ اب قریش والے یہ کھنے لگے ھیں کہ فرزند ابو طالب بھادر تو ھیں لیکن انھیں فنون جنگ کا علم نھیں ھے ،

ا لله ان کا بھلا کرے ، کیا  اٌن میں کوئی بھی ایسا ھے ، جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ھو  ، اور مجھ سے پھلے سے کوئی مقام رکھتا ھو ، میں نے جھاد کے لیے اس وقت قیام کیا ھے جب  میری  عمر ۲۰ سال بھی نھیں تھی اور اب تو(۶۰) سال ھو چکی ھے لیکن کیاکیا جائے جس کی ا طاعت نھیں کی جاتی اس کی رائے بھی کوئی رائے نھیں ھوتی ۔

اب اس مقام پر یعنی انتخاب الھی اور ابلاغ  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت اور ملت کا انتخاب احکام الھی کے اجرا ء میں اپنا اھم کردار ادا کرتا ھے اور حکومت امام  کے لیے عملی راہ فراھم کر تی ھے ۔ غدیر خم کے ر وزیہ تینوں مراحل باخوبی اور تمام تر ز یبائیّوں کے ساتھ ا پنے ا نجام کو پھنچے یھاں تک کہ حکومت کے پیاسوں کے د لوںمیں دشمنی کی آگ بھڑک ا ٹھی ا نھوں نے جو کچھ بھی چاھا انجام دیا ، اور تاریخ میں ھمیشہ کے لیے اپنے آپ کو  بد نام کر لیا۔کیونکہ :

الف:  خدا وند عالم کے انتخاب کا تحقق فرشتہ وحی  کے توسّط سے آیات کی صورت میں<بلّغ ما اُنزِل اِلیک>اور< الیوم اکملت لکم دینکم> کے نزول کے ساتھ ھوا۔

ب: وحی الھی کا ابلاغ اس عظیم و کم نظیر اجتماع میں پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے توسط سے انجام پایا:

ج: مردوں اور عو ر توں پر مشتمل عمومی بیعت تا دم صبح جاری رھی اور بخیر و خوبی انجام پذ یر ھوئی کیونکہ امامت کو اس کا صحیح وارث اور مقام مل گیا اور لوگوں کی عمومی بیعت بھی انتخاب الٰھی کے لےے حامی واقع ھوئی ؛ لوگوں کا انتخاب ، انتخاب الٰھی اور رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی  ابلاغ و اعلان نے ایک ساتھ مل کر امامت کو پائدار اور زندہ و جاوید کیا ؛ تو اس وجہ سے منافقین اور حاسدین غضبناک ھوگئے ، یھاں تک کہ ایک شخص نے موت کی آرزو کی اور آسمان سے ایک پتھر نے آکر  ا س کو نیست ونابود کر دیا۔

بعض گروہ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے قتل کے درپے ھوگئے لیکن خدائی امداد نے انھیں ناکام اور رسوا کردیا اور بعض دوسروں نے وہ شرمناک اور قابل مذمّت تحریر لکھی کہ جس کے ذریعہ  لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ؛ لیکن آخر کار  ان کے پاس سکوت اختیار کرنے ،بغض و نفاق اور شیطانی انتظار کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ تھا یھاں تک کہ جناب رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعدتمام بغض اور کینہ توزیوں کو یکجا کرکے جو بھی چاھا ایک مسلّحانہ بغاوت (فوجی بغاوت) کی صورت میں انجام دیا۔

لہٰذا یہ غدیر کا دن صرف” امام کے تعیّن “ کا دن نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کا امام غدیر کے عظیم واقعہ سے پھلے ھی معیّن ھو چکا تھا اور حضرت امیر المؤمنین(ع) کے بعد آنے والے اٴَئمہ علیھم السّلام کا ناموں کے ساتھ تعارف کروایا جاچکا تھا ؛ کسی کو امامت اور اٴَئمہ  علیھم السّلام کے ناموں میں کوئی شک و شبہ نھیں تھا۔ غدیر کے دن ( مسلمانوں کی عمومی بیعت) اور خود جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حضرت علی(ع) کے ساتھ بیعت نے حقیقت کا روپ اختیار کیا  اور منکرین ولایت کے لیے تمام راستے بند کر د یئے تاکہ آفتاب ولایت کا انکار نہ کر سکیں ۔

