عشرہ محرم الحرام کے آداب

نئے اسلامی سال کا آغاز طلوع ہلال محرم سے ہوچکا ہے۔ ماہ محرم بالعموم اور اس کا پہلا عشرہ بالخصوص فرزند رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، سیدالشھداء امام عالی مقام سے مخصوص ہے۔ صدیوں سے یہ عشرہ امام عالی مقام کی دین اسلام

تحریر: سید اسد عباس تقوی

نئے اسلامی سال کا آغاز طلوع ہلال محرم سے ہوچکا ہے۔ ماہ محرم بالعموم اور اس کا پہلا عشرہ بالخصوص فرزند رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، سیدالشھداء امام عالی مقام سے مخصوص ہے۔ صدیوں سے یہ عشرہ امام عالی مقام کی دین اسلام کی سربلندی کے لئے دی جانے والی عظیم قربانیوں کی یاد میں گزارا جاتا ہے۔ ہر مسلمان اپنی اپنی استطاعت اور وابستگی کے مطابق واقعہ کربلا کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے کاوشیں کرتا ہے۔ کوئی امام عالی مقام اور شہداء کربلا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے محافل کا انعقاد کرتا ہے تو کوئی ان محافل میں شرکت کرکے ان عظیم ہستیوں سے اپنی وابستگی کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی شخص غریبوں اور مساکین میں اشیائے خورد و نوش تقسیم کرتا ہے تو کوئی نیاز کے عنوان سے اپنا مال خرچ کرکے اپنے آپ کو مقصد حسین (ع) سے مربوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہیں صف عزا بچھائی جاتی ہے تو کہیں جلوس عزا کے ذریعے مقاصد حسینی (ع) کا پرچار کرنے کی سبیل کی جاتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں دوسروں کے طریقہ اظہار عقیدت سے اختلاف ہوگا، تاہم اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ مسلمانوں کو اسلام کے لئے دی جانے والی اس عظیم قربانی کی یاد منانا چاہیے۔
 
یاد کربلا مسلمانوں کے بہت سے مشترکات میں سے ایک مشترکہ اثاثہ ہے۔ اس مشترک اثاثے کا بنیادی سبب یقیناً رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات گرامی اور امام حسین علیہ السلام کی اس ہستی سے نسبت ہے۔ ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ رسالت مآب (ص) کو اپنے نواسوں بالخصوص امام حسین (ع) سے خصوصی محبت تھی۔ روایات کی روشنی میں سب مسلمان اس بات سے آگاہ ہیں کہ رسالت مآب (ص) کو ان بچوں کا غم اور دکھ کسی طور بھی گوارا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سچا عاشق رسول (ص) ان بچوں پر زندگی کے کسی بھی حصے میں آنے والے دکھ یا غم پر رنجیدہ ہوجاتا ہے۔ عشق رسول (ص) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہر وہ چیز جو رسالت مآب (ص) کو عزیز تھی، سے پیار کیا جائے اور ہر وہ چیز جس سے رسالت مآب (ص) نفرت کرتے تھے اس سے دور رہا جائے۔ اس عشق کی بنیاد خود قرآن کریم نے فراہم کی۔ ارشاد خدا وندی ہے: 
جو کچھ تمہیں رسول دے لے لو اور جس شے سے منع کرے رک جاؤ۔ 
عاشق کو معلوم ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: 
حسن (ع) اور حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔
 
