واقعه غدیر تاریخی لحاظ سے ثابت شده هےـ

مورخین نے اس واقعه کو درج کر کے اور اس داستان کو سینه به سینه قابل اعتماد لوگوں اور گونا گون گروھوں کی زبانی سن کر اس کے صحیح هو نے کا اعتراف کیا هے اس مطلب کی حجیت اس قدر واضح هے که یه واقعه ادبیات، کلام ، تفسیر اور حتی که شیعه و اهل سنت کے قابل اعتبار ح

یه کیسے ممکن هے که ایک لاکھـ صحابیوں نے حد یث غدیر سنی هو اور سقیفه میں کوئی ایک بھی اعتراض نه کرے؟!

مورخین نے اس واقعه کو درج کر کے اور اس داستان کو سینه به سینه قابل اعتماد لوگوں اور گونا گون گروھوں کی زبانی سن کر اس کے صحیح هو نے کا اعتراف کیا هے اس مطلب کی حجیت اس قدر واضح هے که یه واقعه ادبیات، کلام ، تفسیر اور حتی که شیعه و اهل سنت کے قابل اعتبار حدیثی معاجم میں بھی درج هوا هے ـ یهاں تک که اهل سنت کے ایک بڑے دانشور نسائی نے مذکوره حدیث کو ٢٥٠ اسناد سے نقل کیا هے ـ

اس کے علاوه غدیر خم میں اس قسم کے اجتماع کے لئے کسی قسم کے عقلی عدم امکان کی گنجائیش نهیں هے، کیو نکه غدیر کا واقعه ١٠ هجری میں هوا هے جس سال اسلام خاص کر شعائرالهی یعنی فریضه حج کے سلسله میں زبر دست تبلیغ کی گئی تھی، اس تبلیغ نے لوگوں کے مختلف طبقات میں اسلام کی طرف رجحان پیدا کیا تھا اور سب سے اهم یه که پیغمبر اسلام (ص) نے اس سال لو گوں میں اعلان فر مایا تھا که احکام حج کی تربیت دینے کے لئے آپ(ص) ذاتی طورپر اس سفر حج میں شرکت فر مائیں گےـ

اب سوال یه هے که اس قسم کی جمعیت نے، سقیفه کے انحراف کے مقابل میں کیوں اعتراض نهیں کیا اور خاموشی کی راه اختیار کی ؟ !کیا اس نکته کا یه مطلب نهیں هے که حدیث غدیر حضرت علی(ع) کی ولایت پر دلالت نهیں کرتی هے؟ !

جواب میں کهنا چاهئے که: بنیادی طور پر سقیفه میں اصحاب کی طرف سے بالکل عدم اعتراض کا دعوی صحیح نهیں هے بلکه باطل هے ، کیونکه اصحاب میں سے سلمان، مقداد، طلحه و... جیسی عظیم شخصیتوں نے سقیفه کے سرداروں پر  اعتراض کر نے میں کسی قسم کی کوتاهی نهیں کی اور یهاں تک که زبیر نے سقیفه کے سرداروں پر تلوار بھی کھینچ لی ـ

لیکن کچھـ لوگوں نے اس سلسله میں جو خاموشی اختیار کی، وه یا مصلحت اور اختلاف و خونریزی سے اجتناب کر نے کے لئے تھی ، جیسے پیغمبر اکرم (ص) کے چچا عباس اور یا خلیفه وقت کے کارندوں کی دھمکیوں اور خوف کی وجه سے تھی ـ اور یا اس لئے که اس گروه کے اقتدار پر آنے سے انهیں فائده ملنے والا تھا ، جیسے اموی خاندان ـ اسی طرح کچھـ اور بھی گروه تھے جنهوں نے انکار وڈر سے خاموشی اختیار نهیں کی بلکه وه علی(ع) کو ایک عدالت خواه حاکم کی حیثیت سے بخوبی پهچانتے تھے اور علی(ع) کی حاکمیت میں اپنے لئے کوئی فائده نهیں دیکھتے تھے ، اس لئے ایسے لوگوں نے اعتراض نهیں کیا ـ آخر پر یه که بعض لوگوں نے جهل و نادانی سے علی(ع) کی جگه پر ابو بکر کی بیعت کی ، وه خیال کرتے تھے که یهی علی(ع) هیں اور وه خیال کرتے تھے ان کی بیعت کر کے رسول الله (ص)  کی غدیر میں کی گئی سفارش پر عمل کرتے هیں ، اب وه چونکه خلافت پر منتخب هوئے هیں اس لئے بیعت کرنی چاهئے ـ