 [1] جعفر بن محمّد القراری معنعناً عن ابی عبدالله(ع)

 [2] ( الف ) تظلم الزھراء علیھا سلام ، ص  ۹۵

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواله جات

(ب) علل الشرایع  ،  ص  ۷۹  :  شیخ صدوق  (رہ)   ( متوفّیٰ   ۳۸۱    ھ  )

 ( ج  ) کمال الدّین ،  ج ۲ ص  ۸۷  :  شیخ صدوق  (رہ)   ( متوفّیٰ   ۳۸۱  ھ)

(  د  ) تفسیر البرھان  ،  ج  ۴  ص  ۱۷۳  :  علامہ بحرانی اصفھانی  ( متوفّیٰ   ۱۱۰۷    ھ  )

 [3] (الف) بحار الانوار ، ج  ۲۵ ص ۴۴ (ع)۲۲۱(ع)۳۳۳  اور  ج ۲۳ ص  ۲۷۲  اور  ج  ۳۶  ص  ۱۵۸  : علامہ مجلسی(رہ)

 [4] خطبہٴ  ۱(ع) ۴۴  : نہج البلاغہ  معجم المفھرس مؤلّف ۔ اسناد و مدارک

۱۔  عیون المواعظ والحکم  :  واسطی (  ۴۵۷ میں لکھی گئی  )

۲۔  بحار الانوار  ،  ج  ۷۷  ص  ۳۰۰ (ع) ۴۲۳ : مرحوم علّامہ مجلسی  (رہ)  (متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۳۔  ربیع الابرار  ( باب السماء والکواکب )  :  زمخشری   (  متوفّیٰ  ۵۳۸    ھ  )

۴۔  شرح نہج البلاغہ  ،  ج  ۱  ص  ۲۲  :  قطب راوندی  (  متوفّیٰ  ۵۷۳    ھ  )

۵۔  تحف العقول  :  ابن شعبہٴ حرانی  (  متوفّیٰ  ۳۸۰    ھ  )

۶۔  اصول کافی  ،  ج  ۱  ص  ۱۴۰(ع)۱۳۸  :  مرحوم کلینی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۲۸    ھ  )

۷۔  الاحتجاج  ،  ج  ۱  ص  ۱۵۰ (ع)۱۹۸ (ع)۲۰۹  :  مرحوم طبرسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۵۸۸    ھ  )

۸۔  مطالب السؤول  :  محمّد بن طلحہ شافعی  (  متوفّیٰ   ۶۵۲    ھ  )

۹۔  دستور معالم الحکم  ،  ص  ۱۵۳  :  قاضی قضاعی  (  متوفّیٰ   ۴۵۴    ھ )

۱۰۔  تفسیر فخر رازی  ،  ج  ۲  ص  ۱۶۴  :  فخر رازی  (  متوفّیٰ   ۶۰۶    ھ  )   

۱۱۔ الحکمة و المواعظ : ابن شاکر واسطی (  ۴۵۲    میں تدوین ھوئی)

۱۲۔  ارشاد  ،  ج  ۱  ص  ۱۰۵(ع)۲۱۶(ع)۲۱۷  :  شیخ مفید  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۴۱۳    ھ  )

۱۳۔  توحید  ،  ص  ۲۴  :  شیخ صدوق  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۸۰    ھ  )

۱۴۔  عیون الاخبار  :  شیخ صدوق  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۸۰    ھ  )

۱۵۔  اٴمالی  ،  ج  ۱  ص  ۲۲  :  شیخ طوسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۴۶۰    ھ  )

۱۶۔  کتاب اٴمالی  ،  ص  ۲۰۵  :  شیخ صدوق  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۸۰    ھ  )

۱۷۔  اختصاص  ،  ص  ۲۳۶  :  شیخ مفید  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۴۱۳    ھ  )

