حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت

کیا واقعاً مأمون اس قدر باپ سے محبت کرتا تھا کہ اس بُحرانی صورتحال میں ہارون کی قبر کے پاس ٹھہرنا اس کیلیے اہمیت رکھتا تھا،یا مثلاً وہ چاہتا تھا کہ باپ کی پوسیدہ ہڈیوں اور اس کے پر برکت نفس سے مدد لے اور اپنے معنوی استحکام کا ذخیرہ بنائے تاکہ بغداد سفر کر

مأمون ملعون مرو سے سرخس اور سرخس سے طوس آتا ہے تاکہ وہاں سے بغداد کا راہی ہوسکے لیکن کچھ عرصہ طوس میں قیام کرتا ہے۔
طبرسی لکھتا ہے:’’مأمون نے کچھ عرصہ اپنے باپ ہارون کی قبر کے پاس قیام کیا،علی ابن موسيٰ نے انگور بہت زیادہ کھالیے اور اچانک فوت ہوگئے‘‘۔
طبرسی جس کا ہنر فقط تاریخی روایتیں جمع کرنا ہے اور معمولاً مسائل کے تحلیل و تجزیہ سے عاجز و ناتوان رہتا ہے؛انتہائی نامہربانی اور ظالمانہ انداز و بینش سے شیعوں کے آئمہ علیہم السلام کی مبارک زندگیوں کی تاریخ کو دیکھتا اور پیش کرتا ہے جیسا کہ اسی مختصر سی عبارت میں جو اظہار کررہا ہے، ایک معمولی سیاسی معلومات رکھنے والا شخص بھی یہ عبارت پڑھ کر متوجہ ہوجاتا ہے کہ یہ مؤرّخ یا تو بہت سادہ اندیش و سادہ لوح ہے اور یا پھر اس کی عبارت کسی اور منفی غرض و غایت کی ترجمانی کررہی ہے بہرحال طبرسی کی یہ فکر اور عبارت قابل مذمت ہیں۔
آئیں ایک مختصر تحلیل میں طبرسی کی عبارت کا جائزہ لیتے ہیں:
کیا واقعاً مأمون اس قدر باپ سے محبت کرتا تھا کہ اس بُحرانی صورتحال میں ہارون کی قبر کے پاس ٹھہرنا اس کیلیے اہمیت رکھتا تھا،یا مثلاً وہ چاہتا تھا کہ باپ کی پوسیدہ ہڈیوں اور اس کے پر برکت نفس سے مدد لے اور اپنے معنوی استحکام کا ذخیرہ بنائے تاکہ بغداد سفر کر کے وہاں کے مخدوش حالات پر قابو پاسکے! اور کیا انہیں دنوں میں اتفاقاً علی بن موسيٰ (امام رضا علیہ السلام)وہ مردِ خدا کہ جس نے اپنے زمانے کے تمام معروف ترین علماء و متکلمین کو ہر علمی میدان میں مغلوب کر کے ثابت کردیا تھا کہ عالمِ آل محمد کس کو کہتے ہیں اور سب لوگ حضرت کو اس زمانے کی زاہد ترین ،حکیم ترین اور قابلِ قبول ترین بزرگوار شخصیت کے عنوان سے جاننے پہچاننے لگے تھے؛وہ (نعوذ باللہ من ذلک طبرسی کے مذموم اظہار کے مطابق)ایک ناسمجھ بچے یا ایک پر خور شخص کی طرح انگور کھانے میں اس قدر زیادہ روی کریں کہ حتی اچانک اسی وجہ سے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیں !!!
اس طرح کی عبارات پڑھنے والے کو کیا خبر کہ تاریخ میں ایسی تعبیریں مأمون جیسے حکمران کی سیاست بازی کا نقطۂ عروج ہیں یا مغرض مؤرخین کی کجرویوں اور ستم ظریفیوں پر دلالت کررہی ہیں جن کے نزدیک مأمون کو بے گناہ ظاہر کرنے کی اہمیت ایک حقیقت و واقعیت کے صحیح بیان سے کہیں زیادہ ہے،البتہ یہ دونوں چیزیں درست ہوسکتی ہیں۔
طبرسی اسی تسلسل میں مزید لکھتا ہے:’’مأمون نے علی بن موسيٰ کی رحلت کے بعد حسن بن سہل کے نام ایک خط میں امام کی وفات کی مناسبت سے اپنے شدید غم و اندوہ کا اظہار کیا اور پھر عباسیوں،عہدیداروں اور بغدادوالوں کو بھی خط لکھے جن میں آنحضرت کی رحلت کی ان سب کو اطلاع دی‘‘۔
ان ظاہراً ٹوٹے پھوٹے اور نامربوط جملات میں مأمون کے اہداف کی گہری ترجمانی دیکھنے میں آرہی ہے کیونکہ وہ بغداد کی طرف سفر کرنے سے پہلے اس کوشش میں ہے کہ بغداد میں حالات خراب کرنے والے عناصر کو تسکین خاطر دے سکے اور انہیں مطمئن کر کے اعتماد میں لے سکے اور پھر یہ امر بھی خلیفہ کی ظاہری خوشی کا باعث بنا کہ حسن بن سہل جیسا با اثر شخص جو اپنے بھائی کے قتل کا ذمہ دار خلیفہ کو ٹہرپاسکتا تھا اور اس بہانے سے انتقام لے سکتا تھا،وہ اسی سال جنون کی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کو زنجیروں میں جکڑدیا جاتا ہے اور اس طرح سے مأمون کے بغداد کو سفر اور حالات پر قابو پالینے کا میدان ہموار ہو جاتا ہے۔

غریب الغرباء حضرت امام علی ابن موسيٰ الرضا علیہ السلام کی شہادت
حضرت امام موسيٰ بن جعفر الکاظم علیہ السلام طولانی زندانوں اور شدید ترین شکنجوں کے اثر سے سندی بن شاہک ملعون کے زندان میں شہید ہوئے اور ظالم و جابر خلیفہ ہارون کوشش کررہا تھا کہ اس معصوم امام علیہ السلام کی مظلومانہ و مسمومانہ شہادت کو طبیعی موت کا رنگ دے سکے،ظالم و ستمگر باپ کےراستے کا راہی مأمون خلیفہ بھی اپنے باپ کی روش پر چلتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اتنے سنگین ظلم کو چھپانے میں کامیاب ہوسکے اور یہ ظاہر کرسکے کہ ولی عہد طبیعی موت مرے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بعض چاپلوس تاریخ دان(طبری جیسے)انگور کھانے کو،بعض طبیعی موت کو اور بعض عباسیوں کی سازشوں اور بدخواہیوں کو غریب امام علیہ السلام کی شہادت کے اسباب رقم کرتے ہیں اور ایک گروہ جو اس غریب امام کا خالص ماننے والا گروہ’’شیعہ‘‘ہے اس کا فیصلہ اور قضاوت یہ ہے کہ براہ راست خود مأمون نے حضرت کو مسموم کر کے شہید کیا۔
پہلا نظریہ بالکل وزن نہیں رکھتا اور اس میں کوشش کی گئی ہے کہ مأمون ملعون کے جرم و جنایت کو چھپانے کے ساتھ ساتھ ایک معصوم امام اور حجتِ خدا کی معنوی و خدائی شخصیت کو بھی مخدوش کر دیا جائے۔اگر ایک عمومی و معمولی لیکن غیر متعصب نگاہ سے بھی اس مسئلہ کی چھان بین کی جائے تو یہ بات حقیقت و انصاف سے کوسوں فاصلوں پر نظر آتی ہے
