خطبہء فدکیہ کی تفسیر ۔حضرت آیت اللہ مصباح یزدی

عالمی اردو خبررساں ادارےنیوزنور کی رپورٹ کے مطابق موسسہ امام خمینی حوزہ علمیہ قم کے چانسلر حضرت علامہ مصباح یزدی نے خطبہ فدکیہ کی تفیر میں فرمایا: یہ خطبہء مبارکہ اس قدر خوبصورت اور فصاحت و بلاغت کی بلندی پر ہے کہ ماہرین فن بھی ان عبارتوں میں بیان شدہ نکا

شاہ ولایت امیر المومنین(ع) کی خاموشی اور حضرت فاطمہ زہراء (س) کے قیام کا راز

نیوزنور05اپریل2014:حضرت فاطمہ زہراء (س) کا خطبہء مبارکہ اپنے بلند و بالا مضامین اور زیبائی میں قرآن کے بعد جو وحی قرآنی ہے اپنی مثال آپ ہے اور اس کو فدکیہ کہا جاتا ہے اور منابع میں سب سے بہترین اور پر افتخار شمار ہوتا ہے ۔یہ خطبہ فصاحت و بلاغت ،مطالب کے استحکام ،اور جدال و مناظرہ اور استدلال کے انداز کے اعتبار سے اوج ثریا پر ہے اور مذہب شیعہ کے عقاید کا خلاصہ شمار ہوتا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارےنیوزنور کی رپورٹ کے مطابق موسسہ امام خمینی حوزہ علمیہ قم کے چانسلر حضرت علامہ مصباح یزدی نے خطبہ فدکیہ کی تفیر میں فرمایا: یہ خطبہء مبارکہ اس قدر خوبصورت اور فصاحت و بلاغت کی بلندی پر ہے کہ ماہرین فن بھی ان عبارتوں میں بیان شدہ نکات کی باریکیوں کو بیان کرنے سے عاجز ہیں ۔انسان جب اس خطبہء مبارکہ کو پڑھتا ہے تو اس کی خاص زیبائی کو درک کرتا ہے ۔بعض متون اس قدر خوبصورت ہیں کہ ادبیات کی دنیا سے بے خبر انسان بھی ان کی زیبائی کو محسوس کرتا ہے ۔بالکل قرآن کی زیبائی کی طرح کہ اگرچہ انسان اس کو سن کر اچھی طرح نہیں سمجھ پاتا کہ اس کی خوبصورتی کہاں سے آئی ہے لیکن اچھی طرح سمجھ جاتا ہے کہ یہ زیبا ہے ۔قرآن کی زیبائی اس قدر محسوس ہے کہ بہت سارے وہ لوگ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے انہوں نے اس کو درک کیا ہے ۔چہ جائیکہ وہ لوگ کہ جو قرٓن کی زیبائی کے جذبے سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر چکے ہیں ۔

یہ خطبہء مبارکہ کیوں پیش کیا گیا اس کا تعلق ان حوادث سے ہے جو پیغمبر اکرم (ص ) کی رحلت کے بعد رونما ہوئے ۔اس زمانے میں بعض مسلمانوں نے فدک کی سر زمین کو لے کر پیغمبر (ص) کے اہل بیت گرامی کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ جس سے رسول خدا (ص)کے دل کی پیاری بیٹی رنجیدہ ہو گئیں۔یہی چیز باعث بنی کہ فاطمہ زہراء (س) مسلمانوں کے درمیان تشریف فرما ہوں اور انتہائی اہم مسائل کو بیان فرمائیں کہ یہ مطالب اس دور میں صرف آنحضرت کی زبان مبارک سے قابل بیان تھے۔اس طرح بہت سارے واقعات کم سے کم آنے والوں کے لیے روشن ہو گئے ۔اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت زہراء (س) کا یہ خطبہ مذہب تشیع کی بقاء کا ضامن بن گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے ۔

