حدیث غدیر کی سند اور متن کے سلسلہ میں تحقیق

اگرچہ حدیث غدیرکی سند اورمتن کے سلسلہ میں مفصل علمی بحثیں ھیں لیکن پھر بھی ھم ان پر طائرانہ نظر ڈالتے ھیں ۔ علماء کرام نے ان دونوں مطالب کے سلسلہ میں کافی اور وافی بحثیں کی ھیں مطالعہ کرنے والے افراد اسی حصہ میں جن کتابوں کا تذکرہ کیا گیا ھے ان کی ط

۱ حدیث غدیر کی سند

غدیر کے عظیم واقعہ میں خطبہ سے پھلے جو مقدماتی مراحل انجام پائے،خطبہ کامتن،اور وہ واقعات جو خطبہ کے ساتھ یا خطبہ کے بعد رونما هوئے سب ایک روایت کی شکل میں ھمارے ھاتھوں   تک نھیں پہنچ پائے۔بلکہ غدیر میں موجود افراد میں سے ھر ایک نے مراسم کے ایک گوشہ یا آنحضرت (ص)        کی باتوں کے ایک حصے کو نقل کیا ھے ۔البتہ اس واقعہ کا کچھ حصہ متواتر طریقے سے بھی ھم تک پہنچاھے اور خطبہ غدیر بھی مکمل طورپر کتابوں میں محفوظ ھےحساس دور میں حدیث غدیرکی روایت

غدیر کے میدان میں اس جمع غفیر میں پیغمبر اسلام  (ص)نے جو باتیں کیںوہ اس طریقے سے شھروں میں منتشر هوگئیں کہ حتی غیر مسلم بھی ان سے باخبر هوگئے۔

بجا هوتا اگر غدیرمیںایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ حاضرمسلمانوں میں سے ھر ایک اپنے سھم کے مطابق خطبہ غدیر کے ایک حصہ کو حفظ کرتااوراسکے متن کو اپنی اولاد ،اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تک پہنچاتا۔

افسوس کا مقام ھے کہ اس وقت کی مسلمانوںکی اجتماعی حالت اور رحلت پیغمبر کے بعدکی تاریک فضا کہ جس میں کئی سال تک حدیث سنانا اور لکھنا ممنوع تھا۔اس بات کا سبب بنی کہ لوگ پیغمبر اسلام  (ص)کی تقدیر ساز باتوں کو بھی بھول جائیں،اور ان کی اھمیت کو کھوبیٹھیں۔

طبیعی طور پر ایسا ھی هونا چاھےے تھا اسلئے کہ مسئلہ غدیر کو چھیڑنا ،غاصبین خلافت کی جڑوں کو اکھاڑپھینکنے کے مترادف تھا اور وہ ھر گزاس کام کی اجازت نھیں دے سکتے تھے لیکن اسکے باوجود واقعہ غدیر یوں لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھا کہ اکثر لوگوں نے غطبہ غدیر یا اس کا کچھ حصہ حفظ کیااور اس کوآنے والی نسلوں تک پہنچایا اور کسی کے بس میں نھیں تھا کہ اس پر کنٹرل کر سکے اور اس مھم خبر کو منتشرهونے سے روک سکے۔

خود امیر المومنین(ع) اور فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھاجو غدیر کا رکن تھے اور ائمہ یکے بعد دیگرے اس حدیث کو محفوظ رکھتے رھے اور کئی بار دوستوں اور دشمنوں کے مقابلے میں اس کے ذریعے استدلال پیش کرتے رھے۔[1]ھم دیکھتے ھیں کہ اس خطرناک ماحول میں امام باقر علیہ السلام خطبہ غدیر کے مکمل متن کو اپنے اصحاب کےلئے بیان کرتے تھے۔

اسی طرح صحابہ میں سے دو سو آدمیوں نے اور تابعین کے ایک گروہ نے اس تقیہ کے ماحول میں کہ جھاں ایک حدیث کا نقل کرنا ایک جان دینے کے برابر تھا اسکو نقل کیا۔کتاب عوالم العلوم:ج۱۵/۳ صفحات ۴۹۳۔۵۰۸میں حدیث غدیر کے راویوں کی چودہ سو سال سے اب تک کی زمانہ کے لحاظ سے ایک  فھرست ذکر هوئی ھے اور ا س میں ثابت کیا ھے کہ یہ نقل خَلَف از سَلَف اس بات کی دلیل ھے کہ بغیر انقطاع کے حدیث غدیر کے نقل کاسلسلہ مستحکم ھے۔صفحات۵۰۱۔ ۵۱۷ میں غدیر کے راویوں کو الف، با ،کی ترتیب سے ذکر کیا ھے ، صفحہ۵۲۲ میں وہ مو ٴ لفین جنھوںنے حدیث غدیر کو ضبط(لکھا) کیا ھے کاتذکرہ کیا ھے ۔صفحات۹ ۲ ۵ ۔ ۴ ۳ ۵ میں حدیث غدیر کے نقل کرنے والے صحابہ تابعین اور دوسرے لوگوں کی وثاقت کو بیان کیا ھے۔اسی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان ”حدیث غدیر“برابرکسی حدیث کے راوای نھیں ھیں اوراس کے تواترکے علاوہ علم رجال اور درایت اسناد کے اعتبار سے بھی یہ حدیث فوق العادہ ھے۔

حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں کی شناخت

حدیث غدیر کی سند سے مربوط تاریخی اور رجالی بحثوں کے اعتبار سے بہت سی مفصل کتابیں تالیف هوئی ھیں۔

ان کتابوں میں ،حدیث غدیر کے راویوں کے نام جمع کئے گئے ھیں اور راویوں کے موثق هونے کے بارے میں رجالی بحثیں هوئی ھیں راویوںاور اسنادکے بارے میں مفصل تاریخ بیان هوئی ھے اور اس کے اسناد و رجال کے بارے میںتعجب خیز باتوں کا تذکرہ کیا گیا ھے ذیل میں دو نمونوں کی طرف ا شارہ کیا جاتاھے:

ابوالمعالی جو ینی کہتے ھیں :میں نے بغداد میں ایک جلد ساز کے پاس ایک کتاب دیکھی کہ جس کی جلد پر یہ لکھا هوا تھا۔”من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ“کی اسنادکے بارے میں اٹھائیسویں جلد اور اس جلد کے بعد انتیسویںجلدھے“[2]

ابن کثیر کہتے ھیں:میں نے دو ضخیم جلدوں میں ایک کتاب کو دیکھا جس میں طبری نے غدیر خم کی احادیث کو جمع کیا ھے۔[3]

اھل سنت کی بہت سی بڑی بڑی کتابوں میں حدیث غدیر کو مسلمات کے عنوان کے تحت ذکر کیا گیاھے۔منجملہ ان کے موٴلفین یہ ھیں :اصمعی ،ْابن سکیت ،جاحظ،سجستانی، بخاری اندلسی ، ثعلبی، ذھبی، مناوی، ابن حجر،تفتازانی،ابن اثیر،قاضی عیاض،باقلانی۔[4]

اگر چہ اس سلسلے میں کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ھے لیکن ھم یھاںپر اختصار کے ساتھ چند ایک کتابوںکاتعارف کراتے ھیں:

      ۱۔عبقات الانوار۔میرحامد حسین ہندی۔(غدیر سے مربوط جلدیں)

      ۲۔الغدیر:علامہ امینی؛ج۱ص۱۲۔۱۵۱۔۲۹۴۔۳۲۲۔

      ۳۔نفحات الازھارفی خلاصة عبقات الانوار:علامہ سید علی میلانی؛ج۶۔۹۔

      ۴۔عوالم العلوم:شیخ عبداللهبحرانی؛ج۱۵/۳ص۳۰۷۔۳۲۷۔

      ۵۔بحار الانوار ،علا مہ مجلسی :جلد /۳۷ ،صفحہ /۱۸۱۔۱۸۲۔

      ۶۔اثبات الھدات ،شیخ حر عا ملی جلد ۲ صفحہ ۲۰۰۔۲۵۰۔

      ۷۔کشف المھم فی طریق خبر غدیر خم سید ھاشم بحرانی ۔

      ۸۔الطرائف سید ابن طا وٴس صفحہ /۳۳۔

خطبہ غدیرکے مکمل متن کے مدارک

اسلامی کتابوں کی تاریخ میں:خطبہ غدیر کو مستقل طور پر نقل کرنے میں سب سے پھلی کتاب کہ جس کو شیعہ عالم ،علم نحو کے استاد،شیخ خلیل بن احمد فراھیدی متوفیٰ  ۱۷۵ ھجری نے تالیف کیا ھے ملتی ھے۔کہ جو عنوان”جزء فی خطبةالنبی(ص) یوم الغدیر“[5]کے تحت پہچانی جاتی ھے اور اسکے بعدبہت سی کتابیں اس سلسلے میں تالیف هوئی ھیں۔

