آیہ مباہلہ اور امامت

١۔پيغمبراکرم (ص) ماٴمورتهے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساته لائيں؟ ٢۔ان کے ميدان مباہلہ ميں حاضرہونے کامقصدکياتها؟ ٣۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرت (ص) کن افراد کواپنے ساته لائے؟ ۴۔آیہء مباہلہ ميں حضرت علی عليہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء ش

نجران کے عيسائی اوران کاباطل دعویٰ
>فمن حاجّک فيہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندعُ اٴبنائنا و اٴبناء کم و نسائنا و
( نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ثمّ نبتہل فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبين>)آل عمران/ ۶١
("پيغمبر!)علم کے آجانے کے بعدجو لوگ تم سے (حضرت عيسی عليہ السلام کے بارے
ميں)کٹ حجتی کریں،ان سے کہ دیجئے کہ چلوہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے
اپنے نفسوں کودعوت دیں اورپهرخداکی بارگاہ ميں دعا کریں اورجهوڻوں پرخداکی لعنت کریں"
آیہء شریفہ ميں گفتگونجران کے عيسائيوں کے بارے ميں ہے کہ وہ حضرت عيسی عليہ
السلام کوخداجانتے تهے اوران کے بغيرباپ کے پيداہونے کی وجہ سے ان کے خدا ہونے کی
دليل تصورکرتے تهے۔اس سے پہلی والی آیت ميں ایاہے:
( >إنّ مثل عيسی عند اللّٰہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثمّ قال لہ کن فيکون>(آل عمران/ ۵٩
"بيشک عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انهيں مڻی سے پيداکيا اور پهرکہا
کہ ہو جاؤ تو وہ خلق ہوگئے۔"
مذکورہ آیت ان کے دعوے کوباطل کرتی ہے۔یعنی اگرتم لوگ حضرت عيسی بن مریم
عليہماالسلام کے بارے ميں بغيرباپ کے پيداہونے کے سبب ان کے خدا ہونے کے قائل ہو تو
حضرت آدم عليہ لسلام ماں اورباپ دونوں کے بغيرپيدا ہوئے ہيں،اس لئے وہ زیادہ حقدار وسزاوار
ہيں کہ تم لوگ ان کی خدائی کے معتقدہوجاؤ۔
اس قطعی برہان کے باوجود انہوں نے حق کوقبول کر نے سے انکارکيااوراپنے
اعتقادپرڈڻے رہے۔
بعدوالی آیت ميں خدائے متعال نے پيغمبراکرم (ص) سے مخاطب کر کے حکم دیاکہ
انهيں مباہلہ کرنے کی دعوت دیں۔
اگرچہ اس آیت (آیہء مباہلہ)کے بارے ميں بہت سی بحث ہيں،ليکن جوبات یہاں پرقابل
توجہ ہے،وہ اہل بيت عليهم السلام،خاص کرحضرت علی عليہ السلام کے بارے ميں چندنکات
ہيں،جوآنحضرت (ص) کے ساته مباہلہ کے لئے آئے تهے۔
مذکورہ آیہء شریفہ اوراس سے مربوط احادیث کی روشنی ميں ہونے والی بحثيں مندرجہ
ذیل پانچ محورپر استوارہے:
١۔پيغمبراکرم (ص) ماٴمورتهے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساته لائيں؟
٢۔ان کے ميدان مباہلہ ميں حاضرہونے کامقصدکياتها؟
٣۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرت (ص) کن افراد کواپنے ساته لائے؟
۴۔آیہء مباہلہ ميں حضرت علی عليہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء شریفہ ميں حضرت علی
عليہ السلام کونفس پيغمبر (ص)کہا گياہے نيزاس سے مربوط حدیثيں۔
۵۔ان سوالات کا جواب کہ مذکورہ آیت کے ضمن ميں پيش کئے جاتے ہيں۔
پہلامحور
آیہء مباہلہ ميں پيغمبر (ص) کے ہمراہ
پہلی بحث یہ کہ پيغمبراسلام (ص) کو مباہلہ کے سلسلہ ميں اپنے ساته لے جانے کے
لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تهی،اس سلسلہ ميں ایہء شریفہ ميں غوروخوض کے پيش
نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکهائی دیتے ہيں:
الف:"ابنائنا"اور"نسائنا"سے مرادکون لوگ ہيں؟
ب:"انفسنا"کامقصودکون ہے؟
>۔۔۔تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم۔۔۔<
ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بيڻے،اورچونکہ"ابناء کی"ضميرمتکلم مع الغير یعنی "نا" کی
طرف نسبت دی گئی ہے ١ اوراس سے مرادخودآنحضرت (ص) ہيں،اس لئے آنحضرت (ص)
کوکم ازکم تين افراد،جوان کے بيڻے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔
>۔۔۔ونسائنا ونسائکم۔۔۔<
"نساء"اسم جمع ہے عورتوں کے معنی ميں اورضميرمتکلم مع الغير یعنی "نا"کی طرف
اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرت (ص) اپنے گهرانے ميں موجود تمام
عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تين عورتوں کو)جوکم سے
١۔اس آیہء شریفہ ميں استعمال کئے گئے متکلم مع الغير والی ضميریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہيں
ہيں۔"ندع"ميں پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت عليہ السلام یعنی نصاریٰ
مقصودہے،اور"ابناء"،"نساء"و"انفس"اس سے خارج ہيں۔اور"ابنائنا،"نسائنا"اور"انفسنا"ميں خودپيغمبراکرم صلی الله
عليہ وآلہ وسلم مقصودہيں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بهی اس سے خارج ہيں۔"نبتهل" ميں پيغمبر
صلی الله عليہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہيں۔
کم جمع کی مقدار اور خاصيت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساته لاناچاہئے۔
اس بحث ميں قابل ذکرہے،وہ"اٴبنائناونسائناواٴنفسنا"کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے
جوابات محورميں جومباہلہ کے هدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بهی اس بحث کاتکملہ ہے۔
ليکن"اٴبناء"اور"نساء"کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ ميں
حاضرہوئے،ایک عليحدہ گفتگوہے جس پرتيسرے محورميں بحث ہوگی۔
>۔۔۔وانفسنا وانفسکم۔۔۔<
انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضميرمتکلم مع الغير"نا" (جس سے
مقصودخودآنحضرت (ص) کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ
پيغمبراسلام (ص) کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تين ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے
ساته لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے ميں آتے ہوں۔ کيا"اٴنفسنا"خودپيغمبراکرم) ص)پرقابل
انطباق ہے؟
اگر چہ"اٴنفسنا" ميں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقيقی معنی ميںصرف رسول الله (ص)
کے نفس مبارک پرہے،ليکن آیہء شریفہ ميں موجود قرائن کے پيش نظر"اٴنفسنا"ميں لفظ نفس
کوخودآنحضرت (ص) پراطلاق نہيں کياجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہيں:
١۔"اٴنفسنا"جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہيں ہوتاہے۔