دختر رسول خدا (ص) کا شاہکار۔

فدک کو ہتھیانے کا ماجرا چاہے جس دلیل سے بھی رونما ہوا ہو ۔ کہ ہم بتا دیں کہ : اس شبہے کی بنا پر تھا کہ ہتھیانے والوں نے یہ گمان کیا کہ وہ رسول خدا (ص) کے خلیفہ ہیں اور اب ان کی ذمہ داری ہے کہ ان اموال کو فقراء کے درمیان تقسیم کریں ،یا۔۔۔ اس چیز نے حضرت زہراء (س) کو شدید رد عمل پر مجبور کیا۔جو چیز اس میں عجیب معلوم ہوتی ہے بعض لوگوں کی سطحی سوچ ہے کہ جنہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ جو چیز حضرت زہراء (س) کے لیے بہت زیادہ تکلیف دہ تھی وہ چند درہم و دینار کا ہاتھ سے نکل جانا تھا ۔یہ ناقص گمان کبھی کبھی مرثیہ خوانی میں خود کو نمایاں کرتا ہے اور اس طرح زبان پر آشکار ہوتا ہے کہ حضرت نے فرمایا: میرے بچوں کی روزی روٹی چھین لی ،اگر یہ کہیں کہ یہ کوتاہ نظری ایک بزرگ ترین ظلم ہے کہ جو ہم شیعہ اہلبیت (ع) پر روا رکھے ہوئے ہیں تو یہ شیخی نہیں ہو گی۔کس طرح وہ لوگ کہ کائنات کی ساری دولت جن کی نظر میں ایک خاک کے ٹیلے سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی وہ مال دنیا کے ہاتھ سے چلے جانے کی بنا پر پریشان ہوں گے ؟!کیا ان سادہ لوحوں نے نہج البلاغہ میں امیر المومنین (ع) کے کلام کو نہیں دیکھا ہے کہ فرماتے ہیں : وما اصنع بفدک و غیر فدک ؛مجھے فدک اور غیر فدک سے کیا سروکار ؟!

کیا واقعا وہ رونا وہ نالہ و فریاد ،وہ داد خواہی دنیا کے متاع قلیل کی خاطر تھی ؟!اس طرح کا تصور خام بے جا اور غیر عاقلانہ ہے ۔حقیقت امر یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک بہانہ تھا کہ اسلام کی وہ عظیم خاتون(س) حقائق کو اس طرح افشاء کریں کہ قیامت تک ان کا نور آشکار رہے اور کوئی اس کو بجھانے پر قادر نہ ہو ۔یہ حقائق ایسے تھے کہ فاطمہ (س) کے علاوہ کوئی شخص یہاں تک کہ خوڈ امیر المومنین (ع) ان کو کھل کر بیان کرنے کی تاب نہیں رکھتے تھے !امیر المومنین (ع) خلفاء کے ساتھ تنازعے کے ایک فریق تھے اور وہ پیغمبر کی خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے ؛اس بنا پر جو بات بھی آپ سے صادر ہوتی تو الزام لگتا کہ اپنے ذاتی مفادات کا دفاع کر رہے ہیں ؛ لیکن حضرت زہراء (س) نے حقائق کو اس لحن میں بیان کیا کہ آج بھی کوئی اس صراحت کے ساتھ ان کو بیان کرنے کی جرائت نہیں رکھتا ۔ان خاص حالات میں یہ شاہکار صرف دختر رسول خدا(ص) سے ممکن تھا اور جو تھوڑی سی فرصت حضرت کے پاس تھی اس میں انہوں نے اس طرح درخت حقیقت کی آبیاری کی کہ اس کو ہمیشہ کے لیے خشک ہونے بچا لیا۔

بے مثال تدبیر،

اس یکتائے روزگار خاتون کے خطبہء مبارکہ کو شروع کرنے سے پہلے،اس خام خیال کو ذہنوں سے دھو ڈالیں کہ مدعیان خلافت کے ساتھ اس قدیسہء عالم وجود کے نزاع کے بارے میں یہ گمان نہ کریں کہ وہ دنیا کی متاع نا چیز کی خاطر تھا ؛بلکہ حضرت کا یہ شجاعانہ اقدام تاریخ کے سینے میں حقائق کو باقی رکھنے کا ایک بہانہ تھا ،ان کی بعد کی تدبیریں بھی اسی مقصد کے حصول کی خاطر اختیار کی گئیں ۔اگر فاطمہ (س) اپنی وصیت کے ذریعے اپنی تشییع جنازہ میں بعض کی شرکت میں مانع ہوتی ہیں تو نعوذ باللہ آپ نے کینہ توزی کی بنا پر ایسا نہیں کیا بلکہ یہ وصیت ایک بے مثال سیاست تھی تا کہ نا حق دعووں پر خط بطلان کھینچ دیں ۔بعؑض نے کس قدر بچگانہ انداز میں اس حکیمانہ وصیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور اس کو ذاتی حساب برابر کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور جب اپنوں یا غیروں کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف ہوتا ہے تو حضرت کی اس وصیت کو دلیل قرار دیتے ہوئے وصیت کرتے ہیں کہ میں راضی نہیں ہوں کہ فلاں شخص میرے جنازے میں شرکت کرے ،کتنا عجیب مغالطہ ہے!حضرت زہراء (س) کا مقصد یہ تھا کہ بعض لوگوں کے سلسلے میں اپنے انتہائی خشم و غضب کو ثابت کر کے ان کو رسول خدا(ص) کے اس قول کا مصداق بتائیں کہ جس میں آپ (ص) نے فرمایا تھا؛ان اللہ یغضب لغضب فاطمہ و یرضی لرضاھا ، خدا وند عز و جل فاطمہ کے غضب کی وجہ سے غضب ناک اور فاطمہ کی رضایت کی بنا پر راضی ہوتا ہے ،۔

