سامرا میں دفن ائمہ علیہم السلام کی اولاد، اصحاب اور علماء

شیعوں نے جب بی بی حکیمہ خاتون (امام حسن عسکری کی پھوپھی) سے پوچھا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں کس کے پاس جائیں، تو انہوں نے فرمایا تھا: جدہ کے پاس، یعنی امام حسن عسکری

بی بی حدیثہ، ام العسکری:

امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی والدہ معظمہ کو جدہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے، کیونکہ وہ امام زمانہ (عج) کی جدہ تھی۔ اس متقی اور زاہدہ خاتون کے نام حدیثہ، سوسن، سلیل اور ریحانہ ہیں۔ روایات میں انہیں "وکیل" بھی کہا گیا ہے کیونکہ وہ امام زمانہ کی نمایندہ تھی۔ کیونکہ شیعوں نے جب بی بی حکیمہ خاتون (امام حسن عسکری کی پھوپھی) سے پوچھا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں کس کے پاس جائیں، تو انہوں نے فرمایا تھا: جدہ کے پاس، یعنی امام حسن عسکری کی والدہ (ام ابی محمد) کے پاس۔ امام حسن عسکری کی والدہ سنہ ۲۶۲ ہجری تک زندہ تھی۔ ان کو فوت ہونے کے بعد سامراء کے حرم عسکریین میں ان کے اپنے مکان میں، دفنایا گیا۔ ۴

حسین بن علی(علیہ السلام):

حسین، امام ھادی (علیہ السلام) کے فرزند اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے بھائی ہیں۔ انہیں اور امام حسن عسکری کو "سبطین" کہا جاتا تھا، حسین کو اپنے بھائی امام عسکری کی امامت پہ ایمان تھا اور ان کے تابع و پیرو تھے۔ وہ اپنے زمانے کے عابد اور زاہد لوگوں میں جانے جاتے تھے۔ ۵ کہتے ہیں کہ امام زمانہ (عج) کی آواز ان کے چچا حسین کی طرح ہے۔ یہ عظیم شخص امام ھادی (علیہ السلام) اور امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے مبارک قدموں کی طرف دفن ہیں۔۶

ابوعبداللہ جعفر بن علی:

ابو عبداللہ جعفر، امام علی نقی (علیہ السلام) کے فرزند ہیں۔ انہیں وفات کے بعد اپنے والد کے گھر، اسی جگہ جہاں امام ھادی (علیہ السلام) مدفون ہیں، دفنایا گیا۔ ۷

سمانہ بنت علی(علیہ السلام):

سمانہ یا سمانہ مغربیہ، امام ھادی (علیہ السلام) کی والدہ ہیں۔ ان کے القاب "ام الفضل" اور "سیدہ" ہے۔ اپنے زمانے کی دانشمند فاضل اور زاہد خاتون تھی۔ اکثر دن میں روزہ رکھتی تھی اور رات کو اللہ سے دعائیں مانگتی تھی۔ وہ امام ھادی (علیہ السلام) کے گھر میں وفات پاگئی اور وہیں پی اپنے فرزند کے پاس دفن کی گئی۔ ۸

ابوہاشم جعفری:

داوود ابن قاسم ابن اسحاق ابن عبداللہ ابن جعفر ابن ابوطالب (علیہ السلام)، حضرت جعفر طیار کے پوتوں میں سے ہیں۔ ان کی قبر حرم عسکریین کی ضریح کے اندر ہے۔ اس عظیم شخص کی نسبت والدہ کی طرف سے حضرت محمد بن ابوبکر سے جاملتی ہے کیونکہ ان کی والدہ "ام حکیم"، قاسم ابن محمد ابن ابوبکر کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے پانج اماموں کو دیکھا ہے اور انہیں امام رضا (علیہ السلام)، امام جواد (علیہ السلام) امام ھادی (علیہ السلام) اور امام ءسکری کے تابع اور انصار میں سے تھے۔ ۹

حاج میرزا محمد حسین شیرازی(ف ۱۳۳۸ ق)

