حضرت علي عليہ السلام کا ذکر

حضرت علي عليہ السلام کا ذکر

 

يہاں بھي بحثيں ہيں ، تاريخ اٹھاۆ وہاں بھي تمھيں بحثيں مليں گي کہ سب سے پہلے اسلام کون لايا؟ ميرے ايک دوست نے اس کي طرف اشارہ کيا اکثر علماء يہي کہتے ہيں کہ خواتين ميں سب سے پہلے حضرت خديجہ غ» ايمان لائيں- مردوں ميں سب سے پہلے حضرت ابو بکرصديق ، غلاموں ميں سب سے پہلے حضرت زيد اور بچوں ميں سب سے پہلے حضرت علي ( عليہ السلام ) - مگر ميں يہ کہتا ہوں کہ حضرت علي ( عليہ السلام ) کے باب ميں يہ انصاف نہيں ہے - اسلام لانے کا سوال تو اس کے باب ميں پيدا ہوتا ہے جو کسي دوسرے مذہب کا ماننے والا ہو اور اب اسلام قبول کر رہا ہو جو پہلے دن ہي سے اسلام کا ماننے والا ہو ، جس نے کعبہ ميں جنم ليا ہو ، آغوش رسالت ميں پرورش پائي ہو اس کے اسلام لانے کا سوال ہي کہاں پيدا ہوتا ہے - بات يہ ہے کہ ميں اگر تاريخ لکھنا چاہوں تو حضرت علي ( عليہ السلام ) کے اسلام کے باب ميں يوں لکھوں گا کہ حضرت علي ( عليہ السلام ) تو پہلے ہي مسلمان تھے - اور مورخوں اور تذکرہ نگاروں کي کيا بات کروں صرف اسي ضمن ميں انھوں نے جناب اميرسے زيادتي نہيں - بنو اميہ کي تھيليوں کے منھ کھلے اور ايسے لوگوں کي ايک کرايہ دار فوج تيار ہوئي جنھوں نے زبان و قلم سے حضرت علي ( عليہ السلام ) اور آل علي (ع) کو گالياں دينا اپني زندگي کا مشن بنا ليا - تو انھوں نے کس کس پہلو ميں آپ سے زيادتي نہيں کي - آپ سب تاريخ پڑھنے والے لوگ ہيں ، کتابيں اٹھا کر ديکھيں جناب علي مرتضيٰ (ع) کا جو حليہ ان کتابوں ميں لکھا ہے اسي سے وہ بغض آپ کو ٹپکتا نظر آئے گا کہ جو بنو اميہ کے پروپيگنڈے کا مرہون منت ہے -
دنيا کي ساري قوموں ميں عرب سب سے بڑھ کر حسين قوم ہے ،عربوں ميں قريش اور قريش ميں بنو ہاشم اور بنو ہاشم ميں جناب عبد المطلب کا گھرانہ اور يہ لوگ جناب عبد المطلب کے پوتے جناب علي (ع) کے بارے ميں جو حليہ بيان کرتے ہيں وہ کچھ يوں ہے کہ وہ پستہ قد تھے پيٹ ان کا بڑھا تھا ٹانگيں پتلي تھيں ، اور يہ آپ کو کم و بيش تاريخ کي سب کتابوں ميں لکھا ہو ا ملے گا - اس حليے سے تصور ميں ايک ايسا شخص آتا ہے جو خوبصورت تو کجا قبول صورت بھي نظر نہيں آتا - مگر يہ لوگ بھول گئے کہ يہ جو سيد نا علي (ع) کو ہر دور ميں خوش نصيب خواب ميں ديکھيں گے اور کچھ خوش نصيبوں کو تو وہ عالم بيداري ميں بھي نظر آئيں گے - ان کي شہادت کو کيسے نظر انداز کيا جائے گا ميں دور کي بات نہيں کرتا اسي مجلس ميں ہمارے دوست علي صديقي موجود ہيں ، جنھيں جناب علي (ع) خواب ميں نظر آئے اور ان کي زندگي بدل کر رہ گئي - مولاعلي (ع) کا کرم عام رہا ہے - پہلے بھي تھا ، اب بھي ہے ميں کسي مسلمان کي بات نہيں کرتا ايک غير مسلم پارسي کي بات کر رہاہوں - کل جامعہ مليہ کے وائس چانسلر نے ان کي کتاب کا ذکر کيا وہ معمولي آدمي نہيں ، کئي کتابوں کے مشہور مصنف اور انگلينڈ ميں آکسفورڈ کے پہلے اور اب تک آخري ہندوستاني صدر ہيں ، ان کا نام مسٹر ايف ڈي کراکا ہے جن کي خود نوشت سوانح حيات کا نام ہے ”‌The came Hazrat Ali “ مولا علي (ع) نے اس شخص پر کيا کيا کرم کئے کيسے خواب ميں آ کر اس کي زندگي بنا دي - اس کي تفصيل ميں جانے کا موقع نہيں صرف اس خواب کا ذکر کر رہا ہوں جس ميں مٹر کراکا نے جناب علي (ع) کي زيارت کي جب جناب امير اس کے سامنے آئے تو کيسے لگ رہے تھے - کوئي مسلم نہيں ايک غير مسلم شہادت دے رہا ہے - الفاظ پر غور کيجئے وہ لکھتے ہيں :
”‌But I could not see anything except a blind light. It was like looking the sun“مگر اس کے سوا کچھ نہيں ديکھ سکا کہ ايک نور چمکا ايک جلوہ سامنے آيا ميري آنکھيں چند ھيا گئيں-
”‌ ميں نے اس طرح اس کے اندر ديکھا جيسے سورج کے اندر ديکھا جاتا ہے “
مجھے شعر ياد آگيا :
نگاہ برق نہيں چہرہ آفتاب نہيں وہ آدمي ہے مگر ديکھنے کي تاب نہيں

نویں کمنٹس