کہ ایک ایسی مشہور و معروف شخصیت جو خود حکمت وطب کے میدان میں یگانہ ٔروزگار ہو،زمانے بھر میں اُن کے برابر کوئی حکیم وطبیب نہیں ملتا،عقل وفہم میں جن کا ثانی سننے اور دیکھنے میں نہیں آتا ،زہد میں اپنی مثال آپ ہیں،حفظان صحت کے اصولوں کا جہاں تک تعلق ہے اور تو اور خلیفۂ وقت کو بھی اِن اصولوں کی تعلیم دیتے نظر آتے ہیں،کیا ایسے دینی دہنما اور دنیوی اور دینی مشکل کشا کے بارے میں یوں ڈھیلی،غیر سنجیدہ اور غیر نپی تلی بات یا تبصرہ خود اُس بات کرنے والے یا مبصّر کی کسی حقیقت کا پول کھول دینے کے لیے کافی نہیں ہے؟انصاف سے دیکھا جائے کہ جو شخصیت خود حکیم ہو،دوسروں کو صحت و سلامتی اور تندرستی کے سنہرے اصولوں کی تعلیم دے کیسے ممکن ہے کہ وہ خود ابتدائی اصولوں پر بھی کار بند نہ ہو،ظاہر ہے کہ ایسا اظہار جہالت و نادانی،لالچ و غرض یا دشمنی و عداوت۔۔۔۔کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے۔
کیا اوٹ پٹانگ اظہارنظر کرنے والوں کے علم میں’’رسالہ ٔذھبیہ‘‘جیسی نفیس حقیقت نہیں ہے کہ جس میں حکیمِ الہٰی اور ماہر و حاذق طبیب مأمون کو تحریر فرماتے ہیں:’’اے مأمون! جسم ایسی زمین کی مثل ہے جس کی آبادی کے لیے بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے،اگر اسے حد سے زیادہ پانی مل جائے تو اس کی فصل خراب ہو جاتی ہے اور اگر بالکل پانی نہ ملے تو وہ پیاس سے ناکارہ و بیکار ہو جاتی ہے۔۔۔۔سزاوار ہے اچھی طرح دیکھو،غور و فکر کرو کہ کون سی چیز تمہاری طبیعت کے ساتھ سازگار اور اس کی تقویت کی باعث ہے؟اور کون سی چیز اس کے لیے نقصان دہ اور تمہاری سلامتی و تندرستی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے پس کھانے پینے کی چیزوں میں ہمیشہ ایک خاص حد مدنظر رہنی چاہیے۔۔۔۔سیر ہونے(پیٹ بھرنے)سے پہلے کھانے سے ہاتھ کھینچ لو کہ ایسا کرنا تمہارے جسم اور صحت و تندرستی کے لیے مفید اور تمہاری عقلی رشد و پرورش کا سبب ہے‘‘۔
طبرسی کی ایسی گستاخی اور جسارت اگر ایک عام عالم کے بارے میں ہوتی تو پھر بھی قابل اغماض نہیں تھی جبکہ وہ عالمِ آل محمد علیہم السلام کے حضور جسارت کا مرتکب ہوا ہے۔
بعض تاریخ نگاروں جیسے ابن جوزی،احمد امین، یعقوبی،۔۔۔نے اپنی تحریروں میں یہ ظاہر کیا ہے کہ’’امام علیہ السلام بیمار ہوگئے اور اس بیماری کے اثر سے طوس میں طبیعی طور پر وفات پاگئے لیکن انھیں مسموم کرنے والی بات درست نہیں ہے ‘‘۔
ابن جوزی لکھتا ہے:’’بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ مأمون نے علی ابن موسيٰ الرضا(ع)کو مسموم کیا،لیکن یہ عقیدہ قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ خلیفہ تو امام کی رحلت کی وجہ سے بہت پریشان ہوا اور چند دنوں تک کھانے پینے کی چیزوں اور انواع و اقسام کی لذتوں کے نزدیک نہیں گیا یہاں تک کہ بغداد داخل ہوتے وقت سبز لباس پہنے ہوئے تھا حالانکہ اُس وقت امام کی رحلت کے ماجرے کو ایک سال کا عرصہ گذر رہا تھا۔ امام کی رحلت طوس میں بیمار ہو جانے کی وجہ سے ہوئی‘‘۔
احمد امین نے لکھا ہے :’’میرے گمان (خیال) میں عبد اللہ مأمون اپنے کام میں مخلص تھا لیکن تقدیر اس طرح سے تھی کہ حضرت تین دن بیمار رہنے کی وجہ سے رحلت کر جائیں‘‘۔ پھر مزید لکھتا ہے’’اگرچہ شیعہ تاریخ نویسوں نے دعويٰ کیا ہے کہ مأمون نے ولایتعہدی کے نتائج سے ناراض ہونے کی وجہ سے حضرت کو مسموم کر دیا لیکن خلیفہ کے بہت پریشان ہونے کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ اُس نے یہ کام انجام دیا ہو،جبکہ بغداد میں داخل ہوتے ہوئے بھی مأمون نے سبز لباس پہنا ہوا تھا جو کہ علویوں کا شعار تھا،مأمون کے کہنے پر اُس کے فوجیوں اور درباریوں نے بھی سبز لباس پہنے ہوئے تھے اگرچہ کچھ عرصہ کے بعد عباسیوں کو اس روش سے ناراض ہوتا دیکھ کر اس میں تبدیلی کردی۔
بہرحال ان قرائن اور شواہد کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگر امام مسموم بھی ہوئے تھے تو مأمون کے علاوہ کسی اور نے مسموم کیا ہوگا‘‘۔
یعقوبی نے سال۲۰۳ہجری قمری کے حوادث و واقعات ذکر کرتے اور ان کی تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’علی ابن موسيٰ ابن جعفر نوقان نامی ایک دیہات میں رحلت پاگئے ان کی بیماری تین دن سے زیادہ نہیں رہی‘‘۔
صدیوں پہلے زندگی کرنے والے مؤرخوں کی سادہ اندیشی اور جمود غیر متوقع امر نہیں ہے لیکن احمد امین جیسے لکھاری سے کہ جس نے مستعمرات کی غارت پر اپنے زمانے میں استعمار کا گریہ دیکھا ہے؛یہ امر بہت عجیب ہے کہ مأمون کے فریب کارانہ اقدامات اور سیاسی غم و غصے کو تاریخی قضاوت و تحلیل کیلیے معیار و میزان قرار دے۔
ابن جوزی،یعقوبی اور احمد امین کے یہ تأثرات اُن کے اذہان و خیالات اور عقائد و نظریات کے حق و حقیقت سے دور ہونے اور عناد و بعض رکھنے پر دلالت کرتے ہیں۔
بہرحال آئمہ علیہم السلام کے عصر سے نزدیک کے علماء کے آثار میں غور و فکر کرنے اور مختلف و متعدد روایات پر توجہ کرتے ہوئے کہ جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے،ان کی روشنی میں مندرجہ بالا مؤرخین کا نظریہ مستند اور قابل قبول نہیں ہے لہٰذا وہ حقیقت جو حدیث شناسوں اور غیر متعصب تاریخ نگاروں کے نزدیک قابلِ قبول ہے اور روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں،یہی ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت مسموم (زہر بھرے)انگور یا انار کے ذریعے ہوئی۔