خوش قسمتی سے خطبہ غدیر کا مکمل اور مفصل متن ،شیعوںکے معتبر مدارک میں سے طبع شدہ نو کتابوںمیں متصل سند کے ساتھ مذکورھے۔

ان نو کتابوں کی روایات تین سلسلوںپر ختم هوتی ھیں:

ایک امام باقرعلیہ السلام کی روایت کا سلسلہ ھے کہ جو معتبر اسناد کے ساتھ چار کتابوں”روضة الواعظین“(شیخ ابن فتال نیشاپوری)[6] ”الاحتجاج“(شیخ طبری)[7]، ”الیقین“(سیدابن طاووس[8] اور ”نزھة الکرام ”شیخ محمد بن حسینی رازی)[9] میں نقل هوا ھے۔

دوسرا سلسلہ :حذیفہ بن یمان کی روایت ھے کہ جے متصل سند کے ساتھ سیدابن طاووس نے اپنی کتاب”الاقبال“[10] ”النشر والطیّ“کتاب نقل کیا ھے۔

تیسرا سلسلہ:زید بن ارقم کی روایت کا ھے کہ جومتصل اسنا د کے ساتھ چار کتابوں ”العُدد القویة“ تالیف شیخ بن یوسف حلی[11] ،”التحصین“تالیف سیدابن طاووس[12] ،”الصراط المستقیم“ تالیف شیخ علی بن یونس بیاضی [13]اور ”نھج الایمان“ تالیف شیخ علی بن حسین بن جبر[14]، دونوں نے مورخ طبری کی  کتاب”الولایة “  کے مطابق نقل کیا ھے۔

شیخ حرعاملی نے کتاب”اثبات الھداة“[15]میں،علامہ مجلسی نے ”بحار الانوار“[16]میں،سید بحرانی نے کتاب”کشف المھم“[17]میں اور باقی متاخرین علماء نے خطبہ غدیر کو مکمل طورپر مدارک مذکور سے نقل کیاھے۔  

اس طرح خطبہٴ غدیر کے متن کامل کی ان شیعہ بزرگوں کے ذریعہ حفاظت هو ئی اور ھم تک پہنچاھے اور یہ خود عالم اسلام میں شیعوں کےلئے فخر کا مقام ھے ۔

خطبہٴ غدیر کے متن کامل کی روایت کر نے والے اسناد و رجال

ذیل میں خطبہ ٴ غدیر کے پشت پناہ کے اعتبار سے خطبہ ٴ غدیر سے مربوط روایات کو بعینہ نقل کیاجارھا ھے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت دو سندوں کے ساتھ :

۱۔شیخ احمد بن علی بن ابی منصور طبر سی اپنی کتاب ”الاحتجاج “میں لکھتے ھیں :مجھے سید عالم عابد ابو جعفر مھدی بن ابی الحرث الحسینی مر عشی نے ، شیخ ابو علی حسن بن شیخ ابو جعفر محمد بن حسن طوسی سے بیان کیا انھوں نے شیخ سعید ابو جعفر قدس اللہ روحہ سے انھوں نے ایک جماعت سے اورانھوں نے ابو محمدھارون بن مو سیٰ تلعکبری سے انھوں نے ابو علی محمد بن ھمام سے انھوں نے علی سوری سے انھوں نے اولاد افطس (وہ اللہ کے صالح بندوں میں سے تھے )میں سے ابو محمد علوی سے انھوں نے محمد بن مو سیٰ ھمدانی سے انھوں نے محمد بن خالد طیالسی سے انھوں نے سیف بن عمیرہ و صالح بن عقبہ سے انھوں نے قیس بن سمعان سے  انھوں نے علقمہ بن محمد حضرمی سے اورانھوں نے ابو جعفر محمد بن علی (الباقر) علیہ السلام سے نقل کیا ھے ۔

۲۔حذیفہ بن یمان کی روایت کی سند اس طرح ھے :

سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”الاقبال “میں نقل کیا ھے :موٴلف کتاب ”النشرو الطی “نے  احمد بن محمد بن علی المھلب سے انھوں نے شریف ابوالقاسم علی بن محمد بن علی بن القاسم شعرانی سے انھوں نے اپنے والد بزرگوارسے انھوںنے سلمہ بن فضل انصاری سے انھوںنے ابو مریم سے انھوں نے قیس بن حیان (حنان) سے انھوں نے عطیہ سعدی سے انھوںنے حذیفہ بن یمان سے نقل کیا ھے۔

۳۔زید بن ارقم کی روایت کی سند یوں ھے :

سید بن طاؤ س نے اپنی کتاب ”التحصین “میں نقل کیا ھے کہ حسن بن احمد جاوانی نے اپنی کتاب ”نور المھدی والمنجی من الردی “میں ابوالمفضل محمد بن عبد اللہ شیبانی سے نقل کیا ھے انھوں نے ابو جعفر محمد بن حریر طبری اورھارون بن عیسیٰ بن سکین البلدی سے انھوں نے حمید بن الربیع الخزاز سے انھوںنے یزید بن ھارون سے انھوں نے نوح بن مبشر سے انھوں نے ولید بن صالح سے اور انھوں نے زید بن ارقم کی زوجہ اورزید بن ارقم سے نقل کیا ھے ۔

۲حدیث غدیر کا متن

جس طرح غدیر کا واقعہ اور اس کا خطبہ ایک سند کے ذریعہ ھم تک نھیں پہنچا ھے اسی طرح اس کا متن بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں نقل هوا ھے اور مختلف وجوھات جیسے تقیہ اور اس کے مانند چیزیں نیز خطبہ کے طولانی هو نے اوراس کے سب کےلئے مکمل طورپر حفظ نہ هو نے کی وجہ سے غدیر کے اکثر راویوں نے اس کے گوشوں کو نقل کیا ھے لیکن جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَا ہُ“اور دوسرے چند جملوں کو تمام راویوں نے اشارتاًیا صاف طور پر نقل کیا ھے ۔ ان تمام باتوں کے با وجود خطبہ کا پورا متن ھم تک پہنچا ھے جیساکہ  پھلے حصہ میں ھم نے بیان کیا ھے اور صاحب ولایت کا لطف و کرم ھے کہ اسلام کی اس بڑی سند کو ھمارے لئے محفوظ کیا ھے ۔

کلمہ ٴ  ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث

خطبہ غدیر کو اسلام کا دائمی منشور کھا جاتا ھے اور اس میں اسلام کے تمام پھلو کلی طورپر جمع ھیں لیکن حدیث غدیر کے متن میں علمی بحثیں عام طور سے کلمہٴ ”مولیٰ “کے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے ذہنوں کو اپنی طرف مر کوز کئے هو ئے ھیں ۔

یہ اس لئے ھے کہ حدیث کا اصل محور جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے اور جب بھی حدیث غدیر کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جاتا ھے یھی جملہ مد نظر هو تا ھے ۔راویوں اور محدثین نے بھی اختصار کے وقت اسی جملہ پر اکتفا کی ھے اور اس کے قرائن کو حذف کر دیا ھے ۔

اس سلسلہ میں قابل غور بات یہ ھے کہ خطبہ کے مفصل متن اور خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے بیان کردہ تمام مطالب کے پیش نظر غدیر میں کلمہ ”مولیٰ “کے معنی اور ولایت سے مراد تمام مخاطبین کےلئے    با لکل واضح و روشن تھا اور خطبہ کے متن کامطالعہ کرنے اور خطبہ کی تمام شرطوں کو مکمل طور پر نظر میں رکھنے والے ھر منصف پر یہ معنی اتنے واضح هو جا ئےں گے کہ اس کو کسی بحث اور دلیل کی ضرورت ھی نھیں رھے گی ۔[18]

کلمہ ٴ”مو لیٰ “کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ”امامت “،” خلافت “اور ”وصایت “ اور ان کے مانند الفاظ اس معنی کے حامل نھیں ھیں جو لفظ ”ولایت “میں مو جود ھیں اور یہ مندرجہ بالا الفاظ کے معانی سے بالا ھے ۔

پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی علیہ السلام کی صرف امامت یا خلافت یا وصایت کو بیان کر نا نھیں  چا ہتے ھیں بلکہ آپ تو ان کے لو گو ں کے جان و مال و عزت و آبرواور ان کے نفسو ں سے اولیٰ اور ان کے تام الاختیار هو نے کو بیان کرنا چا ہتے ھیں واضح الفاظ میں آپ ان کی ”ولایت مطلقہ ٴ الٰھیہ“یعنی خدا وند عالم کی طرف سے مکمل نیابت کو بیان کرنا چا ہتے تھے اس بنا پر کو ئی بھی لفظ ،لفظ ”مولیٰ “سے فصیح اور بلیغ اورواضح نھیں ھے۔

