چہلم امام حسینؑ کی اہمیت کا راز

پہلی بار شہادت کربلا کے پیغام کے پرچم کو بلند کیا گیا ہے یہ شہیدوں کے پس ماندگان کا دن ہے اب چاہے پہلے ہی چہلم کے موقع پر امام حسینؑ کے اہل حرم کربلا میں آگئے ہوں

 قائد انقلاب اسلامی امام علی خامنہ ای کے زبانی

چہلم کی اہمیت کا راز کیا ہے؟صرف یہی کہ شہید کی شہادت کو چالیس دن ہو گئے اس میں کیا خاص بات ہے؟اگر تاریخ میں یہ عظیم شہادت ہو جاتی لیکن بنی امیہ اس میں کامیاب ہو جاتے کہ جس طرح انہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے تمام ساتھیوں کو بظاہر مار ڈالا تھااور ان کے اجسام پاک کو خاک کے نیچے چھپا دیا تھاان کی یاد کو بھی اس زمانے کی نسل بشر اور آیندہ نسلوں کے دلوں سے محو کر دیتے آیا اس صورت میں اس شہادت کا عالم اسلام کو کوئی فائدہ ہوتا؟

تقریب نیوز (تنا):عالمی اردوخبر رساں ادارے "نیوزنور" کے مطابق قائد انقلاب اسلامی حضرت امام علی خامنہ ای کے دفتر حفظ و نشر آثار کی فارسی سائیٹ نے امام حسین علیہ السلام کے چہلم کی اہمیت کے بارے میں آپ کے بیانات کو منتشر کیا ہے جس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہیں:
چہلم کی اہمیت کا راز کیا ہے؟
صرف یہی کہ شہید کی شہادت کو چالیس دن ہو گئے اس میں کیا خصوصیت ہے؟
چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ چہلم کے دن حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد تازہ ہو گئی اور یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے.فرض کیجیے کہ اگر یہ عظیم شہادت تاریخ میں رو نما ہو جاتی یعنی حسین ابن علی اور باقی شہداء کربلاء میں جام شہادت پی جاتے لیکن بنی امیہ صرف اتناکرنے میں کامیاب ہو جاتے کہ جس طر ح انہوں نے امام حسین (ع) اور ان کے پیارے عزیزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھااور ان کے پاک جسموں کو خاک میں چھپا دیا تھااسی طرح ان کی یاد کو بھی اس دور کی نسل بشر اورآئیندہ نسلوں کے دلوں سے محو کر دیتے تو ایسی صورت میں آیا عالم اسلام کو اس شہادت کا کوئی فائدہ ہوتا؟

یا اگر اس دور میں کچھ اثر ہو بھی جاتاتو آیا تاریخ میں اس واقعہ کابعد کی نسلوں کو، مصیبت زدوں کو،سیاہیوں اور تاریکیوں کو، اور تاریخ کے آنے والے ادوار کے یزیدوں کی یزیدیت کو نمایاں اور آشکار کرنے کی صورت میں کوئی فائدہ ہوتا؟
اگر حسین (ع) شہید ہو جاتے لیکن اس زمانے کے لوگ اور آنے والی نسلوں کے لوگ نہ جان پاتے کہ حسین (ع) شہید ہو گئے ہیں تو یہ واقعہ تعمیروترقی اور قوموں اورجوامع بشری اور تاریخ کو انقلابی رخ دینے میں اپنا کوئی اثر اور کردار چھوڑ پاتا؟

آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کا کوئی اثر نہ ہوتا.جی ہاں حسین (ع) شہید ہوگئے رضوان الہی کے مرتبہء اعلی علیین پر فائز ہو گئے.وہ شہید بھی کہ جو غربت وخاموشی کے عالم میں شہید ہوئے وہ آخرت میں اپنے مدارج تک پہونچ گئے.ان کی روح کامیاب ہو گئی اور رحمت الہی کی درگاہ میں اس نے آرام و قرار پا لیا.لیکن وہ کس قدر سبق آموز ہوئے کس قدر نمونہء عمل قرار پائے؟

