نویں معصوم: ساتویں امام : حضرت امام کاظم علیہ السلام

شہادت کے بعد عبداللہ افطح کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی پیروی کی اور فطحیہ کہلائے

اسم گرامی : موسیٰ 
لقب : کاظم 
کنیت : ابو الحسن 
والد کانام :جعفر (علیہ السلام) 
والدہ کا نام : حمیدہ ( اسپین کی رھنے والی تھیں)
تاریخ ولادت : ۷/ صفر ۱۲۸ھء 
جائے ولادت : مدینہ منورہ 
مدت امامت : ۳۵ / سال 
عمر مبارک : ۵۵/ سال 
تاریخ شھادت : ۲۵/ رجب 
شھادت کی وجہ : ھارون رشید نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا 
روضہ اقدس : عراق ( کاظمین ) 
اولاد کی تعداد : ۱۹/ بیٹے اور ۱۸ /بیٹیاں
عمر: 55 سال
مرقد شریف: کاظمین
 عمرکو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
1.    امامت سے پہلے، سن 128 سے 148 ہجری قمری تک (20 سال)
2.    امامت، سن 148 سے 183 تک (35 سال)
تقریبا دس سال آپ کی امام کا دور خلافت منصور، دس سال کا دور خلافت مہدی عباسی، ایک سال ہادی عباسی اور پندرہ سال کا دور خلافت ہارون الرشید  میں گزرا۔
آپ علیہ السلام کی مشہور ترین کنیت ابوالحسن ہے، آپ کو ابوالحسن الاول کہتے ہیں، اگرچہ حضرت امیر علیہ السلام بھی ابوالحسن ہیں اور اسی طرح حضرت سجاد علیہ السلام کی بھی یہی کنیت ہے، لیکن آپ حضرت کو کتب اخبار میں ابوالحسن الاول سے تعبیر کیا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کو ابوالحسن الثانی اور حضرت ہادی علیہ السلام کو ابوالحسن الثالث۔ (منتخب التواریخ ص 516)ابوالحسن موسی بن جعفر ساتویں امام اور نویں معصوم ہیں آپ علیہ السلام ابوا کے مقام جو مدینہ و مکہ کے درمیان واقع ہے پیدا ہوئے۔
پیروان اہل بیت(علیہ السلام) میں سے بعض شیعہ امام صادق(علیہ السلام) کی حیات میں ہی آپ کے بڑے بیٹے اسمعیل بن جعفر کی امامت کے قائل تھے۔ اسمعیل کا انتقال ہوا تو ان کی موت کا یقین نہین کیا اور انہیں پھر بھی امام سمجھتے رہے۔ امام صادق(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد ان میں سے بعض نے اسمعیل کی حیات سے مایوس ہوکر ان کے بیٹے محمد بن اسمعیل کو امام سمجھا اور اسماعیلیہ کہلائے۔
بعض دوسروں نے امام صادق(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد عبداللہ افطح کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی پیروی کی اور فطحیہ کہلائے۔ امام موسی کاظم(علیہ السلام) کے زمانے کے دوسرے فرقوں میں ناووس نامی شخص کے پیروکاروں کا فرقہ ناووسیہ اور اور آپ کے بھائی محمد بن جعفر دیباج کی امامت کا قائل فرقہ شامل ہیں۔
امام موسی کاظم(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد بھی امام رضا(علیہ السلام) کی امامت پر اعتقاد نہ رکھنے والے افراد نے امام موسی کاظم(علیہ السلام) کی امامت پر توقف کیا اور آپ کو مہدی اور قائم قرار دیا اور واقفیہ کہلائے۔
آپ کے ایک اور بھائی کا نام محمد بن جعفر تھا وہ بہت سخی اور شجاع تحے اور مامون کے دور خلافت میں خراسان میں وفات پا گئے تھے،  لیکن امام کاظم علیہ السلام کی قدر اور منزلت اتنی زیادہ تھی کہ اکثر شیعہ نے امام صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ ہی کی امامت کا اعتراف کیا، امام صادق(علیہ السلام) کے با اعتماد اصحاب نے امام موسی کاظم(علیہ السلام) کی امامت کے اعلان و تائید کے سلسلے میں امام صادق(علیہ السلام) کے اقوال نقل کئے ہیں جن میں مفضل بن عمر جعفی، معاذ بن کثیر، عبدالرحمن بن حجاج، فیض بن مختار، یعقوب سراج، سلیمان بن خالد اور صفوان جمّال شامل ہیں۔
آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا . آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شہرہ تھااور مدینہ کے فقرا کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے ہر نماز کے صبح کے تعقیبات کے بعد افتاب کے بلند ہونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے . قران مجید اور پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی اواز سے متاثر ہو کر روتے تھے۔ آپ علیہ السلام کے کمرے میں ایک بوریا، قرآن اور شمشیر کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔
حاکمان وقت کا آپ علیہ السلام کے ساتھ برتاؤ:
منصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تحت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں گیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 461ھئ میں جب وہ حج کے نام سے حجاز کی طرف ایاتو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا . ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت علیہ السلام کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مہدی کے بعد اس کابھائی ہادی 921ھئ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اُس نے سلطنت کی . اس کے بعد ہارون رشید کازمانہ ایا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔
زمخشری نے ربیع الابرار میں نقل کیا ہے ، کہ مہدی کے بیٹے ہارون نے امام علیہ السلام سے ایک ملاقات میں باغ فدک کو واپس کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، امام علیہ السلام نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا، لیکن اس کی اصرار پر امام علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قبول کرتا ہوں لیکن ایک شرط پر اور وہ یہ کہ اس کے حدود میں معین کرونگا، ہارون نے کہا اس کے حدود کیا ہیں؟ امام نے فرمایا اس کی ایک حد عدن ہے اور دوسری حد سمرقند اور تیسری حد افریقا اور چوتھی حد دریای خزر ہے، ہارون یہ سن کر بہت پریشان ہوا اور کہا: پھر میرے لئے کیا چیز باقی رہے گی؟ امام نے فرمایا: مجھے پتہ تھا کہ اگر میں حدود کو معین کرونگا تو تم مجھے نہیں دوگے(یعنی خلافت اور پورے اسلامی ملک  کا نظام چلانا ہمارا حق ہے)۔ اسی دن سے اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ھستی سے مٹا دیا جائے- مدینے میں ہارون رشید نے جب سران قریش اور روسای قبایل اور علما اور قضات بلاد اسلامی کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کی زیارت کرتے ہوئے کہا: السلام علیك یا رسول اللہ، السلام علیك یا بن عم اور یہ دوسروں پر اپنی برتری دیکھانے کےلئے کہا ، امام کاظم علیہ السلام وہاں موجود تھے آپ علیہ السلام نے فرمایا: السلام علیك یا رسول اللہ، السلام علیك یا ابت ، کہتے ہیں اسی وقت ہارون کا رنگ تبدیل ہوا اور اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمودار ہوئے۔
امام کو قید کرنا اور  شہادت کی کیفیت:
ہارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ہوئے یحییٰبرمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اولاد ابوطالب علیہ السلام میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر علیہ السلام کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰجو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ہو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا- شہنشاہ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پہنچا تو انہوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ پاس موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جہاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاہر کیا- حضرت علیہ السلام خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ہے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انہوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا کر قرضدار بہت ہو گیا ہوں- خیال کرتا ہوں کہ شاید وہاں جا کر کوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اور میرا قرضہ ادا ہو جائے- حضرت علیہ السلام نے فرمایا- وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا- افسوس ہے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نہیں بدلا-چلتے وقت حضرت علیہ السلام سے رخصت ہونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے- حضرت علیہ السلام نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انہوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا کہ» بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ہونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ہونا« محمد نے اس کے بعد بہت کہا کہ یہ بھلا کون سی بات ہے