اگر کو ئی اور لفظ استعمال کیا جاتا تو غدیر کے دشمن اس کو بڑی آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے یا اس کی تردید میں اتنی تلاش و جستجو نہ کرتے ،اور اگر متعدد معنی رکھنے کی بنا هو تی تو دوسرے لفظوں میں بہت آسان تھی۔وہ اس کلمہ کے معنی سے متعلق شک میں ڈال کر اس کے عقیدتی اور معاشرتی پھلو سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اس کو عاطفی اور اخلاقی مو ضوع کی حد تک نیچے لاناچا ہتے تھے ۔

غدیر کے مخالفین ”اولیٰ بنفس “کے وسیع معانی سے خوف کھا تے ھیں وہ اس کے معنی کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ھیں لہٰذا اس طرح ان کا مقابلہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے هوئے ۔ھم کو اس معنی پر زور دینا چا ہئے، اور اس طرح کے کلمہ کے استعمال کرنے کےلئے پیغمبر اکرم(ص) کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے جس نے ھماری اعتقاد میں ایک محکم و مضبوط بنیاد ڈالی ھے جس سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ هو تے ھیں :

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بلا فاصلہ بارہ معصوم اماموںکی امامت و ولایت ۔

ان کی ولایت اور اختیار کا تمام انسانوںپر تمام زمان و مکان اور ھر حال میں عام اور مطلق هونا ۔

ان کی ولایت کا پروردگار عالم کی مھر سے مستند هو نا اور یہ کہ امامت ایک منصب الٰھی ھے ۔

صاحبان ولایت کی عصمت کا خدا وندعالم اور رسول کی مھر کے ذریعہ اثبات ۔

لوگوں کا ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا عھد کرناان کی طرف سے بالکل رسول اسلام(ص) کی ولایت کے عھد کے مانند ھے ۔

سب سے اھم بات یہ کہ اس طرح کے بلند مطالب کے اثبات کا لازمہ ،خداوند عالم کی اجازت اور انتخاب کے بغیر ھر ولایت، شرعی ولایت نھیں ھے،اس طرح ھر اس دین و مذھب کی نفی هو جا تی ھے جو اھلبیت (ع)  کے علاوہ کسی اور کی ولایت کو تسلیم کرتاهو۔

کلمہ ٴ مولیٰ میں بحث کا منشاٴ

کلمہ ٴ  ”مو لیٰ “کے معنی کے سلسلہ میں بحث  اس وقت شروع هوئی جب شیعوں کے مخالف اکثر راویوں نے حدیث کے صرف اسی جملہ کو نقل کرنے پر اکتفا کیا اوران کے متکلمین نے اپنا دفاع کرنے کےلئے تاریخ کے تمام قرینوں اور مطالب کو چھوڑتے هو ئے پورے خطبہ سے صرف کلمہ ٴ  ”مو لیٰ “کا انتخاب کیا اور اس کے معنی کے سلسلہ میں لغوی اور عرفی بحث کرنا شروع کردی ۔[19] یہ فطری بات ھے کہ ان کے مقابلہ میں علماء شیعہ نے بھی اسی مو ضوع کے سلسلہ میں بحث و جستجو کی ھے اور ان کو لازمی جوابات دئے ھیں اور سب نے نا خواستہ طورپر اسی کلمہ کو مد نظر رکھا ھے ۔

واقعہ غدیر کے ھر پھلو کا دقیق و کامل مطالعہ اور خطبہ کے متن میں دقت کرنے سے کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی واضح هو نے کے لئے بہت سے جاذب نظر مطالب سامنے آتے ھیں :

پہلی تجلی

اگر ھم پورے خطبہ پر نظر ڈالیں تو یہ مشاھدہ کریں گے کہ اس کے اکثر مطالب کلمہ ٴ ”مو لیٰ“کے معنی کی تفسیر و تو ضیح ،اس کے مصداق معین کرنے اور معاشرہ میں”ولایت “کی قدر و قیمت اور اس کے توحید و نبوت و وحی سے مرتبط هونے کے بارے میں ھے ۔

بنابریں جب پیغمبر اکرم(ص) نے کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی واضح و روشن فر ما دئے اور غدیرمیں    مو جود تمام افراد (جن کے مابین عرب کے بڑے شاعر حسان بھی تھے )صاحب اختیار هو نے کے معنی سمجھ گئے اور اسی اعتبار سے انھوں نے بیعت کی ، تو پھر اس کا کو ئی مطلب نھیں رہ جاتا کہ آنحضرت (ص) کے کلام  کے معنی سمجھنے کےلئے ھم لغت اور اس کے عرفی معنی کی طرف مراجعہ کریں ،چا ھے وہ آنحضرت (ص) کی تفسیر کے مطابق هوں یا تفسیر کے مطابق نہ هوں ۔

دوسری تجلی

یہ بات طے شدہ ھے کہ غدیر کے اجتماع اور خطبہ کا اصل مقصد مسئلہ ولایت کا بیان کرنا تھا اور اس وقت تھا جب لوگوں نے خود پیغمبر اکر م(ص) سے اس سلسلہ میں مطالب سنے تھے ۔ان تمام باتوں کے باوجود ظاھر ھے کہ غدیر کا عظیم اجتماع مسئلہ ٴ ولایت اور کلمہ مو لا کے معنی میں باقی رہ جانے والے ابھام کو رفع کرنے کے لئے تھا ۔

اس بنا پر یہ بات بڑی مضحکہ خیز هو گی کہ اس طرح کے مجمع اور ان حساس شرطوں میں ”مولیٰ “ کے سلسلہ میں گفتگو کی جا ئے جو نہ صرف مطالب کو روشن نہ کرے بلکہ اس میں اور زیادہ ابھام پیدا هو جائے اور اس ابھام کو رفع کرنے کےلئے لغت اور اس کے مانند کتابوں کی ضرورت پیش آئے اور ھر عقل مند انسان یہ فیصلہ کرتا هوا نظر آئے کہ اصلا ً اس طرح سے اتنا بڑا جلسہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ !!

تیسری تجلی

اس دن کا اجتماع مسئلہ ٴ ولایت میں پیدا هو نے والے ھر ابھام کو دور کرنے کیلئے تھا ،اور اگریہ بنا قرار دی جا ئے کہ اسی مجلس میں، اس مسئلہ میں بڑے ابھام کاآغازهوااور اس میں ایک ایسا عجیب کلمہ استعمال کیا جا ئے جو بہت پیچید گی کا حامل هو ،تو ایسی صورت میں تو یہ کہنا ھی منا سب هو گاکہ: اگراس طرح کی مجلس بر پا ھی نہ هو تی تو بھی مسئلہ ٴ ولایت بہت واضح تھا !!!

اسی مقام پر آیہ قرآن :<وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ>محقق هو تی ھے ۔یعنی اگر ابلاغ پیغام اس طرح هو کہ اس کا مطلب چودہ صدیوںمیں روشن و واضح نہ هوا هو تو گو یاحقیقت میں پیغام ابلاغ ھی نھیں هوا ھے !!

چوتھی تجلی

پیغمبر اکرم(ص) سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے اھم گفتگو میں ایک ایسا مطلب بیان فرمایا کہ جسے سمجھنے کے لئے چودہ سو سال سے مسلمان  اس کے تحت اللفظی معنی کو سمجھنے کی خاطربحث کر رھے ھیں اور ابھی تک کسی نتیجہ پر نھیں پہنچ سکے تو یہ آپ کی اس فصاحت و بلاغت کے خلاف هو گا اور کسی پیغمبر نے الٰھی پیغام کواس طرح نھیں پہنچایا ھے !!