وہ شہید درس آموز ہوتا ہے کہ جس کی شہادت و مظلومیت کے بارے میں اس کی معاصر اور آنے والی نسلیں سنیں اور جانیں. وہ شہید باعث درس اور نمونہء عمل ہوتا ہے کہ جس کا خون جوش مارے اور تاریخ کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جائے.کسی قوم کی مظلومیت صرف اس وقت ملتوں کے ستم کشیدہ زخمی پیکر کومرہم لگا کر ٹھیک کرسکتی ہے کہ جب اس کی مظلومیت فریاد بن جائے.اس مظلومیت کی آواز دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہونچے. یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتوں نے شوروغل مچا رکھا ہے تا کہ ہماری آواز بلند نہ ہونے پائے. اسی وجہ سے وہ تیار ہیں کہ چاہے جتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جائے مگر دنیا یہ نہ سمجھ پائے کہ جنگ کیوں تھوپی گئی اور کس محرک کے تحت چھیڑی گئی اس دور میں بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ چاہے جتنا سرمایہ لگ جائے مگر نام یاد خون حسین (ع) اور شہادت عاشوراء ایک درس بن کر اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی ملتوں کے اذہان میں نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ابتداء میں نہیں سمجھ پائے کہ مسئلہ کتنا با عظمت ہے مگر جیسے جیسے وقت گذرتا گیا لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھنے لگے.

خلافت بنی عباس کے اواسط میں یہاں تک کہ امام حسینؑ کی قبر مبارک کو بھی ویران کردیا گیا روضہء مبارک کو پانی سے بھر دیا ان کی کوشش یہ تھی کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے شہادت اور شہیدوں کی یاد منانے کا یہی فائدہ ہے شہادت اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتی جب تک کہ شہید کا خون جوش نہ مارے اور اس کی یاد دلوں میں تازہ نہ کی جائے اور چہلم کا دن وہ دن ہے کہ جس روز پہلی بار شہادت کربلا کے پیغام کے پرچم کو بلند کیا گیا ہے یہ شہیدوں کے پس ماندگان کا دن ہے اب چاہے پہلے ہی چہلم کے موقع پر امام حسینؑ کے اہل حرم کربلا میں آگئے ہوں یا نہ آئے ہوں لیکن پہلا چہلم وہ دن ہے کہ جب پہلی بار حسین ابن علیؑ کے مشہور زائر جابر ابن عبداللہ انصاری اور عطیہ کہ جو پیغمبرؐ کے صحابی تھے کربلا کی سرزمین پر پہونچے جابر ابن عبداللہ نا بینا تھے اور جیسا کہ روایات میں آیا ہے عطیہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اس کو حسین ابن علیؑ کی قبر پر رکھا انہوں نے قبر کو مس کیا گریہ کیا اس سے رازو نیاز کیا حسین ابن علیؑ کی یاد کو زندہ کیا اور قبور شہداء کی زیارت کی سنت حسنہ کی بنیاد رکھی چہلم کا دن ایک ایسا ہی اہم دن ہے ۔

امام حسینؑ کے قیام کا مقصد
امام حسینؑ نے حق و عدل کے برپا کر نے کی خاطر قیام کیا تھا: ’’انما خرجت لطلب الصلاح فی امۃ جدی ارید ان امر بالمعروف و انھیٰ عن المنکر ‘‘

چہلم کی زیارت میں کہ جو ایک بہترین زیارت ہے ہم پڑھتے ہیں’’و منح النصح و بذل مھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجہالۃ و حیرۃ الضلالۃ‘‘راستہ میں انحضرت نے پیغمبر کی ایک مشہور و معروف حدیث کو بیان کیا ’’ایھا الناس انّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قال: من رائی سلطانا جائرا مستحلّا لحرم اللہ ناکثا لعھد اللہ مخالفا لسنت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یعمل فی عباد اللہ بالاثم و العدوان فلم یغیر علیہ بفعل ولا قول کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ‘‘
آنحضرت کے تمام آثار اور اقوال سے نیز ان اقوال سے کہ جو معصومینؑ کی طرف سے امام حسینؑ کے بارے میں بیان ہوئے ہیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا مقصد حق و عدل اور دین خدا کو قائم کرنا شریعت کی حاکمیت کو وجود میں لانا اور ظلم و جور اور سرکشی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔

مقصد پیغمبر اکرمؐ اور دیگر پیغمبروں کے راستے کو آگے بڑھانا تھا ’’یا وارث آدم صفوۃ اللہ یا وارث نوح نبی اللہ‘‘ یعنی اے آدم اور نوح کے وارث اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پیغمبروں کی آمد کا مقصد ’’ لیقوم الناس بالقسط ‘‘ حق و عدالت کو قائم کرنا اور اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کو بر سر کار لانا تھا ۔

چہلم کی اہمیت
بنیادی طور پر چہلم کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ اس روز اہلبیت پیغمبرؐ کی الہیٰ تدبیر کے ذریعہ امام حسینؑ کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی اور اس کی بنیاد ڈال دی گئی اگر شہیدوں کے پسماندگان اور اصلی وارث طرح طرح کے درد ناک حادثوں میں جیسے عاشورا کے دن امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد شہادت کے آثار کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ نہ ہوں تو بعد کی نسلیں شہادت کے درخشاں نتائج سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گی
یہ بات صحیح ہے کہ خدا وند متعال شہیدوں کو اسی دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور شہید قہری طور پر تاریخ میں اور لوگوں کی یاد میں زندہ اور پائیندہ ہے لیکن طبیعی وسائل جو خداوند متعال نے تمام دوسرے امور کی طرح اس امر کے لئے متعین فرمائے ہیں وہ یہی چیز ہے کہ جو ہمارے اختیار اور ارادے سے متعلق ہے یہ ہم ہیں کہ درست اور بجا ارادے کے ذریعے شہیدوں کی یاد اور فلسفہ شہادت کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

 

واقع عاشورا کے زندہ رہنے کا راز
اگر زینب کبری (س) اور امام سجاد ؑ اپنے انہیں اسارت کے دنوں میں چاہے کربلا میں عصر عاشورا کے موقع پر اور چاہے بعد کے دنوں میں کوفہ اور شام کے راستے میں اور خود شہر شام میں اور اس کے بعد کربلا کی زیارت کے موقع پر اور مدینہ کی جانب واپسی کے دوران اور بعد کے کئی برسوں میں کہ جب تک یہ بزرگوار زندہ رہے انہوں نے واقع کربلا کو بیان کرنے کے سلسلے میں جد وجہد نہ کی ہو تی اور واقع عاشورا کے فلسفے کی حقیقت اور حسین ابن علی ؑ کے مقصد اور دشمنوں کے مظالم کو بیان نہ کیا ہوتا تو عاشورا کا واقعہ آج تک پورے جوش و خروش کے ساتھ زندہ نہ ہوتا ۔

روایت کے مطابق کیوں امام جعفرصادق ؑ نے فرمایا کہ جو شخص واقع عاشورا کے بارے میں ایک شعر کہے اور لوگوں کو اس شعر کے ذریعے سے رلائے خدا بہشت کو اس کے لئے واجب کردیتا ہے ؟چونکہ تمام تبلیغاتی ادارے واقعہ کربلا کو اور کلی طور پر اہلبیت ؑ کی حقانیت کو چھپانے اور تاریکی میں رکھنے پر پورے طور پر تیار ہوگئے تھے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ پائیں کہ کیا ہوا اور قصہ اصل میں کیا ہے۔پروپیگنڈہ ایسا ہی ہوتا ہے اس زمانے میں بھی آج کی طرح ظالم اور ستمگر طاقتیں شیطنت آمیز مغرضا نہ اور جھوٹی تبلیغات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ایسے حالات میں کیا یہ ممکن تھا کے عاشورا کا یہ واقعہ جو ایک بیابان میں دنیا سے دور ایک کونے پر نمایا ں ہوا اس عظمت اور اس حرارت جوش و خروش کے ساتھ باقی رہتا ؟یقیناًان کوششوں کے بغیر ختم ہو جاتا جس چیز نے اس واقعہ کو زندہ رکھا وہ امام حسین ؑ کے اہل حرم کی کوششیں تھیں جس قدر حسین ابن علی ؑ اور ان کے ساتھیوں کی کوششیں صاحبان پرچم ہونے کے عنوان سے سخت اور دشوار رکاوٹوں کے روبرو ہوئیں اسی قدر حضرت زینب امام سجاد اور دیگر پسماندگان کی جد و جہد بھی مشکل اور طاقت فرسا تھی البتہ ان کا میدان جنگ کا میدان نہیں تھا بلکہ تبلیغی اور فرہنگی میدان تھا ہمیں ان باتوں کی طرف دہیان دینا چاہیے۔

