حدیث غدیر کی دلالت

حِجَّۃُ الو کھو شاید اس کے بعد مجھے اپنے درمیان نہ دیکھ سکو۔اس سفر میں غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرم(ص) نے خدا کے حکم پر امیرالمؤمنین(ع)داع"پیغمبر(ص) کا آخری حج ہےجو آپ(ص) نے اپنی عمر شریف کے آخری برس میں سنہ 10 ہجری کو بجا لایا اور اس حج کے دوران مسلمان

سوال: اجمالی جواب: تفصیلی جواب:

سوال : حدیث غدیر ، امام علی (علیہ السلام) کی خلافت پر کس طرح دلالت کرتی ہے ؟
جواب : ہمیں کسی بھی چیز میں شک ہو لیکن اس بات میں شک نہیں ہے کہ لفظ ”مولی“ اس جگہ پر امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی امامت پر دلالت کرتا ہے اور اس میں کویی فرق نہیں ہے کہ لغت میں لفظ ”مولی“ اسی معنی میں صریح طور پر بیان ہوا ہو یا متعدد معانی کی وجہ سے مجمل بیان ہوا ہو ، چاہے قرینہ کی وجہ سے امامت کے معنی پر دلالت کرتا ہو ا ور چاہے بغیرقرینہ کے دلالت کرتا ہو ، کیونکہ اس عظیم اجتماع میں موجود تمام لوگوں نے اس سے مراد یہی معنی سمجھتے تھے اور ان کے بعد ایک عرصہ گذرنے کے بعد بھی دوسرے لوگوں نے جن کا قول لغت میں حجت ہے ، یہی معنی مراد لیے ہیں اور کسی نے اس کاانکار نہیں کیا ہے اور ان کے بعد شعراء اور ادبی شخصیات نے آج تک یہی معنی مراد لیے ہیں اور اس معنی پر یہ قوی ترین دلیل ہے ۔
یہاں پر ہم ان شعراء کے اشعار کو بیان کریںگے جنہوں نے ہمارے مولی امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے فضایل میں معاویہ کے خطوط کے جواب میں اشعار کہے ہیں (۱):
و اوجب لی ولایتہ علیکم
رسول اللہ یوم غدیر خم
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیر کے روز اپنی ولایت کو میرے لیے تم سب پر واجب قرا ردیا ۔
انہی شعراء میں سے ایک حسان بن ثابت ہیں جو غدیرخم میں موجود تھے اور انہوں نے اس مبارک موقع کی مناسبت سے اشعار کہنے کیلیے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اجازت طلب کی :
فقال لہ : قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماما و ھادیا
ان سے فرمایا : اے علی ! اٹھو ،میں نے تمہیں اپنے بعد امام اور راہنما بنایا ہے ۔
انہی میں سے ایک بزرگ صحابی قیس بن سعد بن عبادہ انصاری ہیں جنہوں نے کہا ہے :
و علی امامنا و امام
لسوانا اتی بہ التنزیل
یوم قال النبی : من کنت مولا
ہ فھذا علی مولا ہ خطب جلیل
علی ہمارے اورسب کے امام ہیں جس کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے ، جس روز پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولی ہیں اور یہ کام بہت عظیم ہے ۔
محمد بن عبداللہ حمیری نے کہا :
تناسوا نصبہ فی یوم خم
من الباری و من خیرالانام
غدیر خم کے روز خداوندعالم اور بہترین انسان حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف سے منصوب شدہ انسان کو لوگوں نے بھلا دیا ۔
عمروعاص صحابی نے کہا ہے :
1ـ وکم قد سمعنا من المصطفى *** وصایا مُخصَّصهً فی علی
2ـ وفی یوم خُمٍّ رقى منبرا *** وبلّغَ والصحْبُ لم ترحلِ
3ـ فامنحه امْره المومنین *** من الله مستخلف المنحلِ
4ـ وفی کفِّهِ کفُّهُ مُعلناً *** یُنادی بامر العزیز العَلی
5ـ وقال فمن کنتُ مولىً له *** علیٌّ له الیوم نِعْم الولی
۱۔ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ہم نے علی کے بارے میں کتنی مخصوص سفارشات سنی ہیں ۔
۲۔ غدیر خم میں جب تمام اصحاب جمع ہوگیے تو آپ نے منبر پر جاکر سب سے ارشاد فرمایا ۔
۳۔ اور خداوند عالم کی طرف سے حکومت کو آپ سے مخصوص کیا اور وہی ہے جو اپنی خلافت کو جس کو چاہے عطاء کردے ۔
۴۔ انہوں نے علی کے ہاتھ کو اپنے میں پکڑ کر سب کو دکھایا اور خداوندعالم کے حکم سے بلند آواز سے آواز دی ۔
۵۔ اور کہا : جس کا میں مولی ہوں آج سے یہ علی اس کے لیے بہترین مولی ہیں ۔
کمیت بن زید اسدی شہید (متوفی ۱۲۶) نے کہا ہے :
و یوم الدوح دوح غدیر خم
ابان لہ الولایه لو اطیعا
و لکن الرجال تبایعوھا
فلم ار مثلھا خطرا مبیعا
