فدک اورحقیقت

کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا

واقعہ فدک اورحضرت زہرا سلام اللہ علیھا کا ابوبکر سے اختلاف و نزاع صدر اسلام سے لے کر آج تک ہمیشہ علماء اور دانشمندوں کے درمیان مورد بحث و تحقیق رہا ہے اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں ہماری غرض جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی کے ان واقعات کی تشریح کرنا ہے جو لوگو ں کے لۓ عملی درس کی حیثیت رکھتے ہیں البتہ صدراسلام سے لے کر آج تک مورد بحث قرار پانے والے اس حساس اور اہم موضوع پر پڑھے لکھے لوگ ایک سطح کی معلومات چاہتے ہیں جس پر زیادہ تحقیق اور دقت کی جانی چاہۓ اور واقعہ کو علمی اور تحقیقی لحاظ سے مورد بحث قرار دیناچاہۓ لہذا ہم اس موضوع پر ذرا تفصیل سے نظر ڈال رہے ہیں تاکہ حقیقت واضح ہو جائے

اختلاف اور نزاع کا موضوع

جو لوگ اس بحث میں وارد ہوۓ ہيں انھوں نے صرف فدک کے اطراف میں بحث کی ہے کہ گویا نزاع اور اختلاف کا موضوع صرف فدک ہی تھا اسی وجہ سے یہاں پر کافی اشکالات اور ابہام پیدا ہوگۓ ہیں لیکن جب اصلی مدارک کا مطالعہ کیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ اختلاف کا موضوع صرف فدک میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے امور میں بھی اختلاف اور نزاع موجود تھا ۔ مثلا حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا اور اپنے والد کی میراث کا مطالبہ کیا جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اس وقت کئی چیزوں کا مطالبہ کیا تھا ۔

اول: پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ کے وہ اموال جو مدینہ میں موجود تھے

دوم: فدک

سوم: خیبر کا باقی ماندہ خمس

جناب ابوبکر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو جواب بھجوایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ ہم انبیا میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم سے باقی رہ جاۓ وہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد علیھم السلام بھی اس سے ارتزاق کرسکیں گے ۔ خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے صدقات کو تغییر نہیں دوں گا اور اس کے مطابق عمل کروں گا ۔ جناب ابوبکر تیار نہ ہوۓ کہ کوئی چیز جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو دیں اسی لۓ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ان پر غضبناک ہوئیں اور آپ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وفات تک ان سے گفتگو اور کلام نہ کیا ( شرح ابن ابی الحدید ج16،ص 217)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے ابوبکر کو پیغام دیا کہ کیا تم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے وارث یا ان کے رشتہ دار اور اہل ہو؟ جناب ابوبکر نے جواب دیا کہ ان کے وارث ان کے اہل اور رشتہ دار ہیں۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا کہ پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کا حصہ غنیمت سے کہاں گیا ؟ جناب ابوبکر نے کہا کہ میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ہے کہ خدا نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے لۓ طعمہ(خوراک )قرار دیا ہے اور جب اللہ ان کی روح کو قبض کرلیتا ہے تو وہ مال ان کے خلیفہ کے لۓ قرار دے دیتا ہے میں آپ کے والد کا خلیفہ ہوں مجھے چاہۓ کہ اس مال کو مسلمانوں کی طرف لوٹا دوں(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص219)