رسول خدا کی دختر بلند اختر کے جسم شریف کو مخفیانہ طور پر دفن کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تاریخ یہ جان لے کہ فاطمہ ان افراد سے ہر گز راضی نہیں ہوئیں۔یہ مقصد کہاں اور کینہ توزی کہاں !خدا کی رحمت اور مہربانی کا وہ آئینہ ،اگر ان کو اپنے سب سے زیادہ دشمن کی ہدایت کی ذرا سی بھی امید ہوتی تو وہ ان کی ہدایت سے دریغ نہ کرتیں ؛لیکن نوبت یہاں تک پہونچ چکی تھی کہ اگر فاطمہ نے یہ تدبیر نہ سوچی ہوتی تو حق کا چراغ خاموش ہو جاتااور ہم آج اسلام اور شیعیت کو نہ پہچانتے ۔اگر آج کروڑون انسانوں کے دل کی آنکھ حقیقت سے آشنا ہے تو یہ زہراء کی بے مثال تدبیر کی وجہ سے ہے۔بلا شک یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان افراد کے حضرت زہراء(س) کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے ہدایت پانے کا امکان ہوتا اور وہ اپنی غلطی سے توبہ کرنے والے ہوتے تو مہربان بی بی اپنے پیکر پاک کی تشییع میں ان کی شرکت پر اصرار کرتیں ۔ لیکن فاطمہ (س) جانتی تھیں کہ جو لوگ کھل کر امیر المومنین (ع)کی مخالفت پر کمر بستہ ہو چکے ہیں وہ کسی بھی قیمت پر حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔لہذا یہ تدبیر کی گئی تا کہ آنے والے سمجھ جائیں کہ امت اسلامی میں ایک ایسا گروہ ظاہر ہوا کہ جو اسلام کے واقعی راستےکے بر خلاف اور پیغمبر(ص) کے مقاصد اور ان کے فرامین کے بر خلاف عمل کر رہا تھا اور اس فہم کے سائے میں اگر حق کے راستے کو انتخاب کرنا چاہیں تو اس راہ پر قدم رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔

فاطمہ سلام اللہ علیھا کا قیام اور علی علیہ السلام کی خاموشی۔

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ رسول گرامی اسلام (ص) کی رحلت کے بعد جو حکو مت بنی تھی اگر اس کے خلاف جہاد ضروری تھا تو امیر المومنین (ع) نے خود اس کا اقدام کیوں نہیں کیا؟

حقیقت یہ ہے کہ سقیفہ میں انجام شدہ عمل کے مقابلے میں امیر المومنین (ع) کا مسلحانہ اقدام ،سیاسی اشکال بھی رکھتا تھا اور امنیتی اشکال بھی،سیاسی اشکال یہ تھا کہ کوتاہ نظر لوگ کہ جو آسانی کے ساتھ حضرت علی (ع) کی حمایت سے دست بردار ہو گئے تھے وہ جلد ہی یہ فیصلہ کر بیٹھتے کہ حضرت علی (ع) حکومت کے حصول اور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں ،اور اسلامی معاشرے کی عمومی فضا میں ایسے نظریات کے ہوتے ہوئے ،امیر المومنین (ع) کے وہ بلند وبالا مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے تھے ۔سلامتی کے اعتبار سے بھی اس اقدام کا اشکال یہ تھا کہ جامعہء اسلامی میں اندرونی جنگ چھڑ جاتی تو اس سے عظیم فتنہ اور تفرقہ معاشرے کے اندر پیدا ہو جاتا جس سے اسلام کے دشمن اس نو خیز اسلامی حکومت کو نابود کرنے کی طمع کر بیٹھتے اور اس طرح رسول خدا (ص) کی تمام زحمتیں رائگاں چلی جاتیں ۔سیاسی اور سلامتی کے حالات کا تقاضہ تھا کہ امیر المومنین (ع) دربار خلافت کے خلاف قیام نہ کریں اور ایک عظیم فتنہ پیدا ہونے سے جو اسلام کی بنیاد کو خطرے میں ڈال دیتا روکیں ۔

