واقعه غدير کا اجمالی تعارف

غدیر کا دن "۱۸ ذی الحجہ" کا دن ہے جسے عید غدیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے، اسے "آل محمد :کی عید" بھی کہا جاتا ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: کیا مسلمانوں کے لیے جمعہ، عید فطر اور عید اضحی کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ہا

غدیر کا دن "۱۸ ذی الحجہ" کا دن ہے جسے عید غدیر کے عنوان سے منایا جاتا ہے، اسے "آل محمد :کی عید" بھی کہا جاتا ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا:   کیا مسلمانوں کے لیے جمعہ، عید فطر اور عید اضحی کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپؑ نے فرمایا: ہاں،  وہ عید عظمت کے لحاظ سے ان عیدوں سے بھی افضل ہے، راوی نے پوچھا: وہ کون سی عید ہے؟ فرمایا: وہ دن جب رسول خدا  (ص) نے حضرت علی ؑ کو معین کیا اور فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے؛ اور وہ ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہے۔

اس دن کو تمام آئمہ معصومین جشن مناتے اور اپنے ماننے والوں کو بھی تاکید کرتے کہ وہ اس دن کو عید منائیں، لہذا تمام مومنوں اور اہل بیت :کے محبّوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس دن کو عام دنوں کی طرح نہ گزار دیں بلکہ اسے عید کے طور پر منائیں، نئے لباس پہنیں، بچوں کو عیدی دیں، ایک دوسرے اور خاص طور پر سادات کو مباکباد پیش کریں۔ اس دن کے بعض اعمال مفاتیح الجنان میں موجود ہیں۔

واقعہ غدیر پیغمبر اکرم  ﷺ کی  زندگی کے نہایت اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، بلکہ یہ واقعہ درحقیقت اسلام کے تسلسل کے لیے ایک خدائی پروگرام کی حیثیت رکھتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم  ﷺ کے غدیر کے دن اپنے خطبہ کے دوران  ایک دائمی حکم جاری کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس کے بعد فرمایا: ألا فَلْيبَلِّغ الشَّاهدُ الغائبَ “تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کواُن لوگوں تک بھی پہنچائیں جو اِسوقت یہاں پر موجود نہیں ہیں ”۔

رسول خدا ﷺ کے اس واضح فرمان کے باوجود تا ریخ کے اس اہم واقعہ کو بغض وعداوت اور حسادت ولجاجت کے گرد و غبار میں فر ا موشی کے سپرد کر نے کی سرتوڑ کوششیں کی گئیں،   اس عظیم واقعہ کے سوا لاکھ صحابہ چشم دید گواہ  تھے لیکن اس کے باوجود غدیر کے میدان میں پیغمبر اکرم  ﷺ کا اعلان ملت اسلامیہ کے صفحاتِ ذہن سے محو ہو گیا۔

یقینا یہ سب اسلام دشمن منافقین کی کارستانیاں  اور اہل بیت سے بغض وعداوت کا نتیجہ تھا، چونکہ منافقین بخوبی آگاہ تھے کہ اگر غدیر کے موقع پر رسول خدا  ﷺ کا اعلان اسلامی معاشرے میں عملی شکل اختیار کر لیتا تو ملتِ اسلامیہ کے درمیان اختلاف و تفرقہ نہ ہوتا ، لہذا انہوں نے غدیر کے میٹھے اور گوارا چشمے کو ہر ممکن گدلا کرنے کی کوشش کی تا کہ مسلمانوں کی آیندہ نسلیں اس  سے سیراب نہ ہو سکیں، لیکن منافقین اور اہل بیت سے عداوت و حسادت رکھنے والے  اپنے اس ناپاک مقصد میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ہر دور میں آئمہ اہل بیت علیھم السلام اور ان کے مخلص ساتھیوں اور ماننے والوں نے غدیر  کی حفاظت فرمائی اور اسے نفاق کے فتنہ میں غرق ہونے سے بچا کر زندہ وجاوید بنا دیا۔  

اہل تشیع اور اہل سنت کی بہت سی معتبر کتب میں اس عظیم واقعہ کا  ذکر موجود ہے چنانچہ محققین کے مطابق صرف اہل سنت کی کتب میں رسول خداﷺ کے ایک سو دس اصحاب سے یہ واقعہ نقل ہوا ہے([i])، البتہ بعض روایات میں یہ واقعہ تفصیلی اور بعض میں مختصر طور پر بیان ہوا ہے، بعض میں واقعہ کے ایک پہلو اور بعض میں کسی دوسرے پہلو کی طرف اشارہ ہوا ہے، چنا نچہ واقعہ غدیر کے بارے میں روایات کا خلاصہ یہ ہے:

پیغمبر اکرم ﷺ کی زندگی کا آخری سال تھا؛ “حجة الوداع”کے مراسم پیغمبر اکرم ﷺکی ہمراہی میں اختتام پذیر ہوئے، تو آپؐ نے حجاج کے قافلہ کو مدینہ کی طرف کوچ کا حکم دیا، اُسوقت پیغمبر اکرم ﷺ کے ساتھیوں کی تعداد مختلف اقوال کی بنا پر ۹۰ہزار یا ایک لاکھ بارہ ہزار یا ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی جن میں نہ صرف مدینہ کے لوگ موجود تھے بلکہ جزیرہ نمائے عرب کے دیگر مختلف حصوں کے مسلمان بھی اس عظیم تاریخی اجتماع میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ تھے۔

جب یہ قافلہ جحفه سے تین میل کے فاصلے پر رابغ  نامی سرزمین پر پہنچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے  اور رسول خدا ﷺ کو یہ پیغام پہنچایا: اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے”([ii])۔