حضرت علی(ع) بھی پیغمبر اسلام (ص) کی وصیت کے مطابق مامور تھے که معاشره میں اختلاف وافتراق پیدا نه هو جائے ، لهذا انهوں نے مختلف مواقع پر دسیوں بار حدیث غدیر کے استناد پر صرف معمولی اعتراض پر اکتفا کیا ـ

تفصیلی جوابات

سوال میں دو احتمال پائے جاتے هیں : پهلا احتمال یه که سقیفه کے فیصله کے نتیجه میں اصحاب کا عدم اعتراض فرض کیا جائے اور اصل واقعه غدیر سے انکار کیا جائےـ دوسرا احتمال یه هے که اصل واقعه غدیر اور اصحاب کا عدم اعتراض فرض کیا جائے اور حضرت علی(ع) کی ولایت پر حدیث غدیر کی دلالت سے انکار کیا جائےـ

پهلے احتمال کے جواب کے لئے کافی هے که اصل میں غدیر کے وقوعھ کو تاریخ سے ثابت کیا جائےـ

شیعه اور سنیوں کی بهت سی تاریخی کتابوں میں غدیر کے واقعه کو نقل کر کے حقیقت کا اعتراف کیاگیا هے [1] اور اسے مسلمات میں شمار کیا گیا هے ـ اهل سنت کے معاصر دانشور ، خلیل عبدالکریم ، قرآن مجید کو جمع کر نے کی بحث کے دوران لکھتا هے: " حجۃ  الوداع ( جس کے بعد غدیر خم کا واقعه هوا) میں اصحاب پیغمبر(ص) کی تعداد ایک لاکھـ چوبیس هزار تھی"[2] ـ ابن کثیر کهتا هے : " غدیر خم کے واقعه کے بارے میں اخبار و احادیث کافی حد تک متواتر هیں اور هم اپنے مقدور کے مطابق (ان میں سے کچھـ کو ) خدا کی چاهت سے نقل کر تے هیں ـ "[3]

مذکوره تاریخی کتابوں کے علاوه ، اهل سنت کے  حدیثی معاجم میں ، بهت سے راویوں نے حدیث غدیر کو نقل کیا هے ـ ان میں سے بعض نے اس حدیث کو ایک هی مضمون میں مختلف طریقوں سے ذکر کیا هے ـ مثال کے طور پر ، نسائی اس حدیث کو ٢٥٠ اسناد سے نقل کر تا هےـ[4]

یه تمام مطالب اس بات کی دلیل هیں که غدیر خم کے واقعه پر اصحاب کی بڑی تعداد کی موجود گی ، اصل واقعه اورتعداد اصحاب کے بارے میں کوئی شک وشبهه باقی نهیں هے ـ

اس کے علاوه غدیر خم میں اس قسم کا اجتماع هر قسم کے عقلی عدم امکان کو مسترد کرتا هے، کیونکه غدیر کا واقعه رابغ نامی[5] ایک سر زمین میں مکه سے تقریبا دوسو کلو میٹر کی دوری پر واقع هوا هے ـ یه وه چوراھا هے جهاں پر عراق ، مدینه، [6] مصر اور یمن کے راستے جدا هو تے هیں ـ اس لئے تمام حجاج ، حج سے واپسی پر یقیناً اسی راه سے گزرتے تھے ـ زمانه کے لحاظ سے بھی قابل ذکر هے که غدیر خم کا واقعه ١٨ ذی الحجه ، [7] ١٠هجری کے آخری مهینه میں واقع هوا هےـ لیکن اس سال لوگوں کی تعداد همیشه کی نسبت زیاده تھی ، کیو نکه حج کے شعائرالله هو نے کے بارے میں متعدد آیتیں نازل هوچکی تھیں اور اسلام کی زبردست تبلیغ کے نتیجه میں لو گوں کے مختلف طبقات نے اس دین الهی کو قبول کیا تھاـ

دوسری طرف سے، چونکه نبی اکرم (ص) نے حکم دیا تھا که حج پر روانه هو نے سے پهلے هر جگه اعلان کریں که پیغمبر اکرم (ص) ، حج کے حقیقی احکام کی تربیت دینے کے لئے خود اس فریضه حج میں شرکت فر مائیں گےـ[8]

