امام حسینؑ کربلا کیوں گئے؟ا

جب عمر بن سعد کا عظیم لشکر کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے محدود لشکر کے سامنے کھڑا ہوگیا ، تو عمر بن سعد کا قاصد امام علیہ السلام) کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد عمر بن سعد کا خط آپ کو دیا

جب عمر بن سعد کا عظیم لشکر کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے محدود لشکر کے سامنے کھڑا ہوگیا ، تو عمر بن سعد کا قاصد امام علیہ السلام) کے پاس آیا اور سلام کرنے کے بعد عمر بن سعد کا خط آپ کو دیا اور عرض کیا : میرے مولی ! آپ ہمارے دیار میں کیوں آئے ہیں ؟
امام نے اس کے جواب میں فرمایا :
«کَتَبَ إِلَىَّ أَهْلُ مِصْرِکُمْ هذا أَنْ أَقْدِمَ، فَأَمّا إِذْ کَرِهُونِی فَأَنَا أَنْصَرِفُ عَنْهُمْ!»; تمہارے شہر والوں نے خط لکھ کر مجھے بلایا ہے اور اگر وہ میرے آنے سے راضی نہیں ہیں تو میں واپس چلا جائوں گا (١) ۔
خوارزمی نے روایت کی ہے : امام علیہ السلام نے عمر بن سعد کے قاصد سے فرمایا :
«یا هذا بَلِّغْ صاحِبَکَ عَنِّی اِنِّی لَمْ اَرِدْ هذَا الْبَلَدَ، وَ لکِنْ کَتَبَ إِلَىَّ أَهْلُ مِصْرِکُمْ هذا اَنْ آتیهُمْ فَیُبایَعُونِی وَ یَمْنَعُونِی وَ یَنْصُرُونِی وَ لا یَخْذُلُونِی فَاِنْ کَرِهُونِی اِنْصَرَفْتُ عَنْهُمْ مِنْ حَیْثُ جِئْتُ» ; (
میری طرف سے اپنے حاکم سے کہو، میں خود اس جگہ پر نہیں آیا ہوں بلکہ اس جگہ کے لوگوں نے مجھے دعوت دی ہے تاکہ میں ان کے پاس آئوں اور وہ میری بیعت کریں اور مجھے میرے دشمنوں سے محفوظ رکھیں اور میری مدد کریں لہذا اگر وہ راضی نہیں ہیں تو میں جس راستہ سے آیا ہوں اسی سے واپس چلا جائوں گا(2)۔
جس وقت عمر بن سعد کا قاصد واپس گیا اوراس کو اس بات کی خبر دی تو ابن سعد نے کہا : مجھے امید ہے کہ خداوند عالم مجھے حسین سے جنگ کرنے سے چھٹکارا دلائے گا ،پھر اس نے ابن سعد کو امام علیہ السلام) کی اس بات سے آگاہ کیا ، لیکن اس نے جواب میں لکھا :
حسین بن علی (علیہما السلام) اور ان کے تمام اصحاب سے کہو کہ وہ یزید کی بیعت کریں اور اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ہم اپنا نظریہ لکھیں گے ...!
جب ابن زیاد کا خط ابن سعد کو ملا تو اس نے کہا : میرا خیال یہ ہے کہ عبیداللہ بن زیاد ، صلح نہیں چاہتا ۔
عمر بن زیاد نے عبیداللہ بن زیاد کا خط امام حسین (علیہ السلام) کے پاس بھیجا ۔
امام علیہ السلام) نے فرمایا :
«لا أُجیبُ اِبْنَ زِیادَ بِذلِکَ اَبَداً، فَهَلْ هُوَ إِلاَّ الْمَوْتَ، فَمَرْحَبَاً بِهِ»; ( میں ابن زیاد کے اس خط کا جواب ہرگز نہیں دوں گا ، کیا موت سے بڑھ کر کوئی انجام ہوسکتا ہے ؟ خوشابحال ایسی موت پر ! (3) ۔
امام حسین (علیہ السلام) نے عمر بن سعد کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے کہا کہ عمر بن سعد سے کہو کہ رات کے وقت دونوں فوجوں کے درمیان تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ، جب رات ہوگئی تو ابن سعد بیس لوگوں کے ساتھ اور امام حسین (علیہ السلام) بھی بیس اصحاب کے ساتھ مقررہ جگہ پر پہنچے ۔
امام علیہ السلام) نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ دوری پر کھڑے ہوجائیں اور صرف اپنے بھائی عباس اور بیٹے علی اکبر کو اپنے پاس رکھا ، اسی طرح عمر بن سعد نے بھی اپنے بیٹے حفص اور غلام کے علاوہ سب کو کچھ دوری پر کھڑے ہونے کا حکم دیا ۔
