اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ٹی وی شیعہ رپورٹ

ٹی وی شیعہ [ریسرچ ڈیسک]  صہیونیست عناصر کی جانب سے "ارض موعود" پر اپنی تاریخی حکومت کے قیام پر مبنی اعلان کے 66 برس بعد اسرائیل کے اہم ترین شہر جیسے تل ابیب، حیفا، یافا اور اسی طرح ڈیمونا جیسا حساس علاقہ سینکڑوں میزائلوں کا نشانہ بن کر لرز اٹھتے ہیں

ٹی وی شیعہ [ریسرچ ڈیسک]  صہیونیست عناصر کی جانب سے "ارض موعود" پر اپنی تاریخی حکومت کے قیام پر مبنی اعلان کے 66 برس بعد اسرائیل کے اہم ترین شہر جیسے تل ابیب، حیفا، یافا اور اسی طرح ڈیمونا جیسا حساس علاقہ سینکڑوں میزائلوں کا نشانہ بن کر لرز اٹھتے ہیں اور ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آوازیں حتی ایک لمحے کیلئے رکتی دکھائی نہیں دیتیں۔ اسرائیلی رژیم کی بری و بحری ایکشن فورس کا کمانڈر "لوفرونیٹر" چلاتا ہے: "اسرائیلی فوج ایک "مقدس جنگ" کے ذریعے دشمن کو نابود کرنے اور اسرائیلی قوم کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے میں مصروف ہے۔" دوسری طرف اس رژیم کے مقابلے میں ایسے لوگ ہیں جو کئی سال کے محاصرے اور قبضے کو برداشت کرنے اور ناقابل برداشت اور غیر قابل تصور دباو کے باوجود ڈٹے ہوئے ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ غزہ میں ہر فلسطینی کی شہادت کے بعد تل ابیب اور حیفا میں ناامنی کا احساس بڑھتا جاتا ہے جبکہ غزہ کی جانب سے صہیونیستی رژیم کی طرف فائر ہونے والے ہر میزائل کے ساتھ فلسطینی مجاہدین میں خود اعتمادی اور دشمن پر غلبے کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک جنگوں کا نتیجہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں اور زیادہ حمایت یافتہ حکومتوں کے ذریعے تعیین کیا جاتا تھا لیکن آج کسی جنگ کا انجام ایک قوم کی جانب سے جارح قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کی مقدار پر منحصر ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر جارح قوت صرف اس صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جب اس کا مدمقابل کسی قسم کی مزاحمت کا مظاہرہ نہ کرے۔ لیکن دوسری طرف جارحیت کا شکار ہونے والی قوم دشمن پر اپنی کامیابی مسلط کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایسی صورتحال میں فوج کی تعییناتی، پیچیدہ فوجی ٹریننگ، جدید قسم کے جنگی ہتھیار اور بین الاقوامی سطح پر حمایت کا حصول کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کا بالکل کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، یا ایک فوجی طاقت کیلئے یہ امور ضروری قرار نہیں دیئے جاتے بلکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ امور جو ماضی میں کسی جنگ کے نتیجہ بخش ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے، آج صرف معمولی وسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی حالیہ فوجی جارحیت سے متعلق بعض اہم نکات پائے جاتے ہیں، جن پر توجہ کرنے سے موجودہ حقائق کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے:

1۔ اسرائیل پہلے بھی غزہ پر جنگ کا تجربہ کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ کہ اسرائیل کی صہیونیستی رژیم 1967ء سے 2005ء تک 38 سال کے عرصے تک اس خطے پر قابض رہی، دسمبر 2008ء میں 22 روزہ اور اکتوبر 2012ء میں 8 روزہ جنگوں کے دوران غزہ میں اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کے ساتھ پنجہ آزمائی کرچکی ہے۔ ہر جنگ میں اسرائیل کا بہانہ اسرائیلی شہریوں کو درپیش خطرات کو دور کرنا رہا ہے اور آخرکار اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے مقصد کو ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہوتا رہا ہے۔ حتی ہر جنگ کے کچھ عرصے بعد اسرائیل کا یہ واویلا سننے کو ملا ہے کہ اسلامی مزاحمت کی تحریک پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکی ہے۔ درحقیقت اسرائیل کی شکست سے پردہ اٹھانے کیلئے اسی امر پر توجہ کافی ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے تیسری بار میدان میں کودا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کا تیسرا فوجی حملہ اس کے دوسرے فوجی حملے کی مانند اس مسئلے کو حل کرنے میں اس کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

