حضرت علی ع نے رسول کریم ص کی شہادت کےبعد منافقوں سےکیوں جنگ نہیں کی؟

حضرت علی ع نے رسول کریم ص کی شہادت کےبعد منافقوں سےکیوں جنگ نہیں کی؟

 

بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب علیؑ کی خلافت غصب کی گئی اور انہیں مصائب و آلام سے دو چار کیا گیا تو انہوں نے بدر واحد ، خیبر و خندق میں چلی ہوئی تلوار کو نیام سے باہر کیوں نہ نکال لیا۔ اور صبر پر کیوں مجبور ہو گئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ علیؑ جیسی شخصیت کے لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انہوں نے اسلا م کے عہد اول میں جنگ کیوں نہیں کی۔ کیونکہ ابتداء عمر سے تا حیات پیغمبر علیؑ ہی نے اسلام کو پروان چڑھایا تھا ہر مہلکہ میں اسلام ہی کے لیے علیؑ لڑے تھے۔ علی نے اسلام کے لیے کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی تھی۔ بھلا علیؑ سے یہ کیونکہ ممکن ہو سکتا تھا کہ رسول کریم کے انتقال کے بعد وہ تلوار اٹھا کر اسلام کو تباہ کر دیتے اور سر ور کائنات کی محنت اور اپنی مشقت کو اپنے لیے تباہ و برباد کر دیتے ۔ استیعاب عبد البرجلد ا صفحہ۱۸۳طبع حیدر آباد میں ہے کہ حضرت علیؑ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ دیکھو رسول اللہ کا انتقال ہو چکا ہے اور خلافت کے بارے میں مجھ سے کوئی نزاع نہ کرے کیوں کہ ہم ہی ا س کے وارث ہیں ۔لیکن قوم نے میرے کہنے کی پرواہ نہیں کی ۔ خدا کی قسم اگر دین میں تفرقہ پڑ جانے اور عہد کفر کے پلٹ آنے کا اندیشہ نہ ہوتا تومیں ان کی ساری کاروائیاں پلٹ دیتا ۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد ۴ صفحہ ۲۰۴)کی عبارت سے واضح ہو تا ہے کہ حضرت علی ؑ نے اسی طرح چشم پوشی کی جس طرح کفر کے پلٹ آنے کے خوف سے حضرت رسول کریم مناقفوں اورمولفتہ القلوب کے ساتھ کرتے تھے کہ کنز العمال جلد۶ صفحہ ۳۳میں ہے کہ آنحضرت منافقوں کے ساتھ اس لیے جنگ نہیں کرتے تھے کہ لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد نے اپنے اصحاب کو قتل کر ڈالا۔

کتاب معالم التنزیل صفحہ۴۱۲ ، صفحہ۴۱۴، احیاء العلوم جلد۴ صفحہ ۸۸ سیرت محمدیہ صفحہ۳۵۶تفسیر کبیر جلد۴ صفحہ۶۸۶تاریخ خمیس جلد۲ صفحہ ۱۱۳۹سیرت جلبیہ صفحہ۳۵۶ شواہد النبوت اور فتح الباری میں ہے کہ آنحضرتنے عائشہ سے فرمایا کہ اے عائشہ ”لوَ لاَ حدَ ثَانِ قَومُک بالکَفرِ لَفَعلتُ “اگر تیری قوم تازی کفر سے مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں اس کے ساتھ وہ کرتا جو کرنا چاہیے تھا۔