مذکوره تمام تقاضے اس سال حجاج کی تعداد همیشه کی نسبت بهت زیاده هونے کا سبب بنے ـ چونکه غدیر خم کا حادثه رابغ پر واقع هوا ، جهاں پر یه جمعیت ابھی متفرق نهیں هوئی تھی ـ لهذا غدیر خم میں ایک پر شکوه اور بے مثال اجتماع منعقد هواـ

دوسرا احتمال یه که: یه کیسے ممکن هے که اصحاب پیغمبر (ص) غدیر خم کے واقعه کو دیکھنے اور پیغمبر اکرم (ص) کے ارشادات کو سننے اور حضرت (ع) کی بیعت کر نے کے باوجود سقیفه[9] میں کسی دوسرے شخص کو اس امر الهی کے لئے منتخب کریں ؟ !اس سے معلوم هو تا هے که حدیث غدیر خم حضرت علی علیه السلام کی ولایت پر دلالت نهیں کرتی هےـ

سوال کے اس حصه کے جواب میں کهنا چاهئے که غدیر کے واقعه کے بارے میں صحابه کے عدم اعتراض کا دعوی بالکل باطل هےـ ایسے سچے ساتھیوں کی تعداد کم نهیں تھی جنهوں نے اپنے عهد و پیمان پر قائم رهتے هوئے سقیفه کے سرداروں کو اس خطر ناک اقدام کے بارے میں منع کیاـ

حضرت علی علیه السلام ، پیغمبر اکرم (ص) کی وصیت کے مطابق اس امر پر مامور تھے که معاشره میں اختلاف و افتراق پیدا نه هونے پائے ، لهذا انهوں نے صرف لفظی اعتراض پر اکتفا کیا اور غدیر کے فرمان کو نافذ کر نے کے سلسله میں تلوار نهیں اٹھائی اور ابو بکر کی بھی ، جب تک حضرت فاطمه زهرا(ع) زنده تھیں ، بیعت نهیں کی اور اس کے بعد بھی مصلحت اور مجبوری کی بنا پر بیعت کی ـ لیکن اپنے لفظی اعتراضات کو مختلف مواقع پر حدیث غدیر کے استناد سے دسیوں بار دهرایا ـ

سلمان، ابوذر، طلحه اور زبیر[10] وغیره جیسے صحابیوں نے اعتراض کیا اور ابو بکر کی بیعت نهیں کی، اسی پر اکتفا نهیں کیا بلکه زبیر نے سقیفه کے سرداروں کے خلاف تلوار بھی کھینچ لی ـ [11]

بعض دوسروں ، جیسے آنحضرت (ص) کے چچاعباس، نے اگرچه اختلاف و خونریزی سے اجتناب کر نے کے لئے کھلم کھلا مخالف نهیں کی ، لیکن ان کی تائید سے پرهیز کراتے هوئے ان کی بیعت نهیں کی ـ [12] بزرگ صحابیوں کی ایک بڑی تعداد کی عملی مخالفت اور حضرت علی علیه السلام کا مختلف مواقع پر حد یث غدیر سے پے در پے استناد کر نے کے پیش نظر ثابت هو تا هے که حضرت علی (ع) کی ولایت پر حدیث غدیر کی دلالت مکمل اور صحیح هے ـ لیکن غدیر خم کے ماجرا میں عام لوگ دو حالتوں سے خارج نهیں تھے ، ان میں سے ایک بڑی تعداد سقیفه میں اپنے لئے فائده پاتی تھی  مانند اصحاب سقیفه کے رشته دار یا یه که لالچ اور دهمکانے پر تعاون اور بیعت کر نے پر مجبور هوئے ـ شیخ مفید اس سلسله میں کهتے هیں : "عمر نے عربوں کے ایک گروه سے کها پیغمبر کے خلیفه کی بیعت (حاصل کر نے) کے لئے ایک رقم لے جائیے اور لوگوں کے پاس جاکر انهیں گروهوں کی صورت میں بھیجد یجئے تاکه بیعت کریں ـ اگر کوئی نے انکار کرے  تو اس کی پٹائی کیجئےـ[13] اور بعض ایسے تھے جنهیں نه کوئی فائده تھا اور نه مجبورا بیعت کی ، بلکه جانتے تھے وه علی کی حکو مت کو بر داشت نهیں کر سکیں گے اور یا ان کی نسبت بغض و کینه رکھتے تھے ، کیونکه ان کے بهت سے مشرک و کافر رشته دار جنگوں میں علی (ع) کے هاتهوں قتل کئے گئے تھے ـ کها جاتا هے که کچھـ لو گوں نے جهل و نادانی سے ابو بکر کی بیعت کی ، یه وه لوگ تھے جنهوں نے غدیر کے واقعه کو سنا تھا ، اور اس خیال سے که ابو بکر وهی علی(ع) هیں ، جن کی ولایت کے بارے میں پیغمبر (ص) نے سفارش کی هے ، ـ اس مطلب کی تائید میں اسکافی لکھتا هے : "اس زمانه کے  لوگوں کے جهل و نادانی کے بارے میں اتناهی کافی هے که ... انهیں یوں پھچا نتے تھے: علی بن الخطاب ، عمر بن ابی قحافه ، عثمان بن ابیطا لب اور ابو بکر بن عفان...[14]

