پی پی پی کی اے سی پی بے نتیجہ، نئی آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ

اسلام آباد ۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس بے نتیجہ رہی۔ کانفرنس میں عدالتوں کی مدت میں توسیع کے فیصلے کی حمایت یا مخالفت کا کوئی حتمی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی اعلامیہ جاری ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے فو

تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے کثیرالجماعتی کانفرنس زرداری ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس کی سربراہی سابق صدر آصف علی زرداری اور چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کی۔ اجلاس میں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جب کہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) کو مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس بے نتیجہ رہی ۔

کانفرنس میں عدالتوں کی مدت میں توسیع کے فیصلے کی حمایت یا مخالفت کا کوئی حتمی فیصلہ کیا گیا اور نہ ہی اعلامیہ جاری ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کی جس پر اے پی سی میں شامل جماعتوں کی مشاورت سے نئی آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق وکلاء سے قانونی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ اے پی سی کا مقصد فوجی عدالتوں کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں پر ہم سب کا مشترکہ مؤقف پیش ہو، اگر ہم نے پارلیمنٹ میں علیحدہ یا مشترکہ مؤقف دینا ہے تو بھی اس کا فیصلہ آج ہی کرلیتے ہیں۔

اے پی سی کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اے پی سی میں فوجی عدالتوں،فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے اور نیشنل ایکشن پلان (نیپ) سمیت دیگر معاملات پر بھی بات کی گئی۔

بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مخالف ہے لیکن اگر فوجی عدالتوں کی بحالی ضروری ہوئی تو پی پی اپنے تحفظات دور کرنے کے لئے متبادل بل پیش کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے وکلاء سے مشاورت کرنے اور فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق حتمی فیصلہ کرنے کے حوالے سے ٹائم فریم نہیں دیا اور میڈیا سے مختصر بات کرنے کے بعد چلے گئے۔

کانفرنس میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھرری شجاعت حسین، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی) کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ، بی این پی عوامی کے سربراہ اسرار اللہ زہری،حاصل بزنجو، اے این پی کے غلام احمد بلور، زاہد خان، افراسیاب خٹک اور میاں افتحارحسین کے علاوہ پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت کا وفد بھی شامل تھا۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی تمام سیاسی قائدین کے فیصلے کی تائید کرے گی، فوجی عدالتوں سے متعلق حتمی فیصلہ سب کی مشاورت سے ہونا چاہئیے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے لفظ ’دہشت گردی‘ کی تشریح کی جائے۔ مذہب اور فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے بجائے ہر مسلح گروہ کے خلاف کارروائی کی جائے،ریاست کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے اسے دہشت گردی کے زمرے میں آنا چاہیئے۔

انہوں نے فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے کہا کہ اس حوالے سے فاٹا کے عوام سے رائے لی جائے، ان پر فیصلہ مسلط نہ کیا جائے۔

اے پی سی ختم ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران اے ایم ایل کے سربراہ شیخ رشید نے بتایا کہ اے پی سی کو آگاہی دی گئی کہ پہلے ہی ملک کی 8 سیاسی جماعتیں عدالتوں کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں اور آصف علی زرداری نے پاناما پیپرز اسکینڈل کے معاملے پر بھی جلد اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 فروری کو ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر متفق ہوچکی ہیں۔

فوجی عدالتوں سے متعلق ہونے والے پارلیمانی جماعتوں کے اس اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوئی تھی، تاہم اس سے پہلے ہونے والے فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں پی پی کے نمائندے شریک ہوتے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ان کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔

فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔

عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔

Add new comment