٢۔جملہء<فقل تعالواندع>آنحضرت (ص) کواس کے حقيقی معنی ميں دعوت دینے کاذمہ
دارقراردیتا ہے اورحقيقی دعوت کبهی خودانسان سے متعلق نہيں ہوتی ہے،یعنی انسان
خودکودعوت دے،یہ معقول نہيں ہے۔
اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکياہے کہ"فطوّعت لہ نفسہ"یا"دعوت نفسی"جيسے
استعمال ميں"دعوت")دعوت دینا )جيسے افعال نفس سے تعلق پيداکرتے ہيں۔یہ اس نکتہ کے
بارے ميںغفلت کانتيجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ"نفس"خودانسان اوراس کی ذات کے معنی ميں
استعمال نہيں ہواہے،یا"دعوت سے مراد " (دعوت دینا)حقيقی نہيں ہے۔بلکہ"فطوّعت لہ نفسہ
قتل اٴخيہ"کی مثال ميں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی
یوں ہے "اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بهائی کوقتل کرناآسان
کردیا"اور"دعوت نفسی"کی مثال ميں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ
کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقيقی معنی ميں نہيں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔
٣۔"ندع"اس جہت سے کہ خودپيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس
لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہيں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا
محورہو،اوروہ خودکوبهی دعوت دے دے۔
دوسرامحور:
مباہلہ ميں اہل بيت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد
پيغمبراسلام (ص) کوکيوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبهی
اپنے ساته لائيں،جبکہ یہ معلوم تهاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درميان دعویٰ ہے اوراس داستان ميں
ایک طرف خودپيغمبر (ص) اور دوسری طرف نجران کے عيسائيوں کے نمائندے تهے؟
بعض لوگوں کا خيال ہے کہ آنحضرت (ص) کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے ميدان مباہلہ
ميں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرت (ص) کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحيح ہونے
کے سلسلہ ميں لوگوں کواطمينان ویقين دکهلانا تها،کيونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین
اشخاص کو اپنے ساته لاناصرف اسی صورت ميں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے
صحيح ہونے پرمکمل یقين رکهتاہو۔اوراس طرح کااطمينان نہ رکهنے کی صورت ميں گویا اپنے
ہاتهوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے ميں ڈالناہے اورکوئی بهی عقلمند انسان ایسااقدام نہيں
کرسکتا۔
پيغمبراکرم (ص) کے تمام رشتہ داروں ميں سے صرف چنداشخاص کے ميدان مباہلہ
ميں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجيہ صحيح نہيں ہوسکتی ہے،کيونکہ اس صورت ميں اس
خاندان کاميدان مباہلہ ميں حاضرہونااور اس ميں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضيلت
اورقدرمنزلت کاباعث نہيں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن ميں بيان ہونے والی
احادیث ميں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجراميں پيغمبراسلام (ص) کے
ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضيلت ہے۔
اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہيں:
"وفيہ دليل لاشيئ اقویٰ منہ علی فضلہ اصحاب الکساء" ١
"آیہء کریمہ ميں اصحاب کساء)عليہم السلام)کی فضيلت پرقوی ترین دليل موجود ہے"
آلوسی کاروح المعانی ميں کہناہے:
"و دلالتہا علی فضل آل اللّٰہ و رسولہ (ص) ممّا لایمتری فيہامؤمن والنصب جازم الایمان" ٢
"آیہ کریمہ ميں ال پيغمبر (ص)کہ جو آل الله ہيں ان کی فضيلت ہے اوررسول الله (ص) کی
فضيلت،ایسے امور ميں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہيں کر سکتا ہے اور
خاندان پيغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے"
اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے ليکن اس کے بعد ميں آنے والی سطروں
ميں اس نے ایک عظيم فضيلت کو خاندان پيغمبر (ص) سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔ ٣
اب ہم دیکهتے ہيں کہ خداوند متعال نے کيوں حکم دیاکہ اہل بيت علہيم السلام
پيغمبراکرم (ص) کے ساته مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم
پهرسے آیہء شریفہ کی طرف پلڻتے ہيں<۔۔۔فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم
واٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتہل فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبين<
آیہء شریفہ ميں پہلے پيغمبراکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے‘اٴبناء"،"نسا ء"
اور"اٴنفس"کودعوت دینااورپهردعاکرنااورجهوڻوں پرخداکی لعنت قراردینابيان ہواہے۔
--------
١۔تفسيرالکشاف،ج ١،ص ٣٧٠ ،دارالکتاب العربی ،بيروت۔
٢۔روح المعانی،ج ٣،ص ١٨٩ ،دارئ احيائ التراث العربی ،بيروت۔
٣۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ ميں تنقيد کریں گے۔
آیہء مباہلہ ميں اہل بيت رسول)ص)کی فضيلت وعظمت کی بلندی
مفسرین نے کلمہ"ابتهال"کودعاميں تضرع یانفرین اورلعنت بهيجنے کے معنی ميں لياہے
اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہيں رکهتے ہيں اور"ابتهال"کے یہ دونوں معافی
ہوسکتے ہيں۔
آیہء شریفہ ميں دوچيزیں بيان کی گئی ہيں،ایک ابتهال جو"نبتهل"کی لفظ سے استفادہ
ہو تاہے اوردوسرے "ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ ميں جهوڻے ہيں"<فنجعل
لعنةالله علی الکاذبين>کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں ميں سے ہرایک کے لئے
خارج ميں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجهوڻوں پرخداکی لعنت قراردیناہے
پہلے فقرے ابتہال پر"فاء"کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببيت کے معنی ميں ہے عطف ہے۔
لہذا،اس بيان کے پيش نظرپيغمبراکرم (ص) اورآپ کے اہل بيت عليہم السلام کا
تضرع)رجوع الی الله)ہے اورجهوڻوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ
ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانهيں سزادیناپيغمبراسلام (ص)
اورآپ کے اہل بيت عليہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرت (ص) کے اہل
بيت)عليہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر
ہے۔