عروہ نے نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کا اختلاف اور نزاع جناب ابوبکر سے فدک اور ذی القربی کے حصے کے مطالبہ کے سلسلے میں تھا لیکن جناب ابوبکر نے انہیں کچھ بھی نہ دیا اور ان کو بیت المال کا جزو قرار دیدیا (شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) امام حسن بن علی بن ابی طالب سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور بنی ہاشم کو ذوی القربی کے سہم اور حصے سے محروم کردیا اور ان کے حصے کو بیت المال کا حصہ قرار دے کر اس سے جہاد کے لۓ اسلحہ اور اونٹ اور خچر خریدتے تھے(شرح ابن ابی الحدید،ج 16،ص231 ) ان مطالب سے معلوم ہوجاۓ گا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فدک کے علاوہ بعض دوسرے موضوعات میں جیسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے ان اموال میں جو مدینے میں تھے اور خیبر کے خمس سے جو باقی رہ گیا تھا اور غنائم سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے سہم اور ذوی القربی کے سہم میں بھی جناب ابوبکر کے ساتھ نزاع رکھتی تھیں لیکن بعد میں یہ مختلف موضوع خلط ملط کردۓ گۓ کہ جن کی وجہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اختلاف اور نزاع میں ابہامات اور اشکالات رونما ہوگۓ حقیقت اور اصل مطلب کے واضح اور روشن ہوجانے کے لۓ ضروری ہے کہ تمام موارد نزاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا کیا جاۓ اور ہر ایک میں علیحدہ بحث اور تحقیق کی جاۓ۔

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے شخصی اموال

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی کچھ چیزیں اور مال ایسے تھے جو آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص تھے اور آپ ہی ان کے مالک تھے جیسے مکان اور اس کے وہ کمرے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ازواج رہتی تھیں آپ کا شخصی لباس اور گھر کے اسباب جیسے فرش اور برتن وغیرہ ، تلوار، زرہ ، نیزہ ، سواری کے حیوانات جیسے گھوڑا، اونٹ ، خچر اور وہ حیوان جو دودھ دیتے تھے جیسے گوسفند اور گاۓ وغیرہ ۔ ان تمام چیزوں کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ مالک تھے اور یہ چیزیں احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔(مناقب شہر آشوب، ج 1، ص168 ۔ کشف الغمہ ج2 ص،122) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام چیزیں آپ کی ملکیت تھیں اور آپ کی وفات کے بعد یہ اموال آپ کے ورثہ کی طرف منتقل ہوگۓ ۔

حسن بن وشاء کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک کے علاوہ بھی کوئی مال چھوڑا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں، مدینہ میں چند باغ تھے جو وقف تھے اور چھ گھوڑے، تین عدد ناقہ کہ جن کے نام عضباء، صہباء اور دیباج تھے، دو عدد خچر جن کا نام شہبا ء اور دلدل تھا، ایک عدد گدھا بنام یعفور، دو عدد دودھ دینے والے گوسفند، چالیس اونٹنیاں دودھ دینے والی، ذوالفقار نامی ایک تلوار، ایک زرہ بنام ذات الفصول، عمامہ بنام سحاب، دو عدد برد یمانی ایک انگوٹھی،ایک عدد عصا بنام ممشوق، لیف کا ایک فرش، دوعدد عبا کئی چمڑے کے تکۓ ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ یہ چیزیں رکھتے تھے آپ کے بعد یہ تمام چیزیں حضرت فاطمہ علیھا السلام کی طرف سواۓ زرہ ، شمشیر، عمامہ اور انگوٹھی کے منتقل ہوگئیں ۔ تلوار، زرہ ، عمامہ اور انگوٹھی حضرت علی علیہ السلام کو دیۓ گۓ ۔(کشف الغمہ، ج 2 ص 122)

وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی(سورہ احزاب 33) کہا گیا ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں ازواج پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو حکم دیا ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں رہتی رہو اور جاھلیت کے دور کی طرح باہر نہ نکلو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر ان کے تھے تبھی تو اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے ورنہ حکم اس طرح دیا جاتا کہ تم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے گھروں میں رہتی رہو ۔ لیکن اہل تحقیق پر یہ امر پوشیدہ نہیں کہ یہ آیت اس مطلب کے ثابت کرنے کے لۓ کافی نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی نسبت دیدینا عرفی گفتگو میں زیادہ ہوا کرتی ہیں اور صرف کسی چیز کا کسی طرف منسوب کردینا اس کے مالک ہونے کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ مرد کی ملک کو اس کی بیوی اور اولاد کی طر ف منسوب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، تمہارا باغ، تمہارا فرش، تمہارے برتن حالانکہ ان تمام کا اصلی مالک ان کا باپ یا شوہر ہوا کرتا ہے ۔ کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا اس لۓ کہا جاتا تھا جناب عائشہ کا گھر یا ام سلمہ کا گھر یا جناب زینب کا گھر یا جناب ام حبیبہ کا گھر لہذا اس آیت سے یہ مستفاد نہیں ہوگا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے یہ مکانات ان کو بخش دیۓ تھے، اس کے علاوہ اور کوئی بھی دلیل موجود نہیں جو یہ بتلاۓ کہ یہ مکان ان کی ملک میں تھا لہذا کہنا پڑے گا کہ ازواج نے یا تو مکانات اپنے ارث کے حصے کے طور پر لے رکھے تھے یا اصحاب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے احترام میں انہیں وہیں رہنے دیا جہاں وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی زندگی میں رہ رہیں تھیں۔ حضرت فاطمہ علیھا السلام ان مکانوں کے ورثاء میں سے ایک تھیں آپ نے بھی اسی لحاظ سے اپنے حق کا ان سے مطالبہ نہیں کیا اور انہی کو اپنا حصہ تا حیات دیۓ رکھا ۔ خلاصہ اس میں کسی کو شک نہیں کرنا چاہۓ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اس قسم کے اموال بھی چھوڑے ہیں جو ورثاء کی طرف منتقل ہو‌ۓ اور قانون وراثت اور آیات وراثت میں وہ شامل ہیں

فدک

مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے جس کا نام فدک ہے۔ مدینہ سے وہاں تک دو دن کا راستہ ہے ۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا ۔ صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ جگہ تھی ۔ یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 ھجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی ۔

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے ان کی اس خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا۔ اس صلح نامہ کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگۓ

صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے حوالے کردی، صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیدیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرار داد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیدیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی ذات کا ہوگیا اور یہ علاقہ بغیر جنگ کۓ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہاتھ آ گیا۔ اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کۓ فتح ہوجاۓ وہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کا خالص مال ہوا کرتا ہے ۔ یہ قانون اسلام کے مسلمہ قوانین میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے ۔ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔

وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر، ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی وللرسول۔(سورہ حشر 7 ۔ 6)

""یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو دلوایا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ لیکن اللہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا تمام چیزوں پر قادر ہے ۔ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے لۓ مخصوص ہیں۔ ""

لہذا اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہۓ کہ فدک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کےخالص اموال میں سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو ملا تھا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں ۔ آپ اس مال کو حکومت چلانے پر بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تاکہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلا عوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لۓ فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دیدیں ۔ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لۓ مخصوص کر رکھا تھا۔ آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگاۓ۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر باز یار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگاۓ تھے۔ جب کبھی فدک جناب فاطمہ علیھا السلام کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ کردیتے تھے ۔ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشران بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گۓ اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا۔(شرح ابن ابی الحدید، ج 16،ص217)

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہاشم کے فقراء اور ابن سبیل کو دیدیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے

فدک جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے پاس

سب سے زیادہ مہم نزاع اور اختلاف جو جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا اور جناب ابوبکر کے درمیان پیدا ہوا وہ فدک کا معاملہ تھا جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا مدعی تھی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی زندگی میں فدک انہیں بخش دیا تھا لیکن جناب ابوبکر اس کا انکار کرتے تھے ۔ ابتداء میں تو جھگڑا ایک عادی امر شمار ہوتا تھا لیکن بعد میں اس نے تاریخ کے ایک اہم واقعہ اور حساس حادثہ کی صورت اختیار کرلی کہ جس کے آثار اور نتائج ہمیشہ جامعہ اسلامی کے دامن گیر ہوگۓ اور اب بھی ہیں۔ اس نزاع میں جو بھی حق ہے وہ اچھی طرح واضح اور روشن ہوجاۓ لہذا چند مطالب کی طرف اشارہ ضروری ہے۔