جونہی اللہ تعالی کی طرف سے یہ پیغام ملا تو پیغمبر اکرمﷺنے سب کو ٹھہر نے کا حکم دیا، لہٰذا قافلہ کو روک لیا گیا، جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے، ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛   پیغمبر اکرم ﷺ کے موٴذن نے ”اللہ اکبر “کی صداکے ساتھ لوگوں کونماز ظہر پڑھنے کی دعوت دی، مسلمان جلدی جلدی نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوگئے، موسم بہت گرم تھا، حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے،رسول خدا  ﷺ کے لیے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا ۔

 ظہر کی نمازادا کرنے کے بعد رسول خدا ﷺکے حکم کے مطابق اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا،آپؐ اس منبر پر تشریف لے گئے،اور پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالانے کے بعد ایک طویل خطبہ کے ضمن میں یوں فرمایا:

میں عنقریب اللہ تعالی کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جا نے والاہوں ،میں بھی جوابدہ ہوں اورتم لو گ بھی جوابدہ ہو ،تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

سب لو گوں نے بلند آواز میں کہا: “نشهد أنّک قد بلغتَ ونَصَحْتَ وَجَاهدتَّ فَجَزَاکَ اللّٰه خيرا” “ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواہی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ہماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے”۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث ہونے کی گواہی نہیں دیتے؟

سب نے کہا: کیوں نہیں ہم سب گواہی دیتے ہیں۔

آپ نے فرمایا: خدایا!گواہ رہنا۔

آپ نے مزید فرمایا: اے لوگو! کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟

انہوں نے کہا: جی ہاں۔

پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا:دیکھو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟

حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کہا: یا رسول اللہﷺ وہ دو گرا نقدر چیزیں کونسی ہیں؟

تو رسول خداﷺ نے فرمایا: پہلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو ثقل اکبر ہے، اس کا ایک سرا پروردگار عالم کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ میں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جاؤگے، دوسری گرانقدر یادگار میرے اہل بیت ٪ ہیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آملیں گے۔

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ہی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ہلاک ہو جاؤگے۔ اس موقع پر پیغمبر اکرمﷺ کی آوازپہلے سے زیادہ بلند ہوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا: أيها النَّاس مَن اٴولیٰ النَّاسِ بالمومنينَ مِن أنفسهم “اے لوگو! بتاؤ وہ کون ہے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہے ؟”

 اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ہیں۔

تو پیغمبر نے فرمایا: خدا میرا مولا اوررہبر ہے اور میں مومنین کا مولااوررہبر ہوں اورمیں ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے پرمقدم ہے)۔

پھر لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور  اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی اور بلند آواز سے فرمایا:

مَن کُنْتُ مَولَاہُ فَهذَا عَلِيّ مَولاہ  “ جس کا میں مولاہوں علی بھی اس کے مولا اوررہبر ہیں”۔

پیغمبر اکرمﷺنے اس جملے کو تین یا چار مرتبہ تکرار کیا، اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے اللہ تعالی کی  بارگاہ میں عرض کی:

أللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاٰہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ وَأحب مَنْ اٴحبهُ وَ أبغِضْ مَنْ أبغَضهُ وَانْصُر مَنْ نَصَرُهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ، وَاٴدرالحَقّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ “بار الٰہا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ او رجو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ، جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کی مدد کرے تو اس کی مددکر ، جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مددسے محروم رکھ اور حق کو ادھرموڑدے جدھر وہ رخ کرے”۔

اس کے بعد فرمایا: ألا فَلْيبَلِّغ الشَّاهدُ الغائبَ “تمام حاضرین آگاہ ہوجائیں کہ یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کواُن لوگوں تک بھی پہنچائیں جو اِسوقت یہاں پر موجود نہیں ہیں ”۔

پیغمبراکرمﷺ کا خطبہ ختم ہوگیا ،ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئی تھیں کہ جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور پیغمبر کو ان الفاظ میں تکمیلِ دین کی بشارت دی: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے، تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیا   اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے” ([iii])۔

اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا:  ”اللّٰهُ أکبرُ اللّٰهُ أکبرُ عَلیٰ إکْمَالِ الدِّينِ وَإتمَام النِعْمَةِ وَرَضیٰ الربِّ بِرسَالَتِي وَالوِلاٰيَة لِعَليّ مِنْ بَعْدِي“ ”ہر طرح کی بزرگی وبڑائی خداہی کے لئے ہے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد علی کی ولایت کے لئے خوش ہوا۔“

رسول خداﷺ کی زبان مبارک سے امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی ولایت کا اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور بلند ہوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کرنے لگے چنانچہ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں کہ انہوں نے کہا:

”بخٍ بخٍ لک يا بن أبِي طالب أصبحتَ مولاي و مولا کُلّ مومن و مومنةٍ“([iv])

”مبارک ہو ! مبارک ! اے فرزند ابو طالب کہ آپ میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رہبر ہوگئے”۔

اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد وپیمان سب کی گردنوں میں باقی رہے گا۔

-----------------------------------------------

حواله جات:

[i]: تفصیل کے لیے علامہ  امینی کی کتاب الغدیر کی طرف رجوع فرمائیں۔
[ii] : سورہ مائدہ:۶۷
[iii] : سورہ مائدہ:۳
[iv]: البدایۃ والنھایۃ (ابن کثیر) ج:۷ص۳۸۶؛  شواھد التنزیل (حاکم حسکانی) ج:۱ ص۲۰۳۔

Add new comment