اگرکہاجائے کہ:<فنجعل لعنةالله>ميں"فاء"اگرچہ ترتيب کے لئے ہے ليکن ایسے مواقع
پر"فاء"کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تيب کہ
جس پر کلمہ "فاء" دلالت کرتا ہے وہ تر تيب ذکری ہے جيسے :
( >ونادیٰ نوح ربّہ فقال ربّ إنّ ابنی من اٴہلی>)ہود/ ۴۵
"اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگاراميرافرزندميری اہل سے ہے۔"
یہاں پرجملہء"فقال۔۔۔"جملہ "فنادیٰ" کوبيان )تفسير)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:
اولاً:جس پرکلمہ"فاء"دلالت کرتاہے وہ ترتيب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقيقت یہ ہے
کہ"جن دوجملوں کے درميان"فاء"نے رابطہ پيداکياہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے
جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے"
اوریہ"فاء"کاحقيقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتيب ذکری پر"فاء"کی دلالت اس
کے خارج ميں دومضمون کی ترتيب کے معنی ميں نہيں ہے،بلکہ لفظ اور کلام ميں ترتيب ہے
لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہيں کر سکتے۔اس صورت ميں ایہء
شریفہ آنحضرت (ص) کے خاندان کے لئے ایک عظيم مر تبہ پردلالت رہی ہے کيونکہ ان کی
دعاپيغمبراسلام (ص) کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ ميں جهوٹ بولنے
والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔
دو سرے یہ کہ:جملہء"فنجعل لعنة اللّٰہ"ميں مابعد"فاء"جملہء سابق یعنی "نبتهل"کے
لئے بيّن اورمفسّرہونے کی صلاحيت نہيںرکهتاہے،کيونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب
کر ناہے نہ جهوڻوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پيش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی
امر ہے) پہلے پيغمبراسلام (ص)اورآپکے __________اہل بيت عليہم السلام سے مستندہے
اوردوسرے"فاء"تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقيقت کا ادراک خودنجران کے
عيسائيوں نے بهی کياہے۔اس سلسلہ ميں ہم فخررازی کی تفسير ميںذکرکئے گئے حدیث کے
ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہيں:
"۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوہاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانہ
لاٴزالہ بہا فلا تباہلوا فتہلکوا ولایبقی علی وجہ الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القيامة۔" ١
"نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکه کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے
◌ نصرانيو!ميں ایسے چہروں کودیکه رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ڻلنے کا
مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کهسک جا ئيں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ
کرنا،ورنہ هلاک ہوجاؤگے اورزمين پرقيامت تک کوئی عيسائی باقی نہيں بچے گا۔"
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون ميں درج ذیل امورواضح طور
پربيان ہوئے ہيں:
١۔پيغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بيت عليہم السلام کواپنے ساته لے آئے تاکہ وہ آپ کے
ساته اس فيصلہ کن دعاميں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بيت عليہم
السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جهوڻوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے ميں
مؤثرواقع ہو۔
٢۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بيت (ع)کاایمان و یقين نيز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد
تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگيا۔
٣۔اس واقعہ سے آنحضرت (ص) کے اہل بيت عليہم السلام کا بلند مرتبہ نيز اہل بيت کی
آنحضرت (ص) سے قربت دنياوالوں پرواضح ہوگئی۔
اب ہم یہ دکهيں گے کہ پيغمبراسلام)ص)"اٴبنائنا")اپنے بيڻوں)"نسائنا")اپنی
عورتوں)اور"اٴنفسنا")اپنے نفسوں)ميں سے کن کواپنے ساته لاتے ہيں؟
--------
١۔التفسير الکبير،فخر رازی،ج ٨،ص ٨٠ ،داراحيائ التراث العربی۔

تيسرامحور
مباہلہ ميں پيغمبر (ص)اپنے ساته کس کو لے گئے
شيعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پيغمبراسلام (ص) مباہلہ کے لئے علی،
فاطمہ، حسن اورحسين عليہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساته نہيں لائے۔اس سلسلہ
ميں چندمسائل قابل غورہيں:
الف:وہ احادیث جن ميں پيغمبر (ص) کے اہل بيت عليہم السلام کاميدان مباہلہ ميں
حاضرہونابيان کياگياہے۔
ب:ان احادیث کا معتبراورصحيح ہونا۔
ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں ميںذکرہوئی قابل توجہ روایتيں۔
مباہلہ ميں اہل بيت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے ميں حدیثيں ١۔اہل سنّت کی حد یثيں:
چونکہ اس کتاب ميں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانهيں کے
منابع سے احادیث نقل کی جائيں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا
رہی ہيں:
پہلی حدیث:
صحيح مسلم) ١)سنن ترمذی) ٢)اورمسنداحمد) ٣)ميںيہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی
متفق اور مسلم لفظيں یہ ہيں:
--------
١۔صحيح مسلم،ج ۵،ص ٢٣ کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابيطالب،ح ٣٢ ،موسسئہ
عزالدین للطباعةوالنشر
٢۔سنن ترمذی،ج ۵،ص ۵۶۵ دارالفکر ٣۔مسنداحمد،ج، ١،ص ١٨۵ ،دارصادر،بيروت
"حدثنا قتيبة بن سعيد و محمد بن عباد۔۔۔ قالا: حدثنا حاتم )و ہو ابن اسماعيل ) عن بکير بن
مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبيہ، قال: اٴمر معاویہ بن اٴبی سفيان سعدا
فًقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالہنّ لہ رسواللّٰہ (ص) فلن اٴسبّہ۔
لاٴن تکون لی واحدة منہنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم۔
سمعت رسول للّٰہ (ص) یقول لہ لماّ خلّفہ فی بعض مغازیہ فقال لہ علیّ: یا رسول اللّٰہ، خلّفتنی
مع النساء والصبيان؟ فقال لہ رسول اللّٰہ (ص):اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة ہارون من موسی
إلاّ انہ لانبوة بعدی؟
و سمعتہ یقول یوم خيبر: لاٴُعطيّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰہ و رسولہ و یحبّہ اللّٰہ و رسولہ۔ قال:
فتطاولنا لہا۔ فقال: اُدعو الی علياً فاٴُتی بہ اٴرمد، فبصق فی عينہ ودفع الرایة إليہ،ففتح اللّٰہ عليہ۔