وہ جانتا ہے کہ رسالت مآب (ص) اپنی زندگی میں ان بچوں کو پہنچنے والے ہر دکھ پر رنجیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ روایات میں موجود ہے کہ حسن (ع) یا حسین (ع) میں سے کوئی بچہ دوران خطبہ، مسجد نبوی میں داخل ہوا اور اپنی ہی قمیص سے الجھ کر گر پڑا تو رسالت مآب (ص) سے نہ رہا گیا اور وہ خطبہ کو قطع کرتے ہوئے بچے کی جانب لپکے، اسے اپنی گود میں اٹھایا اور اسی حالت میں ممبر پر تشریف فرما ہوئے۔ عاشق جانتا ہے کہ رسالت مآب (ص) ان بچوں کی خوشبو سونگھتے تھے۔ انہیں اپنے کندھوں پر سواری کرواتے تھے۔ اگر کوئی کہتا کہ کتنی پیاری سواری ہے تو فرماتے سوار بھی تو دیکھو کتنے پیارے ہیں۔ 
عاشق رسول (ص) جانتا ہے کہ رسالت مآب (ص) نے اکثر فرمایا: 
حسن (ع) اور حسین (ع) میرے جگر کے ٹکڑے ہیں، ان کا خون میرا خون ہے، جس نے انھیں خوش رکھا اس نے مجھے خوش رکھا، جس نے انہیں غمزدہ کیا اس نے مجھے غمزدہ کیا۔ 
عاشق رسول (ص) جو اپنے نبی کی ہر ہر ادا کا دیوانہ ہے اور اس محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہے۔ وہ دیوانہ جو کملی والے کی زلفوں کا اسیر ہے۔ ان کے پاکیزہ لبوں کے تصور کو ذہن میں لاکر مست ہوتا ہے۔ چہرے پر موجود تل کے قصیدے گنگناتا ہے، بھلا فرمان رسول (ص) کو کیسے فراموش کرسکتا ہے۔ وہ کیسے فراموش کرسکتا ہے کہ رسالت مآب (ص) نے فرمایا : 
حسین (ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں۔ 

عاشق رسول (ص) کبھی بھی اس مغالطے میں نہیں پڑے گا کہ معرکہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ تھی، اسے یہ کہہ کر نہیں بہکایا جاسکتا کہ اس معرکے میں لڑنے والے دو عرب قبائل تھے۔ عاشق کو یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ اسلام کی تاریخ اس قسم کی آپسی جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کی نظر میں تو حسین (ع) کے مقابلے میں آنے والا خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو باطل ہے۔ عاشق کی نظر تو اپنے محبوب کی رضا اور چاہت پر ہے۔ وہ بھلا کسی ایسی بات کو کیسے تسلیم کرے جو اس کے ہادی و مرشد کے حکم کے خلاف ہو۔ محبت چیز ہی ایسی ہے، اور وہ محبت جس پر قرآن نے مہر تصدیق ثبت کی ہو، اس کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہکانے والے حسین (ع) پر حملہ آور ہونے سے قبل اس کے نانا (ص) پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ ہم جیسے تھے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے جو کچھ ان بچوں کے بارے میں کہا پدری شفقت کا تقاضا تھا۔ (نعوذ باللہ من ذالک) بات کسی اور جانب چل نکلی۔
 
آئیں حسین (ع) کے نانا کی بارگاہ میں اور انھیں نواسے کی شہادت کا پرسہ دیں۔ آئیں زینب و کلثوم کے نانا کو نواسیوں کی اسیری کا پرسہ دیں۔ وہ نبی (ص) جس نے طائف میں امت کی اصلاح کے لئے پتھر کھائے اور زخموں سے چور ہوکر بھی بدعا زبان پر نہ لائی۔ اے رسول اللہ (ص) ہم شرمندہ ہیں کہ امت نے آپ کی بیٹیوں کو بازاروں اور درباروں میں پھرایا، شام اور کوفہ میں ان سید زادیوں کو پتھر مارے گئے۔ یارسول اللہ (ص) ہم آپ کی اولاد پر ہونے والے اس ظلم پر شرمندہ ہیں۔ اے ختم المرسلین (ص) ہم آپ کے چاہنے والے ہیں اور آپ کے پیاروں کے غم میں غمزدہ ہو کر آپکا اور آپکے ذریعے خدا کا قرب چاہتے ہیں۔ آئیں مل کر بارگاہ رسالت (ص) میں حاضر ہوں اور ان کے پیاروں کے غم کو اپنا غم بنا لیں۔ یہی عشق کا تقاضا ہے، یہی ضرورت ایمان ہے، اسی میں ہماری فلاح و کامیابی ہے۔

Add new comment