۱۹۔  تذکرة الخواص  ،  ص  ۱۵۷  :  ابن جوزی  (  متوفّیٰ   ۶۵۴    ھ  )

۲۰۔  کتاب البدء والتاریخ  ،  ج  ۱  ص  ۷۴  :  مقدّسی  (  متوفّیٰ   ۳۵۵    ھ  )

۲۱۔  بحار الانوار  ،  ج  ۴  ص  ۳۲(ع)۴۴(ع) ۵۳(ع) ۵۴  :  علامہ مجلسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۲۲۔  کتاب محاسن  :  علامہ برقی  (  متوفّیٰ   ۲۷۴    ھ  )

۲۳۔  بحارالانوار  ، ج  ۴  ص  ۲۴۷(-) ۲۸۵ (ع) ۳۰۴(ع) ۳۲ (ع) ۴۴(ع) ۵۲(ع) ۵۳(ع) ۵۴ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰  ھ  )

۲۴۔  بحارالانوار  ،  ج  ۱۰  ص  ۱۱۸(ع)  ج  ۱۱  ص  ۶۰(ع)۱۲۲  :  علامہ مجلسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۲۵۔  بحارالانوار  ،  ج  ۱۶  ص  ۲۸۴ (ع)  ج  ۵۴  ص  ۱۷۶  :  علامہ مجلسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۲۶۔  بحارالانوار  ،  ج  ۶۰  ص  ۲۱۲  :  علامہ مجلسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۲۷۔  غررالحکم  ،  ج  ۳  ص  ۳۰۱(ع)  ج  ۴  ص  ۳۸۹  :  مرحوم آمدی  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۵۸۸    ھ  )

۲۸۔  غررالحکم  ،  ج  ۵  ص  ۹۹(ع)۱۰۲(ع)  ج  ۶  ص  ۴۲۱  :  مرحوم آمدی  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۵۸۸    ھ  )

۲۹۔  بحارالانوار ، ج  ۴ ص  ۲۴۸ (ع) ج  ۵۷ ص  ۱۷۸  :  علامہ مجلسی  (رہ) (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۳۰۔  بحارالانوار  ،  ج  ۱۸  ص  ۲۱۷ (ع)  ج  ۱۱ ص ۱۲۳ (ع)۶۱طبع جدید  :  علامہ مجلسی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۱۱۱۰    ھ  )

۳۱۔  اصول کافی  ،  ج  ۱  ص  ۱۳۵ (ع) ۱۳۹(ع) ۱۴۱  :  مرحوم کلینی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۲۸    ھ  )

۳۲۔  روضہٴ کافی،  ج  ۸  ص ۳۱  : مرحوم کلینی  (رہ)  (  متوفّیٰ   ۳۲۸    ھ)

 [5] نہج البلاغہ خطبہٴ ۳(ع)۱۶

 [6]  اسناد و مدارک خطبہٴ (ع)۳

۱۔  کتاب الجمل  ،  ص  ۶۲(ع)۹۲  :  شیخ مفید  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۱۳    ھ )

۲۔  الفھرست  ،  ص  ۹۲  :  نجاشی  ( متوفّیٰ  ۴۵۰    ھ )

۳۔  الفھرست  ،  ص  ۲۲۴  :  ابن ندیم  ( متوفّیٰ  ۴۳۸    ھ )

۴۔  الانصاف فی الامامة  :  ابی جعفر ابن قبہٴ رازی  ( متوفّیٰ  ۳۱۹    ھ )

۵۔  معانی الاخبار  ،  ص  ۳۴۳  :  شیخ صدوق  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۳۸۰    ھ

۶۔  علل الشرایع  ،  ص  ۱۴۴  :  شیخ صدوق  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۳۸۰    ھ )

۷۔  عقد الفرید  ،  ج  ۴  :  ابن عبد ربہ  ( متوفّیٰ  ۳۲۸    ھ )

۸۔  بحار الانوار  ،  ج  ۸  ص  ۱۲۰  ( کمپانی ؛متوفّیٰ  ۱۰۳۷    ھ )  :  مرحوم مجلسی  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۱۱۱۰    ھ )