پانچویں تجلی

یہ سوال پیدا هو تا ھے :کہ جب غاصبین خلافت کو خلیفہ معین کرنے کاکو ئی حق نھیں تھاتو پھر بھی وہ اپنا خلیفہ معین کرتے تھے اور کلمہ ”و لی“سے استفادہ کرتے تھے تو کسی شخص نے یہ کیوں نھیں کھا کہ اس لفظ کے ستّر معنی ھیں ؟جب ابو بکر نے عمر کے لئے لکھا کہ ”:ولَّیْتُکُمْ بعدی عمربن خطاب “ تو ولایت کے معنی میں کو ئی ابھام نھیں تھا اور یہ ابھام صرف غدیر خم میں پیغمبر اسلام  (ص)کی گفتگومیں ھی کیوں پیش آیا ؟

ظاھر ھے کہ بحث کلمہ کے لغوی معنی اور ابھام میں نھیں ھے بلکہ غدیر کا وزن اتنا زیادہ اور گراں ھے کہ دشمن اس طرح کی مذبوحانہ کو شش کرنے پر مجبور هو گئے ؟

چھٹی تجلی

اسی طرح ذہن میں یہ سوال پیدا هو تا ھے کہ :حدیث غدیر اھل سنت اور شیعوں کے نزدیک متواتر ھے اور بہت کم ایسی حدیثیں ھیں چودہ سو سا ل کے دور ان میں اس کے اتنے زیادہ نقل کرنے والے هوں اگر اس کے معنی اتنے زیادہ مبھم ھیں کہ آج تک کو ئی بھی اس کے واقعی معنی کو نھیں سمجھ سکا ھے اور وہ اتنے احتمالات کے درمیان اسی طرح سرگردان ھے تو اس حدیث کو کیوں نقل کیا گیا اور یہ بڑے بڑے راوی جن میں سے بہت سے علما ء اور مولفین ھیں تو ان کو اس حدیث کے نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟!حدیث مبھم کو نقل کرنے کی کیا ضرورت ھے !حدیث مبھم کی تو سند کو جمع کرنے کی بھی ضرورت نھیں ھے !تو یہ کہنا چاہئے کہ: ”مو لیٰ “ کے اھم معنی تو سب کےلئے واضح و روشن تھے لہٰذا اس کو نقل کرنے کےلئے اتنا اہتمام کیاگیا ۔

ساتویں تجلی

کو ئی شخص یہ سوال کر سکتا ھے :ابوبکر ،عمر ،حارث فھری اور کئی افراد نے یہ سوال کیا :”کیا یہ مسئلہ خدا وند عالم کی طرف سے ھے یا خود آپ کی طرف سے ھے ؟“یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ وہ کلمہ ٴ مو لیٰ سے  صاحب اختیار هونے کے معنی کو اخذ کرچکے تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم  (ص)سے ایسا سوال کرنے کی جسارت کی ورنہ سب جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی تمام گفتار آیہ ”وَمَایَنْطِقُ عَنِ الھَویٰ “ کے مطابق وحی الٰھی اور خداوند عالم کے کلام کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے ۔

کلمہ مولیٰ کے معنی کا واضح هونا

بارہ زیادہ اھم قرینے جملہ ” مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ ۔۔۔“کے معنی کے بیان گرھیں کہ ان میں ھر ایک تنھا اس کے اثبات کےلئے کا فی ھے ،یھاں تک کہ اگر ان میں سے ایک بھی نہ هوتا پھر بھی اس کے معنی واضح تھے ھم ان کو ترتیب کے ساتھ ذیل میں نقل کر رھے ھیں :

پہلا قرینہ

پیغمبر اکرم(ص) نے ”نفس سے اولیٰ هو نا “کے سلسلہ میں پھلے خدا وند عالم اس کے بعد اپنا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد اس کلمہ کو امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں استعمال کیا جبکہ ان کی ولایت مطلقہ کے معنی کسی پر پوشیدہ نہ تھے ۔

دوسرا قرینہ

آیت :<یَااَیُّھَاالرَّسُوْلُ ۔۔۔>جس کے آخر میں خداوندعالم فرماتا ھے :<وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَا لَتَہُ >یہ کسی بھی حکم الٰھی کے بارے میں نازل نھیں هو ئی ھے لہٰذا اسلام کا سب سے اھم مسئلہ هو نا چا ہئے جس کے با رے میں اس طرح کے مطلب کو مد نظر رکھا گیا ھے ۔

تیسرا قرینہ

بیابان و جنگل میں لوگوں کو روکنا وہ بھی تین دن ،نظم و ترتیب کے ساتھ پروگرام کرنا اور ایک  استثنا ئی طویل خطبہ ارشاد فرمانا یہ سارے پروگرام پیغمبر اسلام(ص) کی زندگی میں بلکہ پوری تاریخ میں بے مثال ھیں یہ سب سے قوی و محکم دلیل ھے کہ مو لیٰ کے معنی بہت اھمیت کے حامل ھیں ۔

چو تھا قرینہ

پیغمبر اسلام(ص) کااس بات کی طرف اشارہ فرمانا کہ میری عمر اختتام کو پہنچ رھی ھے اور میں تمھارے درمیان سے جانے والا هوں ،یہ اس بات کا بہت ھی اچھا قرینہ ھے کہ مو لیٰ کے معنی آپ کی رحلت کے بعد والے ایام سے متعلق هو جو وھی امامت اور وصایت ھیں ۔

پانچواں قرینہ

پیغمبر اکرم  (ص)نے اس پیغام کے پہنچانے پر کئی مرتبہ خدا وندعالم کو اپنا گواہ قرار دیا کہ کسی بھی حکم الٰھی کو پہنچا نے پر آپ نے ایسا نھیں کیا ۔اس کے بعد آپ (ص) نے متعدد مرتبہ لوگوں سے یہ بھی چاھاکہ ”حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “ایساکسی اور حکم الٰھی کے لئے نھیں فرمایا ۔

چھٹا قرینہ

آنحضرت (ص) کا اس بات کی تصریح فرمانا کہ مجھے ڈر ھے کھیں لوگ میری تکذیب نہ کریں حالانکہ کسی دوسرے حکم الٰھی میں آپ کو ایسا خو ف نھیں تھا ۔ظاھر ھے کہ جا نشین کا معین کرناھی وہ حساس نکتہ ھے جسے لوگ آسانی سے قبول نھیں کر سکتے ھیں ۔

ساتواں قرینہ

آیت :<اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ >بھی مندرجہ بالا آیت کے مانند کسی بھی حکم الٰھی کے سلسلہ میں نازل نھیں هو ئی اور یقیناً وہ حکم جس کے سلسلہ میں یہ آیت نازل هو ئی ھے وہ اسلام کا سب سے اھم حکم هو نا چاہئے جس کے ذریعہ دین کی تکمیل هو رھی ھے ۔

آٹھواں قرینہ

بیعت کا مسئلہ جو خطبہ کے دوران زبانی طورپر بیان کیا گیا اور خطبہ کے بعد ھاتھ کے ذریعہ انجا م دیا گیا اس کا ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کو ئی دوسرا مطلب نھیں هوسکتاھے ۔

نواں قرینہ

غدیر خم میں مو جود لوگوں کا بیعت کرنا اور مبارک باد پیش کرنا اور دوست و دشمن کے ذریعہ هو نے والی گفتگو سے معلوم هوتا ھے کہ انھوں نے اس جملہ سے ولایت اور امارت کے معنی سمجھے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) نے بھی اس طرح کے مطلب کے اخذ کرنے کی نھی نھیں فرما ئی ھے یا ان کی اصلاح نھیں کی ھے۔

دسواں قرینہ

حسان بن ثابت کے ذریعہ پڑھے جا نے والے اشعار جن کی پیغمبر اکرم  (ص)نے تا ئید فرما ئی یہ اس بات کی قطعی دلیل ھے انھوں نے بھی مولیٰ سے”اولیٰ بہ نفس “کے معنی سمجھے تھے ۔چونکہ وہ عرب کے بڑے ادباء اور شعراء میں شمار هو تا ھے لہٰذا وہ لغوی اعتبار سے دوسرے ھر لغتنامہ پر ترجیح رکھتا ھے چونکہ لغتنامہ میں صرف کلمہ کے معنی بیان کئے جاتے ھیں لیکن اس مورد معین کے کونسے معنی حاضرین کے ذہن میںآتے ھیں یہ خداوندعالم کا لطف و کرم تھا کھاتنا بڑا لغت شناس شاعر غدیر خم میں حا ضر تھا اور اس نے اپنے ذہنی تبادر کااسی مقام پر صریح طور پر اعلان کیا یھاں تک کہ اس کو شعر کی صورت میں ڈھال دیا جو ھمیشہ کے لئے محکم سند ھے۔

گیار هواں قرینہ

حارث فھری کی داستان مو لا کے معنی میں شک کر نے والوں کے لئے ایک قسم کا مباھلہ تھا اس نے صاف طور پر یہ سوال کیا کہ کیا ” مولیٰ “کا مطلب یہ ھے کہ علی بن ابی طالب ھمارے صاحب اختیار هو ں گے ؟اس مباھلہ میںخداوند عالم نے فوراً حق کی نشاندھی کرائی اور حارث پر عذاب نازل فرمایا اور اس کو  ھلاک کیا تاکہ ”مو لیٰ “ کا مطلب ”اولیٰ بہ نفس “ثابت هو جائے ۔

بارهواں قرینہ

حضرت عمر نے وھیں غدیر میں جملہ ”اَصْبَحْتَ مَوْلَایَ وَمَوْلیٰ کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَةٍ“استعمال کیا جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ دشمن کا اس سے بہتر کو نسا اقرار هو گا ۔کلمہ ٴ ” اَصْبَحْتُ “اس نئے واقعہ کی طرف اشارہ ھے اور کلمہ ٴ  ”کُلْ “ولایت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ھے یہ اقرار اس بات کی علا مت ھے کہ دشمن نے بھی اس کو قبول کیا ھے ۔