ولماّنزلت ہذہ الایة<۔۔۔فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم>دعا
رسول اللّٰہ-صلی اللّٰہ عليہ وسلم -علياًوفاطمةوحسناًوحسيناً،
فقال:اللّہمّ ہؤلائ اٴہلی"۔
"قتيبةبن سعيد اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص
سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمهيں
ابوتراب)علی بن ابيطالب عليہ السلام)کودشنام دینے اور برا بهلا کہنے سے کو نسی چيز مانع
ہوئی)سعدنے)کہا:مجهے تين چيزیں)تين فضيلتيں)یادہيں کہ جسے رسول خداصلی الله عليہ
وآلہ وسلم نے ان کے بارے ميں فرمایا ہے،لہذاميں انهيں کبهی بهی برابهلا نہيں کہوں
گا۔اگرمجه ميں ان تين فضيلتوں ميں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ ميرے لئے سرخ اونڻوں سے
محبوب ترہوتی:
١۔ميں نے پيغمبرخدا (ص) سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انهيں)حضرت علی عليہ
السلام)مدینہ ميں اپنی جگہ پررکهاتهااورعلی(عليہ السلام)نے کہا:یارسول الله!کياآپمجهے
عورتوں اوربچوں کے ساته مدینہ ميں چهوڑرہے ہيں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کياتم اس پرراضی
نہيں ہوکہ ميرے ساته تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)عليہ السلام )کے
ساته تهی،صرف یہ کہ ميرے بعد کوئی پيغمبرنہيں ہو گا؟
٢۔ميں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خيبر علی کے با رے ميں فرمایا:بيشک
ميں پرچم اس شخص کے ہاته ميں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکهتاہے اورخداورسول
(ص)اس کو دوست رکهتے ہيں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراڻهاکر دیکه رہے
تهے)کہ آنحضرت (ص) اس امر کے لئے ہميں مقررفرماتے ہيںيانہيں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے
فرمایا: علی (عليہ السلام) کو ميرے پاس بلاؤ ۔ علی (عليہ السلام) کو ایسی حالات ميں
آپکے پاس لایا گيا، جبکہ ان کی آنکهوں ميں دردتها،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکهوں
ميں لگا یااورپرچم ان کے ہاته ميں تهمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں
کوفتح عطاکی۔
٣۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:< قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و
اٴنفسکم۔۔۔>توپيغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسين) عليہم السلام
)کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ ميرے اہل بيت ہيں۔"
اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:
١۔حدیث ميں جوآخری جملہ آیاہے:"الّٰلہمّ هٰؤلاء اٴ هلی"خدایا!یہ ميرے اہل ہيں،اس بات
پردلالت کرتاہے"اٴبناء""نساء"اور"اٴنفس"جوآیہء شریفہ ميں ائے ہيں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ
پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اہل ہيں۔
٢۔"اٴبناء""نساء"و"اٴنفس"ميں سے ہرایک جمع مضاف ہيں)جيساکہ پہلے بيان کياگيا)اس
کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بيڻوں،عورتوں اور
وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تهی،سب کوميدان مباہلہ ميں لائيں،جبکہ آپ نے"اٴبناء"ميں سے
صرف حسن وحسيںعليہما السلام کواور"نساء"سے صرف حضرت فاطمہ سلام الله
عليہاکواور"اٴنفس"سے صرف حضرت علی عليہ السلام کواپنے ساته لایا۔اس مطلب کے پيش
نظرجوآپ نے یہ فرمایا:"خدایا،یہ ميرے اہل ہيں"اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت (ص) کے اہل
صرف یہی حضرات ہيں اورآنحضرت (ص) کی بيویاں اس معنی ميں اپکے اہل کے دائرے سے
خارج ہيں۔
٣۔"اہل"اور"اہل بيت"کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہيں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل
عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہيں ہو تاہے۔یہ
مطلب،پيغمبراسلام (ص) کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہير کے ذیل ميں ذکر ہوئی
ہيں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بيان کی ہيں گئی بخوبی استفادہ کيا
جاسکتاہے۔
دوسری حدیث:
فخررازی نے تفسيرکبيرميں ایہء مباہلہ کے ذیل ميں لکهاہے:
"روی اٴنّہ - عليہ السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّہم اٴصروا علی جہلہم، فقال -
عليہ السلام - إنّ اللّٰہ اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباہلکم۔ فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجع
فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتيک۔
فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴیہم - :یا عبدالمسيح، ماتری؟ فقال: و اللّٰہ لقد عرفتم یا معشر
النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰہ ما باہل قوم
نبياً قط فعاش کبيرہم و لا نبت صغيرہم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبيتم إلاّ الإصرار علی
دینکم و الإقامة علی ما اٴنتم عليہ فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم۔ و کان رسول اللّٰہ
(ص)خرج وعليہ مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسين واٴخذ بيد الحسن، و فاطمہ
تمشی خلفہ وعلی - عليہ السلام - خلفہا، و ہو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یا
معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوہا لو ساٴلوا اللّٰہ اٴن یزیل جبلاً من مکانہ لاٴزالہ بہا! فلا تباہلوا
فتہلکوا، و لا یبقی علی وجہ الاٴض نصرانیّ إلی یوم القيامة۔ ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لا
نباہلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰہ عليہ - فإذا اٴبيتم المباہلة فاسلموا یکن لکم ما
للمسلمين، و عليکم ما علی المسلمين، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب
العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إليک فی کل عام
اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثين درعاً عادیة من حدید، فصالحہم علی
ذلک۔وقال: والّذی نفسی بيدہ إنّ الہلاک قد تدلّی علی اٴہل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و
خنازیر و لاضطرم عليہم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰہ نجران واٴہلہ حتی الطير علی رؤس الشجر و