2۔ ان تینوں جنگوں میں اسرائیل نے اپنے زمینی حملے کو حماس کیلئے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ دونوں جنگوں میں اسرائیل کی فوج غزہ میں داخل ہونے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل نے گذشتہ 22 روزہ جنگ کے دوران اپنی فوجی کو غزہ میں گھسانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن جیسے ہی اس کی فوج غزہ کے قریب جاتی فلسطینی مجاہدین کی بھرپور مزاحمت کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کے سبب پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی اور اس کے بعد شدید ہوائی حملے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس بار بھی اسرائیلی حکام نے غزہ پر ہوائی حملوں کے آغاز سے زمینی حملے کی باتیں شروع کر دی تھیں اور اپنے اس خطرے کو مزید سنجیدہ ظاہر کرنے کیلئے امریکی حکام کی مدد بھی حاصل کی، جس کے تحت امریکی صدر براک اوباما نے یہ اعلان کیا کہ اگر اسرائیل غزہ پر زمینی حملہ کرنا چاہے تو امریکہ اس کی بھرپور حمایت کرے گا۔ گذشتہ دو جنگوں میں اسرائیل اپنی بری فوج سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا اور فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں صرف باتوں کی حد تک ہی رہا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بنیادی طور پر اپنی بری فوج کے ذریعے غزہ میں اسلامی مزاحمت کو شکست دینے کی طاقت نہیں رکھتا، کیونکہ غزہ میں داخل ہونے کی صورت میں اس کے فوجیوں کا فلسطینی مجاہدین کے نرغے میں آجانے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ مزید یہ کہ فلسطینی مجاہدین شہر کے مختلف حصوں میں دھماکہ خیز پھندوں کے ذریعے اسرائیل کے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔ ایسے واقعات ماضی کی 22 روزہ جنگ کے ساتویں یا آٹھویں دن رونما ہوچکے ہیں، جس کے نتیجے میں اس وقت کے اسرائیلی کمانڈر نے فوراً فوج کو غزہ سے پسپائی اختیار کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی فوجی کبھی بھی ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کی آڑ کے بغیر میدان میں آنے اور پیش قدمی کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ لہذا ٹینکوں کے بغیر اسرائیلی فوج کا کوئی تصور موجود نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج جنگ کے دوران جانی نقصان یا فوجیوں کے زندہ گرفتار ہوجانے سے شدید خوفزدہ ہے۔ لہذا اسرائیل کی جانب سے زمینی حملے کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔

3۔ حالیہ جنگ میں اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے غزہ کے اسٹریٹجک اور بنیادی اہمیت کے حامل مراکز کو نابود کر دیا ہے۔ اسرائیلی حکام ماضی کی 22 اور 8 روزہ جنگوں میں بھی بالکل اسی قسم کے دعوے کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ غزہ کے خلاف 22 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے فوجی انٹیلی جنس اداروں نے حکومت کو کہا تھا کہ اگر وہ غزہ میں موجود 130 مختلف نکات کو شدید ہوائی حملوں کا نشانہ بنائیں تو حماس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور اسلامی مزاحمت کے پاس موجود اسلحہ کے تمام ڈپو ختم کئے جاسکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ غزہ کے خلاف جنگ ایک ہفتے کے اندر اندر اسرائیل کی مکمل کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے گی، لیکن جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد حماس کی جانب اسرائیل پر فائر ہونے والے راکٹس اور میزائلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا اور سب یہ جان گئے کہ اسلامی مزاحمت نہ صرف ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔ اس کے بعد اگرچہ غزہ پر زمین، ہوا اور سمندر سے گولہ باری اور بمباری کا سلسلہ جاری رہا لیکن اسرائیل نے جنگ بندی کی بھرپور کوششیں شروع کر دیں اور اسلامی مزاحمت کے مکمل خاتمے کا ہدف ترک کر دیا۔ اسرائیل کی کوشش تھی کہ جنگ بندی سے پہلے آخری فائر اس کی طرف سے انجام پائے لیکن اس کی یہ آرزو بھی پوری نہ ہوسکی اور ڈاکٹر رمضان عبداللہ کی قیادت میں اسلامک جہاد نے بائیسویں شب کی آدھی رات کو مقبوضہ فلسطین پر آخری راکٹ برسایا، جس کے بعد اگلے دن جنگ بندی شروع ہوگئی۔