تیرهواں قرینہ

علی بن ابی طالب کے سامنے حاضر هو کرآپ (ع)  کو”امیرالمو منین کے عنوان سے سلام کرنے “ کا حکم عنوان بھی مو لیٰ کے لئے امارت کے معنی کو ثابت کرتا ھے اور اس کا عملی اقرار بھی کرنا ھے ۔

معصومین علیھم السلام کے کلام میں مو لیٰ کا مطلب

اس سے اچھی اور کیا بات هو سکتی ھے کہ ھم غدیر میں پیغمبر اکرم(ص) کے کلمہ مو لیٰ “کے معنی کاصاحبان غدیراور ائمہ معصومین علیھم السلام سے سوال کریں :

۱۔اس چیز میں اطاعت کرنا جسکو دوست رکھتے هو یا دوست نھیں رکھتے هو

پیغمبر اکرم(ص) سے سوال کیاگیا :جس ولایت کے ذریعہ آپ ھماری نسبت ھم سب سے مقدم ھیں وہ کیا چیز ھے ؟آنحضرت (ص) نے فرمایا :جن تمام چیزوںکو پسندیانا پسند کرتے هو ان سب میں ھمارے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنااور ھماری اطاعت کرنا ۔[20]

۲۔ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کےلئے نمونہ

غدیر خم میں جناب سلمان نے آنحضرت (ص) سے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس ولایت کے مانند ھے ؟آپ (ص) نے فرمایا :ان کی ولایت میری ولایت کے مانند ھے ۔میں جس شخص پر میںاس کی نسبت  زیادہ اختیار رکھتا هوں علی بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار  رکھتے ھیں ۔[21]

۳۔ ولایت یعنی امامت

حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اکر م(ص) کے اس کلام ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاہُ “کاکیا مطلب ھے ؟ آپ (ع)  نے فرمایا : آنحضرت (ص) نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ میرے بعد علی امام ھیں ۔[22

۴۔ یہ بھی سوال هو سکتا ھے ؟!

ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کے سلسلہ میں سوال کیا توآپ نے فرمایا :

اے ابو سعید کیا اس مطلب کے سلسلہ میں بھی سوال هو سکتا ھے !؟ پیغمبر اکرم(ص) نے لوگوں کو سمجھا یا کہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام میرے مقام پر هوں گے ۔[23]

۵۔حزب اللہ کی علا مت

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کے سلسلہ میں سوال کیا گیاتو آپ (ع)  نے فر مایا :

پیغمبر اکرم(ص) ان کو ایک ایسی نشانی قرار دینا چا ہتے تھے کہ وہ لوگوں کے اختلاف اور تفرقہ کے وقت خداوند عالم کے حزب کی شنا خت هو سکے ۔[24]

۶ ۔علی (ع)  کے امر کے هوتے هوئے لوگوں کو اختیار نھیں ھے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ :پیغمبر اکرم(ص) کے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اس فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاہُ کا کیا مطلب ھے ؟آپ (ع)  نے فرمایا :خدا کی قسم یھی سوال آنحضرت (ص) سے بھی کیا گیا تو آپ(ص)  نے اس کے جواب میں فرمایا :

      خدا وند عالم میرا مو لا ھے اور وہ مجھ پر مجھ زیادہ سے اختیار رکھتا ھے اور اس کے امر کے هوتے هوئے میرا کو ئی امر و اختیار نھیں ھے اور میں مومنوں کا مو لا هوں اور ان کی نسبت ان پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا هوں اور میرے امر کے هوتے هوئے ان کا کو ئی اختیار نھیں ھے اور جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور میرے امر میں اس کا کو ئی دخل نھیں ھے ،علی بن ابی طالب اس کے مو لا ھیں اور اس پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتے ھیں اور ان کے امر کے هوتے هوئے اس شخص کاکوئی امر اور اختیار نھیں ھے ۔[25]

حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں کتابوں کا تعارف

جیسا کہ حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں میں مفصل بحث هو ئی ھے ،حدیث کے متن کے سلسلہ میں بھی بڑی محکم کتابیں تا لیف کی گئی ھیں ھم ذیل میں ان میں سے بعض کتابوںکا تذکرہ کررھے ھیں :

      ۱۔عبقات الانوار ،میر حا مد حسین ،غدیر سے متعلق جلدیں ۔

      ۲۔الغدیر علا مہ امینی جلد ۱ صفحہ ۳۴۰۔۳۹۹۔

      ۳۔عوالم العلوم جلد ۱۵/۳صفحہ /۳۲۸۔۳۷۹۔

      ۴۔فیض القدیر فیمایتعلق بحدیث الغدیر،شیخ عباس قمی ۔

      ۵۔المنھج السوی فی معنی المو لیٰ والولی ،محسن علی بلتستا نی پاکستانی ۔

      ۶۔بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۳۵۔۲۵۳۔

      ۷۔الغدیر فی الاسلام ،شیخ محمد رضا فرج اللہ صفحہ /۸۴ ۔۲۰۹۔

      ۸۔کتاب ”اقسام المو لیٰ فی اللسان “شیخ مفید ۔

      ۹۔رسالہ فی معنی المو لیٰ،شیخ مفید ۔

      ۱۰۔رسالہ فی الحواب عن الشبھات الواردة لخبر الغدیر،سید مرتضیٰ۔

      ۱۱۔معا نی الاخبار ،شیخ صدوق صفحہ ۶۳ ۔۷۳۔

اس بات کے مد نظر کہ مفصل استد لالی بحثیں اس کتاب میں بیان کرنا مقصود نھیں ھیں لہٰذا ھم امید کرتے ھیں کہ قارئین کرام مذکورہ کتابوں کو ملاحظہ فرما کر اپنے مقصود تک رسا ئی حاصل کرسکتے ھیں۔ 

۳ خطبہ ٴ  غدیر کے کامل متن کو مھیا اور منظم کرنا

خطبہ ٴ  غدیر کے نسخوں کی ایک دوسرے سے مقایسہ کرنے کی اھمیت و ضرورت

”خطبہ غدیر “کے متن کو مقایسہ کرنے کی اھمیت مندرجہ ذیل طریقوں سے واضح هو تی ھے :

پیغمبر اکرم  (ص)،ائمہ معصومین علیھم السلام اور اصحاب سے نقل شدہ احادیث چودہ صدیاں طے کر کے ھم تک پہنچی ھیںلیکن اس دوران انھیںبڑی مشکلیں جھیلنا پڑیںجیسے تقیہ ،شیعوں کے ثقافتی اور اقتصادی حالات کا نا مساعد هونا ،کتابوں کو چھاپنے کے امکانات کا نہ هونا ،نسخہ برداری کرنے میں فنی اصول کی رعایت کا امکان نہ هونا ،ناسخین کی کتابت کی غلطیاں اور ان کے مانند دو سرے اسباب ھیں جوکسی ایک معین روایت کے سلسلہ میں نسخوں کے اختلاف کا باعث هوئے ھیں ۔

لہٰذا ایک کتاب کے نسخوں کا مقابلہ اور تطبیق یا ایک حدیث کے متن کا تقابل جو کئی مختلف کتابوں میں نقل هو ئی ھے یہ متن سے متعلق بہت سی مشکلوں کو حل کردیتا ھے اور دو سرے نسخہ میں جو ابھام و مشکل پا ئی جاتی ھے اس کو برطرف کردیتا ھے اور اس طرح متن کامل طور پر روشن هو جاتا ھے ۔

خطبہ ٴ  غدیر “کے سلسلہ میں مقایسه

”خطبہ ٴ  غدیر “کے سلسلہ میں تین اھم جہتوں سے مقایسہ کرنا لازم و ضروری ھے :

۱۔ایک سر نوشت ساز حدیث کے عنوان سے خود خطبہ کی اھمیت اور اس دائمی منشور کی طرف امت کا لازمی طور پر توجہ دینا جوخطبہ کی عبارت کو واضح کرنے کی ذمہ داری کو بہت مشکل بنا دیتی ھے ۔

۲۔متن کا طولا نی هونااور فطری طور پرطولانی متن میںمبھم اور مشکل الفاظ و معانی بہت زیادہ  هوتے ھیں جن کو مقایسہ کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ھے ۔

۳۔حدیث کا سماعی هونا ،یعنی حدیث املاء کے طور پر نھیں بیان کی گئی جو راوی ھمت کرکے لکھ لیتا ،بلکہ آنحضرت (ص) کے خطبہ کے دوران اسے ذہن نشین کیا ھے اور اس کے بعد نقل کیا ھے اور یہ بات فطری ھے کہ ایسے مواقع میں حدیث کے کم یا زیادہ هونے کا امکان زیادہ هو تا ھے اور مقابلہ کے طریقہ سے حذف شدہ جملے اور کلمات کو ان کے مقام پر لایا جاسکتا ھے ۔