لما حالا لحوال علی النصاری کلّہم حتی یہلکوا و روی اٴنّہ - عليہ السلام -لمّ خرج فی المرط
الاٴسود فجاء الحسن -عليہ السلام - فاٴدخلہ، ثمّ جائ الحسين -عليہ السلام - فاٴدخلہ ،ثمّ
فاطمة - عليہا السلام - ثمّ علی - عليہ السلام - ثمّ قال:<إنّما یرید اللّٰہ ليذہب عنکم الرجس اہل
البيت و یطهّرکم تطہيراً>واعلم __________اٴنّ ہذہ الروایة کالمتّفق علی صحّتہا بين اٴہل التّفسير والحدیث۔" ١
"جب پيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے نجران کے عيسائيوں پردلائل واضح کردئے اور
انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکيا،تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:خدائے متعال نے مجهے
حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہيں کيا تو تمہارے ساته مباہلہ کروں گا۔")انہوں
نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہيں تاکہ اپنے کام کے بارے ميںغوروفکرکرليں،پهرآپکے پاس
آئيں گے۔
--------
١۔تفسيرکبيرفخر رازی،ج ٨،ص، ٨،داراحيائ التراث العربی۔
جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انهوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا
نام"عاقب"تها اس سے کہا:اے عبدالمسيح!اس سلسلہ ميں آپ کانظریہ کيا ہے؟اس نے کہا:اے
گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا لله کے رسول
ہيں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عيسیٰ عليہ السلام)کے بارے ميں حق بات کہتے
ہيں۔خداکی قسم کسی بهی قوم نے اپنے پيغمبرسے مباہلہ نہيں کيا،مگر یہ کہ اس قوم کے
چهوڻے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کياتو سب کے سب ہلاک
ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمهيں اصرار ہے توانہيں چهوڑکراپنے شہر
واپس چلے جاؤ۔پيغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت ميں باہرتشریف لائے کہ
حسين(عليہ السلام)آپکی آغوش ميں تهے،حسن(عليہ السلام)کاہاته پکڑے ہوئے تهے،فاطمہ
(سلام الله عليہا)آپکے پيچهے اورعلی(عليہ السلام)فاطمہ کے پيچهے چل رہے تهے۔آنحضرت
(ص)فرماتے تهے:"جب ميں دعامانگوں تو تم لوگ آمين کہنا"نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ
نصاریٰ!ميں ایسے چہروں کودیکه رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ
جائے تو وہ اپنی جگہ چهوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساته مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور
روی زمين پرقيامت تک کوئی عيسائی باقی نہيں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے
اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہيں کریں گے۔پيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہ
وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہيں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان
ميں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبهی قبول نہيں کيا۔آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت ميں
تمهارے ساته ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساته جنگ کرنے کی ہم ميں
طاقت نہيں ہے۔ليکن ہم آپ کے ساته صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساته جنگ نہ کریں اورہميں
اپنادین چهوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ ميں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک
ہزار لباس صفرکے مہينہ ميں اورایک ہزارلباس رجب کے مہينہ ميں اورتيس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں
گے۔آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر ليااس طرح ان کے ساته
صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ ميں ميری جان ہے،اہل نجران
نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تهے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل ميں مسنح
ہوجاتے اورجس صحراميں سکونت اختيار کر تے اس ميں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران
اوراس کے باشندوں کو نيست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بهی ہلاک
ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عيسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت ميں ہے کہ
جب پيغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے
بيڻے)حسن(عليہ السلام)کوبهی اس ميں داخل کر ليا،اس کے بعدحسين(عليہ السلام) آگئے
انہيں بهی عبا کے نيچے داخل کيا اس کے بعدعلی و فاطمہ )عليہما السلام) تشریف لائے
اس کے بعد فرمایا: <إنّمایریداللّہ۔۔۔>"پس الله کاارادہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر طرح کی
کثافت وپليدی سے دوررکهے اوراس طرح پاک وپاکيزہ رکهے جو پاک وپاکيزہ رکهنے کاحق
ہے۔"علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے ميں کہا ہے کہ تمام علماء
تفسير و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق عليہ ہے۔"
حدیث ميں قابل استفادہ نکات:
اس حدیث ميں درج ذیل نکات قابل توجہ ہيں:
١۔اس حدیث ميںرسول (ص) کے اہل بيت کاحضور اس صورت ميں بيان ہواہے کہ
خودآنحضرت (ص) آگے آگے)حسين عليہ السلام)کوگود ميں لئے ہوئے ،حسن(عليہ
السلام)کاہاته پکڑے ہوئے جوحسين(عليہ السلام)سے قدرے بڑے ہيں اورآپکی بيڻی فاطمہ
سلام الله عليہاآپکے پيچهے اوران کے پيچهے(عليہ السلام) ہيں۔یہ کيفيت انتہائی دلچسپ اور
نمایاں تهی۔کيو نکہ یہ شکل ترتيب آیہء مباہلہ ميںذکرہوئی تر تيب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس
ہماہنگی کا درج ذیل ابعادميں تجزیہ کياجاسکتاہے:
الف:ان کے آنے کی ترتيب وہی ہے جوآیہء شریفہ ميں بيان ہوئی ہے۔یعنی پہلے "اٴبناء
نا"اس کے بعد"نسائنا"اورپهرآخرپر"اٴ نفسنا"ہے۔
ب:یہ کہ رسول خدا (ص) اپنے چهوڻے فرزندحسين بن علی عليہماالسلام کوآغوش
ميں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی عليہماالسلام کاہاته پکڑے ہوئے
ہيں،یہ آیہء شریفہ ميں بيان ہوئے"بناء نا" کی عينی تعبيرہے۔
ج۔بيچ ميں حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کاقرارپانااس گروہ ميں"نساء نا"کے
منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپيچهے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ ميں"نساء