جو مجھ سے کہی جاتی ہے, کچھ اور ہدایت فرمایئے- حضرت علیہ السلام نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو حضرت علیہ السلام نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم انہیں مصارف کے لئے عطا فرمائے- نتیجہ وہی ہوا جو حضرت علیہ السلام کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پہنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعد یحییٰکے ساتھ ہارون کے دربار میں پہنچے مصلحت وقت کی بنا پر بہت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائ گفتگو میں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ہوں- اس نے کہا کہ اس کا کیا مطلب? محمد نے کہا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں- اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتا ہے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ہیں- یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لئے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا ہارون کا غیظ و غضب انتہائی اشتعال کے درجے تک پہنچ گیا- اس نے محمد کو دس ہزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ہوا- صبح ہوتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے- ہارون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا جم گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے-
ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے- یہاں کا حاکم ہارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ہے- اس سلسلے میں اس کو امام علیہ السلام کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام علیہ السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ہو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ہارون کو مطلع بھی کر دیا- ہارون پر اس کا الٹا اثر ہوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا- فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحییٰبرمکی کو اس کے لئے مقرر کیا-
اس کے بعد سندی نے چند قاضیوں اور بظاہر عادل افراد کو حاضر کیا تاکہ ان سے گواہی دلوا سکے کہ امام بالکل صحیح و سالم ہیں۔ امام کاظم(علیہ السلام) نے سندی کی سازش کو بھانپتے ہوئے درباری گواہوں سے کہا: گواہی دو کہ مجھے تین دن قبل مسموم کیا گیا ہے اور اگر چہ میں بظاہر تندرست ہوں مگر بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا؛ راوی کہتا ہے کہ امام(علیہ السلام) اسی دن اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
نجمہ خاتون، امام علیہ السلام کی شریک حیات:
نجمہ خاتون شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسی کاظم ؑ کی زوجہ اور آٹھویں امام حضرت امام علی رضا ؑ کی والدہ ہیں ۔یہ ایک کنیز تھیں جنہیں حمیدہ نے خرید کر امام موسی کاظم ؑ کو ہدیہ کیا تھا آپ بزرگ عجمی کنیز تھیں جو عربوں کے درمیان پیدا ہوئیں ۔انہیں فرانس کے جنوب میں واقع جزیرے مارسی سے مانا جاتا ہے حمیدہ خاتون نے خواب دیکھا کہ رسول گرامی قدر ؐ نے اُنہیں حکم دیا کہ نجمہ کی شادی موسی کاظم ؑ سے کر دو۔جلد ہی اس کے ہاں ایک بیٹا متولد ہو گا ۔میں نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے نجمہ کی شادی حضرت امام موسی کاظم سے کر دی ۔
آپ علیہ السلام کی اولاد
آپ کے فرزندوں کی تعداد کے بارے میں تاریخی روایات مختلف ہیں۔ شیخ مفید کا کہنا ہے کہ امام کاظم(علیہ السلام) کی 37 اولادیں ہیں جن میں 18 بیٹے اور 19 بیٹیاں شامل ہیں: امام کاظم(علیہ السلام) کی ۳۷ اولادیں تھیں . امام رضا(علیہ السلام)، احمد، حمزہ، محمد معروف‌ترین بیٹے اور حضرت معصومہ(س) معروف‌ترین بیٹی ہے۔ جو مقدس شہر قم میں مدفون ہیں۔
آپ علیہ السلام کی علمی تاثیر :
ساتویں امام علیہ السلام نے رویات، احادیث اور احکام اور اپنے والد گرامی کے سنن، تعلیم اور شیعوں کی ہدایت اور اسلام کے علوم اور اپنے والد محترم امام جعفر صادق علیہ السلام کے نظام کو استحکام دیا اور اس کی حفظ اور تقویت کے لئے اس وقت تک لڑے اور رکاوٹوں کو دور کیا کہ اسی راستے میں آپ نے اپنی جان فدا کردی۔
 

Add new comment