پہلا مطلب : کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسلامی حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں ۔( واضح رہے کہ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ انفال اور فئی اور خمس وغیرہ قسم کے اموال حکومت اسلامی کے مال شمار ہوتے ہیں اور حاکم اسلامی صرف اس پر کنٹرول کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مال نہیں ہوتا، گرچہ یہ نظریہ شیعہ علماء کی اکثریت کے نزدیک غلط ہے اور خود آئمہ طاہرین کے اقدام سے بھی یہ نظریہ غلط ثابت ہوتا ہے اور قرآن مجید کے ظواہر سے بھی اس نظرئیے کی تردید ہوتی ہے، کیونکہ ان تمام سے ان اموال کا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ اور امام کا شخصی اور ذاتی مال ہونا معلوم ہوتا ہے نہ کہ منصب اور حکومت کا ۔

حضرت زہرا علیھا السلام

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ غنائم اور دوسرے حکومت کے خزانے تمام مسلمانوں کے ہوتے ہیں اور حکومت کی زمین کو حکومت کی ملکیت میں ہی رہنا چاہئیے لیکن ان کی آمدنی کو عام ملت کے منافع اور مصالح پر خرچ کرنا چاہئیے لہذا پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے لۓ جو ہر خطا اور لغزش سے معصوم تھے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ فدک کو جو خالص آپ کی ملک تھا اپنی بیٹی ‎ جناب فاطمہ علیھا السلام کو بخش دیتے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ انفال اور اموال حکومت کی بحث ایک بہت وسیع و عریض بحث ہے کہ جو ان صفحات پر تفصیل کے ساتھ تو بیان نہیں کی جاسکتی لیکن اسے مختصر اور نتیجہ خیز طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ فدک بھی غنائم اور عمومی اموال میں ایک تھا اور اس کا تعلق نبوت اور امامت کے منصب سے تھا یعنی اسلام کے حاکم شرع سے تعلق رکھتا تھا لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ یہ ان اموال میں سے تھا جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اور نصوص اسلامی کے مطابق اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی سیرت کے لحاظ سے اس قسم کے اموال جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئیں یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے خالص مال شمار ہوتے ہیں البتہ خالص اموال کو بھی یہ کہا جاۓ کہ آپ کا شخصی مال نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا تعلق بھی حاکم اسلامی اور حکومت سے ہوتا ہے تب بھی اس قسم کے مال کا ان عمومی اموال سے جو دولت اور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں بہت فرق ہوا کرتا ہے کیونکہ اس قسم کے مال کا اختیار پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو اس قسم کے اموال میں تصرف کرنے میں محدود نہیں ہوا کرتے بلکہ آپ کو اس قسم کے اموال میں بہت وسیع اختیارات حاصل ہوا کرتے ہیں اور اس کے خرچ کرنے میں آپ اپنی مصلحت اندیشی اور صواب دید کے پابند اور مختار ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر عمومی مصلحت اس کا تقاضا کرے تو آپ اس کا کچھ حصہ ایک شخص کو یا کئی افراد کو دے بھی سکتے ہیں تاکہ وہ اس منافع سے بہرہ مند ہوں۔ اس قسم کے تصرفات کرنا اسلام میں کوئی اجنبی اور پہلا تصرف نہیں ہوگا بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی آراضی خالص سے کئی اشخاص کو چند زمین کے قطعات دئیے تھے کہ جنھیں اصطلاح میں "" اقطاع "" کہا جاتا ہے۔

بلاذری نے لکھا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے زمین کے چند قطعات بنی نضیر اور جناب ابوبکر اور جناب عبد الرحمان بن عوف اور جناب ابودجانہ وغیرہ کو عنایت فرما دئیے تھے ۔(فتوح البلدان ص 21)

