امام علی[ع] کے بارے میں ایک علمی تحقیق

.تم سب جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) کے نزدیک قرابت داری اور خصوصی منزلت کے لحاظ میری مرتبت کیا تھی؟ جب میں نومولود تھا آپ (ص) مجھے اپنی گود میں بٹھایا کرتے تھے اور مجھے اپنے سینے کے ساتھ ملایا کرتے تھے؛

امام علی[ع] کے بارے میں ایک علمی تحقیق

امام علی[ع] کے بارے میں ایک علمی تحقیق

- آغوش رسول (ص) کے پرورش یافتہ

و قال علي عليه السلام: و قد علمتم موضعي من رسول الله بالقرابة القريبة و المنزلة الخصيصة،وضعني في حجره و انا ولد يضمني الي صدره،و يكنفني الي فراشه،و يمسني جسده،و يشمني عرفه،و كان يمضغ الشيي‏ء ثم يلقمنيه،و ما وجد لي كذبة في قول و لا خطلة في فعل.

نهج البلاغه،الخطب ص190

...تم سب جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) کے نزدیک قرابت داری اور خصوصی منزلت کے لحاظ میری مرتبت کیا تھی؟ جب میں نومولود تھا آپ (ص) مجھے اپنی گود میں بٹھایا کرتے تھے اور مجھے اپنے سینے کے ساتھ ملایا کرتے تھے؛ مجھے اپنے بستر پر لٹاتے؛ اور اپنا جسم مبارک میرے جسم کے ساتھ ملایا کرتے تھے؛ اپنی دلپذیر خوشبو سے مجھے بہرہ مند فرمایا کرتے تھے؛ نوالہ چباکر میرے منہ میں رکھا کرتے تھے اور آپ نے کبھی بھی میرے کلام میں جھوٹ نہیں سنا اور میرے طرز عمل میں لغزش و گناہ اور تکبر و غرور کا مشاہدہ نہیں کیا.

2- محرم راز

قال علي عليه السلام: كانت لي من رسول الله صلي الله عليه و آله منزلة لم يكن لا حد من الخلائق اني كنت آتيه كل سحر فاسلم عليه. - و في حديث-فان كان قائما يصلي سبح بي فكان ذاك اذنه لي و ان لم يكن يصلي اذن لي.

مسند احمد ج1 ص 85-77

و عن ابي سعيد الخدري قال: كانت لعلي من رسول الله صلي الله عليه و آله دخلة لم يكن لاحد من الناس.

انساب الاشراف ج2 ص 98 حديث 25.

جو منزلت رسول اللہ (ص) کی نزدیک مجھے حاصل تھی کسی کو بھی حاصل نہ تھے؛ میں ہر روز صبح آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوجایا کرتا تھا آپ کے پاس داخل ہوتے وقت سلام کرتا اور رسول اللہ (ص) اذن دخول عطا فرماتے تھے اگر نماز میں مصروف ہوتے تو بلند آواز سے «سبحان اللہ» کہہ کر اذن دخول کا اظہار فرمایا کرتے تھے.

ابی سعيد خدرى بھی کہتے ہیں: جو آمد و رفت علی (ع) رسول اللہ (ص) کی بارگاہ میں کیا کرتے تھے کسی اور کے لئے ممکن نہ تھی.

3- سیکھنے کا شیوه

قال علي عليه السلام:كنت اذا سالت رسول الله صلي الله عليه و آله اعطاني و اذا سكت ابتداني.

المصنف ج6 ص368 حديث 32061.

فرمایا: میں جب بھی رسول اللہ (ص) سے سوال کرتا آپ (ص) جواب عطا کیا کرتے اور جب میں خاموش ہوجاتا خود ہی تعلیم و تربیت کے نکات ظریف و لطیف عطا کرنے کی ابتداء فرماتے.

4- قرآن شناس

قال علي عليه السلام: و الله ما نزلت آية الا و قد علمت فيما نزلت و اين نزلت،ان ربي وهب لي قلبا عقولا و لسانا سئولاً.

انساب الاشراف ج2 ص 98 حديث 27.

قال عليه السلام: والله ما نزلت آية إلا وقد علمت فيما نزلت وأين نزلت، أبليل نزلت أم بنهار نزلت، في سهل أو جبل إن ربي وهب لي قلبا عقولا ولسانا سئولا.

قال عليه السلام: لو شئت لاوقرت سبعين بعيرا في تفسير فاتحة الكتاب، ولما وجد المفسرون قوله لا يأخذون إلا به.

تاريخ البلاذري وحلية الاولياء – بحارالانوار ج40 ص157.

فرمایا: خدا کی قسم!  قرآن کی ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کس موضوع میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی ہے؛ کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے عقلمند قلب اور زیادہ پوچھنے والی زبان عطا کی ہے.