غدیرخم کے روز بڑے درخت کے نیچے (پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے خطبہ پڑھنے کی جگہ کی طرف اشارہ ہے) آپ کی ولایت کا اعلان کیا ، البتہ اگر اطاعت کی جاتی ۔ لیکن لوگوں نے اس ولایت کی خرید و فروخت کے سامان کی طرح خرید و فروخت کی اور اس گرانقدر چیز کی میں نے کبھی خرید و فروخت ہوتے ہویے نہیں دیکھی ۔
سید اسماعیل حمیری (متوفی ۱۷۹) نے اپنے اکثر اشعار میں، دوسری صدی کے شاعر عبدی کوفی نے اپنے بزرگ قصیدہ ”باییہ“ میں اور عربی ادبیات کے بزرگ ادیب ابوتمام (متوفی ۲۳۱) نے اپنے قصیدہ ”راییہ “ میں آپ کے متعلق اشعار کہے ہیں ۔
اسی طرح ادبیات عرب کے ادیب، دانشور، عارف اور آگاہ شعراء نے مذکورہ شعراء کی پیروی کی ہے جو کبھی بھی لغت کے قوانین سے تجاوز نہیں کرتے اورکامل طور سے الفاظ کی وضع سے آگاہ ہیں اور اشعار کہنے میں صحیح روش کو استعمال کرتے ہیں ، جیسے : دعبل خزاعی، حمانی کوفی، امیر ابوفراس، سید مرتضی علم الھدی ، سیدشریف رضی ، حسین بن حجاج ، ابن رومی، کشاجم، صنوبری، مفجع ، صاحب بن عباد، ناشی صغیر، تنوخی، زاھی، ابوالعلاء سروری ، جوھری ، ابن علویہ ، ابن حماد ، ابن طباطبا، ابوالفرج ، مھیار ،صولی نیلی اور فنجکردی وغیرہ۔
عربی ادب کے بہترین ادیب اور لغت شناس جن کی کتابیں اور مقالے صدیوں سے آج تک مآخذ اور مرجع کے عنوان سے مشہور ہیں اور لوگ ان پر عمل کرتے ہیں ، کسی میں طاقت نہیں ہے کہ وہ ان سب کی غلطی کا اقرار کرے ،کیونکہ یہ لوگوں کے لیے لغت اور ادبیات کا مآخذ و منبع ہیں اور اس عظیم اجتماع میں اکثر لوگوں نے لفظ ”مولی“ سے یہی معنی مراد لیے ہیں جو ہم مراد لیتے ہیں ،اگر چہ انہوں نے اس کو اشعار میں بیان نہیں کیا ہے ، لیکن اس کو اپنے بیان میں آشکار اور واضح طور پر بیان کیا ہے جیسے شیخین ،یعنی ابوبکر اور عمر جنہوں نے مبارک باد دیتے ہویے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کی بیعت کی ہے اور دونوں نے آپ کو اس طرح خطاب کیا ہے : ”امسیت یا بن ابی طالب مولی کلی مومن و مومنه“ (۲) ۔ اے ابوطالب کے بیٹے آج سے تم مومنین مردو عورتوں کے مولی ہوگیے ہو ۔
جیسامعلوم ہے کہ عرب جو کہ ولایت کو بہت بڑا شمار کرتے ہیں (عربی کہ جو کسی دوسرے کے سامنے سرجھکانے کو تیار نہیں ہوتے) وہ اس کو محبت اور مدد کے معنی میں مراد نہیں لے سکتے ،بلکہ اس سے مراد وہی ریاست کبری ہے جس کی بیعت کے نیچے جانا سب کے لیے بہت دشوار ہے اور آسانی سے اس کو قبول نہیں کرتے ،مگر یہ کہ ایک قوی عامل موجود ہو جو ان کو اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لیے مجبور کرے ۔
امیرالمومنین علی (علیہ السلام) بھی اس معنی کو واضح کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے مذکورہ سوال بیان ہویے اور ان سوالوں کا جواب یہ تھا کہ وہ پیغمبر اکرم کی واضح فرمایشات کو سمجھ گیے تھے ، جی ہاں ، یہ معنی پردہ میں بیٹھی ہویی عورتوں کے لیے بھی پوشیدہ نہیں تھے ۔
زمخشری نے ربیع الابرار میں لکھا ہے : معاویہ نے دارمی حجونی نامی عورت سے پوچھا کہ علی سے محبت اور مجھ سے دشمنی کرنے کیوجہ کیا ہے ؟ اس خاتون نے معاویہ کے سامنے دلیلیں پیش کیں، اور کہا : پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے غدیرخم کے روز ولایت اور خلافت کو ان کے لیے مخصوص کیا اور معاویہ کے ساتھ اپنے بغض و حسد کو اس طرح بیان کیا : معاویہ نے ایسے شخص کے ساتھ جنگ کی جو خلافت کا مستحق تھا اور جو مقام و منصب معاویہ کے لایق نہیں تھا ،اس نے اس کو غصب کرلیا (تعجب کی بات یہ ہے کہ معاویہ نے اس کی بات کاانکار نہیں کیا) (۳) ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ رحبہ کے روز امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے اس حدیث کے ذریعہ استدلال کیا اور لوگوں کو قسم دی (۴) ۔ (۵) ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  

حوالہ جات:
۱۔ ر. ک: ص 145 همین کتاب.
۲۔ یہی بات صفحہ ۷۸ پر حدیث تہنیت میں اسناد اور تفصیل کے ساتھ بیان ہویی ہے ۔
۳۔ ر. ک: ربیع الابرار، زمخشرى 2: 599; بلاغات النساء: 72 (ص 105).
4 ـ نگاه کن: ص 58 ـ 59 همین کتاب.
5- شفیعی مازندرانی / گزیده اى جامع از الغدیر، ص 99.

Add new comment