ایک جگہ اور اسی بلاذری نے لکھا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے بنی نضیر کی زمینوں میں سے ایک قطعہ زمین کا مع خرمے کے درخت کے زبیر ابن عوام کو دیدیا تھا ۔(فتوح البلدان ص 34۔) بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے زمین کا ایک قطعہ کہ جس میں پہاڑ اور معدن تھا جناب بلال کو دیدیا ۔(فتوح البلدان ص 27)بلاذری لکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے زمین کے چار قطعے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو عنایت فرما دیۓ تھے ۔(فتوح البلدان ص 27)۔ پس اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہۓ کہ حاکم شرع اسلامی کو حق پہنچتا ہے کہ زمین خالص سے کچھ مقدار کسی معین آدمی کو بخش دے تاکہ وہ اس کے منافع سے استفادہ کرسکے ۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے بھی بعض افراد کے حق میں ایسا عمل انجام دیا ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام اور جناب ابوبکر اور جناب عمر اور جناب عثمان اس قسم کی بخشش سے نوازے گۓ تھے۔ بنابرین قوانین شرع اور اسلام کے لحاظ سے کوئی مانع موجود نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فدک کی آراضی کو جناب زہرا علیھا السلام کو بخش دیں۔ صرف اتنا مطلب رہ جاۓ گا کہ آیا جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک جناب فاطمہ علیھا السلام کو بخشا بھی تھا یا نہیں تو اس کے اثبات کے لۓ وہ اخبار اور روایات جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سے منقول ہیں کافی ہیں کہ آپ نے فدک فاطمہ علیھا السلام کو بخش دیا تھا، نمونہ کے طور پر ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ) نازل ہوئی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے جناب فاطمہ علیھا السلام سے فرمایا کہ فدک تمہارا مال ہے۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102 ۔ در منشور، ج 4 ص 177)

عطیہ نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ ) نازل ہوئی تو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے جناب فاطمہ علیھا السلام کو اپنے پاس بلایا اور فدک آپ کو دے دیا ۔(کشف الغمہ،ج 2ص 102)

جناب امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب یہ آیت(وآت ذالقربی حقہ )نازل ہوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ مسکین تو میں جانتا ہوں یہ(ذالقربی)کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی یہ آپ کے اقرباء ہیں پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اور جناب فاطمہ علیھا السلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اللہ تعالی نے دستور اور حکم دیا ہے کہ میں تمہارا حق دوں اسی لۓ فدک تم کو دیتا ہوں ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)

ابان بن تغلب نے کہا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک جناب فاطمہ علیھا السلام کو دیا تھا ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ فدک تو خدا کی طرف سے جناب فاطمہ علیھا السلام کے لۓ‌ معین ہوا تھا ۔(تفسیر عیاشی ج 2 ص 276)

حضرت زہرا علیھا السلام

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جناب فاطمہ علیھا السلام حضرت ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے فدک کا مطالبہ کیا ۔ جناب ابوبکر نے کہا اپنے مدعا کے لۓ گواہ لاؤ توجناب ام ایمن گواہی کے لۓ حاضر ہوئیں تو ابوبکر نے ان سے کہا کہ کس چیز کی گواہی دیتی ہو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ جبرئیل جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس آۓ اور عرض کی کہ اللہ تعالی فرماتا ہے(وآت ذالقربی حقہ )پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے جبرئیل سے فرمایا کہ خدا سے سوال کرو کہ ذی القربی کون ہیں ؟ جبرئیل نے عرض کی کہ فاطمہ علیھا السلام ذی القربی ہیں پس رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک فاطمہ علیھا السلام کو دیدیا ۔(درمنشور، ج 4 ص 177)