علی (ع) نے فرمایا: کوئی بھی آیت نازل نہیں ہوئی مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ کس چیز کے بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی؛ رات کو نازل ہوئی یا دن کو؛ ہموار زمین پر نازل ہوئی یا پہاڑوں میں نازل ہوئی؛ کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے عقلمند قلب اور زیادہ پوچھنے والی زبان عطا کی ہے.

(ع) نے فرمایا: اگر میں چاہوں تو ستر اونٹ فاتحة الکتاب کی تفسیر سے لادلوں اور اگر مفسرین میری وہ تفسیر دیکھ لیں تو اس کے سوا کوئی تفسیر اخذ نہ کریں.

5- نور کی ہمراہی

عن بريدة الاسلمي قال: كنا اذا سافرنا مع النبي صلي الله عليه و آله كان علي عليه السلام صاحب متاعه يضمه اليه فاذا نزلنا يتعاهد متاعه فان راي شيئاً يرمه رمة، و ان كانت نعل خصفها.

بحار الانوار ج37 ص 303.

بُرَيدہ اسلمى کہتے ہیں: ہم جب بھی رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر پر جاتے، علی (ع) رسول اللہ (ص) کے سامان سفر کے امین ہؤا کرتے تھے اور اسے اپنے آپ سے دور نہیں کرتے تھے؛ اور جب ہم کہیں پڑاؤ ڈالتے تو علی (ع) سامان سفر کا پورا جائرہ لیتے اور اگر تعمیر و مرمت کی ضرورت ہوتی تو اسے مرمت کرتے اور رسول اللہ (ص) کی جوتوں کی مرمت کی ضرورت پڑتی تو علی (ع) آپ (ص) کی جوتوں کی مرمت کرتے اور ان کی سلائی کا اہتمام کرلیا کرتے تھے.

6- رسول اللہ کے حامی و محافظ

قال موسي بن سلمة:سئلت جعفر بن عبد الله بن الحسين عن اسطوان علي بن ابي طالب فقال: ان هذه المحرس،كان علي بن ابي طالب عليه السلام يجلس في صفحتها التي تلي القبر مما يلي باب رسول الله صلي الله عليه و آله يحرس النبي صلي الله عليه و آله.

وفاء الوفاء ج2 ص448.

موسى بن سلمہ کہتے ہیں: میں نے مسجد النبی (ص) کے اس ستون کے بارے میں جعفر بن عبد اللہ سے پوچھا جو «ستون علی (ع)» کے نام سے مشہور تھا؛ انہوں نے جواب میں کہا: یہ نگہبانی اور محافظت کا وہی ستون ہے جس کے ساتھ قبر رسول (ص) کی جانب سے علی (ع) بیٹھا کرتے تھے اور رسول اللہ (ص) کی حفاظت و پاسداری کیا کرتے تھے.

7- صداقت و امانت

عن ابي كهمس قال: قلت لابي عبد الله عليه السلام:عبد الله بن ابي يعفور يقرءك السلام! قال:عليك و عليه السلام اذا اتيت عبد الله فاقرأة السلام و قل له: ان جعفر بن محمد يقول لك: انظر ما بلغ به علي عليه السلام عند رسول الله صلي الله عليه و آله فالزمه فان عليا عليه السلام انما بلغ ما بلغ به عند رسول الله صلي الله عليه و آله بصدق الحديث و اداء الامانة.

الكافي ج2 ص حديث 5.

ابى كہمس کہتے ہیں: میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کیا: عبداللہ بن ابی یعفور نے آپ پر سلام بھیجا ہے. امام (ع) نے فرمایا: تم پر بھی اور ابن ابی یعفور پر بھی میرا سلام ہو. جب تم عبداللہ کے پاس جاؤ تو اس کو میرا سلام پہنچادو  اور کہہ دو کہ جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ دیکھ لو کہ وہ کون سی خصوصیت اور کون سی خصلت ہے جس کی بدولت علی (‏ع) رسول اللہ (ص) کے نزدیک اس اعلی مقام پر فائز ہوئے؟ اور پھر اسی خصلت و خصوصیت کے پابند ہوجاؤ اور یقین جانو کہ علی (ع) کو رسول اللہ (ص) کے نزدیک جو بھی مقام و مرتبہ ملا صرف اور صرف صداقت اور امانت داری کی خاطر ملا.

8- رسول اللہ (ص) کے فدائى

عن الصادق عليه السلام: ...و الله ما اكل علي بن ابي طالب عليه السلام من الدنيا حراما قط حتي مضي لسبيله و ما عرض له امران كلاهما لله رضا الا اخذ باشدهما عليه في بدنه-دينه-و ما نزلت‏برسول الله صلي الله عليه و آله نازلة قط الا دعاه ثقة به و ما اطاق احد عمل رسول الله صلي الله عليه و آله من هذه الامة غيره و ان كان ليعمل عمل رجل كان وجهه بين الجنة و النار يرجو ثواب هذه و يخاف عقاب هذه.

الارشاد ص255.