خطبہ ٴ  غدیر کے مقابلہ کے نتائج

روایات اور نسخوں کی قدرو قیمت کا اندازہ ایک دوسرے سے تقابل کرنے کے بعد ھی هو سکتا ھے اور ھرایک کے علمی مقام ومرتبہ کو بڑی آسانی کے ساتھ مشخص ومعین کیا جاسکتا ھے

خطبہ ٴ  غدیر کے مختلف نسخوں کے ایک دوسرے سے مقائسہ کرنے سے مندرجہ ذیل نتایئج اخذ هوتے ھیں : 

      ۱۔خطبئہ غدیر کے سلسلہ مےں ذکر شدہ تینوں روایات(امام باقر (ع) ،حذیفہ اور زید بن ارقم کی روایات) متن کے اعتبارسے مکمل طور پر ایک دوسرے کے موافق ھیں سوائے وہ کلمات اور عبارات کے  وہ اختلافی موارد جن کا ھر حدیث مےں هونا ایک عام امر سمجھا جاتاھے حدیث کے طولا نی هونے کے باوجود اس مطابقت کا هونا حدیث کے لئے بہت اھمیت رکھتا ھے خاص طور سے اس مطلب کو مدنظر رکھ کر کہ امام باقر علیہ السلام نے اس خطبہ کو علم الٰھی اور غیبی طریقہ سے نقل فرمایا ھے اور آپ بذات خود غدیر خم مےں تشریف نھیں رکھتے تھے حالانکہ حذیفہ اور زیدبن ار قم وشعبہ غدیر کے چشم دید گواہ ھیں اور زید بن ارقم اور حذیفہ اھلسنت کے قابل اعتماد راوی بھی ھیں ۔

      ۲۔تینوں روایات ایک دوسرے کی تائید اور تکمیل کرتی ھیں :اس کا مطلب یہ ھے کہ نسخوں کا ایک دوسرے سے مقایسہ کر تے وقت ایک نسخہ مےں امام باقر علیہ السلام کی روایت میں ایک کلمہ یا جملہ موجود ھے لیکن دوسرے نسخہ مےں مو جود نھیں ھے اور وھی کلمہ یا جملہ زید بن ارقم اور حذیفہ سے مروی روایات مےں بھی ایک میںموجود ھے اور دوسری روایت مےں موجود نھیں ھے جس سے اس مطلب کا پتہ چلتا ھے کہ راویوں اور نا سخین سے غلطی یا کو تا ھی هوئی ھے اور اس بات کی نشاندھی هوتی ھے کہ اصل مےں تینوں روایات ایک دوسرے پر منطبق هوتی ھیں ۔

      ۳۔دو یاتین مقامات جھاں مسئلہ تو لاّ اور تبرا سے متعلق جملہ جو بعض نسخوں مےںموجود ھے تینوں روایات میں اشارہ کے طور پرآیا ھے یا حذف هوگیا ھے اور یہ بات خطبہ کے راویوں کے تقیہ کے مخصوص حالات کی حکایت کرتی ھے اس مسئلہ کا نمونہ دو اصحاب صحیفہ اور سب سے پھلے بیعت کرنے والوں کانام ھے جو بعض نسخوں میں صاف طور پر بیان نھیں کیا گیا ھے ۔

      ۴۔کتاب ”الاقبال “موٴلف سید بن طاؤس نیز کتاب”الصراط المستقیم“موٴلف علامہ بیاضی کی ایک روایت میںایک قسم کی تلخیص کی گئی ھے اسکا مطلب یہ ھے یاتو موٴلف نے اختصار سے کام لیا ھے یااسکے اصل راوی نے مختصر طورپر نقل کیاھے۔

       بھر حال ان دو کتابوں مےں بھی موجود متن کابھی مقابلہ کیا گیا ھے اور ان دونوں کتابوں مےں  نسخوں کے مابین اختلافی موارد کو حاشیہ مےں ان کے نام کے ساتھ ذکر کیا گیاھے۔

      ۵۔کتاب وروضتہ الوا عظین کی روایت کتاب ”التحصین “کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ھے اور خاص مقامات پر دوسرے تمام نسخوں سے مختلف ھے ۔

      ۶۔کتاب ”نھج الایمان “کی روایت کتاب ”العدد القویہ ّ “ کے ساتھ بہت سے مقامات پر مشابہت رکھتی ھے اور اس نے کئی مقامات پر عبارتوں کی مشکل حل کی ھے ۔

      ۷۔کتاب ”التحصین “مےں نقل کی گئی روایت کے آخر کے دو صفحہ ناقص ھیں جن کا اس کے مقام پر حاشیہ مےں پور ے متن کے ساتھ اشارہ کیا گیا ھے ۔

      ۸۔روایت کتاب ”الیقین “میں متعدد مقامات پر کچھ اضافہ کیاگیاھے اور اور بعض مقامات پر اس کی جملہ بندی مےں دوسری روایات سے فرق پایا جاتا ھے ۔

غدیر  م میں  رسول(ص) کے تمام فرامین کا جمع کرنا

اس بات کا بیان کردینا نھایت ھی ضروری ھے کہ بعض روایات مےں جو خطبہ یا واقعہ غدیرکاایک حصہ نقل هواھے اس سے اس میں بعض ایسے مطالب کامشاھد ہ هوتا ھے جو خطبہ کا مل کے متن مےں موجود نھیں ھیں ان میں پیغمبر اکرم  (ص)کے لوگوں سے لئے گئے اقراروں کا تذکرہ ھے اور ان سوا لا ت کے جوابات درج ھیں جولوگوں نے پیغمبر اکرم   (ص)سے دریافت کئے ھیں ۔

اسی طرح پیغمبر اکرم  (ص)کا اپنی وفات کے نزدیک هونے کی خبردینا ،لوگوں کے ساتھ اپنے گزشتہ معاملات کا تذکرہ کرنا، قیامت کا تذکرہ اور غدیر کے سلسلہ میں جوابات دینا ھیں جو دوسرے حصہ میں مفصل طور پر بیان کئے گئے ھیں ۔

ان موارد کے سلسلہ میں کئی احتمال پائے جاتے ھیں :

۱۔چونکہ آنحضرت (ص) نے مکہ ،عرفات اور منیٰ میں کئی مرتبہ خطبے ارشاد فر مائے ھیں لہٰذا وہ تمام خطبے راویوں کی نظر میں خطبہ حجة الوداع کے عنوان سے موجود اور انھوں نے ان کے بعض حصوںکو خطبہ غدیر کے ایک حصہ کے عنوان سے نقل کیا ھے ۔

۲۔جو مطالب متن کامل میں نھیں ھیں ان کے سلسلہ میں یہ احتمال ھے کہ یہ مطالب خطبہ سے پھلے یا خطبہ کے بعد لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جلسوں میں بیان هو ئے ھیں اور پیغمبر اکرم(ص) نے غدیر خم میں تین دن قیام فرمایا لہٰذا ان تین ایام میںآپ کی زبان اقدس سے متعدد فرامین جا ری هوئے ھیں ۔

۳۔چونکہ نقل کرنے والے کا مقصد اصل خطبہ نقل کرنا تھا یہ مطالب جو سوال و جواب کی شکل میں نقل هوئے ھیں ان کو متن میں شمار نھیں کیا گیا ھے صرف خطبہ کے متن کو ذکر کیا گیا ھے ۔

۴۔مختصر طور پر غدیر میں پیغمبر اکرم  (ص)کے فرامین میں سے متن خطبہ کے بعض مطالب خطبہ کے قبل و بعد کے مطالب کے ساتھ مخلوط طور پر نقل کئے گئے ھیں ۔

بھر حال خطبہ کو منظم کرنے میں فقط جن نسخوں میں خطبہ ٴ  غدیر کو مفصل طور پر ایک متن کی صورت میںنقل کیا گیا ھے ان میں ایک دو سرے سے مقابلہ کیا گیا ھے ۔غدیر میں آنحضرت (ص) کے تمام فرامین کو جداگانہ طور پر دستہ بندی کرکے کتاب کے دو سرے حصہ میں نقل کیا گیا ھے ۔

خطبہ کے عربی متن کو منظم کرنا

      خطبہ  غدیر کا عربی متن متعدد مرتبہ مستقل طور پر طبع هو چکا ھے جو تمام کے تمام کتاب ”الاحتجاج “ کی روایت کے مطابق تھے ۔اس کے مشهور و معروف دو نمو نوں میں سے ایک کتاب ”الخطبة المبار کة النبویة “جس کو علامہ سید حسن حسینی لواسانی نے مرتب و منظم کیا ھے اور دوسراکتاب ”خطبة النبی الاکرم   (ص)فی یوم الغدیر “ ھے جس کو مرحوم استاد عماد زادئہ اصفھانی نے منظم و مرتب کیا ھے ۔