احمد امین حضرت کی طبیعی وفات کا قائل ہونے کے بعد لکھتا ہے:’’قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حضرت کو مسموم کیا گیا ہو ،مأمون کے علاوہ کسی اور فرد یا افراد کے ذریعے مسموم کیا گیا ہوگا‘‘۔
ایک اور تاریخ نویس نے خلیفہ کے مرو سے بغداد کے سفر کے حالات میں لکھا ہے:’’مأمون مروسے سرخس آیا اور وہاں فضل بن سہل کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قتل کی تدبیر میں خلیفہ کا ہاتھ تھا کیونکہ فضل نے خلیفہ کے ساتھ خیانت کی جس کی وجہ سے عباسیوں کی اس کے ساتھ دشمنی ہوگئی،وہ جانتا تھا کہ جب تک فضل زندہ ہے اُس وقت تک اُس کے عباسیوں کے ساتھ تعلقات اچھی طرح سے برقرار نہیں ہوسکتے لہٰذا اُس نے پلاننگ کے تحت فضل کو قتل کروادیا اور پھر اپنے آپ کو اس سلسلے میں بے گناہ اور بے اطلاع ظاہر اور ثابت کرنے کیلیے فضل کے بھائی حسن بن سہل کو فضل کے قتل کیس میں متہم کیے جانے والے چار افراد کے سر اُن کے تنوں سے جدا کر کے بھیج دیے اور ساتھ ہی اُس سے اظہار تسلیت کیا اور جب عید فطر کے دن بغداد کیلیے روانہ ہوا تو طوس میں ایک اور حادثہ رونما ہوا اور علی بن موسيٰ الرضا (علیہ السلام) رحلت پاگئے اور خلیفہ کو متہم کردیا گیا کہ اُس نے یہ قتل کروایا ہے‘‘۔
یہ تاریخ نگار مزید یوں لکھتا ہے :’’ہوسکتا ہے عباسیوں میں وہ گروہ جو مأمون کی حمایت و طرفداری کرتا تھا،اِس بناء پر کہ مأمون عباسیوں کے درمیان موجود تیزہ و تاریک تعلقات سے رنجیدہ خاطر تھا اور ان کے نظریے کے مطابق اس اختلاف کی وجہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولایتعہدی تھی،ان لوگوں نے امام کے قتل کا فیصلہ کیا ہو، تاکہ اس اقدام کے ساتھ تمام عباسیوں کے درمیان صلح برقرار ہوسکے،اسی بناء پر خلیفہ نے اپنا معروف رسالہ بغداد کے عباسیوں کیلیے لکھا اور خلافت کے مسئلہ کے بارے میں انہیں اطمینان دلایا‘‘۔
اس نظریے پر کوئی دلیل ،شہادت اور تاریخی سند موجود نہیں ہے مگر یہ کہ اربلی کی کلام میں اس طرح کا ایک اشارہ موجود ہے لیکن اس میں بھی ابہام پایا جاتاہے یعنی مطلب واضح نہیں ہوا ہے۔اس تاریخ نگار نے امام علیہ السلام کی شہادت کا احتمال قبول کیا ہے اگرچہ خلیفہ کو بے گناہ اور لا تعلق ظاہر کرنے میں اس نے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

مأمون ؛اصلی عنصر
گذشتہ مطالب کی روشنی میں اس نظریے کی تقویت ہوتی ہے کہ بہرحال حضرت امام رضا علیہ السلام نے طبیعی طور پر دنیا نہیں چھوڑی اور حضرت کی شہادت کا اصلی عنصر خود خلیفۂ وقت ’’مأمون‘‘ہی ہے۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں : ’’حق بات وہی ہے جس کا شیخ صدوق اور شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہما نے اظہار کیا ہے اور ہمارے بزرگان اسی عقیدے پر ہیں کہ ’’حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کا سبب مأمون کا دیا ہوا زہر تھا خداوند کی بے شمار لعنتیں مأمون اور دوسرے ظالم و غاصب حکمرانوں پر ہوں ’’۔
علامہ سید محسن امین حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں مختلف آراء و نظریات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ‘‘میرا نظریہ یہ ہے کہ اگرچہ طوس میں داخلے کے وقت امام علیہ السلام کی طبیعت قدرے سازگار نہیں تھی لیکن خلیفہ نے اس فرصت اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت کو مسموم کردیا کیونکہ خلیفہ کو معلوم ہوچکا تھا کہ بغداد میں ولایتعہدی کی خبر پھیلنے کے بعد اہل بغداد نے ابراہیم بن مہدی کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور اُس نےبھانپ لیا تھا کہ اس کی حکومت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اُس کی نظر میں فضل بن سہل اور اسی طرح امام علیہ السلام کاوجود حالات کے بہتر ہونے میں رکاوٹ ہے لہٰذا اُس نے فضل بن سہل کو قتل کروادیا اور کچھ مدت ہی گذرنے کے بعد امام علیہ السلام کو بھی زہر دے کر شہید کردیا اور اگر ہم (مثلاً)فرض کریں کہ امام علیہ السلام کی بیعت کے سلسلے میں حُسنِ نیت رکھتا تھا لیکن حکومت اور سلطنت کی حفاظت کا مسئلہ ایسا ہوتا ہے کہ اس راستے میں حکمران اپنے نزدیک ترین افراد کو بھی قتل کروادیتے ہیں،مأمون کو بھی اس صورتحال نے اُکسایا کہ اس معصوم امام علیہ السلام کو شہید کردے’’۔
اس بات کی حقیقت پر کہ امام علیہ السلام کی شہادت مأمون کے ہاتھوں ہوئی،شواہدو قرائن میں سے ایک اہم قرینہ یہ بھی ہے کہ شہادت کے اسی دن لوگوں نے اجتماع کیا اور سب کا عقیدہ یہی تھا کہ مأمون خلیفہ نے حضرت امام رضا علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کیا ہے۔
اس بات کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ امام علیہ السلام کے زمانے کے لوگ اسوقت کے حالات ،صورتحال اور مأمون کی سیاست کو دوسرے زمانوں کے لوگوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتے تھے لہٰذا جب وہ لوگ اس عقیدے پر تھے کہ امام علیہ السلام کو مسموم اور شہید کیا گیا ہے تو وہ ساری صورتحال کو مدنظر رکھے ہوئے تھے۔