امام صادق (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم علی (ع) نے لمحہ شہادت تک حرام نہیں کھایا؛ کبھی بھی رضائے الہی کی جانب جانے والے دوراہے پر نہیں ٹہرے مگر یہ کہ اس کی رضا کے لئے مشکلترین راستے کا انتخاب کیا؛ جب بھی نبی اکرم (ص) کو کوئی دشواری پیش آتی علی (ع) پر اپنے اعتماد کی بنا پر ان سے مدد لیتے؛ اور اس امت میں کوئی بھی علی (ع) کی مانند رسول اللہ (ص) کے بتائے ہوئے راستے پر بغیر کمی و نقصان کے، گامزن نہ ہوسکا؛ اور اتنی زیادہ ریاضت و عبادت اور جدوجہد کے باوجود جب بھی کوئی عمل کرتے ان کا حال اس شخص کی مانند ہوتا تھا جو دوزخ سے فکرمند اور جنت کیے حوالے سی پرامید ہوتا ہے (ایک طرف سے جنت کی جزائے خیر کی امید رکھتے تھے اور دوسری طرف سے دوزخ کے عِقاب سے فکرمند تھے).

9- مظلومین کی پشت پناہ

و قال علي عليه السلام: ...لم يكن لاحد في مهمز و لا لقائل في مغمز،الذليل عندي عزيز حتي اخذ الحق له،و القوي عندي ضعيف حتي اخذ الحق منه.رضينا عن الله قضاءه و سلمنا لله امره.

نهج البلاغة،الخطب ص37.

فرمایا: میری پوری زندگی میں کوئی ایسا سیاہ نکتہ نہیں ہے جس کی جانب عیب جو آنکھوں اور ابروؤں سے اشارے کریں اور اس کو کہیں نقل کرسکیں؛ خوارترین اور کمزورترین افراد میرے نزدیک معزز اور مکرم ہیں یہاں تک کہ ان کا حق، چھیننے والوں سے لے لوں اور ہر طاقتور فرد میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ دوسروں کا حق اس سے لے لوں؛ ہم (اہل بیت) قضائے الہی پر راضی و خوشنود اور اس کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے ہیں.

10- مکتب کی راہ میں با مقصد جدوجہد

و قال عليه السلام: اما و الله ان كنت لفي ساقتها حتي تولت‏بحذا فيرها،ما ضعفت و لا جبنت و ان مسيري هذا لمثلها،فلانقبن الباطل حتي يخرج الحق من جنبه.مالي و لقريش؟و الله لقد قاتلتهم كافرين و لاقاتلنهم مفتونين و اني لصاحبهم بالامس كما انا صاحبهم اليوم.

نهج البلاغة،الخطب ص33.

علی (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم میں ہمیشہ اور مسلسل اس حرکت (ترویج اسلام) کے پیشرو افراد کی صف میں رہا حتی کہ دشمن کا محاذ تہس نہس ہؤا اور جاہلیت نے میدان خالی کردیا؛ بغیر اس کے کہ ذرہ برابر خوف و وحشت سے دوچار ہوجاؤں؛ اور آج بھی اسی راہ پر گامزن ہوں اور میرا ارادہ اور عزم ہے کہ باطل کا سینہ چاک کردوں اور اس میں دراڑ ڈال دوں حتی کہ اس کے پہلو سے حق نمایاں ہوجائے.

مجھے قریش کیے ساتھ کیا سروکار جو کل باطل کے مورچے میں بیٹھے تھے اور میں ان کے خلاف لڑا اور آج بھی فتنہ اور انحراف کا شکارہوگئے ہیں اور میں ان کے خلاف لڑوں گا. جیسا کہ میں نے کل ان کا مقابلہ کیا تھا آج بھی میں وہی ہوں.

11- امام علی (ع) کا عیب کیا تھا اے اہل سقیفہ؟

قالت فاطمة عليها السلام: ...ما الذي نقموا من ابي حسن؟! نقموا-و الله-منه شدة وطاته و نكال وقعته و نكير سيفه-و قلة مبالاته لحتفه-و تبحره في كتاب الله و تنمره في ذات الله.

دلائل الامامة ص125،الاحتجاج ج1 ص147.

حضرت زہرا سلام اللہ عليہا نے فرمایا: .. سقیفہ کے ہدایت کاروں نے ابوالحسن کی ذات میں کیا عیب نکالا تھا کہ انہیں اسلامی معاشرے کی قیادت کا اہل قرار نہیں دیا؟! خدا کی قسم ان کا عیب - حق کے مدمقابل آنے والوں کے ساتھ آپ (ع) کے تصادم کی شدت، موت آفرین حملے اور آپ کی تلوار کی کاٹ، موت سے آپ (ع) کی بے خوفی، کتاب خداوندی میں عظیم و وسیع مہارت و آگہی اور خدا کی راہ میں راہ خدا کے دشمنوں کے مدمقابل اپنی دہاک بٹھانا - تھا اور اہل سقیفہ نے ان ہی نیک صفات کو ان کے لئے عیب ونقص قرار دیا ہے!

