امام حسن علیه السلام ۔۔۔باغ فدک کے گواہ

جناب زہرا کو معلوم ہوا کہ حکومت کے اہلکاروں نے ان کے باغات پر قبضہ کرلیا ہے ان کے کا رندوں کو نکال دیا ہے آپ دربار خلافت میں

امام حسن علیه السلام
:
امام حسن ـتقربیا سات کے تھے جب رسو ل خداکا انتقال ہوا ،اگر چہ آنحضرت نے اپنی زندگی میں ہی حضرت علی کی خلافت اور جانشینی کا اعلان کردیا تھا، لیکن آپ کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے اسے قابل اعتنا نہ سمجھا ا و ر حضرت ابوبکر اپنے سیا سی حلیفوں کی مدد سے اپنے مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے اور خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی، مسند خلافت پر جلوہ فگن ہوتے ہی انہوں اپنی حکومت کی بنیاد وںکو مضبوط کرنا شروع کردیا، اس سلسلہ میں جو انہوں نے پہلا قدم اٹھا یا وہ حضرت زہرا کے باغات پر قبضہ تھا جن میں سے باغ فدک سر فہرست ہے۔
جب جناب زہرا کو معلوم ہوا کہ حکومت کے اہلکاروں نے ان کے باغات پر قبضہ کرلیا ہے ان کے کا رندوں کو نکال دیا ہے آپ دربار خلافت میں تشریف لائیں۔اپنے حق کا مطالبہ کیا۔ خلیفہ وقت نے گواہ طلب کئے، آپ نے امام امیر المومنین ،امام حسن، امام حسین ٪اور ام ایمن کوبطور گواہ پیش کیا لیکن خلیفہ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے ،حالانکہ یہ وہ افراد تھے جن کے جنتی ہونے کی آنحضرت گواہی دے کرگئے تھے۔
(مثلا ًامیر المومنینـ کے متعلق ملتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جنت چار آدمیوں کی مشتاق ہے۔ علیـ، سلمان، عمار اور بلال۔ ابن ابی حدید، شرح نہج البلاغہ ج١٠ ص ١٠٤ ''الحسن و الحسین سید شباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما۔'' حاکم نیشاپوری المستدرک ج٥ کتاب معرفة الصحابہ ح٤٧٧٩ ص١٧٩٤ ہو سید شباب اہل الجنة و حجة اللہ علی الامة امرہ امری، قولہ قولی من تبعہ فانہ منی و من عصاہ فانہ لیس منی جوینی، فرائد السمطین ج٢، ص٣٥(
اور بہشتی انسان کبھی جھوٹ نہیں بولتا، جبکہ گواہی دی ہی اسی لئے جاتی ہے کہ حق واضح ہو جائے، کاش خلیفہ وقت یہ سوچ لیتے کہ ان افراد کی
صداقت کے تو عیسائی بھی قائل تھے ،واقعہ مباہلہ اس کی واضح دلیل ہے۔
میرے بابا کا منبر
رحلت رسول کے بعد جو مصائب اہل بیت رسول پر ڈھائے گئے انہیں امام حسنـ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، گھر جلایا گیا ،فاطمہ وعلی کو زدوکوب کیا گیا ۔
باپ کا حق چھینا گیا، ماں کی میراث لوٹی گئی ، خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ اور دن بدن اسلامی احکام پر شہنشاہی قوانین غالب آنے لگے، ان تمام سیاسی نشیب وفراز کا امام حسن ـمشاہدہ کررہے تھے،ایک دن مسجد نبوی میں تشریف لائے،دیکھا کہ اصحاب رسول جمع ہیں اور حضرت ابو بکر منبر رسول پر بیٹھے خطبہ دے رہے ہیں ۔ایک نظر مجمع پر ڈالی پھر خلیفہ وقت کو مخاطب کرکے فرمایا۔