اُنہیں دنوں میں عبداللہ بن موسيٰ نے مأمون کو خط لکھ کر بھیجا،اس میں خلیفہ کے اس اقدام کو وضاحت سے بیان کیا اور اسی کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
ابا صلت ہروی(صحابی) سے بھی جب سوال کیا گیا کہ مأمون کس طرح سے امام علیہ السلام کو شہید کرنے پر تیار ہو گیاجبکہ ظاہری طور پر تو وہ حضرت کا احترام کرتا تھا اور حضرت کو اپنے بعد ولیعہد بنا رہا تھا؟
ابا صلت نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام خود خلیفہ کے ہاتھوں شہید ہوئے؛اظہار کیا:’’اگر خلیفہ، امام علیہ السلام کا اکرام و احترام کرتا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ امام علیہ السلام کی برتری سے آگاہ تھا اور اس فضلیت کا اعتراف کرتا تھا اور اگرولایتعہدی کا منصب حضرت کے سپرد کرنا چاہتا تھا تو اس عمل کے ذریعے یہ دکھانا چاہتا تھا کہ (نعوذ باللہ من ذٰلک) حضرت دنیا طلب ہیں اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح لوگوں کی توجہات کا مرکز امام نہیں رہیں گے اور ان کی نظروں میں گر جائیں گے،اگرچہ ہرگز ایسا نہیں ہوا بلکہ علمی محافل کی تشکیل کے ساتھ امام علیہ السلام کا چہرہ مبارک اور علمی شخصیت کھل کر سب کے سامنے واضح ہو گئے۔ اور روز بروز خلیفہ کا مقام لوگوں کی نگاہوں میں گرتا جا رہا تھا اور اس مجموعی صورتحال کے پیش نظر دوست اور دشمن سب لوگ امام علیہ السلام کو خلافت کا حقدار جاننے لگے تھے،یہ حالات خلیفہ پر گران گذر رہے تھے، اُس کے دل میں حضرت کے بارے میں کنیہ وحسد میں اضافہ ہو گیا اور اُس نے سوچی سمجھی سازش کے تحت امام علیہ السلام کو مسموم کر کے شہید کر دیا’’۔
امام علیہ السلام کا مأمون ملعون کے ذریعے شہید ہونا ایک ایسی مظلومیت تھی جس کا اہل بیت علیہم السلام اور شیعہ تاریخ میں اضافہ ہوا ۔آزاد منش،حقیقت طلب اور حقیقت گو شعراء نے اس مظلومیت اور مصیبت کو اپنی مرثیہ نگاری اور حماسی ادبیات کا ہمیشہ یاد رہنے والا حصہ بنالیا۔
انکار کرنے والے مٹائیں گے کس طرح
تاریخ کے افق پہ طلوع و غروب ہے
تاریخی منابع میں ایسے قیام بھی ذکر ہوئے ہیں جو حضرت امام رضا علیہ السلام کی مظلومانہ و مسمومانہ شہادت کے بعد اس غریب الغرباء امام علیہ السلام کی خونخواہی کے عنوان سے سامنے آئے۔
احمد بن موسيٰ ،حضرت کے ایک بھائی ہیں،تین ہزار(۳۰۰۰)افراد یا ایک اور نقل کے مطابق بارہ ہزار(۱۲۰۰۰) افراد کی ہمراہی میں بغداد سے باہر نکلتے ہیں اور شیراز میں عباسی حکومت کے منتخب گورنر کے ساتھ باقاعدہ جنگ شروع کردیتے ہیں اور اسی کاروائی میں وہ اور ان کے ایک بھائی ‘‘محمد عابد’’اس دیار میں شہادت کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

روایات کی روشنی میں حضرت غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت
اس موضوع کی روایات کی طرف رجوع کرنے سے جو کہ تاریخ کے اہم منابع و مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں اور تاریخی مستندات کی حیثیت رکھتی ہیں،غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بہت اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ان روایات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)وہ روایات جو معصومین (حضرت پیغمبرِ اسلام اور آئمہ) علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔ 
(۲)وہ روایات جو خود حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہیں۔
(۳)وہ روایات جو قابل اعتماد عینی شاہدوں کی زبانی امام علیہ السلام کی شہادت کی کیفیت او ر تفصیلات کے بارے میں تاریخ میں محفوظ ہیں۔
بعض روایات ملاحظہ ہوں:
حضرت امام صادق علیہ السلام سے ابو بصیر نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا:ایک دن میرے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبد اللہ انصاری کو بلایا اور فرمایا:
’’یا جابر!اَخبِرنی عَنِ اللَّوحِ الَّذِی رَأَیتَہ فی يَدِ امّی فَاطِمَۃ‘‘۔
اے جابر! اُس لوح کے بارے میں مجھے بتاؤ جو تم نے میری ماں فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے دستِ مبارک میں دیکھی۔
جابر نے کہا:حضرت امام حسین بن علی(علیہما السلام) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد عرض کرنے کیلیے آپ کی ماں فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کی خدمت میں حاضر ہوا،حضرت کے دست مبارک میں سبز رنگ کی ایک لوح دیکھی جو زمرّد سے بنی ہوئی لگ رہی تھی،میں نے اُس لوح کے بارےمیں حضرت سے سوال کیا،انہوں نے میرے جواب میں فرمایا:یہ لوح خداوند متعال کی طرف سے میرے والد بزرگوار کیلیے ہدیہ ہے جس میں میرے والد بزرگوار،شوہر نامدار اور میری اولاد سے آنے والے آئمہ(علیہم السلام)کے اسماء گرامی تحریر ہیں۔ میرے والد بزرگوار نے مجھے خوش کرنے کیلیے بشارت کے طور پر یہ لوح مجھے دی ہے،اس لوح کے ایک حصے کی تحریر میں جو آٹھویں امام علیہ السلام سے متعلق ہے،یوں ذکر ہے:
’’یقتلہ عفریت مستکبر‘‘یعنی اُنہیں ایک قدرت طلب و مستکبر عفریت شہید کرے گا۔