12- بصيرت،چراغ راہ

و قال علي عليه السلام: الا و ان الشيطان قد جمع حزبه و استجلب خيله و رجله،و ان معي لبصيرتي،ما لبست علي نفسي و لا لبس علي.

نهج البلاغة،الخطب:10.

حضرت اميرالمؤمنين (ع) نے فرمایا: جان لو کہ شیطان نے حامیوں کی جماعت کو اکٹھا کیا ہے؛ سوار اور پیدل سپاہیوں کو بلالیا ہے؛ جبکہ میری بصیرت مسلسل میرے ہمراہ رہی ہے اور میں نے کبھی بھی حقائق کو اپنے لئے مشتبہ نہیں بنایا ہے اور نہ ہی حقیقت کبھی مجھ پر مشتبہ ہوئی ہے [یعنی یہ کہ نہ کبھی میں نی ااپنے آپ کو دہوکہ دیا ہے اور نہ ہی میں نے کبھی دہوکہ کھایا ہے].

13- سماجی عدل

و قال عليه السلام: -لما عوتب علي التسوية في العطاء- اتامروني ان اطلب النصر بالجور فيمن وليت عليه؟!و الله ما اطور به ما سمر سمير و ما ام نجم في السماء نجما،لو كان المال لي لسويت‏بينهم فكيف و انما المال مال الله.

نهج البلاغة،الخطب:124.

بیت المال کی تقسیم میں مولا نے مساوات کا لحاظ رکھا تو بعض «لوگوں» نے اعتراض کیا اور ملامت کرنے پر اترے تو مولا نے فرمایا: کیا تم مجھے امر کرتے ہو کہ میں فتح و نصرت ان لوگوں پر ظلم کرکے حاصل کروں جن کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈالی گئی ہے؟ خدا کی قسم جب تک زمانہ گردش میں ہے اور آسمان کے ستارے ایک دوسرے کے تعاقب میں متحرک ہیں؛ ایسا ناروا اور ناجائز کام سرانجام نہیں دوں گا؛ اگر یہ مال و یہ ثروت میری ذاتی دولت ہوتی پھر بھی میں اس کی تقسیم میں مساوات کا لحاظ رکھتا چہ جائیکہ یہ مال، مال اللہ ہے.

14- بے خوف مجاہد

قال عليه السلام: ...و من العجب بعثهم الي ان ابرز للطعان و ان اصبر للجلاد،هبلتهم الهبول!لقد كنت و ما اهدد بالحرب و لا ارهب بالضرب و اني لعلي يقين من ربي و في غير شبهة من ديني.

نهج البلاغة،الخطب:22.

حضرت اميرالمؤمنين (ع)  نے فرمایا:... دنیا کی تعجب انگیزیوں میں سے ایک یہ ہے کہ شامیوں نے مجھے پیغام دیا ہے کہ اپنے آپ کو نیزوں کا سامنا کرنے کے لئے مہیاکروں! اور ان کی شمشیروں کے مقابلے میں استقامت پیشہ کروں! روتی ہوئی مائیں ان کے سرہانے بیٹھ جائیں! میں کبھی بھی جنگ سے نہیں ڈرا اور کبھی بھی لڑائی سے نہیں بھاگتا کیونکہ میں اپنے رب پر یقین اور بھروسہ رکھتا ہوں اور میرے دین پر شک و شبہے کا زنگ نہیں لگ سکا ہے.

15- جنگ کا شیوہ

...و عرفوا قتلاه-قتلي علي عليه السلام في ليلة الهرير-بضرباته التي كانت علي و تيرة واحدة، ان ضرب طولا قد و ان ضرب عرضا قط و كانت كانها مكواة.

ارشاد القلوب ص248.

و في رواية: كانت لعلي عليه السلام:ضربتان:اذا تطاول قد و اذا تقاصر قط.

قالوا:و كانت ضرباته ابكارا اذا اعتلي قد و اذا اعترض قط.

المناقب ج2 ص83.

لیلة الہریر (3) گذری تو علی (ع) کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی شناخت ضرب شمشیر کے انداز و روش سے کی گئی. کیونکہ ضربیں ہماہنگ تھیں؛ اوپر سے اترنیے والی تلوار نے مقتولین کو دو نیم کیا تھا اور پہلو سے لگنے والی ضرب نے جسموں کو کاٹ ڈالا تھا اور شمشیر علی (ع) سے لگے زخم گویا پگھلتے لوہے کے ذریعے داغے گئے تھے.

اور روایت ہے: جنگ میں علی (ع) کے وار ان ہی دو طرزوں کے ہوتے تھے جب دشمن کی نسبت اونچے مقام پر قرار پاتے اوپر سے ضربت مارتے اور دشمن دو نیم ہوجاتا اور جب آمنے سامنے ہوتا پہلو سے وار کرتے اور آپ کا وار دشمن کے بدن کو کاٹ ڈالتا اور کہا گیا ہے کہ کبھی کسی پر دو مرتبہ وار نہیں کیا کرتے تھے.

