حديث غدير کي سنديت و دلالت

اللہ کا حکيمانہ ارادہ ہے کہ غدير کا تاريخي واقعہ ايک زندہ حقيقت کي صورت ميں ہر زمانے ميں باقي رہے اور لوگوں کے دل اس کي طرف جذب ہوتے رہيں- اسلامي قلمکار ہر زمانے ميں تفسير، حديث، کلام اور تاريخ کي کتابوں ميں اس کے بارے ميں لکھتے رہيں اور مذہبي خطيب، اس کو

حديث غدير کي ابديت:

اللہ کا حکيمانہ ارادہ ہے کہ غدير کا تاريخي واقعہ ايک زندہ حقيقت کي صورت ميں ہر زمانے ميں باقي رہے اور لوگوں کے دل اس کي طرف جذب ہوتے رہيں- اسلامي قلمکار ہر زمانے ميں تفسير، حديث، کلام اور تاريخ کي کتابوں ميں اس کے بارے ميں لکھتے رہيں اور مذہبي خطيب، اس کو وعظ و نصيحت کي مجالس ميں حضرت علي عليہ السلام کے ناقابل انکار فضائل کي صورت ميں بيان کر تے رہيں- اور فقط خطيب ہي نہيں بلکہ شعراء حضرات بھي اپنے ادبي ذوق، تخيل اور اخلاص کے ذريعے اس واقعے کي عظمت کو چار چاند لگائيں اور مختلف زبانوں ميں مختلف انداز سے بہترين اشعار کہہ کر اپني يادگار چھوڑيں (مرحوم علامہ اميني نے مختلف صديوں ميں غدير کے سلسلے ميں کہے گئے اہم اشعار کو شاعر کي زندگي کے حالات کے ساتھ معروف ترين اسلامي منابع سے نقل کرکے اپني کتاب الغدير ميں جو کہ گيارہ جلدوں پر مشتمل ہے، بيان کيا ہے- )

بالفاظ ديگر دنيا ميں بہت کم ايسے تاريخي واقعات ہيں جو غدير کي طرح محدثوں، مفسروں، متکلموں، فلسفيوں، خطيبوں، شاعروں، مورخوں اور سيرت نگاروں کي توجہ کا مرکز بنے ہوں- اس حديث کے جاوداني ہونے کي ايک علت يہ ہے کہ اس واقعے سے متعلق دو آيتيں قرآن کريم ميں موجودہيں [7] لہٰذا جب تک قرآن باقي رہے گا يہ تاريخي واقعہ بھي زندہ رہے گا- اور يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ قرآن ابدي حقيقت ہے اور يہ حقيقت ابد تک باقي رہے گي- دلچسپ بات يہ ہے کہ تاريخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہويں ذي الحجة الحرام مسلمانوں کے درميان روز عيد غدير کے نام سے مشہور تھي يہاں تک کہ ابن خلکان، المستعلي بن المستنصر کے بارے ميں لکھتا ہے کہ 487 ھ ميں عيد غدير خم کے دن جو کہ اٹھارہ ذي الحجة الحرام ہے، لوگوں نے اس کي بيعت کي [8] اور المستنصر باللہ کے بارے ميں لکھتا ہے کہ 487 ھ ميں جب ذي الحجہ کي آخري بارہ راتيں باقي رہ گئيں تو وہ اس دنيا سے گيا اور جس رات ميں وہ دنيا سے گيا ماہ ذي الحجہ کي اٹھارہويں شب تھي جو کہ شب عيد غدير ہے- [9]

اس سے بھي زيادہ دلچسپ امر يہ ہے کہ ابوريحان البيروني نے اپني کتاب الآثار الباقيہ ميں عيدغدير کو ان عيدوں ميں شمار کيا ہے جن ميں تمام مسلمان خوشياں مناتے تھے اور اہتمام کرتے تھے [10]

صرف ابن خلکان اور ابوريحان بيروني نے ہي اس دن کو عيد کا دن نہيں کہا ہے، بلکہ اہل سنت کے مشہور معروف عالم ثعلبي نے بھي شب غدير کو امت مسلمہ کے درميان مشہور شبوں ميں شمار کيا ہے [11] اس اسلامي عيد کي بنياد پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں ہي رکھي جا چکي تھي، کيونکہ آپ نے اس دن تمام مہاجر، انصار اور اپني ازواج کو حکم ديا کہ علي عليہ السلام کے پاس جاکر آپ (ع) کو امامت و ولايت کے سلسلہ ميں مبارکباد ديں-

زيد ابن ارقم کہتے ہيں کہ ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ و زبير مہاجرين ميں سے وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے حضرت علي عليہ السلام کے ہاتھ پر بيعت کي اور مبارکباد دي- بيعت اور مبارکبادي کيا يہ سلسلہ مغربت ک چلتا رہا-(چاری ہے)

حوالہ جات:

[7] سورہ مائدہ آيہ/ 3، 67

[8] وفاية الآيان 60/1

[9] وفايةالآيان ج/ 2 ص/ 223

[10] ترجمہ آثارالبقايہ ص/ 395،الغدير/ 1،ص/ 267

[11] ثمار القبول اعيان/ 11

[12] عمر بن خطاب کي مبارک بادي کا واقعہ اہلسنت کي بہت سي کتابوں ميں ذکر ہوا ہے- ان ميں سے خاص خاص يہ ہيں (الف) مسند ابن حنبل ج/ 6،ص/ 104 ( ب) البدايہ ونہايہ ج/ 5 ص/ 209 ( ج)الفصولالمہمہ ابن صباغ ص/ 40 ( د)فرائد السمطين،ج/ 1،/ 71،اسي طرح ابوبکر،عمر،عثمان،طلحہ و زبيرکي مبارکبادي کا ماجرا بھي بہت سي دوسر ي کتابوں ميں بيان ہوا ہے جيسےمناقب علي بن ابي طالب،تاليف :احمدبن محمد طبري،الغدير ج/ 1 ص/ 270

Add new comment