۹   شرح نہج البلاغہ  :  قطب راوندی  ( متوفّیٰ  ۵۷۳    ھ )

۱۰۔  المناقب  :  ابن جوزی  ( متوفّیٰ  ۶۵۴    ھ )

۱۱۔  الغارات  :  ابن ھلال ثقفی  ( متوفّیٰ  ۲۸۳    ھ )

۱۲۔  الفرقة الناجیة  :  قطیفی  ( متوفّیٰ  ۹۴۵    ھ )

۱۳۔  ارشاد  ،  ج  ۱  ص  ۱۳۵(ع)۲۸۴(ع)۲۸۶  :  شیخ مفید  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۱۳    ھ )

۱۴۔  المغنی  :  قاضی عبدالجبّار  ( متوفّیٰ  ۴۱۵    ھ )

۱۵۔  نثرالدرر  :  وزیر ابو سعید آبی  ( متوفّیٰ  ۴۲۲    ھ )     

۱۶۔  نزہة الادیب  :  وزیر ابو سعید آبادی  ( متوفّیٰ  ۴۲۲    ھ )

۱۷۔  الشافی  ،  ص  ۲۰۳  :  سیّد مرتضیٰ  ( متوفّیٰ  ۴۳۶    ھ )

۱۸۔  الامالی  :  ھلال بن محمد بن الحفار  ( متوفّیٰ  ۴۱۷    ھ )

۱۹۔  الامالی  :  شیخ الطائفة طوسی  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۶۰    ھ )

۲۰۔  تذکرة الخواص  ،  ص  ۱۳۳  :  سبط ابن الجوزی  ( متوفّیٰ  ۶۵۴    ھ )

۲۱۔  تحف العقول  ،  ص  ۳۱۳  :  ابن شعبہٴ حرانی  ( متوفّیٰ  ۳۸۰    ھ )

۲۲۔  شرح الخطبة الشقشقیة  :  سیّد مرتضیٰ  ( متوفّیٰ  ۴۳۶    ھ )

۲۳۔  الافصاح فی الامامة  ،  ص  ۱۷  :  شیخ مفید (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۱۳    ھ )

۲۴۔  الاحتجاج  ،  ج  ۱  ص  ۲۸۱(ع)۱۹۱  :  طبرسی  ( متوفّیٰ  ۵۸۸    ھ )

۲۵۔  المحاسن والادب  :  علّامہ برقی  ( متوفّیٰ  ۲۸۰    ھ )

۲۶۔  المستقصیٰ  ،  ج۱  ص  ۳۹۳  :  زمخشری  ( متوفّیٰ  ۵۳۸    ھ )

۲۷۔  مجمع الامثال  ،  ج  ۱  ص  ۱۹۷  :  میدانی  ( متوفّیٰ  ۵۱۸    ھ )

۲۸۔  المجلی  ،  ص  ۳۹۳  :  ابن ابی جمھور احسائی  ( متوفّیٰ  ۹۰۹    ھ )

۲۹۔  المواعظ ولزواجر ( کتاب الغدیر ،  ج  ۷  ص  ۸۲  سے نقل )  :  ابن سعید عسکری  ( متوفّیٰ   ۲۹۱    ھ )

۳۰۔  ابن خشاب کہتا ھے ! خدا کی قسم میں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں پڑھا ھے جو سیّد رضی کی پیدائش سے ۲۰۰(ع)سال پھلے تدوین ھو ئی ھیں:  ماھو نہج البلاغہ  ،  ص  ۹۸  :  شھرستانی

۳۱۔  کتاب الانصاف  :  ابن کعبی بلخی  ( متوفّیٰ  ۳۱۹    ھ )

۳۲۔  الاوائل  :  ابن ھلال عسکری  ( متوفّیٰ  ۳۹۵    ھ )

۳۳۔  غرر الحکم  ،  ج  ۳  ص  ۴۶  :  مرحوم آمدی  ( متوفّیٰ  ۵۸۸    ھ )

۳۴۔  غرر الحکم ، ج  ۶  ص  ۲۳۲(ع) ۲۵۶  :  مرحوم آمدی  ( متوفّیٰ  ۵۸۸ ھ)