16- ضعیفوں اور مسکینوں کے حامی و ناصر

قال رسول الله صلي الله عليه و آله: يا علي ان الله جعلك تحب المساكين و ترضي بهم اتباعا و يرضون بك اماما.

كشف اليقين:310 ح 365.

پيامبر گرامى اسلام صلى الله عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  اے على! خدائے متعال نے تم کو اس طرح سے قرار دیا ہے کہ بے نواؤں اور مسکینوں سے محبت کرتے ہو اور وہی آپ کے پیروکار ہوں تو خوشنود ہوتے ہو اور وہ بھی تمہاری امامت و پیشوائی کو پسند کرتے ہیں.

17- عمل میں سبقت

قال علي عليه السلام: ايها الناس!اني و الله ما احثكم علي طاعة الا و اسبقكم اليها و لا انهاكم عن معصية الا و اتناهي قبلكم عنها.

نهج البلاغة،الخطب:173.

حضرت اميرالمؤمنين (ع) نے فرمایا: اے لوگو ! خدا کی قسم میں تمہیں کسی بھی طاعت و عمل ثواب کی طرف نہیں بلاتا مگر یہ کہ تم سی قبل ہی خود عمل کرتا ہوں، اور مین تمہیں کسی گناه سے منع نہیں کرتا مگر یہ کہ پہلے خود اس گناہ سے پرہیز کرتا ہوں (یعنی یہ که پہلے عمل کرتا ہوں اور اس کے بعد تمہیں اس کی دعوت دیتا ہوں اور پہلے خود گناہوں سے پرہیز کرتا ہوں اور پھر تمہیں ان سے روکتا ہوں).

18- سادگى میں عظمت

- دخل ضرار بن ضمرة الكناني علي معاوية فقال له:صف لي عليا،فقال او تعفيني...؟قال:لا اعفيك،قال:اذ لا بد فانه كان و الله بعيد المدي شديد القوي يقول فصلا و يحكم عدلا ينفجر العلم من جوانبه و تنطق الحكمة من نواحيه يستوحش من الدنيا و زهرتها و يستانس بالليل و ظلمته كان و الله غزير البصيرة طويل الفكرة...يعجبه من اللباس ما قصر و من الطعام ما جشب كان و الله كاحدنا يدنينا اذا اتيناه و يجيبنا اذا سالناه و كان مع تقربه الينا و قربه منا لا نكلمه هيبة له.

حلية الاولياء ج1 ص84.

حضرت امیر (ع) کے ایک صحابی خاص «ضرار بن ضمره» معاویہ پر وارد ہوئے. معاویہ نے کہا: علی کے بارے میں بولو!

ضرار نی معذرت کی مگر معاویہ نے کہا تمہیں بولنا پڑے گا چنانچہ انہوں نے معاویہ کے اصرار پر کہا: خدا کی قسم علی (ع) ناقابل حصول، دسترس سے خارج، اور صاحب قوت تھے؛ حقائق روشن کردینے والی باتیں بیان کیا کرتے تھے؛ عدل و انصاف کے مطابق فرمانروائی اور فیصلے کیا کرتے تھے؛ ان کے تمام وجود سے علم و دانش کے چشمے پھوٹتے تھے اور ان کی اطراف سے حکمت جاری ہوجایا کرتی تھی؛ دنیا اور دنیا کے زیور و زینت سے خائف ہوجایا کرتے تھے؛ خلوت شب اور شب زندہ داری کے ساتھ انس خاص رکھتے تھے؛ مختصر سا لباس انہیں راضی کیا کرتا اور روکھی سوکھی غذا پر اکتفا کیا کرتے تھے... خدا کی قسم وہ بصیرت فراوان اور افکار عالیہ کے مالک تھے. خدا کی قسم وہ ہم میں سے ہی ایک تھے (اور ہمارا اور ان کے درمیان کوئی طبقاتی دیوار حائل نہ تھی)؛ جب بھی ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوتے وہ ہمیں اپنے پاس بلالیتے اور ہمارے سوالات کا جواب دیتے گو کہ ہمارے ساتھ ان کی اتنی ساری قربت و مہربانی اور ہماری ان کے ساتھ اتنی قربت و انس کے باوجود ان کی ہیبت ہم پر طاری رہتی اور ہم ان کے ساتھ بات کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے.

19- علی (ع) بازار میں!

قال زاذان: انه كان عليه السلام يمشي في الاسواق وحده و هو ذاك يرشد الضال و يعين الضعيف و يمر بالبياع و البقال فيفتح عليه القران و يقرء:تلك الدار الاخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الارض و لا فسادا و العاقبة للمتقين. (4) .