نا"کی مجسم تصویر کشی ہے۔
٢۔اس حدیث ميں پيغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بيت عليہم السلام سے فرمایا:اذادعوت
فاٴ منوا"یعنی:جب ميں دعاکروں توتم لوگ آمين ١کہنااوریہ وہی
١۔دعا کے بعد آمين کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔
چيزہے جوآیہء مباہلہ ميں ائی ہے:نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبين<
یہاں پر"ابتهال")دعا)کوصرف پيغمبراکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی
ہے،بلکہ"ابتهال"پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت ميں اورآپ کے
ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمين کہنے کی صورت ميں محقق ہونا چاہئے تاکہ
)اس واقعہ ميں)جهوڻوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جيساکہ گزر چکا
ہے۔
٣۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بيت عليہم السلام کی عظمت وفضيلت کا اعتراف یہاں
تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکهنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔
تيسری حدیث:
ایک اورحدیث جس ميں"اٴبنائنا"،"نسائنا"اور"اٴنفسنا"کی لفظيںصرف علی،فاطمہ،حسن
اورحسين عليہم السلام پر صادق آتی ہيں،وہ حدیث"مناشد یوم الشوری"ہے۔اس حدیث ميں
اميرالمؤمنين حضرت علی عليہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن
عوف،طلحہ،زبيراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکيل ہوئی اورعثمان کی
خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہيں۔اس طرح سے
کہ ان تمام فضيلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہيں خداکی قسم دیتے ہيں اور ان تمام فضيلتوں کو
اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف ليتے ہيں۔حدیث یوں ہے:
"اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰہ محمد بن إبرہم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا
اٴبوالحسن العتيقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعيد، اٴنا یحی بن ذکریا
بن شيبان، اٴنا یعقوب بن سعيد، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰہ،عن سفيان الشوری، عن اٴبن إسحاق
السبيعی، عن عاصم بن ضمرةوہبيرة و عن العلاء بن صالح، عن المنہال بن عمرو، عن عبادبن
عبداللّٰہ الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰہ لاٴحتجنّ
عليہم بمالایستطيع قُرَشيّہم و لا عربيّہم و لا عجميّہم ردّہ و لا یقول خلافہ۔ ثمّ قال لعثمان بن
عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبير و لطلحة وسعد - و ہن اٴصحاب الشوری و کلّہم من قریش، و
قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰہ الذی لا إلہ إلّاہو، اٴفيکم اٴحد وحّد اللّٰہ قبلی؟ قالوا:اللّہمَّ لا۔
قال: اٴنشدکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰہ - صلی اللّٰہ عليہ وسلم - غيری، إذ آخی بين
المؤمنين فاٴخی بينی و بين نفسہ و جعلنی منہ بمنزلة ہارون من موسی إلّا اٴنی لست
بنبیً؟قالوا:لا۔قال:اٴنشدکم باللّٰہ،اٴفيکم مطهَّرغيری،إذسدّ رسول اللّٰہ (ص) اٴبوابکم و فتح بابی
و کنت معہ فی مساکنہ ومسجدہ؟ فقام إليہ عمّہ فقال: یا رسول اللّٰہ، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب
علیّ؟ قال: نعم، اللّٰہ اٴمر بفتح با بہ وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا: اللّہمّ لا۔ قال: نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم
اٴحد اٴحب إلی للّٰہ و إلی رسولہ منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خير فقال : لاٴعطينّ الرایة إلی من
یحبّ اللّٰہ و رسولہ و یحبّہ اللّٰہ و رسولہ، و یوم الطائر إذ یقول: " اللّہمّ ائتنی باٴحب خلقک إليک
یاٴکل معی"، فجئت فقال: " اللّہمّ و إلی رسولک ، اللّہمّ و إلی رسولک"
غيری؟ ١ قالوا: اللّہمّ لا قال:نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد قدم بين یدی نجواہ صدقة غيری
حتی رفع اللّٰہ ذلک الحکم؟ قالوا: اللّہمّ لا۔قال:نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم من قتل مشرکی قریش و
العرب فی اللّٰہ و فی رسولہ غيری؟ قالوا: اللّہمّ لا۔قال: نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد دعا رسول اللّٰہ
(ص) فيالعلم و اٴن یکون اُذنہ الو اعية مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّہمّ لا قال: نشدتکم باللّٰہ، ہل فيکم
اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰہ (ص) فی الرحم و من جعلہ و رسول اللّٰہ (ص) نفسہ و إبناء اٴنبائہ
و۔۔۔غيری؟ قالوا:اللّٰہم لا۔۔۔" ٢
اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبيرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی عليہ السلام) سے
روایت کی ہے کہ حضرت علی عليہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:
"خداکی قسم بيشک ميں تمہارے سامنے ایسے استدلال پيش کروں گا کہ اهل عرب و
عجم نيز قریش ميں سے کوئی شخص بهی اس کومستردنہيں کرسکتااورمذهبی اس کے
خلاف کچه کہہ سکتا ہے۔ميں تمهيں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہيں
ہے،کياتم لوگوں ميں کوئی ایسا ہے جس نے مجه سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟
انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہيں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں
ميرے علاوہ کوئی ہے،جورسول (ص) کا بهائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنين کے درميان
اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجهے اپنا بهائی بنایااور ميرے بارے
--------
١۔شائدمقصودیہ ہوکہ"خداوندا!تيرے پيغمبر(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بهی محبوب ترین مخلوق
علی)عليہ السلام ہيں۔"
٢۔تاریخ مدینہ دمشق،ج ۴٢ ،ص ۴٣١ ،دارالفکر
ميں یہ ارشاد فر ما یا کہ:" تمہاری نسبت مجه سے ویسی ہی جيسے ہارون کی موسی سے
تهی سوائے اس کے کہ ميں نبی نہيں ہوں "۔
انہوں نے کہا:نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کياميرے علاوہ تم
لوگوں ميں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکيزہ قراردیاگياہو،جب کہ پيغمبرخداصلی الله عليہ وآلہ