اس قسم کی روایات سے جو اس آیت کی شان نزول میں وارد ہوئی ہیں مستفاد ہوتا ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ اللہ تعالی کی طرف سے مامور تھے کہ فدک کو بعنوان ذوالقربی فاطمہ علیھا السلام کے اختیار میں دے دیں تاکہ اس کے ذریعے سے حضرت علی علیہ السلام کی اقتصادی حالت(جس نے اسلام کے راستے میں جہاد اور فداکاری کی ہے )مضبوط رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ اعتراض کرے کہ ذوالقربی والی آیت کہ جس کا ذکر ان احادیث میں وارد ہوا ہے سورہ اسراء کی آیت ہے اور سورہ اسراء کو مکی سورہ میں شمار کیا جاتا ہے حالانکہ فدک تو مدینے میں اور خیبر کی فتح کے بعد دیا گیا تھا لیکن اسکے جواب میں دو مطالب میں سے ایک کو اختیار کیا جاۓ گا اور کہا جاۓ گا کہ اگرچہ سورہ اسراء مکی ہے مگر پانچ آیتیں اس کی مدینہ میں نازل ہوئیں ہیں ۔ آیت(ولا تقتلواالنفس )اور آیت(ولا تقربوا الزنا )اور آیت(اولئک الذین یدعون) اور آیت(اقم الصلو ۃ )اور آیت(ذی القربی )۔(تفسیر المیزان تالیف استاد علامہ طباطبائی)

دوسرا جواب یہ ہے کہ ذی القربی کا حق تو مکہ میں تشریع ہوچکا تھا لیکن اس پر عمل ہجرت کے بعد کرایا گیا۔

فدک کے دینے کا طریقہ

ممکن ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک فاطمہ علیھا السلام کو دو طریقوں میں سے ایک طریقہ سے دیا ہو ۔ پہلا فدک کی آراضی کو آپ کا شخصی مال قرار دیدیا ہو ۔

دوسرا طریقہ یہ کہ اسے علی علیہ السلام اور فاطمہ علیھا السلام کے خاندان پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہو جو کہ ان کے اختیار میں دیدیا ہو۔

اخبار اور احادیث کا ظاہر پہلے طریقے کی تائید کرتا ہے لیکن دوسرا طریقہ بھی بعید نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں اس پر نص موجود ہے جیسے ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک جناب فاطمہ علیھا السلام کو بخش دیا تھا آپ نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک وقف کیا اور پھر آیت ذالقربی کے مطابق وہ آپ کے اختیار میں دیدیا۔ میں نے عرض کی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک فاطمہ علیھا السلام کو دیدیا۔ آپ نے فرمایا بلکہ خدا نے وہ فاطمہ علیھا السلام کو دیا ۔(بحارالانوار، ج96 ص 213)امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے فاطمہ علیھا السلام کو بطور قطعہ دیا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 102)ام ہانی نے روایت کی ہے کہ جناب فاطمہ علیھا السلام جناب ابوبکر کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ جب تو مرے گا تو تیرا وارث کون ہوگا ؟ جناب ابوبکر نے کہا میری آل و اولاد، جناب فاطمہ علیھا السلام نے فرمایا پس تم کس طرح رسول اللہ کے ہمارے سوا وارث ہوگۓ ہو، جناب ابوبکر نے کہا اے رسول اللہ کی بیٹی ! خدا کی قسم میں رسول اللہ کا سونے، چاندی وغیرہ کا وارث نہیں ہوا ہوں۔ جناب فاطمہ علیھا السلام نے کہا ہمارا خیبر کا حصہ اور صدقہ فدک کہاں گیا ؟ انہوں نے کہا اے بنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایک طمعہ تھا جو اللہ نے مجھے دیا تھا جب میرا انتقال ہوجاۓ تو یہ مسلمانوں کا ہوگا(فتوح البلدان ص 44)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام تصریح فرماتے ہیں کہ فدک وقف تھا، دوسری حدیث میں امام زین العابدین علیہ السلام نے اسے قطعہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کے معنی صرف منافع کا اسلامی اور حکومتی زمین سے حاصل کرنا ہوتا ہے، احتجاج میں حضرت زہرا علیھا السلام نے ابوبکر سے بعنوان صدقہ کے تعبیر کیا ہے ۔ ایک اور حدیث میں جو پہلے گزر چکی ہے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اور فاطمہ علیھا السلام کو بلایا اور فدک انہیں دیدیا ۔ اس قسم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فدک فاطمہ علیھا السلام و علی علیہ السلام کے خاندان کو دیا جو ولایت اور رہبری کا خاندان تھا ۔ لیکن جن روایات میں وقف وغیرہ کی تعبیر آئی ہے وہ ان روایات کے مقابل کہ جن میں بخش دینا آیا ہے بہت معمولی بلکہ ضعیف بھی شمار کی جاتی ہیں لہذا صحیح نظریہ یہی ہے کہ فدک جناب فاطمہ علیھا السلام کی شخصی اور ذاتی ملکیت تھا جو بعد میں ان کی اولاد کی میراث بنا۔