حاج میرزا محمد حسین شیرازی ، میزا خلیل اللہ شیرازی کے بیٹے سامرا کے علما میں سے اور میرزا شیرازی کے شاگردوں میں سے تھے آپ کو فقہ پر مہارت حاصل تھی، آپ کو حرم کے رواق میں دفن کیا گیا ہے۔

زرقانی شیرازی ( ف 1310 ق )

شییراز کی بزرگ علما میں سے شیخ محمد حسین زرقانی شیرازی تھے کہ جو میرزاشیرازی بزرگ کے شاگردوں میں سے تھے آپ سرداب مطہر کے نزدیک عسکریین کے صحن زاویہ میں دفن ہیں

آپ  بزرگوار سامرا میں امام بارگاہ کی تعمیر کرتے وقت کنویں میں گرنے سے وفات پا گئے تھے لیکن اس واقعہ کی حقیقت ابھی تک واضح و روشن نہیں  ہے۔

سید حسن كلیددار ( ف 1345 ق )

سید رضا کے فرزند سید حسن كلیددار ، استان قدس کے متولی اور مجاورین میں سے تھے کہ جو امامین شریفین کے رواق مطہر کے صحن میں دفن ہوئے ہیں۔

سید محمد شریف ( ف 1322 ق )

سید محمد شریف بن محمد طاہر حسین تویسركانی چودویں صدی ہجری  کے  علما  اور علم رجال پر لکھنے والوں میں سے تھے کہ جو حرم کے شرقی رواق میں دفن ہیں۔ 

صولی كاتب ( 176ق ـ 243 ق)

ابو اسحاق ابراہیم  بن عباس بن محمد بن صول،جو صولی کاتب سے معروف تھے ، آپ کا شمار دوسری صدی ہجری کے مولفین اور دانشمندوں میں سے ہوتا ہے آپ  سامرا میں دفن ہیں۔

نجاشی ( 372ق ـ 450 ق )

ابوالعباس احمد بن عباس بن محمد، علم رجال کا مشہور اور معروف مولف کہ جو سامرا کے نزدیک مطیر آباد میں دفن ہیں، آپ کا شمار علم رجال پر تسلط رکھنے معروف  شیعہ علما میں ہوتا تھا اور شیعہ کے علما کی نزدیک آپ قابل اعتماد شخصیت تھے آپ کی کتاب آپ ہی کے نام سے مشہور ہے۔

زندگی نامہ

احمد بن علی نجاشی علم رجال کے مؤسسین اور اساتذہ میں سے تھے کہ جو چوتھے صدی کے آخر اور پانچویں صدی کے  نیمہ اول میں زندگی بسرکرتے تھے لیکن افسوس کہ آپ کی زندگی کے بارے میں خود آپ  اور آپ کے ہمعصر دوستوں سے کوئی  خاص اطلاعات دستیاب نہیں ہیں، اور جو معلومات اپ کی زندگی کی بارے  میں ہمیں ملی ہیں، وہ آپ کے  باقی ماندہ شواہد ، قرائن اور آثار سے ہم تک پہنچی ہیں ۔

ولادت

نجاشی 327 ہجری کو کوفہ  کے شہر میں پیدا ہوئے  آپ کے  والد گرامی کا شمار بھی نامور محدثین اور شیعہ کے  بزرگوں میں سے ہوتا تھا۔

خاندان

نجاشی اہل کوفہ کے اسدی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے  جیسے کے خود آپ نے اپنی نسب کو بیان کرتے ہوئے اسے  عدنان تک پہنچایا ہے۔

آپ کا خاندان آل ابى السمال کوفہ کے  بزرگ خاندانوں  میں سے تھا جو پہلے ہی سے قابل احترام اور معزز تھے،  آپ کے  آباؤ اجداد میں سے ایک شخص بنامی "عبداللہ" اہواز کے رہنے والے تھے جو نجاشی کے نام سے معروف تھے اور یہی وجہ  بنی کے آپ نے بھی نجاشی کے  لقب سے شہرت پائی، عبداللہ  نجاشی نے  امام صادق علیہ السلام کو ایک خط لکھا تھا اور جس کا جواب امام علیہ لسلام نے آپ کو ارسال کیا تھا کہ جو رسالہ اہوازیہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔

شیخ مفید اور سید مرتضی سے استفادہ کرنا

محمد بن محمد بن نعمان کہ جو ابن معلم کے نام سے معروف تھے آپ شیعوں کے پیشوا اور بہت سے شیعہ علماء   کے استاد  تھے، آپ کے بعد آنے والے تمام علماء اور طالب علموں نے آپ سے اور آپ کے تالیفات اور آثار سے استفادہ  کیا ہے. اس فقیہ بزرگوار  سے بہت سے  آثار اور تقریبا 200 کتابیں  جو  مختلف اسلامی موضوعات پر مشتمل ہے ہم تک پہنچی ہیں، جو شیعوں کے لئے  ایک دایرة المعارف (انسائیکلوپیڈیا)کی حیثیت رکھتی ہے  ۔

نجاشی نے شیخ مفید کی محضر سے کہ جنہوں نے اپنے زمانے میں شیعوں کی قیادت کو سنبالا ہوا تھا ، اپنے علمی تشنگی کو دور کیا، اور شیخ مفید کے استاد جعفر بن محمد قولویہ کی زیادہ کتابیں اور بعض دوسری کتابیں انہی  سے پڑھی، سن ۴۱۳ ہجری کے رمضان المبارک میں  آپ کے استاد نے اس دنیا کو الواداع  کہا آپ کے لئے شیخ مفید جیسے استاد کی ارتحال ایک بہت بڑی مصیبت تھی۔

شیخ مفید کے گزر جانے کے بعد سید مرتضی کو شیعوں کی قیادت ملی، نجاشی کئی سالوں تک سید مرتضی کے درس میں بھی حاضر رہے، اور ان کے علم سے بہرہ مند ہوتے رہے، انہوں نے اگرچہ سید مرتضی سے اپنی کتاب میں کوئی روایت نقل نہیں کی لیکن محقق خوانساری فرماتے ہیں کے آپ نے زیادہ درس انہی سے پڑھے ہیں۔

خود نجاشی نقل کرتے ہیں کہ جب سید مرتضی سن ۴۳۶ ق ھ کو شہر بغداد میں وفات پا گئے تو ان کے بدن مطہر کو میں نے ابو العلی محمد بن حسن جعفری اور سلار بن عبد العزیز کی مدد سے غسل دیا۔

وفات

احمد بن علی نجاشی، ۷۸ سال کی پر برکت زندگی کے بعد سن ۴۵۹ ھ میں سامرا کے نزدیک نواحی علاقے مطیر آباد میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

رجال نجاشی

رجال نجاشی علم رجال میں شیعوں کی ایک انمول اثر ہے، کہ جو علم رجال کی چہار مشہور کتابوں میں سے وہی خاص مقام حاصل ہے جو کہ   چہار حدیثی کتابوں میں کتاب کافی کو حاصل ہے۔

حوالہ جات

* مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی، نرم افزار جامع الاحادیث[لوح فشردہ]، بخش کتابشناسی

* محمد کاظم رحمان ستایش و محمدرضا جدیدی نژاد، بازشناسی منابع اصلی رجال شیعہ

* تلخیص از مجموعہ گلشن ابرار، جلد 1، زندگی نامہ "نجاشی" از محمدحسن امانینرگس

ریفرینس:

1. مصلح الدین مہدوی، ہمان، 59 ـ 60 ؛ ذبیح اللہ محلاتی، مآثر الكبرا فی تاریخ السامراء، 1/243.

2. حسین الجلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہما، 144 ۔ مجلسی، بحار الانوار سے منقول۔

3. ناصرالدین شاہ، سفرنامہ ناصر الدین شاہ بہ عتبات، 158.

4. صحتی سردرودی، سیمای سامراء، 130 ـ 131.

5. مہدوی، وہی، 63.

6. صحتی سردرودی، وہی، 126 ـ 127.

7. مہدوی، وہی، 63.

8. صحتی سردرودی، وہی، 130 ـ 131.

9. پیشین، 138 ـ 139 ؛ موسوی الزنجانی، وہی، 128.

منبع:

عتبات عالیات عراق؛ دكتر اصغر قائدان

Add new comment