کیا امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں پر لعنت کرنی چاہیئے؟

کیا امام حسین علیہ السلام کے دشمنوں پر لعنت کرنی چاہیئے؟

 

جواب: آیت اللہ مصباح فرماتے ہیں: جس طرح انسان کی سرشت میں شناخت اور علم ہی نہیں بلکہ اس کے وجود کے اندر جہل بھی پایا جاتا ہے اسی طرح انسان جذبات و احساسات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جس کے اندر مثبت احساسات و جذبات بھی پائے جاتے ہیں اور منفی بھی؛ یعنی ایک وجود دو طرح کے احساسات کا مالک ہے مثبت اور منفی۔ جس طرح خوشی ہمارے وجود میں موجیں مارتی ہے اسی طرح غم بھی ہچکولے کھاتا ہے۔ خدا نے ہماری تخلیق کو اس طرح سے بنایا ہے کہ نہ خوشی کے بغیر کوئی زندگی گذار سکتا ہے اور نہ غم و اندوہ کے بغیر۔ گریہ و ہنسی یہ ہماری اس مختصر سی حیات کے دو پہلو ہیں کسی بھی ایک پہلو یا رخ کو معطل کرنے یہ معنی ہوں گے کہ خدادادی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔

خدا وند عالم نے ہمارے اندر محبت کو پیدا کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی نسبت جو ہمارے ساتھ مہربانی کرتے ہیں اور ان لوگوں کی نسبت جو صاحبان کمال ہیں اظہار محبت کریں۔ جب انسان کسی کمال کو پاتا ہے یا کسی صاحب کمال کو پاتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کمال یا اس صاحب کمال سے محبت کرے۔ اس کے برخلاف انسان کے اندر محبت کے مقابلہ میں نفرت اور دشمنی بھی پائی جاتی ہے۔ جس طریقے سے انسانی فطرت اس شخص سے جو اس کے ساتھ احسان کرتا ہے محبت کرنا چاہتی ہے اسی طرح فطرت انسانی اس شخص سے جو اس کو نقصان پہنچاتا ہے نفرت کرنا چاہتی ہے۔البتہ دنیوی نقصانات ایک مومن وشخص کے لئے زیادہ حائز اہمیت نہیں ہوتے اس لئے کہ دنیا کی اس کے سامنے کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ لیکن اگر کوئی شخص انسان کے دین اور عقیدہ کو ضرر پہنچائے اس کی سعادت ابدی کو انسان سے چھین لے تو اس سے کیسے چشم پوشی کی جاسکتی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

ان الشیطان لکم عدوا فاتخذوہ عدواً

شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن سمجھو۔

شیطان کے ساتھ مسکرا کر بات نہیں کی جاسکتی ورنہ انسان بھی شیطان ہوجائے گا۔ اگر انسان اولیائے الہی سے دوستی کرنا چاہتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ دشمنان خدا سے دشمنی کرے یہ انسانی فطرت ہے۔ اور انسانی سعادت کا تکامل کا ذریعہ ہے۔ اگر خدا کے دشمنوں سے دشمنی نہ ہو تو کسی نہ کسی حوالے سے ان سے دوستی ہوگی جب ان سی دوستی ہوگی تو ان کی باتوں کو بھی قبول کرے گا اور آہستہ آہستہ شیطان ہوجائے گا۔

جس طرح انسان کے جسم کے اندر مفید مواد کو جذب کرنے کا عامل موجود ہے اسی طرح ایک دفاعی سسٹم بھی موجود ہے جو جراثیم کو دفع کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہیے کہ جراثیم کا بدن میں داخل ہونا اشکال نہیں رکھتا اور کہیں کہ یہ ہمارے مہمان ہیں لہذا انکا احترام واجب ہے کہ اس صورت میں ہمارا بدن صحیح و سالم رہے گا؟

انسان کے روح کے اندر بھی اس طرح کی استعداد کا ہونا بہت ضروری ہے یعنی ایک روحانی قوت جاذبہ رکھتی ہو تا کہ جو لوگ ہمارے لئے مفید ہو وہ ہمیں اچھے لگے ہم انہیں دوست رکھیں اور ان کے نزدیک ہوں ان سے علم کمال ادب معرفت اور اخلاق حاصل کرسکیں ۔ کیوں انسان اپنی پسندیدہ چیزوں کو دوست رکھتا ہے اس لئے کہ جب ان سے نزدیک ہوتا ہے ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے ان اچھے لوگوں کی نسبت جو منشاء کمال ہیں اور معاشرے کی ترقی کے لیے موثر ہیں دوستی کا اظہار کریں اور ان کے مقابلہ میں وہ لوگ جو نقصان دہ ہیں جو سماج کی سرنوشت اور ترقی کی راہ میں راہ رکاوٹ ہیں عملی طور پر ان سے دشمنی کا اظہار کریں۔

ان تمام باتوں کے بعد یہ نتیجہ سامنے آتی ہے کہ اگر کوئی انسان کوئی خطا کرتا ہے اسے سماج سے باہر نہیں نکال دینا چاہیئے بلکہ اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا چاہیے وہ ایسا بیمار ہے کہ اس کی تیمارداری کریں۔ یہ دشمنی کا اظہار کا مقام نہیں ہے ۔ لیکن غدار ، کینہ پرور اور بنیادی دشمنوں کے ساتھ نہایت غصب و غصہ اور سخت لہجہ کے ساتھ بات کرنا چاہیے ۔ انہیں موت کے گھاٹ اتار دینا چاہیئے اس لئے کہ وہ ہماری موت کے علاوہ کسی دوسری چیز پر راضی نہیں ہوسکتے۔ نہ صرف ہمارے بدن کی موت بلکہ ہماری روح اور ہمارے دین کی موت پر راضی ہوتے ہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ نہ صرف خوشیوں پر اکتفا کریں ، مسکرانے کو کافی سمجھیں اس لئے کہ حماسہ حسینی اور کربلا والوں کی مظلومیت کی زندہ رکھنے کے لئے احساسات اور جذبات کی بھی ضرورت ہے۔ اور آخر کار امام حسین علیہ السلام کی خاک پاک پر عرض ارادت پیش کرتے ہوئے ان کے دشمنوں، اسلام کے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں پر لعنت بیجھنا بھی ضروری ہے۔ صرف سلام اور درود مشکل کو حل نہیں کرتا
http://www.shiaarticles.com/index.php/9-uncategorised/267-2011-11-17-08-...

Add new comment