طریحی نے مادۂ ’’حفد‘‘کے تحت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:’’تُقتَلُ حفدتی بِاَرض خُراسان‘‘یعنی’’میری نسل سے ایک میرا فرزند خراسان میں شہید کیا جائے گا‘‘۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ فرمایا:’’میرے فرزند موسيٰ کاظم(علیہ السلام) کی نسل سے ایک فرزند دنیا میں آئیں گے،جنہیں خراسان جانا پڑے گا،وہ وہیں مسموم ہوکر شہید ہوں گے‘‘۔
حضرت امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ فرمایا:’’خدا کی قسم ہم سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو شہادت کے بغیر دنیا سے جائے‘‘حضرت سے سوال کیا گیا:آپ کو کون شہید کرے گا؟امام علیہ السلام نے فرمایا:‘‘میرے زمانے کا بدترین شخص مجھے زہر دے کر شہید کرے گا‘‘۔
حضرت امام رضا علیہ السلام اور مأمون خلیفہ کے درمیان ولایتعہدی کے مسئلہ پر ہونے والی گفتگو کے دوران ولایتعہدی کو قبول نہ فرمانے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ فرمایا’’میرے والد بزرگوار نے اپنے والد بزرگوار اور اجداد گرامی سے نقل فرمایا ہے کہ ہمارے جد بزرگوار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے بارے میں جو فرمایا ہے اس کی روشنی میں اے مامون!میں تمہارے مرنے سے پہلے مظلومیت کی حالت میں زہر سے شہید ہو جاؤں گااور اگر مجھے اجازت ہوتی تو میں یہ بھی بتادیتا کہ میرا قاتل کون ہے‘‘
آخر ی دفعہ جب امام علیہ السلام نے اپنی شہادت کے بارے میں خود گفتگو کی،وہ شہید ہونے سے کچھ دیر پہلے تھی کہ اپنے دو مَحرَمِ اَسرار اصحاب’’اَبا صَلت ھروی اور ھرثمہ بن اَعيُن‘‘کے سامنے فرمایا’’اِس وقت میراخداوندمتعال کی طرف واپس لوٹنے کا موقع آن پہنچاہے،اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں اپنے جدبزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اجداد گرامی کی خدمت میں پہنچوں،میری زندگی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے،اس طاغوت (سرکش خلیفہ)نے ارادہ کرلیا ہے کہ مجھے زہرآلود انگور اور انار کے ذریعے شہید کردے‘‘
ابونو اس نے اپنے قصیدے میں یوں تذکرہ کیا ہے:
باؤا بقتل الرضا من بعد بیعتہ
وابصروابعضھم من رشدھم وعموا
عصابۃ شقیت من بعد ما سعدوا
ومعشرھلکوا من بعد ما سلموا
یعنی بعض لوگوں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی بیعت کے بعد حضرت کو شہید کرنے میں جلد بازی کی اور بصیرت و آگاہی کے بعد دل کے اندھے ہوگئے،ایسے لوگ جو خوشبختی کے بعد بدبختی کا شکار ہو گئے ،ایسی جماعت جو سلامتی کے بعد ہلاکت و نابودی کی لپیٹ میں آگئی!!
مشہور شاعر دعبل نے بھی اس سواگواری کی اپنے اشعار میں یوں عکاسی کی ہے:
الا ما لعین بالدّموع استھلت
ولو نفرت ماء الشؤون لقلت
عليٰ من بکتہ الارض و استرجعت لہ
رؤوس الجبال الشامخات و ذلت
وقد اعولت تبکی السماء لفقدہ
وانجمھا ناحت علیہ وکلت
فنحن علیہ الیوم اجدد بالبکاء
لمرزئہ عزت علینا وجلت
رزئنا رضی اللہ سبط نبيّنا
فاخلفت الدنیا لہ و تولت
وما خیر دنیا بعد آل محمّد
الا لابتالیھا اذا ما اضمحلت
یعنی:یہ کیا وجہ ہے کہ آنکھیں کم کم برس رہی ہیں اور تھوڑا تھوڑا رو رہی ہیں جبکہ (اس جانسوز حادثے پر)اگر آنکھوں کے اشک ختم ہو جائیں اور آنسو بہتے بہتے خشک ہو جائیں تو پھر بھی کم ہے۔ایسی ہستی کی مصیبت پر کہ جس پر زمین نے گریہ کیا اور بلند و بالا پہاڑوں نے اس کے سوگ میں آہ و فغاں کیا،آسمانوں نے جس کے فراق میں عزاداری کی اور ستاروں نے نوحے پڑھے اب شائستہ تر یہی ہے کہ ہم اس پر روئیں کیونکہ ہم پر بہت بڑے مصائب آپڑے ہیں،سبطِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی بہت بُری مصیبت ہے،ایسی مصیبت جو نہ ہم پر بلکہ تمام اہل عالم پر بہت سخت ہے اب خاندانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقدان اور جدائی کے بعد دنیا اور اس کی زندگی میں خیر و برکت نہیں ہے،اب خوشی کی کوئی بات نہیں رہی اور دنیا میں زندہ رہنے کی ہماری اب کوئی آرزوباقی نہیں رہی۔

تاریخ شہادت
غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کے سالِ شہادت کے معيّن ہونے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں ایک قول کے مطابق ۲۰۲ ہجری قمری اور ایک دوسرے قول کی رو سے سالِ شہادت ۲۰۳ ہجری قمری ہے۔
ان دونوں نظریوں یا اقوال میں سے دوسرا نظریہ یا قول صاحب نظر اہل علم کے ہاں زیادہ شہرت رکھتا ہے یعنی مشہور قول کے مطابق حضرت کا سالِ شہادت ۲۰۳ ھ۔ق ہے ۔شیخ کلینيؒ نے اسی قول کو درست شمار کیا ہے اور مسعودی نے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔
بعض معاصر تاریخ نگاروں نے حضرت کا سال شہادت ۲۰۴ ھ۔ق خیال کیا ہے،ان کے اس قول کی دلیل ان کے نزدیک یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے اسم مبارک کے سكّوں پر یہ سال درج ہے لہٰذا سالِ شہادت یہی ہے لیکن جیسا کہ علامہ سید محسن امین نے ذکر کیا ہے کہ سكّوں پر یہ تاریخ درج ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ یہ سکے حضرت امام رضا علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں ہی بنے ہوں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں نے امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد بطورِ تبرک بنائے ہوں۔