فدک کے واقعہ میں قضاوت

دیکھنا یہ چاہئیے کہ اس واقعہ میں حق جناب فاطمہ علیھا السلام کے ساتھ ہے یا ابوبکر کے ساتھ ؟مورخین نے لکھا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی وفات کے دس دن کے بعد جناب ابوبکر نے اپنے آدمی بھیجے اور فدک پر قبضہ کرلیا ۔(شرح ابن ابی الحدید ج 16، ص 263 )حقائق کی روشنی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی حق پر تھیں کیونکہ وہ کسی ایسی چیز کا ہرگز مطالبہ نہیں کر سکتی تھیں جو ان کی نہ ہو ۔

فضائل حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں

۱ ۔ جناب مریم بنت عمران ۲۔ جناب فاطمہ علیھا السلام بنت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ

۳۔ جناب خدیجہ بنت خویلد ۴۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون

پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں کشف الغمہ ج 2 ص 76

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت فاطمہ علیھا السلام سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522)

حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد میں نے حضرت فاطمہ علیھا السلام سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ علیھا السلام کے 9 نام ہیں۔

فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ علیھا السلام کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

اسم مبارک : حضرت فاطمہ زھرا علیھا السلام

کنیت : ام الحسن، ام الحسین، ام المحسن، ام الائمہ و ام ابیھا ۔

القاب : زھرا، بتول، صدیقہ، کبری، مبارکہ، عذرہ، طاھرہ، و سیدۃ النساء ۔

والد : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

والدہ : ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ۔

ولادت : 20 جمادی الاخر، بعثت کے پانچویں سال بروز جمعہ

مقام ولادت : شہر مکہ معظمہ ۔

شہادت : 11 ھجری بروز پیر

مقام شہادت : شہر مدینہ منورہ

مقام دفن : نامعلوم

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد مصیبتوں نے حضرت زھرا علیھا السلام کے دل کو سخت رنجیدہ، ان کی زندگی کو تلخ اور ناقابل تحمل بنا دیا تھا ۔ ایک طرف تو پدر بزرگوار سے اتنی محبت تھی کہ ان کی جدائی اور دوری برداشت کرنا ان کے لئے بہت سخت تھا ۔ دوسری طرف خلافت کے نام پر اٹھنےوالے فتنوں نے حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کرکے وجود مطہر حضرت زھرا علیھا السلام کو سخت روحانی و جسمانی اذیت پہونچائی ۔ یہ رنج وغم اور دوسری مصیبتیں باعث ہوئیں کہ حضرت زھرا علیھا السلام پیامبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعد گریہ و زاری کرتی رہتی تھیں کبھی اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی قبر مبارک پر زیارت کی غرض سے جاتی تھیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور کبھی شھداء کی قبروں پر جاتیں تو وہاں گریہ کرتی تھیں اور گھر میں بھی گریہ و زاری برابر رہتا تھا ۔ چونکہ آپ علیھا السلام کا گریہ مدینہ کے لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا اس لئے انھوں نے اعتراض کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے قبرستان بقیع میں ایک چھوٹا سا حجرہ بنا دیا جسکو"" بیت الحزن"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ حضرت زہرا علیھا السلام حسنین علیھم السلام کو لیکروہاں چلی جاتی تھیں اور رات دیر تک وہاں گریہ کرتی تھیں ۔ جب شب ہوجاتی تھی تو حضرت علی علیہ السلام جاتے اور حضرت زہرا علیھا السلام کو گھر لاتے ۔ یہاں تک کہ آپ مریض ہوگئیں ۔ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے فراق میں حضرت زہرا علیھا السلام کا رنج و غم اتنا زیادہ تھا کہ جب بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی کوئی نشانی دیکھتی گریہ کرنےلگتی تھیں ۔