المناقب ج2 ص 104.

زاذان کہتے ہیں: حضرت اميرالمؤمنين (ع) تنہا ہی بازار مین نکلتے اور گھومتے تھے؛ شہر میں کھونے والوں کی رہنمائی کرتے تھے اور کمزوروں کی مدد کرتے تھے اور تاجروں اور دکانداروں کے سامنے سے گذرتے ہوئے قرآن مجید ان کے سامنے کھولتے اور ان کے لئے اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے: «یہ آخرت کا گھر – ابدی سعادت - ہے جسے ہم نے ان لوگوں کے لئے قرار دیا جو روئے زمین پر سرکشی کرنے اور فساد و برائی پھیلانے کا ارادہ نہیں کرتے اور نیک انجام صرف متقین اور پرہیزگاروں کے لئے ہے».

20- ستم سے بيزارى

قال عليه السلام: و الله لو اعطيت الاقاليم السبعة بما تحت افلاكها علي ان اعصي الله في نملة اسلبها جلب شعيرة ما فعلت،و ان دنياكم عندي لاهون من ورقة في فم جرادة تقضمها، ما لعلي و نعيم يفني و لذة لا تبقي!

نهج البلاغة،الخطب:222

حضرت على (ع) فرماتے ہیں: خدا کی قسم! اگر زمین کے سات اقالیم اور آسمانوں تلے جو بھی ہے،  مجھے عطا کیا جائے اور کہا جائے کہ ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھیننے کی حد تک خدا کی نافرمانی کروں؛ ہرگز ایسا نہ کروں گا؛ کیونکہ تمہاری یہ دنیا ٹڈی کے منہ مین نیم چبّّے ہوئے درخت کے پتّے سے بھی حقیر تر و ناچیزتر ہے. علی کو فنا ہونے والی نعمتوں اور  باقی نہ رہنے والی لذتوں سے کیا تعلق! .

21- حکمرانی کا اسوہ

قال علي عليه السلام: الا و ان امامكم قد اكتفي من دنياه بطمريه و من طعمه بقرصيه،...فو الله ما كنزت من دنياكم تبرا و لا ادخرت من غنائمها و فرا،و لا اعددت لبالي ثوبي طمرا،و لا حزت من ارضها شبرا.

نهج البلاغة،الكتب:45

حضرت على (ع) نے فرمایا: جان لو اور آگاہ ہوجاؤ! کہ تمہارے امام نے اپنی دنیا سے لباس کے دو جاموں اور اشیاء خورد و نوش میں سے (جو کی) دو روٹیوں پر اکتفا کیا...اور خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے نہ زر و مال ذخیرہ کیا اور نہ ہی اس کے منافع سے دولت و ثروت اکٹھی کی ہے اور حتی کہ اپنے لباس میں بھی کوئی اضافہ نہ کیا اور تمہاری سرزمینوں میں سے بھی ایک بالشت برابر جائداد نہیں بنائی.

22- لوگوں کے ساتھ ہمدردى

و قال عليه السلام: ...هيهات ان يغلبني هواي و يقودني جشعي الي تخير الاطعمة و لعل بالحجاز او اليمامة من لا طمع له في القرص و لا عهد له بالشبع او ابيت مبطانا و حولي بطون غرثي و اكباد حري.

نهج البلاغه،الكتب:45

حضرت على (ع) نے فرمایا: بہت ہی بعید ہے کہ ہوا اور ہوس مجھ پر مسلط ہوجائے اور شکم پرستی مجھے لذیذ طعام تناول کرنے پر آمادہ کرے؛ جبکہ ہوسکتا ہے کہ حجاز یا یمامہ میں ایسے لوگ بھی ہوں جو ایک روٹی کے حصول تک کی امید نہ رکھتے ہوں اور انہیں اپنا پیٹ بھر کر کھانے کا کوئی بھی واقعہ یاد نہ ہو! اور میں ہرگز آرزو نہیں کرتا کہ میں بھرے پیٹ کے ساتھ سوجاؤں جبکہ ممکن ہے کہ میرے ارد گرد کئی لوگوں کے پیٹ پشت کی جانب دھنسے ہوئے اور ان کے کلیجے جلے ہوئے ہوں.

23- مثال نبی (ص)

سمعت ابا عبد الله عليه السلام يقول: كان اميرالمؤمنين عليه السلام اشبه الناس طعمة برسول الله صلي الله عليه و آله كان ياكل الخبز و الخل و الزيت و يطعم الناس الخبز و اللحم.

الكافي ج6 ص328.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: حضرت اميرالمؤمنين (ع) کھانا کھانے کے لحاظ سے رسول اللہ (ص) سے سب سے زیادہ شباہت رکھتے تھے، وہ خود روٹی، سرکہ اور روغن زیتون تناول فرمایا کرتے تھے اور اپنے مہمانوں کو روٹی اور گوشت کھلایا کرتے تھے.