حضرت امام رضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء کی تاریخ شہادت کے بارے میں بھی اتفاق نظر نہیں بلکہ تاریخ کی ورق گرادانی سے متعدد تاریخیں ملتی ہیں؛ملاحظہ فرمائیں:
۲۳ذیعقدہ 
ذی الحج کی آخری تاریخ 
یکم صفر
۱۷ صفر صفر کی آخری تاریخ
مندرجہ بالا منقولہ تاریخوں میں مشہور ترین اور قابلِ اعتماد ترین تاریخ شہادت یہی آخری نقل یعنی ماہِ صفر المظفر کی آخری تاریخ ہے اور یوم شہادت کے لحاظ سے اکثر تاریخوں میں جمعہ کا دن مولا غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت کا دن لکھا گیا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ حضرت کی تاریخ شہادت کے بارے میں قابل قبول قول ماہ صفر کی آخری تاریخ۲۰۳ھ۔ق اور یوم شہادت کے لحاظ سے جمعہ کا دن ہے۔
شہادت کے وقت حضرت امام ہشتم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ۵۵ برس تھی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی جائے شہادت اور آرامگاہ
غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام ایران۔خراسان۔ کے طوس شہر میں شہید ہوئے اور جیسا کہ خود حضرت نے پیش گوئی اور وصیت فرمائی تھی،اس کے مطابق حضرت کو سناباد(محلہ)کی ایک مشخص جگہ پر دفن کیا گیا یہ مقام بعد میں مشہد الرضا علیہ السلام کے نام سے معروف ہوگیا۔
گویا مقدر اسی طرح سے تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریتِ طاہرہ اور پاک و پاکیزہ نسل سے اور اسی طرح بارہ معصوم و منصوص آئمہ علیہم السلام میں سے ایک امام عالیمقام علیہ السلام’’مدینۃ الرسول‘‘(ص) سے بہت دور ایک سرزمین (خراسان۔ طوس۔ سناباد)کے صدف میں گوہر تابناک بنے،اور اس غریب الوطنی میں مسموم ہوکر شہادت پائے اور پھر اس کی ملکوتی بارگاہ اور نورانی مرقد سےجہان بھر کی کروڑوں توحید پرست عاشقوں کے دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کوثرِ ولایت کی طرف کھینچے اور وہ بارگاہ اہل محبت و لایت کی وسیع سرزمین میں تھکے ہارے دلوں کی ڈھارس اور ہر بے پناہ آہو کی محکم پناہ گاہ ثابت ہو،ایسے آہو جو گناہ و معصیت کے صیادوں کے ہاتھوں سے فرار کرتے ہوئے وليِ خدا کے امن بخش دامن میں آنا چاہیں؛ان کیلیے ہمیشہ ہمیشہ تسکینِ دل فراہم کرتے ہوئے‘‘ضامنِ آہو’’ ثابت ہوتا رہے۔
سلام ہوں اُس ہستی پر جب اُس کے نور کا ہم خاکیوں کی نجات کیلیے ظہور ہوا،اور جب مظلومیت و غریب الوطنی کے عالم میں اپنے خاندان سے کوسوں دور مسموم ہو کر شہادت پائی،اور جب انتہائی عظمت،شکوہ اور جلالت کے ساتھ دوبارہ حکمِ خدا سے زمین کو منوّر کرے اور آفتاب عالم تاب بن کر اپنے شیعوں کی جانوں اور دلوں کو اپنے نورِ ولایت و رأفت سے گرمائے ،اس معصوم، مظلوم اور مسموم ہستی پر ہر چاہنے والے کی ہرسانس کی تعداد سے کئی گنا لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔
اسلامی فرقوں میں سے بعض اس بات کے معقتد ہیں کہ حکمرانوں کی اطاعت واجب ہے،کسی طور بھی ان سے مخالفت ہرگز جائز اور درست نہیں ہے اور اسی طرح ان کے خلاف قیام کرنا بھی صحیح نہیں ہے،ان فرقوں کے نزدیک حکمران کی خصوصات مہم نہیں ہیں یعنی ان کے نزدیک حاکم چاہے جیسا بھی ہو لیکن اس کی اطاعت ضروری اور واجب ہے؛اگرچہ بڑے بڑے گناہوں میں بھی مبتلا ہو یا مقدّسات کی ہتكِ حرمت بھی کرتا ہو(نعوذ باللہ من ذلک)اس عقیدے کا مطلب یہ بھی ہے کہ حاکمِ وقت اگرچہ اولادِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کسی بے گناہ کو بھی قتل کردے تو پھر بھی چونکہ حکمران ہے لہٰذا اس کی اطاعت واجب اور اس حکم سے سرپیچی حرام ہے۔اسلامی فرقوں میں سے بعض جیسے اہلِ حدیث،اہلسنت حضرات خواہ امام اشعری سے پہلے والے ہوں یا بعد والے،سب اس عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور ان کے امام اشعری کا بھی یہی نظریہ و عقیدہ تھا۔
اپنے اس نظریے و عقیدے کی تائید میں یہ لوگ چند احادیث سے تمسک کرتے ہیں جن کی نسبت پیغمبر اکرم (ص) کی طرف دیتے ہیں لیکن ان لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف نہیں ہے کہ ایسا سست عقیدہ نہ فقط قرآن مجید کی واضح و صریح نص کے خلاف ہے بلکہ عقل اور وجدان بھی ایسے نظریے کی مذمت کرتے ہیں۔
اس عقیدے کا گہرا اثر ان کے تاریخ نگاروں اور حتی ٰعلماء و فقہاء پر بھی نظر آتا ہے کہ جو اس عقیدے کو درست اور قابل قبول قرار دینے کی وجہ سے اپنے آپ کو اس بات کیلیے مجبور سمجھتے تھے اور اپنے اوپر ضروری جانتے تھے کہ حکمرانوں کی جنایتوں،جرائم اور لغزشوں پر پردہ ڈالیں اور چھپادیں یا ان کی توجیہ و تأویل کرنے کی کوشش کریں۔
ان حکمرانوں کی ایک پالیسی یہ تھی کہ اس عقیدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جرائم کے باوجود اپنے آپ کو گناہکار ظاہر نہ ہونے دیں لہٰذا ان کی خواہش یہی رہی کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں موجودہ حقائق کو لوگوں کی نظروں کے سامنے جلوہ گرنہ ہونے دیں یا ان حوادث و واقعات کو ایسے انداز میں بیان کریں کہ وہ لوگوں کے سامنے مجرم ثابت نہ ہوتے ہوں اور افسوس کی بات کہ اس بارے میں ان کے علماء اہل قلم اور تاریخ نگاروں نے بھی کسی بھی کوشش میں کمی نہیں آنے دی اور حاکمِ وقت کے ارادے کو جاری ونافذ کرنے کیلیے ہر ممکنہ کوشش کرتے رہے کیونکہ ان کے اپنے خود ساختہ اور مَن گھڑت عقیدے کی رو سے حاکمِ وقت کا ارادہ،(نعوذ باللہ) خداوندمتعال کا ارادہ ہے،یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ تاریخی کتب میں نہ فقط یہ کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام کے حالاتِ زندگی دیکھنے میں نہیں آتے بلکہ ان برحق ہادیوں اور پیشواؤں کے نام نامی بھی نظر نہیں آتے۔