امام علیہ السلام نے کلام کو آغاز کیا اور فرمایا :
«وَیْلَکَ یَابْنَ سَعْد أَما تَتَّقِی اللّهَ الَّذِی إِلَیْهِ مَعادُکَ؟ أَتُقاتِلُنِی وَ أَنَا ابْنُ مَنْ عَلِمْتَ؟ ذَرْ هؤُلاءِ الْقَوْمَ وَ کُنْ مَعی، فَإِنَّهُ أَقْرَبُ لَکَ إِلَى اللّهِ تَعالى»; ( وائے ہو تجھ پر اے سعد کے بیٹے ! کیا تو اس خدا سے نہیں ڈرتا جس کی طرف تجھے پلٹ کر جانا ہے ؟ کیا تو مجھ سے جنگ کرتا ہے جبکہ تجھے معلوم ہے کہ میں کس کا بیٹا ہوں ؟ اس گروہ کوچھوڑ کر ہمارے پاس آجا تاکہ تو خدا سے نزدیک ہوجائے ۔
ابن سعد نے کہا : اگر میں اس گروہ سے جدا ہوجائوں تو مجھے ڈر ہے کہ یہ میرے گھر کو ویران کردیں گے ۔ امام علیہ السلام) نے فرمایا : ""انا ابنیھا لک"" میں اس گھر کو تیرے لئے بنائوں گا ۔ ابن سعد نے کہا : مجھے ڈر ہے کہ وہ میرے مال پر قبضہ نہ کرلے ۔ امام نے فرمایا :
""انا اُخلف علیک خیرا منھا من مالی بالحجاز"" میں حجاز میں اس سے بہتر مال اپنے مال سے تجھے عطا کروں گا ۔
ابن سعد نے کہا : مجھے اپنے خاندان کی جان کا خطرہ ہے (مجھے ڈر ہے کہ ابن زیاد ان کو تہہ تیغ کردے گا )۔
امام حسین (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ابن سعد اپنے ارادہ سے باز نہیں آرہا ہے تو خاموش ہوگئے اور کوئی جواب نہیں دیا اور اس کی طرف سے منہ موڑکر اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا :
«مالَکَ، ذَبَحَکَ اللّهُ عَلى فِراشِکَ عاجِلا، وَ لا غَفَرَ لَکَ یَوْمَ حَشْرِکَ، فَوَاللّهِ إِنِّی لاَرْجُوا أَلاّ تَأْکُلَ مِنْ بُرِّ الْعِراقِ إِلاّ یَسیراً»; (
تیرا کیا ہوگا اس وقت جب خدا بہت جلد تیرے بستر پر تیری روح کو نکال لے گا اور قیامت کے دن تجھے معاف نہیں کرے گا ، خدا کی قسم ! مجھے امید ہے کہ تو عراق کے گہیوں تجھے نصیب نہیں ہوں گے مگر بہت کم مقدار میں ۔
ابن سعد نے مزاق اڑاتے ہوئے گستاخی کی : ""وفی الشعیر کفایة عن البر"" ۔ عراق کے جو میرے لئے کافی ہیں (4) ۔
امام علیہ السلام نے ہر قدم پر اتمام حجت کی تاکہ کوئی بھی شخص بے خبری کا دعوی نہ کرسکے ۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ دشمن کے لشکر کا سردار بھی امام کی حقانیت اور امام کے دشمن کے ناحق ہونے کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے عذر میں صرف ان کی بے رحمی اور قساوت کو بیان کرتا ہے اور یہ بہت اچھا اعتراف ہے !
دوسری طرف امام ہر طرف سے جنگ کی آگ کو خاموش کرنا چاہتے ہیں اور دشمن ہر طرف سے جنگ کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کررہا ہے ، اس بات سے بے خبر کہ یہ آگ جلنے کے بعد شعلہ ور ہوجائے گی اور بنی امیہ کی پوری حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی (5) ۔
(1) . تاریخ طبرى، ج 4، ص 311 ; ارشاد مفید، ص 435 و بحارالانوار، ج 44، ص 383.
(2) . مقتل الحسین خوارزمى، ج 1، ص 241.
(3) . اخبار الطوال، ص 253.
(4) . فتوح ابن اعثم، ج 5، ص 164-166 و بحارالانوار، ج 44، ص 388-389.
(5) . گرد آوری از کتاب: عاشورا ریشه ها، انگیزه ها، رویدادها، پیامدها، زیر نظر آیت الله مکارم شیرازی، ص 386.
بشکریہ::::::::::::::http://makarem.ir/Maaref/?typeinfo=25&lid=4&mid=317789&catid=29118&start...

Add new comment