حضرت بلال جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے میں مؤذن تھے انہیں ‎ایک دن حضرت زھرا سلام اللہ علیھا نے کہا کہ میں پدر بزرگوار کے مؤذن کی آواز سننا چاہتی ہوں ۔ یہ خبر بلال تک پہونچی اور ‌حضرت زہرا علیھا السلام کے احترام میں اذان کہنے کے لۓ کھڑے ہوگۓ ۔ جیسے ہی بلال نے اللہ اکبر کہا حضرت زہرا علیھا السلام گريہ نہ روک سکیں اور جیسے ہی بلال نے کہا اشھد ان محمدا رسول اللہ حضرت زہرا علیھا السلام نے ایک فریاد بلند کی اور بیہوش ہوگئیں ۔ لوگوں نے بلال سے کہا کہ اذان روک دو۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی دنیا سے چلی گئی۔ بلال نے آذان روک دی جب حضرت زہرا علیھا السلام کو ہوش آیا تو کہا بلال آذان کو تمام کرو ۔ بلال نے انکار کیا اور کہا کہ اس آذان نے مجھے ڈرا دیا ہے ۔

آپ کی وفات کا وقت قریب آ پہنچا تو آپ نے کنیز کو پانی لانے کا حکم دیا تاکہ غسل کرکے نیا لباس پہن لیں کیونکہ بابا سے ملاقات کا وقت بہت قریب تھا، کنیز نے حکم کی تعمیل کی اور آپ نے غسل کرکے نیا لباس زیب تن فرمایا اور اپنے بستر پر جا کر قبلہ کی طرف منہ کرکے لیٹ گئیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد آنکھیں بند اورلب خاموش ہوگۓ اور آپ جنت میں چلی گئیں ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ علی علیہ السلام نے وصیت کے مطابق غسل و کفن دیکر شب کی تاریکی میں آپکے جسد اطہر کو سپرد خاک کردیا لیکن آپ کی قبر کو پوشیدہ رکھا اور اب تک پوشیدہ ہے اس لۓ تاکہ کوئی یہ نہ جان سکے کہ آپ کی قبر کہاں ہے کیونکہ اس وقت کے سیاسی افراد فاطمہ علیھا السلام کی قبر کھود کر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے پر کمر بستہ تھے۔ فاطمہ علیھا السلام کی وصیت سے اس وقت اور بعد میں آنے والی تمام نسلوں پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی بیٹی فاطمہ علیھا السلام پر ظلم ہوا ہےاور فاطمہ علیھا السلام ان ظالم افراد سے مرتے دم تک ناراض رہیں ۔ حضرت فاطمہ علیھا السلام کی وفات کے بعد علی علیہ السلام تن تنہا رہ گۓ ۔ علی علیہ السلام نے فاطمہ علیھا السلام کی قبر پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں کچھ کلمات زبان سے دہراۓ ۔ اور پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی قبر کی طرف رخ کرکے ارشاد فرمایا۔ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ آپ نے جو امانت میرے سپرد کی تھی میں آپ کو واپس کررہا ہوں، آقا جوکچھ ہم پہ گزر گئی فاطمہ علیھا السلام سے دریافت کرلیجۓ گا، وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گی ۔ با الآخر انھیں صدمات کی بنا پر 13 جمادی الاول یا 3 جمادی الثانی 11 ھجری کو یعنی رحلت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے 75 یا 90 دن کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی اور اپنے شیعوں کو ہمیشہ کے لۓ غم زدہ کردیا ۔

http://www.aqaideshia.com/index.php/2011-02-12-23-59-37/2011-02-25-20-09...

Add new comment