اس بار بھی اسرائیلی فوج کی مرکزی کمان نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اب تک غزہ میں موجود 30 اہم اور اسٹریٹجک نکات کو مکمل طور پر نیست و نابود کر دیا ہے جبکہ ایک ایسے خطے میں جس کا کل رقبہ 100 مربع کلومیٹر سے تجاوز نہیں کرتا، اس تعداد میں اسٹریٹجک نکات کا پایا جانا کوئی معنا نہیں رکھتا۔ البتہ ایک اور زاویہ دید سے غزہ کا ہر گلی کوچہ، گھر، باغ اور پارک اسٹریٹجک نکتہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ غزہ کے ہر حصے سے تل ابیب اور حیفا پر میزائل فائر کئے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ حماس اور اسلامک جہاد کی جانب سے اسرائیل پر فائر کئے گئے میزائلوں میں غزہ کا 105 مربع کلومیٹر کا علاقہ استعمال ہوا ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینی مجاہدین کی جانب سے اسرائیل پر میزائل فائر کرنے کیلئے نہ تو زیادہ جگہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی لمبے چوڑے وسائل اور امکانات کی ضرورت ہے۔

4۔ اسرائیل حالیہ جنگ میں ایک ساتھ کئی ناکامیوں کا شکار ہوگا۔ پہلی شکست انٹیلی جنس کے میدان میں شکست ہے۔ جب اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری اور گولہ باری کے باوجود اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل پر میزائل برسائے جانا نہ صرف جاری رہتا ہے بلکہ میزائلوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس فلسطینی مجاہدین کے بارے میں کافی حد تک معلومات موجود نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوج اپنے ایسے دشمن کے بارے میں کافی حد تک معلومات حاصل کئے بغیر جس سے وہ کئی بار شکست کھا چکی ہے، اس کے خلاف حملے کا آغاز کر دے۔ ماضی میں غزہ پر اسرائیل کی جانب سے تھونپی گئی 22 روزہ جنگ میں بھی اسی ناکامی کی وجہ سے اسرائیل کی فوجی انٹیلی جنس کا سربراہ استعفٰی دینے پر مجبور ہوگیا۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ میں شکست کے بعد بھی انٹیلی جنس افسران کی بڑی تعداد کو فارغ کر دیا گیا۔

اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی دوسری بڑی شکست اخلاقی میدان میں ہے۔ اگر ایک فوج کسی خطے پر اپنی چڑھائی کا درست جواز فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اخلاقی میدان میں شکست کھا چکی ہے۔ دنیا کا کون سا انسان یہ قبول کرنے پر تیار نظر آتا ہے کہ بالفرض اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر تین یہودی آبادکاروں کے اغوا اور قتل کا الزام درست بھی ہو تو اس کے نتیجے میں سینکڑوں بچوں اور خواتین کو موت کی نیند سلا دیا جائے؟ یا نہتے شہریوں کو ایک ٹن وزنی بموں اور کیمیائی اور جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بنائے جانے کا جواز فراہم ہوسکے؟ اسرائیل کی اس اخلاقی شکست کے باعث مقبوضہ فلسطین سے یہودیوں کی بڑی تعداد دنیا کے دوسرے ممالک کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے اور یہ غاصب رژیم اپنی موجودیت کا جواز کھو بیٹھی ہے۔