اکثر تاریخی کتب میں آئمۂ ہديٰ علیہم السلام کے نام نامی ذکر نہ ہونے کی دلیل اور وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ آئمہ مثلاً گمنام یا غیر معروف افراد تھے یالوگوں کی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ ہستیاں دوستوں اورتمام لوگوں میں نہایت مشہور و معروف تھے،دوستوں میں عقیدت،ارادت اور شدید چاہت کی بناء پراور دشمنوں میں بغض و عداوت اور حسادت کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے جیسا کہ یہ تاریخی عمل آج بھی قابل مشاہدہ ہے اور شروع سے اسی طرح رہا ہے اور یہ بھی عالمی اور تاریخی حقائق میں سے ہےکہ جس دور میں بھی دشمنوں کی دشمنی اور عداوت میں اضا فہ ہوا ۔ بلا فاصلہ چاہنے والوں کی قلبی چاہتیں بھی جوش میں آنے لگیں ۔ جیسا کہ بعض محدود تاریخوں میں یہ حقائق سینہ تاریخ پر ثبت وضبط بھی ہیں لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اکثر تاریخی کتب اس بارے میں ساکت اور گنگ نظر آتی ہیں جبکہ با لکل بے اہمیت مطالب و واقعات سے یہی تاریخی کتب بھری پڑی ہیں ۔ گا نے اورناچنے والی عورتوں کے بارے میں کس قدر قصے ،داستانیں اور واقعات تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں اسی طر ح ڈاکووں اور راہزنوں وغیرہ کی کہانیاں بھی کثرت سے تاریخی کتا بوں میں موجود ہیں۔
من گھڑت عقیدے کی پاسداری و پر ستش کرنے والے تاریخ نگاروں کے نزدیک یہ تلخ حقیقت خیانت شمار نہیں ہوتی اگرچہ ایسے تاریخ نگار آئندہ نسلوں کے سامنے اور وجدانوں کی عدالتوں میں بھی خائن قرارپاتے ہیں۔ جو امانت کابار ان کے کندھوں پر تھا انہوں نے تاریخ نگار ہونے کے ناطے وہ تاریخی اوراق کے حوالے نہیں کیا اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔
ایسے احوال و اوضاع میں آئمۂ ہدایت علیہم السلام سے متعلقہ حقائق ذکر کرنے کیلیے شیعیان اہلبیت کے پاس زیادہ سہولیات نہیں تھیں کیونکہ ہمیشہ ظالم و جابر غیر شیعہ حکمران ان پر سختی کرتے تھے،کڑی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور ان کی جانیں ہمیشہ خطرات میں رہی ہیں۔
یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر صورتحال اس طرح سے ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ صاحبانِ حکومت خلفاء ’’علماء کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتے تھے؟‘‘کیا وجہ تھی کہ وہ علماء کو دور ترین نقاط سے بھی مدعو کرکے اپنے نزدیک لے آتے تھے،کیا یہ بات عجیب نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایسے نام نہاد خلفاء اہل بیتِ رسالت علیہم السلام کے مقابلے میں معاندانہ موقف و کردار اپناتے ہوں اور دوسری طرف علماء دین کو اپنے قریب بلا کر رکھتے ہوں؟؟۔
اس سوال کا جواب واضح ہے حقائق کی روشنی میں دی گئی وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں:
۱:صاحبان حکومت خلفاء کی آئمۂ اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ دشمنی اور برے سلوک کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود اس بات کی طرف متوجہ تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال کی جانب سے حکومت و حکمرانی کا حق آئمہ ہديٰ علیہم السلام کو ہے لہٰذا ان کی بھرپور کوشش یہی ہوتی تھی کہ ان حقیقی حکمرانوں کا کسی طرح سے بھی خاتمہ کرسکیں تاکہ یہ حق انہیں نہ مل پائے بلکہ پائمال ہوتا رہے اور نتیجے میں ان کی غاصبانہ حکومت و حکمرانی باقی رہے۔
۲:آئمہ اہلبیت علیہم السلام ایسے حکمرانوں کی ہرگز تائید نہیں فرماتے تھے اور کبھی بھی ان کے کردار و عمل سے خوشنودی اور رضایت کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔
۳:آئمہ علیہم السلام اپنے اسوۂ حسنہ،قابل تقلید شخصیت اور بہترین و عمدہ ترین کردار کی بنیاد پرنام نہاد خلفاء اور ان کی غاصبانہ حکومتوں اور طاقتوں کے مقابلے میں سب سے بڑا خطرہ شمار اور ثابت ہوتے تھے۔
ان وجوہات کی بناء پر وہ حکمران ایسے علماء کی اس قدرتشویق کیا کرتے تھے تاکہ اپنے معین سیاسی اہداف حاصل کرتے رہیں اور علماء کی مخالفت کی فضاء میں ان اہداف کے حصول سے ہاتھ دھونہ بیٹھیں،البتہ واضح ہے کہ یہ تشویق و حمایت حکمرانوں کی طرف سے فقط اس حد تک ہوا کرتی تھی جب تک ان کی حکومتوں کا دفاع ہوتا رہے اور ان کیلیے کوئی خطرہ اور نقصان و زیان لاحق نہ ہو۔پس معلوم ہوا کہ ان حکمرانوں کی سیاسی چالوں کی رو سے ایسا علم اور ایسے عالم ان کی خدمت کے آلات اور آلۂ کار شمار ہوا کرتے تھے۔ وہ حکمران چاہتے تھے کہ اس راستے سے اپنے بہت زیادہ اہداف تک پہنچتے رہیں جیسے:
۱:اہل علم حضرات جو کہ معاشرے کا آگاہ طبقہ حساب ہوتا تھا وہ حکمرانوں کی نظارت و نگرانی اور کنٹرول میں ہو۔
۲:ایسے علماء کے ہاتھوں اپنی خصوصی چالوں کے جال بچھا سکیں اور تاریخ کو بھی اپنی حمایت میں شاہد بناسکیں۔