دوسری طرف رسول گرامی اسلام (ص) کی ذمہ داری کچھ اور تھی جس کو آپ نے اچھی طرح نبھایا ۔اگر زہرائے طاہرہ(س) کا قیام اسلامی مصالح اور قوانین کے خلاف ہوتا ،تو امیر المومنین (ع) ابتدا میں ہی اس کو روک دیتے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صدیقہء کبری (س)اپنے امام،امیر المومنین (ع) کی مرضی کے خلاف ،عمل کریں؟بلا شک بانوئے دو عالم کاقیام سو فیصدی امیر المومنین کی مرضی کے مطابق تھا اور بی بی نے اپنے قیام کے ذریعے شیعوں کی حقانیت کو ثابت کر دیا ۔البتہ دین کی نصرت میں حضرت زہراء (س)کی تحریک،چند دنوں میں منحصر نہیں ہے کہ جو پیغمبر کی رحلت کے دن ہیں ؛بلکہ فاطمہء زکیہ پیغمبر کی رسالت کے دوران اپنے پدر بزرگوار کی ایسی مددگار تھیں کہ آپ کو ام ابیھا کا لقب ملا۔

اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر خاص حالات میں ایک شخص کے لیے ناممکن ہو اور اس کے انجام سے جس فساد کا اندیشہ ہو وہ اس کی مصلحت سے زیادہ ہو لیکن اس کی خاموشی دوسروں کو ذمہ داری سے سبکدوش نہیں کر دیتی،بلکہ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی ذمہ داری کو انجام دیں۔

اس حقیقت کا گواہ یہ ہے کہ کبھی امام معصوم کے زمانے میں ان کے بعض بہترین شیعہ ایسے کام کرتے تھے کہ امام معصوم خود ان کاموں سے اجتناب کرتے تھے،لیکن ان کو ان کاموں سے نہیں روکتے تھے ۔اس چیز کا بارز نمونہ حضرت ابوذر ہیں ۔تیسرے خلیفہ کے زمانے میں بیت المال میں بہت اسراف ہوتا تھا ؛ لیکن امیر المومنین (ع) صرف دوستانہ نصیحت پر اکتفا کرتے تھے اور خلیفہ کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے ۔

یہاں تک کہ جب لوگ تیسرے خلیفہ کو قتل کرنے کی خاطر جمع ہوئے ،تو حضرت نے انہیں اس کام سے روکا ،اور جب خلیفہ کا پانی بند کر دیا گیا تو آپ نے ان کے گھر تک پانی پہونچایا ۔لیکن جناب ابو ذر کا رویہ خلیفہ اور حکومت کے کارندوں کے خلاف بہت سخت تھا۔ اس کے باوجود ایک موقع بھی تاریخ میں ایسا نہیں ملتا کہ امیر المومنین (ع) نے ابو ذر کو نرم رویہ اپنانے کا حکم دیا ہو ۔ایک شخص جو ابو ذر کے ساتھ فکری اختلاف رکھتا تھا اس کا نام کعب الاحبار تھا جو یہودی سے مسلمان بنا تھا اور دربار خلافت کے ساتھ بہت تعاون کرتا تھا ۔ خلیفہ کے پاس ایک مجلس میں کہ جس میں ابو ذر بھی موجود تھے ،کعب الاحبار نے درباریوں کی ثروت اندوزی کے حق میں فتوی صادر کیا ،کہ جس سے ابو ذر کو بہت غصہ آیا ؛ وہ اٹھے اور کعب الاحبار کے سر پر اپنا عصادے مارا اور کہا: اے کافر یہودی عورت کے بیٹے!تیری کیا حیثیت ہے کہ تو مسلمانوں کے احکام میں فتوی دے ؟!خدا کا کلام تیری بات سے زیادہ سچا ہے کہ جس نے ارشاد فرمایا ہے:

یا ایھا الذین آمنوا ان کثیرا من الاحبار و الرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل و یصدون عن سبیل اللہ و الذین یکنزون الذھب و الفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم ؛اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اہل کتاب کے بہت سے علماء اور راھب نا جائز طریقے سے لوگوں کے اموال کھاتے ہیں اور ان کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں ؛ اور جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دو۔