مو جودہ متن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ،حذیفہ بن یمان ،اور زید بن ارقم کی تین روایات کے مطابق ھے ۔ اس کے نو منابع اور مدارک یعنی ” روضة الواعظین،الاحتجاج ،الیقین ،التحصین ،العدد القویة ، الاقبال ،الصراط المستقیم ،نھج الایمان اور نزہة الکرام سے مقائسہ کرنے کے بعد منظم و مرتب کیا گیا ھے اوراسے گیارہ حصوں میں پیش کیا جائیگا اور ھر حصہ سے پھلے اس کا عنوان ذکرکیا جائیگا ۔

مطالعہ کی آسانی اور اس کو حفظ کرنے کیلئے حروف پر حرکات اور کلمات پر اعراب گذاری کی گئی ھے ۔وہ مقامات جو خطبہ کا جزء نھیں ھیں ان کو خاص حروف اور بغیر اعراب کے ذکر کیا گیا ھے جیسا کہ متن کے اھم موارد کو سیاہ حروف میں ذکر کیا گیا ھے ۔خطبہ کے کامل متن کو بچانے کی غرض سے جوجملے قطعی طورپر آنحضرت (ص) کے کلام کا جزء نھیں ھیں ان پر صلی اللہ علیہ وآلہ اور علیہ السلام لکھنے سے احتراز کیا گیا ھے

حاشیہ میں نسخوں میں اختلافات کے مقامات اور ان کی کیفیت بیان کی گئی ھے ۔چھ اصلی مقابلہ کی گئی کتابوں کےلئے مندرجہ ذیل اشاروں کو بیان کیا جا رھا ھے :

      الف :الاحتجاج ۔         ب:الیقین ۔     ج:التحصین ۔

      د : روضة الواعظین ۔             ھ:العدد القویة ۔                  و:نھج الایمان ۔         

جن بعض موارد میں نسخوں کا اختلاف کتاب ”الاقبال “،”الصراط المستقیم “اور ”نزھة الکرام “ سے ذکر کیا گیا ھے وھاں پر ان کتابوں کا نام ذکر هوا ھے اور کوئی رمز نھیں آیا ھے ۔

اس با ت کو مد نظر رکھتے هوئے موجودہ متن نو روایات اور نو کتابوں سے اخذ کیا گیا ھے حاشیوں اور دوسرے نسخوں کے مطالب اس لئے اھمیت کے حا مل ھیں کہ ھر نسخہ واقع کو نمایاں کرنے میںکردار اداکرسکتا ھے ۔

حاشیے میں قرآنی آیات کے حوالے اور مشکل کلمات اور جملوں کی وضاحت کی گئی ھے ۔

چونکہ خطبہ کا متن عربی زبان میں ھے لہٰذا حاشیے بھی عربی زبان میں ھی ذکر کئے گئے ھیں تا کہ دو زبانوں میں خلط ملط نہ هو جائے ۔ضمناً خطبہ کے گیارہ حصوں میں سے ھر ایک کے حاشیہ کا نمبر جداگانہ طورپر لکھا گیا ھے ۔

 ۴ خطبہ ٴ  غدیر کے ترجمے

”خطبہ ٴ  غدیر “کا فارسی ،اردو ،ترکی اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا گیا ھے نیز عربی ،فارسی اردواور ترکی زبان کے اشعار میں متعدد مرتبہ منظم کیا گیاھے اور ان میں سے بہت سے ترجمے و اشعار کے مجموعے چھا پے جا چکے ھیں ۔ ھم ذیل میں خطبہ کے نظم و نثر کے چند نمونوں کی طرف اشارہ کر رھے ھیں :

      خطبہ ٴ  غدیر کا سب سے پھلے فارسی زبان میں ترجمہ   ۶    ھ میںایک بلندپایہ کے عالم شیخ محمد بن حسین رازی کے ذریعہ کتاب ”نزھة الکرام “میں انجام پایا اور بعینہ کتاب مذکور میں طبع بھی هوا ھے۔

خطبہ ٴ  غدیر کے فارسی زبان میں چھپے هوئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ھے :

      ۱۔”خطبہ پیغمبر اکرم(ص) در غدیر خم “ موٴ لف استاد حسین عماد زادہ اصفھانی ۔یہ ترجمہ مختلف صورتوں میں چھاپا گیا ھے کبھی عربی متن اور اس کے نیچے فارسی ترجمہ اور کبھی مستقل فارسی ترجمہ کی صورت میں چھاپا گیا ھے ،اسی طرح ایک مفصل کتاب ”پیامی بزرگ از بزرگ پیامبران “کی صورت میں بھی طبع هواھے ۔

      ۲۔غدیریہ موٴلف ملا محمد جعفر بن محمد صالح قاری ۔

      ۳۔غدیر پیوند نا گسستنی رسالت و امامت مو ٴ لف شیخ حسن سعید تھرانی مرحوم ۔

      خطبہ ٴ  غدیر کے اردو زبان میں چھاپے گئے تین عنوانوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

      ۱۔”غدیر خم اور خطبہ ٴ  غدیر“ مو ٴلف علا مہ سید ابن حسن نجفی یہ ترجمہ کراچی میں طبع هوا ھے ۔

      ۲۔”حدیث الغدیر “موٴلف علامہ سید سبط حسن جا ئسی یہ ترجمہ ہندوستان میں طبع هوا ھے ۔

      ۳۔”حجة الغدیر فی شرح حدیث الغدیر“ یہ ترجمہ دھلی میں طبع هوا ھے ۔

      خطبہ غدیر کا ترجمہ آذری ترکی زبان میںکتاب حاضر سے ”غدیر خطبہ سی “کے عنوان سے انجام پایا ھے ۔

      انگریزی زبان میں هونے والے تین ترجموں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

      ۱۔what happend in qadir?(واٹ ھیپنڈ ان غدیر )کتاب حاضر میں مذکور خطبہ غدیر کا ترجمہ کیا گیا ھے ۔

      ۲۔the last two khutbas of the last prophet pbuh(دا لاسٹ ٹو خطباز آف دا لاسٹ پرفیٹ )مترجم سید فیض الحسن فیضی جو راولپنڈی پاکستان میں طبع هوا ھے ۔

      ۳۔the last sermon of prophet mohammad at ghadir khum(دا لاسٹ سِر مُن آف پرافیٹ محمد ایٹ غدیر خم )مترجم حسین بھا نجی جو تنزانیا میں طبع هوا ھے ۔

      ”حدیث غدیر “کی عربی نظم علامہ امینی کی کتاب ”الغدیر “میں جمع کی گئی ھیں اس کتاب کی گیارہ جلدوں میں ”غدیر “سے متعلق عربی اشعار کو جامع طور پر تدوین کیا گیا ھے ۔اسی طرح کتاب ”شعراء الغدیر “جو مو ٴ سسہ ٴ الغدیر کے ذریعہ دو جلدوں میں تدوین کی گئی ھے ۔

خطبہ غدیرکی فارسی نظم کتابوں میں

خطبہ غدیرکی فارسی نظم مندرجہ ذیل کتابوں میں ذکر کی گئی ھے :

      ۱۔”سرود غدیر “موٴ لف علامہ سید احمد اشکوری ،۲ جلد۔

      ۲۔”شعرائے غدیر از گذشتہ تا امروز “تالیف ڈاکٹر شیخ محمد ھادی امینی ۱۰ جلد ۔

      ۳۔”غدیر در شعر فارسی از کسا ئی مروزی تا شھر یار تبریزی “محمد صحتی سردرودی ۔

      کچھ فارسی شعراء نے خطبہ ٴ  غدیر کو فارسی نظم کی صورت میں تحریر کیا ھے ھم ذیل میں چند طبع شدہ نمونو ں کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

      ۱۔خطبة الغدیر موٴلف مرحوم صغیر اصفھانی جو مرحوم عماد زادہ کی مدد سے تحریر کیا گیا ھے ۔

      ۲۔خطبہ ٴ  غدیریہ موٴلف مرزا رفیع ، جس کو ۱۳۱۳   ھ میں ہندوستان میں طبع کیا گیا ھے ۔

      ۳۔ترجمہ ٴ  (منظوم )خطبہ ٴ  غدیر خم موٴلف مرزا عباس جبروتی قمی ۔

      ۴۔”غدیر خم “موٴلف مرتضیٰ سرفراز جس کو۱۳۴۸  ھ ش میں طبع کیاگیا ھے ۔

      یہ چندکتابیں نمونے کے طور پر پیش کی گئی ھیں اور زیادہ اطلاع کے لئے دو کتاب”الغدیر فی التراث الاسلامی “اور ”غدیر در آئینہ کتاب “ملا حظہ کیجئے ۔