۳۵۔  رسائل العشر  ،  ص  ۱۲۴  :  شیخ طوسی  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۶۰    ھ )

 [7] نہج البلاغہ خطبہٴ ۳(ع)۱۶

 [8] خطبہ ۹۲، نہج البلاغہ معجم المفرس

 [9] اس میں کوئی شک نھیں کہ ! حضرت علی(ع) خدا وند عالم کی طرف سے امامت پر منصوب ھوئے اور اسلامی ممالک سے آئے ھوئے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوںنے غدیر خم کے میدان میں خدا وند عالم کے حکم سے اور پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ابلاغ کے بعد امام کے ساتھ بیعت کی ، لیکن ۲۵سال بعد ،ان تینوں کی خلافت کے دور میں لوگوں کے سیاسی انحراف اوراقدار میں تغیےر کے سبب اس وقت اتمام حجّت کرتے ھوئے فرما رھے ھیں کہ ” مجھے چھوڑ دو‘یعنی تم لوگ عدل کی حکومت کا تحمّل نھیں کر سکتے۔

 [10] خطبہٴ(ع)  ۹۲ کے اسناد و مدارک   :

 [11] اسناد و مدارک  خطبہٴ(ع)  ۲۷

۱۔  البیا ن و التبیین  ،  ج  ۱  ص  ۱۷۰  :  جاحظ  (  متوفّیٰ  ۲۵۵    ھ  )

۲۔  البیا ن و التبیین  ،  ج  ۲  ص  ۶۶  :  جاحظ  (  متوفّیٰ  ۲۵۵    ھ  )

 ۳۔  عیون الاخبار  ،  ج  ۲   ص  ۲۳۶  :  ابن قتیبة  (  متوفّیٰ   ۲۷۶    ھ  )

۴۔  اخبار الطوال  ،  ص  ۲۱۱  :  دینوری  (  متوفّیٰ   ۲۹۰    ھ  )

۵۔  الغارات ، ج ۲  ص  ۴۵۲(ع)۴۹۴  :  ابن ھلال ثقفی (  متوفّیٰ  ۲۸۳    ھ  )

۶۔  الکامل  ،  ج  ۱  ص  ۱۳  :  مبرد  (  متوفّیٰ  ۲۸۵    ھ  )آغا نی  ،  ج  ۱۵  ص  ۴۵  :  ابو الفرج اصفھانی  (  متوفّیٰ  ۳۵۶    ھ  )

۸۔  مقاتل الطالبین  ،  ص  ۲۷  :  ابو الفرج اصفھانی  (  متوفّیٰ  ۳۵۶    ھ  )

۹۔  معانی الاخبار  ،  ص  ۳۰۹  :  شیخ صدوق  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۳۸۰    ھ  )          

۱۰۔  انساب الاشراف  ،  ج  ۲  ص  ۴۴۲  :  بلاذری  (  متوفّیٰ  ۲۷۹    ھ  )

۱۱۔  مروج الذھب  ،  ج  ۲  ص  ۴۰۳  :  مسعودی  (  متوفّیٰ  ۳۴۶    ھ  )

۱۲۔  عقدالفرید  ،  ج  ۲  ص  ۱۶۳  :  ابن عبد ربہ  (  متوفّیٰ  ۳۲۸    ھ  )

۱۳۔  فروغ کافی  ،  ج  ۵  ص  ۴(ع)۶(ع)۵۳(ع)۵۴  :  مرحوم کلینی  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۳۲۹    ھ  )

 ۱۴۔  دعائم الاسلام  ،  ج ۱  ص ۴۵۵  :  قاضی نعمان  (  متوفّیٰ  ۳۶۳    ھ  )

۱۵۔  احتجاج  ،  ج  ۱  ص  ۲۵۱ (ع) ۱۷۴  :  مرحوم طبرسی  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۵۸۸    ھ  )

۱۶۔  تہذیب  ،  ج  ۶  ص  ۱۲۳  :  شیخ طوسی  (رہ)  (  متوفّیٰ  ۴۶۰    ھ  )

Add new comment