جب امیر المومنین(ع) سے اس سلسلے میں فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا ،تو امیر المومنین (ع) نے ابو ذر سے نہیں فرمایا کہ آپ نے کیوں ایک مسلمان کو چھیڑا یہ نیکی کی ہدایت کرنے اور برائی سے روکنے کی روش نہیں ہے ؛بلکہ ان کی تائید میں رسول خدا (ص) کی ایک حدیث نقل کی ؛ کہ میں نے رسول خدا (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا: آسمان نے کسی ایسے مرد پر سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی ایسے مرد کو نہیں اٹھایا کہ جوابوذر سے زیادہ سچا ہو،

آخر کار خلیفہء وقت نے ابوذر کو ربذہ ۔وہ سر زمین کہ جس سے ابو ذر نفرت کرتے تھے اس لیے کہ اسلام لانے سے پہلے وہیں رہتے تھے۔جلا وطن کر دیا ۔ ان کی جلا وطنی کے موقعے پر بھی امیر المومنین(ع)اپنے فرزندوں امام حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ ابو ذر کو چھوڑنے کے لیے آئے، جب کہ خلیفہء وقت نے ابو ذر کو ایک خطا کار انسان کی حیثیت سے مدینے سے نکالا تھا۔

امیر المومنین (ع) نے ان سے فرمایا:

اے ابو ذر!سچ تو یہ ہے کہ تم نے صرف خدا کی خاطر غصہ کیا پس اب اسی سے امید رکھو کہ جس کی خاطر تم نے غصہ کیا،یہ لوگ تم سے اپنی دنیا کی خاطر خوف زدہ ہوئےلیکن تم ان کے کرتوتوں سے اپنے دین کی خاطر خوف زدہ ہوئے اسی وجہ سے انہوں نے تمہیں اپنے آس پاس سے بھگا دیا اور تمہیں مصیبت میں مبتلاء کیا ۔خدا کی قسم اگر تمام آسمانوں اور زمینوں کے دروازے کسی انسان پر بند ہو جائیں اور وہ بندہ خدا کا تقوی اختیار کرے تو خدا اس کی تنگی دور کر دیتا ہے ۔پس ایسا نہ ہو کہ حق اور سچائی کے علاوہ کوئی چیز تمہیں اپنا ہمدم اور مانوس بنا لے اور باطل اور نا درستی کے علاوہ کوئی چیز تمہیں خوف زدہ کر دے ۔

اس بنا پر کبھی ممکن ہے کہ کوئی بڑی شخصیت کچھ خاص حالات کی بنا پر کچھ نہ کہے ؛لیکن اس کی خاموشی کا مطلب دوسروں کی خاموشی کا جواز نہیں ہوتا ، انہیں چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کریں اور نیکی کی ہدایت کریں اور برائی سے روکیں ۔ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ کیوں امیر المومنین (ع) نے حضرت زہراء (س) کی طرح اقدام نہیں کیا ۔جی ہاں !اگر امیر المومنین (ع) کسی کام کو حرام قرار دیں اور دوسروں کو وہ کام کرنے سے روکیں تو اس صورت میں ہمیں ان کی اطاعت کرنا چاہیے ۔اسی طرح اگر اسلامی ملک کا رہبر حکومتی حکم صادر کرے اور سب کو وہ کام کرنے سے روکے تو سب کو جان و دل سے ان کے فرمان کو ماننا چاہیے اور ولایت کا مطلب بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں لیکن اگر انہوں نے حکومتی حکم نہ دیا ہو اور دوسروں کو نیکی کی ہدایت کرنے اور برائی سے روکنے سے باز نہ رکھا ہو تو ایسی صورت میں دوسروں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں ۔اور یہ کہنا نادانی ہو گی کہ اگر یہ کام اچھا ہوتا تو رہبر خود اس کو انجام دیتے ۔ہمیں دقت اور بصیرت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہیے کہ کیوں رہبر اس کام کو انجام نہیں دیتے ۔بنا بر این امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو ترک کرنے کےلیے کہ جو اسلام کا قطعی حکم ہے شرعی حجت ضروری ہے اور وہ حجت کہ ترک واجب کا موجب بنے وہ حاکم کا یہ حکم ہے کہ اس حالت میں امر بالمعروف اسلام کی مصلحت کے خلاف ہے اور میں اس سے منع کرتا ہوں اب اگر ایسا حکم نہ ہو تو صرف حاکم کی شخصی رفتار کو دلیل بناتے ہوئے اپنے کاندھوں سے تکلیف کو نہیں ہٹایا جا سکتا ۔
http://tahira5.blogfa.com/post/36

Add new comment