24- دسترخوان سبز

قال ابو عبدالله: يا حنان!اما علمت ان اميرالمؤمنين عليه السلام لم يؤت بطبق الا و عليه بقل؟قلت:و لم جعلت فداك؟فقال:لان قلوب المؤمنين خضرة و هي تحن الي اشكالها.

الكافي ج6 ص362.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: اے حنان! کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ جب بھی اميرالمؤمنين (ع)‏ کے لئے کهانے کا دسترخوان لایا جاتا سبزی بھی ساتھ لائی جاتی؟

حنان کہتے ہیں: میں نے عرض کیا آپ پر قربان جاؤں، سبب کیا تھا؟

فرمایا: کیوں کہ مؤمنین کا دل ہروقت سرسبز و شاداب ہے اور اپنی ہم رنگ اشیاء کو پسند کرتا ہے.

25- علی (ع) کی منزلت اور علی (ع) کا اسلام و ایمان

روي سعد بن ابي وقاص: إن رسول الله صلي الله عليه وسلم خرج في غزوة تبوك فاستخلف عليا علي المدينة ، فقال علي : يا رسول الله ! ما كنت أحب أن تخرج مخرجا إلا وأنا معك فيه ، قال : فقال له النبي صلي الله عليه وسلم : أما ترضي أن تكون مني بمنزلة هارون من موسي ، غير أنه لانبي بعدي. (ح20391)

المصنَف عبد الرزاق الصنعاني ج11 ص 226.

سعد بن ابی وقاص نے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کو مدینہ کا انتظام سونپ کر غزوہ تبوک کے لئے عزیمت فرمائی تو علی (ع) نے عرض کیا: مین پسند نہیں کرتا کہ آپ کسی مقصد کے لئے مدینے سے نکل کر جائیں اور مین آپ کی ہمراہی نہ کروں. رسول اللہ (ص) نے فرمایا: کیا آپ راضی و خوشنود نہیں ہیں اس رتبہ عظیم پر کہ آپ میری نسبت اسی مقام و منزلت پر فا‏ئز ہیں جو ہارون کو موسی (ع) کی نسبت حاصل تھی!...

عبد الرزاق عن معمر عن قتادة عن الحسن وغيره قال: أول من أسلم بعد خديجة علي بن أبي طالب وهو ابن خمس عشرة، أو ست عشرة . (ح 20392)

المصنَف عبد الرزاق الصنعاني ج11 ص 227.

عبدالرزاق نے معمر کی توسط سے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن (ع) و دیگر اصحاب سے روایت کی ہے کہ حضرت خدیجہ (س) کے بعد سب سے پہلے اسلام و ایمان لانے والے مرد علی علیہ السلام تھے جن کی عمر 15 یا 16 سال تهی.

أخبرنا عبد الرزاق عن معمر عن عثمان الجزري عن مقسم عن ابن عباس قال : أول من أسلم علي . (ح 20393)

المصنَف عبد الرزاق الصنعاني ج11 ص 227.

عبدالرزاق عبدالرزاق نے معمر کے توسط سے عثمان جُزُری سے اور انہوں نے مقسم بن عباس سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والے علی (ع) ہیں.

26- امید کا کھجور

قال ابو عبد الله عليه السلام: ان اميرالمؤمنين عليه السلام كان يخرج و معه احمال النوي فيقال له:يا ابا الحسن ما هذا معك؟  فيقول:نخل ان شاء الله.

فيغرسه فلم يغادر منه واحدة.

الكافي ج5 ص75.

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا: کبھی اميرالمؤمنين (ع) صحرا کی طرف چلے جاتے اور کھجوروں کی گھٹلیوں کا ایک بوجھ ساتھ لے کر جاتے؛ عرض کیا جاتا: اپنے ساتھ کیا لے کر جارہے ہیں؟

فرماتے: ان میں سے ہر دانہ، کھجور کا ایک درخت ہے ان شاء اللہ.

اور پھر صحرا جاکر ان سب کو بودیتے اور ان میں سے حتی ایک دانہ بھی خطا نہیں جاتا تھا.

27- ساده زيست

قال عليه السلام: و الله لقد رقعت مدرعتي هذه حتي استحييت من راقعها،و لقد قال لي قائل:الا تنبذها عنك؟ فقلت اعزب عني،فعند الصباح يحمد القوم السري.

نهج البلاغه خطبه ص158.

حضرت على (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم میں نے اپنے لباس کو اتنے پیوند لگائے ہیں کہ اب مجھے پیوندلگانے والے سے شرم آنے لگی ہے. حتی کہ ایک روز ایک شخص نے مجھ سے پوچھا: کیا اس لباس کے پھینکنے کا وقت نہیں پہنچا ہے؟ میں نے کہا: دور ہوجاؤ مجھ سے کہ لوگ صبح کے وقت گذری ہوئی رات کی تعریفین کرتے ہیں.