حضرت علیؑ اور رسول کریم کے عہد میں کچھ زیادہ بعد نہ تھا۔ جن وجوہ کی بناء پر رسول نے منافقوں سے جنگ نہیں کی تھی انہیں وجوہ کی بناء پر حضرت علیؑ نے بھی تلوار نہیں اٹھائی ۔ کنز العمال جلد۶ صفحہ ۶۹ کتاب خصائص سیوطی جلد۲ صفحہ۱۳۸ روضتہ الاحباب جلدا صفحہ ۳۶۳ازالتہ الخفاجلدا صفحہ ۱۲۵ وغیرہ میں مختلف طریقہ سے حضرت کی وصیت کا ذکر ہے اور اس کی وضاحت ہے کہ علیؑ کے ساتھ کیا ہونا ہے اور علیؑ کو اس وقت کیا کرنا ہے۔ چنانچہ حضرت علیؑ نے اس حوالہ کے بعد کہ میری جنگ سے اسلام منزل اول ہی میں ختم ہو جائے گا۔ میں نے تلوار نہیں اٹھائی۔ یہ فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے اس وقت کا بہت زیادہ خیال رکھا کہ رسول خدا نے مجھ سے عہد خاموشی و صبر لے لیا تھا۔ تاریخ اعثم کوفی ۸۳ طبع بمبئی میں حضرت علیؑ کی وہ تقریر موجود ہے جو آپ نے خلافت عثمان کے موقع پر فرمائی ہے۔ ہم اس کا ترجمہ اعثم کوفی اردو طبع دہلی کے صفحہ۱۱۳ سے نقل کرتے ہیں۔ خدا ئے جلیل کی قسم اگر محمد رسول اللہ ہم سے عہد نہ لے لیتے اور ہم کو اس امر سے مطلع نہ کر چکے ہوتے جو ہونے والا تھا تو میں اپنا حق کبھی نہ چھوڑتا ۔ اوراپنا حق کسی شخص کو نہ لینے دیتا ۔ اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے اس قدر کوشش بلیغ کرتا کہ حصول مطلب سے پہلے معرض ہلاکت میں پڑنے کا بھی خیال نہ کرتا ۔ ان تمام تحریروں پر نظر ڈالنے کے بعد یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت علیؑ نے جنگ کیوں نہیں کی اور صبرو خاموشی کو کیوں ترجیح دی۔

میں نے اپنی کتاب ”الغفاری کے ۱۲۱“پر حضرت ابو ذر کے متعلق امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد ”وَعیٰ عِلماََ عَجَزَفِیہ “کی شرح کرتے ہوئے امام اہل سنت ابن اثیر جزری کی ایک عبارت تحریر کی ہے جس سے حضرت علیؑ کے جنگ نہ کرنے کی وجہ پر روشنی پڑتی ہے ۔”وہ یہ ہے“۔

”نَہایتہ اللغت ابن اثیر جرزی کے ۲۳۱ میں ہے ۔”اَلاِ رعَجازَ جَمعُ عجز وَھوَ مُو خُر الشَی یُریدُ بِھاَ آخِر الامور “اعجاز ، عجز کی جمع ہے جس کے معنی موخر شی کے ہیں اور جس کا مطلب آخر امورتک پہنچنے سے متعلق ہے۔ اس کے بعد علامہ جرزی لفظ اعجاز کی شرح کرتے ہوئے حضرت علیؑ کی ایک حدیث نقل فرماتے ہیں وَمَن حَدِیثِ عَلیَ لَناَ حَقُ اَن نعطِہ ناَخُذُہ وَاِن نَمنعہ نَرکبُ اعجازَ الابلِ وَاِن طَالَ السِری “آپ فرماتے ہیں کہ خلافت ہمارا حق ہے اگر ہمیں دے دیا گیا تو تو لے لیں گے اور ہمیں روک دیا یعنی ہمیں نہ دیا گیا تو ہم ”اعجاز اہل “پر سواری کریں گے ۔ یعنی آخر تک اپنے حق کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے اورمدت کی پرواہ نہ کریں گے یہاں تک کہ اسے حاصل نہ کر لیں یہی وجہ ہے کہ ”سَلِمَ وَصَبَرَ عَلیَ التَاخِیر وَلَمُ یقَاتِلَ وَاِنماَ قَاتَلَ بَعدَ اِنعقاَ د ِ الاماِ مَتِہ الخ دلتنگ اور صبر کئے آخر تک بیٹھے رہے اور خلفاء وقت سے جنگ نہیں کی ۔ پھر جب انہوں نے امامت (خلافت )حاصل کر لی تو (اسے صحیح اصولوں پر چلانے کے لیے )ضروری سمجھا۔الخ

tvshia.com/ur

 

Add new comment