 

چہلم کا درس
چہلم جو درس ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا چاہئے اپ دیکھیے انقلاب کی ابتدا سے آج تک انقلاب ، امام ، اسلام ، اور اس ملت کے خلاف تبلیغات کا حجم کس قدر زیادہ رہا ہے چاہے وہ تبلیغات اور طوفان ہوں کہ جو جنگ کے خلاف اٹھائے گئے وہ جنگ کہ جو عوام کی شرافت اور حیثیت اور ملک و اسلام کی حفاظت اور ان کے دفاع کی خا طر تھی اب دیکھئے کہ دشمن ان عزیز شہیدوں کے خلاف کہ جنہوں نے اپنی جانوں یعنی سب سے بڑے سرمائے کو آگے بڑھ کر خدا کی راہ میں قربان کردیا مستقیم اور غیر مستقیم طریقے سے ریڈیو اخبارات اور مجلوں اور کتابوں کے ذریعے پوری دنیا میں سادہ لوح انسانوں کے ذہنوں کو ان سے منحرف کرنے کے لئے کس قدر تبلیغات کیں ۔

حتی ہمارے ملک کے بھی چند بھولے بھالے جاہل نیز قابل توجہ اور غیر قابل توجہ افراد جنگ کے اس پر جوش ماحول میں کبھی کبھی غفلت کی بنا پر کچھ کہہ جاتے تھے جس کی وجہ ان کی حقائق سے عدم واقفیت تھی یہی چیزیں تھیں کہ جو امام عزیز کو مجبور کرتی تھیں کہ وہ اپنی اس ملکوتی فریاد کو حقائق کو صراحت کے ساتھ بیان کرنے کی بلند کریں ۔

اگر ان تبلیغات کے مقابلے میں حق کی تبلیغات نہ ہوتیں اور نہ ہوں اگر ملت ایران سخن وروں قلم کاروں اور ہنر مندوں کی آگاہی اور بصیرت اس حقیقت کی خدمت میں مصروف نہ ہو کہ جو اس ملک میں پایء جاتی ہے تو دشمن تبلیغات کے میدان میں غالب آجائے گا تبلیغات کا میدان بہت عظیم اور پر خطر میدان ہے البتہ ملت کی اکثریت قاطع اور عوام کی ایک ایک فرد انقلاب سے آگاہ ہونے کی برکت سے دشمن کی تبلیغات سے مصؤن اور محفوظ ہیں دشمن نے بہت دروغ بافی کی اور جو چیزیں ہماری نظروں کے سامنے تھیں ان کو برعکس اور الٹا کرکے دکھایا مگر ہمارے لوگوں کو عالمی تبلیغات جھوٹے پروپیگنڈوں اور بے بنیاد باتوں پر بالکل اطمینان نہیں رہا ۔

یزید کی ظالم اور جابر حکومت اپنی تبلیغات کے ذریعے حسین ابن علی ؑ کو مجرم ٹھہراتی تھی اور یہ باور کراتی تھی کہ حسین ؑ وہ شخص ہے کہ جس نے اسلامی حکومت اور عدل کے خلاف دنیا کی خاطر قیام کیا ہے کچھ لوگ ان جھوٹی تبلیغات پر اعتماد کرتے تھے لیکن اس وقت کے جب حسین ابن علی ؑ عجیب حالت میں اور دردناک صورت میں جلادوں کے ذریعے صحراء کربلا میں شہید ہوگئے تو اس چیز کو انہوں نے دشمن پر غلبے اور فتح کے طور پر منا یا لیکن بار گاہ امامت کی تبلیغات میں ان تمام دروغ بافیوں کو بدل دیا حق ایسا ہی ہوتا ہے۔
بشکریہ:::::::::::::::http://taghribnews.com/vdcenv8zzjh8epi.dqbj.txt

Add new comment