۳:سادہ عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو کلی طور پر علم و علماء کے طرفدار ظاہر کرنا چاہتے تھے تاکہ لوگ ان پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرتے رہیں اور اس طرح ان کے خیال میں اہلبیت(علیہم السلام) کوچھوڑنے اور ان کی مخالفت کرنے کا ایسے علماء کی قرابت کے ذریعے جبران ہو جائے۔
۴:ایسے علماء کی تشویق کرنا ان کے نزدیک آئمۂ اہلبیت علیہم السلام کا لوگوں سے چہرہ چھپانے کا باعث تھا اور اس طرح سے چاہتے تھے کہ ان برحق ہادیوں کی یاد اور ان کا تذکرہ لوگوں میں تازہ نہ رہے اور لوگوں کی توجہ ان کی طرف نہیں رہے۔
پس معلوم ہوا کہ علم و علماء کا مقام و احترام ان ظالم و غاصب حکمرانوں کے نزدیک،جو کہ اپنے آپ کو خلفاء امت کے طور پر ظاہر کرتے تھے؛انہیں اہداف کے حصول کا ایک ذریعہ،آلہ اور وسیلہ تھا ورنہ حقائق گواہ ہیں کہ جب کبھی بھی یہ نام نہاد خلفاء کسی شخصیت کو اپنی حکومت کیلیے خطرہ محسوس کرتے تھے تو اس سے نجات و چھٹکارا پانے کیلیے ہر ممکنہ کاروائی کیا کرتے تھے۔
احمد امین نے منصور خلیفہ کے بارے میں لکھا ہے:’’خلیفہ جب بھی ضروری سمجھتا تھا معتزلیوں کو اپنے پاس بلالیتا تھا،اسی طرح محدثین اور علماء کو بھی مدعو کرلیتا تھا،البتہ یہ طرزِ عمل اس وقت تک ہی تھا جب تک وہ لوگ حکومتِ وقت کی مخالفت نہیں کرتے تھے ورنہ حکومت کی کیفری مشینری مخالفین کو سرکوب کرنے کیلیے اپنا کام شروع کردیتی تھی‘‘۔
جی ہاں! یہی منصور ہی تھا جس نے ابو حنیفہ کو بھی مسموم کیا اور حضرت امام صادق علیہ السلام،ان کے خاندان اور شاگردوں پر سختیوں میں اُس نے اضافہ کردیا تھا کیونکہ وہ اس کے کہنے پر محمد بن عبداللہ علوی کی بیعت کرنے سے انکار فرمارہے تھے۔
بہرحال ہماری بحث اس بارے میں تھی کہ حکام کی بہت کوشش رہی کہ آئمہ علیہم السلام کے بارے میں حقائق کا کھلم کھلا تذکرہ نہ ہو بلکہ یا تو ان کے بارے میں گفتگو ہی نہ ہو اور یا حقائق سے ہٹ کر ان کی شناخت و تذکرہ ہو اور اسی سلسلہ میں معاشرےمیں ایسے دانشمند اور اہل علم افراد کی خدمات حاصل کرنے کے درپے رہتے تھے جو ان کے اہداف کے حصول کیلیے مصروفِ عمل رہ سکیں اور ان کی حکمرانی کے دوام و بقاء کیلیے ان کی مدد کرسکیں۔
لہٰذا یہ درست ہے اگر ہم کہیں کہ ابن اثیر،طبری،ابوالفدا،ابن العبری،یافعی اور ابن خلکان کا شمار ایسے ہی دانشمند اور اہل علم گروہ میں ہوتا ہے جنہوں نے حقیقت اور تاریخ میں خیانت کی اور تاریخ نگار ہوتے ہوئے رونما ہونے والے حوادث و واقعات تاریخ کے صفحات کے حوالے کرتے ہوئے منصف اور غیر جانبدار نہیں رہے بلکہ ان کے قلم غیر منصفانہ اور وقت کے حکمرانوں کی جانبداری و طرفداری میں حرکت میں رہے۔
مثال کے طور پر اسی سلسلے میں ان تاریخ نگاروں کے واضح تعصب ،حکمرانوں کی اندھا دھند بے جا حمایت و طرفداری اور حقیقت و تاریخ کے حق میں خیانت کا ایک لغزش والا افسوسناک نکتہ یہی غریب الوطن، معصوم، برحق ہادی و پیشوا حضرت امام رضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء کی مسمومانہ شہادت کا جانسوز واقعہ ہے جو ایسے تاریخ نگاروں کے نوشتہ جات کے مطابق(نعوذ باللہ) امام رضا علیہ السلام کے زیادہ انگور کھالینے کی وجہ سے ان کی طبیعت کی خرابی اور پھر زندگی کے طبیعی اختتام کی صورت میں رونما ہوا۔(۲)
ابن خلدون ظاہراً ایک اموی مشرب کا شخص تھا جس نے ایسے ہی تاریخ نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتاب میں یوں لکھا:’’جب مأمون خلیفہ طوس میں داخل ہوا،امام رضا انگور کھانے کی وجہ سے ناگہانی طور پر دنیاسے چل بسے۔۔۔۔‘‘(۳)
انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ تحریریں عجیب ہیں کیونکہ عام انسان کے بارے میں بھی اس حد تک پرخوری کی بات ماننا بہت مشکل ہے کہ کھاتے کھاتے مرنے کی حد تک پہنچ جائے تو ایک امام کے بارے میں کیسے کوئی سالم ذہن ایسی بات قبول کرسکتا ہے کہ جس کی علم و دانش ،حکمت ،زہد و تقوی اور تمام نیک صفات میں اپنے زمانے میں مثال نہیں ملتی۔
کیا ایک عقلمند انسان ایسی بات قبول کرسکتا ہے کہ امام کی طرح کا ایک عاقل،عالم اور حکیم و طبیب شخص نعوذ باللہ پرخوری کرسکتا ہے اور پر خوری بھی اس حد تک کہ خود کشی پر منتہی ہو؟
کیا امام علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں کبھی،کہیں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ امام نے کوئی چیز کھانے میں زیادہ روی کی ہو؟
کیا علم اور زہد و تقويٰ کے باوجود ایک انسان اس حد تک ناپسند اقدام کرسکتا ہے؟جبکہ خلیفۂ وقت کو تاریخ کی گواہی کی روشنی میں وہ خود حکمت و طب کا درس دیتے نظر آتے ہوں اور آداب خورد و نوش سمجھاتے ہوں !!
یہ سب باتیں جو متعصب تاریخ نویسوں کی حکام کی اندھا دھند تقلید اور ان سے بے جا دفاع پر دلالت ہیں،ان سے ایسے مؤرخوں کی حقیقت و ماھیت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ خاکی غاصب حکمرانوں کی ناپائیدار اور بے خاصیت خوشنودی کی خاطر معصوم و مسموم برحق امام علیہ السلام کے بارے میں ناروا مطالب لکھ کر بحرِ عصیان میں غوطہ ور ہوئے اور خداوند متعال کی ناراضگی خرید لی،ایسے لوگ ہمیشہ وجدانوں کی عدالت میں بھی منفور رہیں گے۔

نویں کمنٹس