''انزل عن منبر ابی واذہب الی منبر ابیک''(ابن ابی حدید، شرح نہج البلاغہ ج٦ ص ٢ ٤) (
میرے بابا کے منبر سے اترو اور اپنے بابا کے منبر پر جاکر بیٹھو ،پورا مجمع مبہوت ہوکر رہ گیا کہ مسجد نبوی میں صحابہ کے مجمع میں ،خلیفہ وقت کو مخاطب کرکے اس رعب ودبدبہ کے ساتھ کون ہے؟ جو کہہ رہا ہے کہ میرے بابا کے منبر سے نیچے اترآئو سر اٹھا کر جو دیکھا تو فرزند رسول حسن ابن علی کھڑے ہیں اور اپنے بابا کے حق کا دفاع کررہے ہیں معلوم نہیں امام حسنـ کی آنکھوں میں کیسا جاہ وجلال اور لہجہ میں کیسا دبدبہ تھا کہ خلیفہ وقت فوراًمنبر سے اترے اور کہا ۔
''صدقت واللہ انہ لمنبر ابیک لا منبرابی'' (ابن ابی حدید، شرح نہج البلاغہ، ج٦، ص ٣ ٤ (
خدا کی قسم! آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔یہ تمہاری باپ کا منبر ہے نہ کہ میرے باپ کا ۔
یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امام حسنـ بچپن ہی سے دینی اور سیاسی افکار کے حامل تھے ۔اور اس وقت کی سیاست اور حکمرانوں پر گہری نظر رکھتے تھے یہ واقع اتنا غیر معمولی تھا کہ تاریخ نے اسے اپنے اوراق میں محفوظ کرلیا اور آج بھی تاریخ کے سینہ پر اس کے انمٹ نفوش موجود ہیں ۔آخر کیوں نہ ہو ں ؟ اس دور کے بڑے بڑے سیاست دانوں نے اپنا پورا زور لگا کر حضرت ابوبکر کو خلیفہ رسول بنایا تھا۔ اور امام حسن ـنے انہی کے مجمع میں خود خلیفہ سے اقرار کروالیا کہ یہ میرا نہیں تمہارے بابا کا منبر ہے ۔
حضرت علی ـ کو جب معلوم ہوا تو آپ نے کسی کو حضرت ابوبکر کے پاس بھیجا اور کہا کہ میں نے اسے نہیں بھیجا ۔ بلکہ یہ بچہ خود تمہارے پاس آیا ہے ۔ جواب میں حضرت ابوبکر نے کہا ہم بھی آپ کو الزام نہیں دے رہے ہیں ۔
البتہ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت علی امام حسن ٪کی تردید کر رہے ہیں ۔بلکہ آپ کی نگاہیں آنے والے ایک واقعہ پر تھیں ۔وہ واقعہ عہد ثانی میں پیش آیا ۔جب امام حسین خلیفہ ثانی سے یہ کہا کہ میرے بابا کے منبر سے اترو ۔حضرت عمر اتر آئے امام حسین ـ کو گود میں اٹھایا اور کہا کیا تمہارے بابا نے تمہیں سمجھاکر بھیجا ہے فرمایا نہیں۔ (قندوزی، ینابیع المودة ج١، ص١٩٧ باب ٥٤ فی فضائل الحسن و الحسین(
بعض روایات میں تو یہ بھی ملتا ہے حضرت عمر حضرت علی ـکے پاس آئے اور کہا آپ نے اپنے بچہ کو سمجھا کر بھیجا ہے ۔
امام حسن علیه السلام عہد عمر میں
حضرت ابوبکر دو سال تین ماہ اور دس دین مسند خلافت پر متمکن رہنے کے بعد ٢٢ جمادی الثا نیہ ١٣ھ کو دنیا سے رخصت ہو گئے ۔اور اسی دین حضرت عمر نے زمام حکومت اپنے ہاتھوں لے لی ۔