وسلم نے تمهارے گهروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئيے تهے اورميرے گهرکادروازہ
کهلارکها تهااورميں مسکن ومسجدکے سلسلہ ميں انحضرت (ص)کے ساته )اور آپ کے حکم
ميں)تها،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اڻهے اورکہا:اے الله کے رسول !ہمارے گهروں کے دروازے
بند کر دئيے اورعلی) عليہ السلام )کے گهرکاادروازہ کهلارکها؟
پيغمبر (ص) نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ
کوکهلارکهنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟
انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم دلاتاہوں،کيا تمہارے درميان
کوئی ہے جسے خدااوررسول مجه سے زیادہ دوست رکهتے ہوں،جبکہ پيغمبر (ص)نے خيبرکے
دن علم اڻهاکرفرمایا"بيشک ميں علم اس کے ہاته ميں دونگاجوخداورسول (ص) کودوست
رکهتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکهتے ہيں"اورجس دن بهنے ہوئے پرندہ کے بارے ميں
فرمایا:"خدایا!ميرے پاس اس شخص کو بهيج جسے توسب سے زیادہ چاهتا ہے تاکہ وہ ميرے
ساته کها نا کهائے۔"اوراس دعاکے نتيجہ ميں،ميں اگيا۔ميرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ
اتفاق پيش آیا ہو؟
انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہيں۔
فرمایا:تمهيں خداکی قسم دلاتاہوں،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس نے
پيغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو
منسوخ کر دیا؟
انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہيں۔
فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش
اورعرب کے مشرکين کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ ميں قتل کياہو؟
انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہيں۔
فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق
ميں پيغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ ميں دعاکی ہواوراذن واعيہ)گوش شنوا)کا خدا
سے مطالبہ کياہو،جس طرح ميرے حق ميں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ
ہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں کوئی ہے جوپيغمبراکرم (ص)سے
رشتہ داری ميں مجه سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپيغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بيڻوں
کواپنے بيڻے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہيں۔"
اس طرح ہم دیکهتے ہيں کہ اس حدیث ميں مباہلہ ميں شریک ہو نے والے افراد،کہ
جنهيں پيغمبراکرم (ص)اپنے ساته لائے تهے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسين )عليہم
السلام)کی ذات تک محدود ہيں۔
حدیث کامعتبرراورصحيح ہونا:
ا ہل سنت کی احادیث کے بارے ميں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہيں،اوران
احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے ميں یعنی مباہلہ ميں صرف پنجتن آل عبا)پيغمبر کے
علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسين عليہم السلام)ہی شا مل تهے اس حوالے سے صرف حاکم
نيشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہيں:
وہ اپنی کتاب"معرفةعلوم الحدیث" ١ميں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل
کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی عليہ السلام،"نسائنا"سے حضرت فاطمہ سلام الله
عليہااور"اٴبناء نا"سے حسن وحسين عليہما السلام مراد ليتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور
دوسروں سے اس سلسلہ ميں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بيت(ع)کے
بارے ميں پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:"ہؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا
ونسائنا"کے سلسلہ ميں یاددہانی کراتاہے۔
چنا نچہ اس باب ميں اصحاب کے ایک گروہ جيسے جابربن عبدالله،ابن عباس اور
اميرالمؤمنين کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہيں،اس مختصرکتاب ميں
بيان کرنے کی گنجائش نہيں ہے،اس لئے ہم حاشيہ ميں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے
ہی پر اکتفاکرتے ہيں ٢
--------
١۔معر فة علوم الحدیث،ص ۵٠ ،دارالکتب العلمية،بيروت
٢۔احکام القرآن /جصاص/ج ٢/ص ١۴ دارالکتاب العربی بيروت، اختصاص مفيد/ص ۵۶ /من منشورات جماعة المدرسين
فی الحوزة العلمية، اسباب النزول /ص ۶٨ /دارالکتب العلمية بيروت،اسد الغابة/ ج ۴/ ص ٢۵ / داراحيائ التراث العربی
/ بيروت الا صابہ/ج ٢/جزء ۴/ص ٢٧١ ، البحر المحيط/ج ٣/ ص ۴٧٩ / داراحيائ التراث العربی بيروت،البدایة و النهایة/ ج ۵
/ ص ۴٩ دارالکتب العلمية بيروت، البرهان/ ج ١/ص ٢٨٩ / مؤسسہ مطبوعاتی اسماعيليان، التاج الجامع للاصول/ ج ٣
ص ٣٣٣ /داراحياء التراث العربی بيروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج ۴٢ /ص ١٣۴ / دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص ١٧ / چاپ
نجف، تفسير ابن کثير/ج ١/ص ٣٧٨ /دارالنعرفة بيروت،تفسيربيضاوی/ج ١/ص ١۶٣ /دارالکتب العلمية بيروت، تفسيرخازن)
الباب التاٴویل) /ج ١/ص ٢٣۶ /دارالفکر، تفسير الرازی/ج ٨/ص ٨٠ /داراحياء التراث العربی بيروت، تفسيرالسمر قندی)
/ بحرالعلوم)/ج ١ص/ ٢٧۴ دارالکتب العلمية بيروت، تفسير طبری/ ج ٣ /ص ٣٠١ ۔ ٢٩٩ /دالفکر،تفسير طنطاوی/ ج ٢/ ص ١٣٠
دارالمعارف القاہرة، تفسير علی بن ابراہيم قمی /ج ١/ص ١٠۴ ، تفسير الماوردی/ ج ١/ ص ٣٨٩ و ٣٩٩ / مؤسسة
ظالکتب الثقافية/ دارالکتب العلمية بيروت، التفسير المنير/ج ٣/ ص ٢۴٩ ،٢۴٨، ٢۴۵ / دارالفکر، تفسيرالنسفی) در
حاشيہئ خازن)/ ج ١/ ص ٢٣۶ /دارالفکر،تفسير
النيشابوری/ج ٣/ص ٢١٣ /دارالمعرفة بيروت،تلخيص المستدرک/ج ٣/ص ١۵٠ /دارالمعرفة بيروت،جامع احکام
القرآن/قرطبی/ج ۴/ص ١٠۴ /دارالفکر، جامع الاصول/ج ٩/ص ۴۶٩ داراحياء التراث العربی،الجامع الصحيح
للترمذی/ج ۵/ص ۵٩۶ /دارالفکر، الدرالمنثور/ج ٢/ص ٢٣٣ ۔ ٢٣٠ /دارالفکر، دلائل النبوة ابونعيم اصفہانی/ص ٢٩٧ ، ذخائر
العقبی/ص ٢۵ /مؤسسةالوفائ بيروت، روح المعانی/ج ٣/ص ١٨٩ /داراحيائ التراث العربی، الریاض
النضرة/ج ٣/ص ١٣۴ /دارالندوة الجدید بيروت، زاد المسير فی علم التفسير/ج ١/ص ٣٣٩ /دارالفکر، شواہد التنزیل/حاکم
حسکانی/ج ١/ص ١۶٧ ۔ ١۵۵ /مجمع احيائ الثقافة الاسلامية، صحيح مسلم/ج ۵/ص ٢٣ /کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل
علی بن ابی طالب /ح ٣٢ /مؤ سسة عزّالدین، الصواعق المحرقة/ص ١۴۵ /مکتبة القاہرة، فتح القدیر/ج ١/ص ٣١۶ /ط
مصر )بہ نقل احقاق)، فرائد السمطين/ج ٢/ص ٢٣،٢۴ /مؤ سسةالمحمودیبيروت، الفصول
المہمة/ص ٢۵ ۔ ٢٣،١٢۶ ۔ ١٢٧ /منشورات الاعلمی، کتاب التسہيل لعلوم التنزیل /ج ١/ص ١٠٩ /دارالفکر،
الکشاف/ج ١/دارالمعرفة بيروت، مدارج النبوة/ص ۵٠٠ بمبئی)بہ نقل احقاق)،المستدرک علی
الصحيحن/ج ٣/ص ١۵٠ /دارالعرفةبيروت،مسند احمد/ج ١/ص ١٨۵ /دار صادربيروت، مشکوةالمصابيح/ج ٣/ص ١٧٣١ /المکتب
الاسلامی، مصابيح السنة/ج ۴/ص ١٨٣ /دارالمعرفة بيروت، مطالب السئول/ص ٧/چاپ تہران، معالم التنزیل
/ج ١/ص ۴٨٠ /دارالفکر، معرفة اصول الحدیث/ص ۵٠ /دارالکتب العلمية بيروت، مناقب ابن مغازلی /ص ٢۶٣ /المکتبة
الاسلامية تہران
٢۔شيعہ اماميہ کی احادیث
شيعہ روایتوں ميں بهی اس واقعہ کے بارے ميں بہت سی فراوان احادیث موجود
ہيں،یہاں پرہم ان ميں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہيں:
پہلی حدیث
امام صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عيسائی پيغمبراسلام (ص)
کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گياوہيں پرگهنڻی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑهنا
شروع کےا۔اصحاب نے کہا:الله کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد ميںيوںعمل کررہے ہيں!آپ نے
فرما یا: انهيں عمل کر نے دو۔
جب نمازسے فارغ ہوئے،پيغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہميں آپ کس چيزکی
دعوت دیتے ہو؟
آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، ميں خدا کارسول
ہوں اورعيسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہيںوہ کهاتے اورپيتے ہيں نيزقضائے حاجت
کرتے ہيں۔
انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہيں تواس کاباپ کون ہے؟
پيغمبرخدا (ص) پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم
عليہ السلام کے بارے ميں کياکہتے ہيں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہيں اورکهاتے
اورپيتے ہيں...اورنکاح کرتے ہيں۔
آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم عليہ السلام
کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتيں نازل فرمائيں:
>إنّ مثل عيسی عند اللّٰہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فيکون ۔۔۔ فمن حاجّک فيہ من
بعد ماجاء ک من العلم قل تعالوا ندع اٴبناء نا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم < (آل
( عمران / ۶١
"عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انهيں مڻی سے پيداکيااورپهرکہاہوجاتو وہ
پيداہوگئے...اے پيغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے
کہدیجئے کہ ڻهيک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بهی اپنے
فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہيں پهرخداکی بارگاہ ميں دونوں ملکردعاکریں
اورجهوڻوں پرخداکی لعنت کریں"
پيغمبراکرم (ص) نے فرمایا:"ميرے ساته مباہلہ کرو،اگر ميں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں
پرعذاب نازل ہوگااوراگرميں نے جهوٹ کہاہوگاتومجه پر عذاب نازل ہوگا"
انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پيش کياہے اورمباہلہ کوقبول کيا۔جب وہ لوگ اپنے
گهروں کولوڻے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے
لئے تشریف لا ئيں ،تووہ پيغمبرنہيں ہيں،اس صورت ميں ہم ان کے ساته مباہلہ کریں گے،ليکن
اگر وہ اپنے اہل بيت)عليہم __________السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئيں توہم ان کے ساته مباہلہ
نہيں کریں گے۔
صبح کے وقت جب وہ ميدان مباہلہ ميں اگئے تودیکهاکہ پيغمبر (ص) کے ساته
علی،فاطمہ،حسن اورحسين عليہم السلام ہيں۔اس وقت انہوں نے پوچها:یہ کون لوگ ہيں؟ان
سے کہاگيا:وہ مردان کاچچا زادبهائی اورداماد علی بن ابيطالب ہيں اور وہ عورت ان کی بيڻی
فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسين )عليہماالسلام)ہيں۔
انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کيا اورآنحضرت (ص)سے کہا:"ہم آپ کی رضایت کے طا
لب ہيں۔ہميں مباہلہ سے معاف فرمائيں۔"آنحضرت (ص) نے ان کے ساته صلح کی اورطے پایاکہ
وہ جزیہ اداکریں۔ ١
دوسری حدیث
سيدبحرانی،تفسير"البرہان"ميں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا عليہ السلام سے
روایت نقل کرتے ہيں:
"حضرت)امام رضا عليہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساته)عترت وامت ميں فرق
اورعترت کی امت پرفضيلت کے بارے ميں)اپنی گفتگو ميں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال
--------
١۔تفسير علی بن ابراهيم،مطبعة النجف ،ج ١،ص ١٠۴ ،البرہان ج ١،ص ٢٨۵
ان افرادکے بارے ميں بيان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکيزگی کے مالک
ہيں،اور خدااپنے پيغمبر(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بيت
کو اپنے ساته لائيں اورفرماتاہے:<۔۔۔فقل:تعالوا ندع اٴبنائنا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا
واٴنفسکم۔۔۔<
علماء نے حضرت سے کہا: آیہ ميں‘اٴنفسنا"سے مرادخودپيغمبر (ص) ہيں!امام رضا
عليہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجها ہے۔بلکہ"اٴنفسنا" سے مرادعلی بن
ابيطالب(عليہ السلام)ہيں۔اس کی دليل یہ ہے کہ پيغمبراکرم (ص) نے بنی وليعہ سے فرمایا:
"اٴولاٴبعثنّ إليہم رجلاً کنفسی"یعنی:"بنی وليعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے،
ورنہ ميں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔"
"اٴبنا ء نا" کے مصداق حسن وحسين)عليہماالسلام)ہيں اور"نساء نا"سے مراد فاطمہ
(سلام الله عليہا) ہيں اوریہ ایسی فضيلت ہے،جس تک کوئی نہيں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی
ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہيں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی
حاصل نہيں کرسکتاہے۔یعنی علی(عليہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابر

http://shiaforum.org/showthread.php?tid=820&pid=959#pid959
.....................

Add new comment