………………………………………………………………………………………………………….

حواله جات:

١ـ غدیر، سند گویا ی ولایت، گروه معارف و تحقیقات اسلامی ـ

٢ـ الغدیر ، شیخ عبدالحسین امینی ، یازده جلدی ـ

٣ـ التنبیه والاشراق، للمسعودی ، تک جلدی ـ

٤ـ فراز های از تاریخ پیامبر اسلام (ص)، جعفر سبحانی ـ

٥ـ مجتمع الیثرب ، خلیل عبدالکریم ـ

٦ـ تاریخ یعقوبی ، احمد بن ابی یعقوب ابن جعفر ابن ابی واضح ـ

٧ـ البدایه والنهایه ، الحافظ ابن کثیر دمشقی ـ

٨ـ معجم لغه الفقهاء ، محمد قلعجی ـ

٩ـ اسرار آل محمد (ص) ، سلیم ابن قیس هلالی ـ

١٠ـ فرائد السمطین ، ابراهیم ابن محمد جوینی خراسانی ـ

١١ـ السقیفه والفدک ، ابی بکر احمد ابن عبدالعزیز جوهری ـ

١٢ـ شرح نهج البلاغه ، ابن ابی الحدید ـ

١٣ـ جمل ، شیخ مفید ـ

١٤ـ شرح اصول کافی ، مولی محمد صالح مازندرانی ـ

١٥ـ المعیار و الموازنه ، ابی جعفر الاسکافی ـ

[1] تاریخ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب ابن جعفر ابن ابی واضح ج٢، ص ١١٢-

[2] مجتمع الیثرب ، خلیل عبدالکریم ص ٢٠ـ

[3] البدایه والنهایه ، الحافظ ابن کثیر دمشقی، ج٥ ، ص ٢١٣ـ

[4] غدیر، سند گویای ولایت، گروه معارف و تحقیقات اسلامی ، ص ١٥ـ

[5] غدیر ، سندگویای ولایت، گروه معارف و تحقیقات اسلامی ، ص ٧ـ

[6] الغدیر، شیخ عبدالحسین امینی، ج١، ص ٨ـ

[7] التبیه والاشراق ، للمسعودی ، ص٢٢٢ـ

[8] فراز های از تاریخ پیغمبر اسلام (ص) ، جعفر سبحانی، ص ٥٠٤ـ

[9] سقیفه یعنی وه جگه جس پر چھت(سقف)لگی هو معجم لغه الفقهاء ، محمد قلعجی ، ص ٢٦٤-

[10] فرائد السمطین ، ابراهیم ابن محمد جویی خراسانی ، ج٢، ص ٨٢ـ

[11] السقیفه والفد ک ، ابی بکر احمد ابن عبدالعزیز جوهری، ص ٥٠ـ

[12] شرح نهج البلاغه ، ابن ابی الحدید ، ج١،ص ٧٣ـ

[13]جمل، شیخ مفید، ص٥٩، شرح اصول کافی ، مولی محمد صالح مازندرانی ، ص ٢٦٠ـ

[14] تھوڑے خلاصه کے ساتھـ ، المعیار والموازنه، ابی جعفر الاسکافی، ص ١٩ـ٢٣ـ

Add new comment