حضرت عمر کو عالم اسلام کی باگ ڈور سنبھالے دس سال چھ ماہ اور چار دن بیت چکے تھے کہ مغیرہ ابن شعبہ کے غلام ابو لولو فیروز نے کسی بات پر بگڑ کر دو دھارے خنجر سے ان پر حملہ کیا اور انہیں برُی طرح گھائل کردیا ۔ کچھ لوگ انہیں اٹھا کر گھر لائے ،دوا دارو کیلئے معالج کو بلا یا ۔ مگر شکم کا گھائو اتنا گہرا تھا کہ جانبر ہونے کی کوئی امید نہ رہی ۔مسند خلافت خالی اور دس سالہ دور اقتدار ختم ہوتا نظر آرہا تھا ۔لوگ ایک دوسرے کو مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھتے، با ہم سرگوشیاںکرتے اور حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے کہ حضرت عمر تو اس کاری ضرت سے جانبر ہوتے نظر نہیں آتے خلا فت کا بار کون اٹھائے گا؟اور خلیفہ کا انتخاب کس طرح عمل میں آئے گا ؟ چنانچہ چند اکابر صحابہ حضرت عمر کی احوال پرسی کیلئے گئے اور ان کی حالت دگرگوں دیکھ کر انہیں مشورہ دیا کہ کسی کو خلافت کیلئے نامزد کرتے جائیے ۔
حضرت عمر نے حسرت آمیز لہجہ میں کہا کسے نامزد کروں ؟نہ ابو عبیدہ زندہ ہیں نہ ابو حذیفہ کے غلام سالم۔ اگر ان میں سے کوئی زندہ ہوتا تو خلافت اس کے سپرد کرکے مطمئن ہو جا تا ، صحابہ نے کچھ افراد کے نام لئے لیکن انہوں نے ردکر دئیے اور کہا میں یہ فیصلہ کرچکا ہوں کہ علی ابن ابی طالب علیه السلام،عثمان ابن عفا ن، عبدالرحمن ابن عوف ،سعدابن ابی وقا ص ، زبیر ابن عوام اور طلحہ ابن عبیداللہ پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ ترتیب دوں،یہ اس لائق ہیں کہ اپنے میں سے کسی کو منتخب کرلیں۔
پھر مجلس شوریٰ کا خاکہ تربیت دینے کے بعد منتخب ارکان کو اپنے ہاں طلب کیا اور کہا:
شوریٰ میں کچھ انصار ی راہنمائوں کو بھی شامل کرلینا،البتہ خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اسی طرح حسن ابن علی اور عبداللہ ابن عباس کو بھی ساتھ رکھنا،یہ پیغمبر کے رشتہ دار ہیں ان کا وجود تمہارے لئے با برکت ثابت ہوگا۔ البتہ خلافت میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہوں گے۔(جعفر مرتضی ،تحلیل از زندگانی سیاسی امام حسن مجبتیٰ ص١٥٦،قرشی ،زندگانی امام حسن ابن علی (فارسی ترجمہ)ج١،ص١٣٢)
ظاہر اً بیعت رضوان ،مباہلہ اور واقعہ فدک کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب امام حسن علیه السلام نے ایک ایسے سیاسی مسئلہ میں حصہ لیا جو دوسروں کے نزدیک بھی قانونی حیثیت رکھتا تھا۔
امام حسنعلیه السلام عہد عثمان میں
خلیفہ سوم: کے بارہ سالہ دور حکومت میں حالات انتہائی خراب ہوچکے تھے،اقربا پروری ، نا امنی اور اسلامی سلطنت کے مختلف صوبوں میں ظالم والیوں کے ظلم نے عوام کو خلیفہ وقت کے خلاف مشتعل کردیا،
حتیٰ کہ بڑے بڑ ے صحابہ بھی اسلام اور مسلمانوں پرہونے والے ان مظالم کو برداشت نہ کرسکے اور حکومت کے خلاف آواز اٹھا نے پر مجبور ہوگئے۔