غدیر کے خطبہ کو فارسی میں منظم و مرتب کیاجانا

خطبہ کے تمام تر جمے کتاب ”الاحتجاج “کے مطابق ھیں لیکن مو جودہ ترجمہ کے عربی متن کو مذکورہ نو کتابوں سے مقائسہ کرنے کے بعد انجام دیا گیا ھے اورعلم حدیث کی رو سے اضافات اور عبارتوںمیں تغیر و تبدیلی هو ئی ھے نیز عقیدتی پھلو ٴوں پر بھی رو شنی ڈالی گئی ھے ۔

یہ عربی متن کے مطابق ترجمہ (جس کو ھم چھٹے حصہ میں ذکر کریں گے )گیارہ حصوں میں تقسیم هوا ھے اور حصہ کے آغاز میںاس کانام بھی ذکرکیا گیا ھے ۔

خطبہ ٴ  غدیر بلند و بالا مطالب و مفاھیم کا حامل ھے لہٰذا ترجمہ کرنے میں ان مطالب کوروشن و واضح کرنے کا خیال رکھا گیا ھے اور تحت اللفظ ترجمہ کو بھی مد نظر رکھا گیا ھے البتہ خطبہ کی اھمیت  هو نے کے باوجود بعض مقامات پر تفسیر کی احتیاج ھے جس کو اس کتاب کے آٹھویں حصہ میں کسی حد تک بیان کرنے کی کو شش کی گئی ھے ۔

خطبہ کے متن میں موجودہ آیات کو پھلے عربی صورت میں تحریر کیا گیا اس کے بعد ان کا ترجمہ بھی تحریر کیا گیا ھے ۔

جن مقامات پر یہ معلوم نھیں هوتا ھے کہ یہ آنحضرت (ص) کا کلام نھیں ھے وھاں جملہ ”صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم “اور” علیہ السلام “تحریر نھیں کیا گیا ھے ۔

خطبہ میں کلمہ ”معاشر الناس “اور ”اٴلا“بہت زیادہ آیا ھے چونکہ اردو زبان میں اس کے معادل   کوئی اچھالفظ نھیں ھے لہٰذا پھلے کلمہ کا ” اے لوگو “اور دو سرے کلمہ کا”آگاہ هو جاؤ “ترجمہ کیا گیاھے ۔

خطبہ کے اھم مقامات کو سیاہ حرفوں میں تحریر کیا گیا ھے خطبہ کے متن سے خارج موارد کو مشخص طور پر اور مختلف حروف کے ساتھ تحریر کیا گیا ھے ۔

نسخوں کے جن اختلافی موارد کو عربی متن کے حاشیہ میں تحریر کیا گیا ھے اگر کسی ایسے اھم مطلب کا حامل ھے کہ جس کا متن سے استفادہ نھیں هو رھا ھے یا عبارت میں اتنا اختلاف ھے جس سے جملہ کے معنی تبدیل هو جاتے ھیں تو اس صورت میں اس مطلب کو ترجمہ کے حاشیہ میں ذکر کیا گیاھے لیکن اگر کلمات مےں اختلاف هو اورنئے اور اھم مطلب کا حامل نہ هو تو اس کوترجمہ کے حاشیہ میں لکھنے سے خودداری کی گئی ھے الف اور با کی علامات جن کو عربی متن کے حاشیہ میں استعمال کیا گیا ھے ان کویھاں پر بھی استعمال کیا گیا ھے اور وہ چند موارد جو دو کتاب ”الاقبال “اور ”الصراط المستقیم “سے بیان کئے گئے ھیں ان کو علامت کے بغیر ذکر کیا گیا ھے ۔

وہ موارد جن میں عبارت کی وضاحت ضروری ھے یا تاریخ سے مربو ط ھیںان اس کو حاشیہ میں بیان کیا گیا ھے ۔

ھم امید کرتے ھیں کہ مذکورہ نسخوں سے مقائسہ کیلئے جواقدار بیان کئے گئے ھیں ان کے  مد نظر قارئین کرام کےلئے خطبہ ٴ غدیر کی اھمیت واضح هو گئی هو گی اور وہ بڑی توجہ کے ساتھ اس کا مطالعہ کرینگے ۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حواله جات :

 [1] عوالم جلد ۱۵/۳ صفحہ ۴۷۲۔۴۷۶۔

[2] بحار الانوار:ج۳۷صفحہ/۲۳۵۔

[3] بحار:جلد۳۷صفحہ/۲۳۶۔

[4] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ /۴۷۷۔

[5] الذریعة جلد ۵ صفحہ /۱۰۱،نمبر ۴۱۸۔الغدیر فی التراث الاسلامی صفحہ۲۳۔

[6] روضةالواعظین جلد۱صفحہ/۸۹۔

[7] الاحتجاج جلد۱صفحہ۶۶۔بحارالانوارجلد۳۷صفحہ۲۰۱۔

[8] الیقین صفحہ/۳۴۳۔ بحارالانوارجلد ۳۷ صفحہ /۲۱۸۔

[9] نزھة الکرام و بستان العوام جلد پ صفحہ ۱۸۶۔ نزھة الکرام و بستان العوام جلد پ صفحہ ۱۸۶۔

[10] الاقبال صفحہ/۴۵۴،۴۵۶۔۔بحارالانوارجلد۳۷صفحہ/۱۲۷،۱۳۱۔۳۔

[11] العدد القویہ صفحہ /۱۶۹۔۴۔

[12] التحصین صفحہ /۵۷۸ باب۲۹ دوسری قسم ۔

[13] الصراط المستقیم جلد ۱صفحہ /۳۰۱۔

[14] نھج الایمان صفحہ /۹۲۔

[15] اثبات الھدات جلد ۲ صفحہ /۱۱۴۔جلد ۳ صفحہ ۵۵۸۔

[16] بحارالانوارجلد ۳۷ صفحہ ۲۰۱۔۲۱۷۔

[17] کشف المھم صفحہ /۱۹۰۔

[18] اس سلسلہ میں مکمل بیان اسی کتاب کے آٹھویں حصہ میں آئے گا ۔

[19] کتاب ” عوالم العلوم “جلد ۱۵/۳صفحہ /۳۳۱پر کلمہ ٴ ” مولیٰ “ کے سلسلہ میں مفصل بحث کی ھے اور صفحہ/۵۸۹ پراھلسنت کی تفسیر کی چند کتابوں کے نام درج کئے ھیں جن میں کلمہ ٴ ”مو لیٰ “ کے معنی ”اولیٰ “ بیان کئے گئے ھیں ۔اسی طرح صفحہ /۵۹پر ان راویان حدیث،شعرا اور اھل لغت کے اسماء کی فھرست نقل کی ھے جنھوں نے معنی ”اولیٰ “کو کلمہ”مولیٰ “ کے اصلی معنی سمجھا ھے ذیل میں ھم ان کے نام درج کررھے ھیں :

محمد بن سائب کلبی م ۱۴۶۔سعید بن اوس انصاری لغوی م۲۱۵،معمر بن مثنی نحوی م ۲۰۹،ابو الحسن اخفش نحوی م ۲۱۵،احمد بن یحییٰ ثعلب م۲۹۱،ابوالعباس مبرّد نحوی م ۲۸۶،ابو اسحاق زجاج لغوی نحوی م ۳۱۱،ابو بکر ابن انباری م۳۲۸،سجستانی عزیزی م۳۳۰،ابو الحسن رمانی م ۳۸۴،ابو نصر فارابی م ۳۹۳،ابو اسحاق ثعلبی م ۴۲۷،ابوالحسن واحدی م ۴۶۸،ابو الحجاج شمنتری م ۴۷۶،قاضی زوزنی م ۴۸۶،ابو زکریا شیبانی م ۵۰۲،حسین فرّاء بغوی م ۵۱۰،جار اللہ زمخشری م ۵۳۸،ابن جو زی بغدادی م ۵۹۷،نظام الدین قمی م ۷۲۸،سبط ابن جو زی م ۶۵۴،قاضی بیضاوی م ۶۸۵،ابن سمین حلبی م ۷۵۶،تاج الدین خجندی نحوی م ۷۰۰،عبد اللہ نسفی م ۷۱۰،ابن صباغ ما لکی ۷۵۵،واعظ کا شفی م ۹۱۰،ابو سعود مفسّرم ۹۸۲،شھاب الدین خفا جی م ۱۰۶۹،ابن حجر عسقلانی ،فخر رازی ،ابن کثیر دمشقی ،ابن ادریس شافعی ،جلال الدین سیوطی ،بدر الدین عینی ۔  

[20] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۹۶۔

[21] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۶۱۔

[22] معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔

[23] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۲۸۔معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔

[24] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۳۹حدیث ۶۰۶۔

[25] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ /۱۳۳حدیث ۱۹۰۔

Add new comment