غزہ کی حالیہ جنگ میں اسرائیل کی تیسری بڑی شکست سکیورٹی کے میدان میں ہے۔ اسرائیل اپنے غاصبانہ وجود کے 66 سال مکمل ہونے کے بعد بھی اپنے دور کے علاقوں جیسے عسقلان کا گاوں اور اپنے مرکزی علاقوں جیسے تل ابیب کی سکیورٹی کو یقینی بنانے میں ناکامی کا شکار رہا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ پر اس کے حالیہ فوجی حملے کا مقصد اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ دعویٰ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ مقبوضہ فلسطین پر اپنے قبضے کے 66 برس بعد بھی وہ ابھی تک اپنے شہریوں کو امن و امان اور سکیورٹی مہیا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تل ابیب میں بیٹھا ہوا شخص غزہ میں موجود شخص کی طرح ہی ناامنی اور خطرے کا احساس کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی جہادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے خوف اور وحشت پھیلانے کا مقابلہ کرنے اور جوابی کارروائی کے طور پر اسرائیل میں وحشت کی فضا قائم کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ خوف اور وحشت کا توازن برقرار ہونے کی صورت میں ہر مدمقابل یہ تو کہ سکتا ہے کہ میرے پاس تمہیں نقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے لیکن وہ ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں اپنے شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ضمانت پیش کرسکتا ہوں۔

اس جنگ میں اسرائیل کو نصیب ہونے والی چوتھی بڑی شکست سیاسی میدان میں شکست ہے۔ جب ایک رژیم اپنے اقدامات کے ذریعے ملک کے اندر اور باہر اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید بہتر بنانے میں ناکام رہے تو گویا وہ سیاسی میدان میں شکست سے دوچار ہوچکی ہے۔ غزہ پر حالیہ فوجی جارحیت سے اسرائیل کا مقصد عالم اسلام کی موجودہ بحرانی اور افسوسناک صورتحال کی آڑ میں اپنے قریبی دشمن یعنی غزہ کی پٹی میں موجود اسلامی مزاحمت کو نیست و نابود کرنا تھا۔ اگر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے تو مقبوضہ فلسطین اور اپنی حامی حکومتوں کے نزدیک اسرائیل کی پوزیشن مضبوط ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ غاصب صیہونیستی رژیم تمام تر انسانی اقدار کو پامال کرنے اور پست سے پست ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود آج اپنی شکست کا اعتراف کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کے سبب مقبوضہ فلسطین کے اندر اور عالمی سطح پر اس کی سیاسی ساکھ کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2006ء میں حزب اللہ لبنان اور 2008ء اور 2012ء میں فلسطینی مجاہدین سے شکست کھانے کے بعد اسرائیل مخالف آوازوں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔ اب اسرائیل اپنے بانی اور حامی ممالک کیلئے وبال جان بن چکا ہے۔

البتہ ہمیں ایک لمحے کیلئے بھی غزہ کے مظلوم عوام کی افسوسناک صورتحال میں شک نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے لئے اس بات کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ گذشتہ 10 برس سے محاصرے کے شکار شہر پر گولوں اور بموں کی برسات کیا معنی و مفہوم رکھتی ہے۔ ہم اس بچے کے احساس اور روحانی دکھ کو کیسے درک کرسکتے ہیں جس کی آنکھوں کے سامنے اس کا پورا خاندان خون میں نہلا دیا گیا ہے؟ بعض اوقات ٹی وی پر غزہ کی تصاویر دیکھ کر انسان کا دل درد سے تڑپ اٹھتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی دھڑکنا چھوڑ بیٹھے گا۔ جی ہاں، غزہ میں جاری مظالم کا تصور بھی بہت مشکل ہے۔ لیکن ساتھ ہی جب انسان ایسے باایمان مرد و خواتین کے چہروں کو دیکھتا ہے جو کئی سالوں سے ظالمانہ محاصرے کا شکار ہونے کے باوجود خونخوار دشمن کے سامنے بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں تو بے اختیار یہ کہ اٹھتا ہے کہ
أَ لَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيب۔

تحریر: سعداللہ زارعی

نویں کمنٹس