ان میں سے سر فہرست ابوذرغفاری تھے جوگلی کوچوں میں اسلام کی حقانیت اور حکمرانوں کی نااہلی اور مظالم کا برملا اظہار کیا کرتے تھے جب خلیفہ وقت کو معلوم ہوا تو پہلے تو انہیں معاویہ کے پاس شام بھیج دیا اور کہا کہ ان پر کڑی نظر رکھی جائے ،لیکن انہوں نے وہاں بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیںاو رعوام میں دینی شعور پیدا کرتے رہے جس سے معاویہ کو اپنی حکومت خطرہ میں نظرآنے لگی ،لہذا اس نے انہیں دار الحکومت مدینہ واپس بھیج دیا۔
یہاں بھی انہوں نے اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کی اور مسلسل اپنے وظیفہ کو انجام دیتے رہے ، جو کہ خلیفہ وقت اور ان کی حکومت کیلئے انتہائی نا گوار تھا لہذا پہلے تو انہیں سمجھایا بجھایا گیا پھر زد وکوب کیا گیا لیکن وہ باز نہ آئے،پھر مدینہ سے صحرا ئے ربذہ کی طرف جلا وطن کر دیااور لوگوں کو منع کردیا کہ کوئی بھی انہیں الوداع کرنے نہ جائے ،لیکن حضرت علی اپنے دونوں بیٹوں امام حسن وامام حسین علیهم السلام کے علاوہ چند ہاشمی جوانوں کے ساتھ نکلے حضرت ابوذر کو الوداع کیا اور امام حسن نے جناب ابوذرکو الوداع کرتے ہوئے فرمایا: ''یاعماہ لولا انہ لا ینبغی للمودع ان یسکت وللمشیع ان ینصرف لقصر الکلام وان طال الاسف وقدا تی القوم الیک ما تری فضع عنک الد نیا بتذکر فراغہا و شدة ما اشتد منہا برجاء ما بعدہا و اصبر حتی تلفی نبیک و ہو عنک راض'' (ابن ابی حدید، شرح نہج البلاغہ ج٨ ص٢٥٣، کلام ١٣٠ کے ذیل میں جعفر مرتضی آملی تجلی از زندگانی سیاسی امام حسن مجتبی (فارسی ترجمہ) ص ٦٣ زندگانی امام حسن مجتبی ہاشم رسولی محلاتی ص ١١١)
اے چچا :اگر چہ غم طولانی ہے۔ لیکن پھربھی مختصر بات کرتا ہوں، کیونکہ جانے والے کیلئے سکوت سزاوار ہے اور الوداع کرنے والے کیلئے پلٹنا ہے۔ جو کچھ انہوں نے آپ کے ساتھ کیا ہے اسے آپ خود دیکھ رہے ہیں ۔ دنیا کو اس کی سختیوں کو اس کے بعد آنے والی زندگی( آخرت )کے ذریعہ برداشت کرو اور صبر کرو ۔ اس کے فراق کے پیش نظر اپنے سے دو کردو ۔ یہاں تک کہ اپنے نبی کے دیدار سے شرفیاب ہوجائو ۔ اس حالت میںکہ وہ آپ سے راضی ہو ں۔
اگر امام حسن ـ کے اس کلام پر غور کیا جائے تو آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ آپ حکومت سے ذرا برابر بھی خوفزدہ نہیں تھے ۔ نہ ہی اس کے کار ناموں سے لاعلم تھے ۔ بلکہ پوری طرح آگاہ تھے ۔ اسے خلاف دین سمجھتے تھے ۔ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو حق بجانب سمجھتے تھے ۔اسی لئے تو فرمایا کہ اے ابوذر یہ فقط دنیاوی زندگی کے لذائذ ہیں ۔ اگر حق کی خاطرتمہیں ان سے محروم ہونا پڑے تو کوئی پروا نہیں ۔ آخرت اس سے کہیں بہتر ہے۔ آپ اس پر صبر کریں ۔ اپنے اھداف پر قائم رہیے۔ اسی میں رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی رضا ہے۔

سید مزمل حسین نقوی
http://baqiyatullah.net/ur/index.php/magazin/94-baq-13/88-2012-04-13-18-...

Add new comment