معروف شاعر سیدمحمد حسین شهریار کہتے ہیں:

پيرهن از رخ وصال خجل

كفن از گريه غسال خجل

شب روان مست ولاي تو علي

جان عالم به فداي تو علي

ترجمه:

پیرہن رخ وصال سے شرمندہ ہے

کفن غسل دینے والے کی بکاء سے شرمندہ ہے

گذری یوئی رات آپ کی ولا میں سرمست ہے یا علی!

عالم کی روح و جان فدا ہو آپ پر یا علی!

28- تكلف سے پرہيز

قال الصادق عليه السلام: -كان علي عليه السلام-يمشي في نعل واحدة و يصلح الاخري لا يري بذلك باسا.

الكافي ج6 ص468.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: اميرالمؤمنين (ع) ایک جوتا پہنے (چلتے  ہوئے) دوسرے جوتے کی مرمت میں مصروف ہوجاتے تھے اور اس طرح چلتے ہوئے کسی چیز کی پروا نہیں کرتے تھے.

29- موت کی یاد

و عن علي عليه السلام:انه كان اذا مر بالقبور قال:السلام عليكم يا اهل الدار فانا بكم لا حقون. ثلاث مرات.

دعائم الاسلام ج1 ص239.

ہرگاہ حضرت على (ع) قبرستان سے گذرتے تین بار فرمایا کرتے تھے: اس گھر میں رہنے والو! تم پر سلام ہو! ہم بھی بے شک ایک روز تم سے آملیں گے.

30- فضائل کی فہرست

قال رسول الله صلي الله عليه و آله. من اراد ان ينظر الي آدم في علمه و الي نوح في تقواه و الي ابراهيم في حلمه و الي موسي في هيبته و الي عيسي في عبادته فلينظر الي علي بن ابي طالب عليهم السلام.

ارشاد القلوب ص217.

رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جو بھی آدم اور اس کے علم؛ نوح اور ان کی پرہیزگاری؛ اور ابراہیم اور ان کی دوراندیشی اور بردباری؛ اور موسی اور ان کی ہیبت اور عیسی اور ان کی عبادت کا مشاہدہ کرنا چاہے پس وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی طرف دیکھے.

31- مَردوں کا وصف

و قيل:كان -علي عليه السلام- كانما كسر ثم جبر، لا يغير شيبه، خفيف المشي، ضحوك السن.

اسد الغابة ج4 ص123.

کہا گیا ہی کہ: على (ع) کا چہرہ گویا ٹوٹ کر دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آیا تھا – جو ان پر گذری ہوئی مشکلات کی علامت تھا- اپنے سفید بالوں پر رنگ نہیں لگاتے تھے، فارغ البال اور بے تکلف انداز میں چلتے تھے اور ہمیشہ آپ کے چہرے پر مسکراہت سجی رہتی تھی.

32- ملائکہ کے ساتھ

قال الصادق عليه السلام: ان عليا عليه السلام كان اذا اصبح يقول:مرحبا بكما من ملكين حفيظين املي عليكما ما تحبان ان شاء الله فلا يزال في التسبيح و التهليل حتي تطلع الشمس و كذلك بعد العصر حتي تغرب الشمس.

بحار الانوار ج84 ص 267 حديث 38.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: حضرت اميرالمؤمنين (ع) ہر صبح اعمال لکھنے والے دو فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کرتے تھے: مرحبا تم دو بزرگوار اور اعمال یادداشت کرنے والے فرشتوں پر؛ ان شاء اللہ آج بھی تم سے وہی کچھ لکھواؤں گا جو تم لکھنا پسند کرتے ہو اور پھر حضرت علی (ع) اس عہد پر عمل کرنے کی غرض سے «سبحان اللہ و لا الہ الا اللہ‏» کے ذکر میں مصروف ہوجایا کرتے تھے حتی کہ سورج طلوع ہوجاتا اور اسی طرح عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک بھی تسبیح و تہلیل میں مصروف ہوجایا کرتے تھے.

33- نماز، خدا کی امانت

في تفسير القشيري: انه كان (ع) اذا حضره وقت الصلاة تلون و تزلزل فقيل له:مالك؟فيقول:جاء وقت امانة عرضها الله تعالي علي السماوات و الارض و الجبال فابين ان يحملنها و حملها الانسان.(5)

المناقب ج2ص124.

«تفسير قشيرى» میں مذکور ہے کہ: جب وقت نماز آن پہنچتا اميرالمؤمنين (ع) کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا اور جب آپ (ع) سے سوال ہوتا کہ: یہ کیا حالت ہے؟ فرمایا کرتے: ادائے امانت کا وقت آن پہنچا ہے اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کی آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کو پیشکش ہوئی مگر سب نے یہ امانت سنبھالنے سے اعراض کیا اور انسان نے اس امانت کا بوجھ اٹھایا.

34- اخلاص در عبادت

قال الصادق عليه السلام: كان اميرالمؤمنين عليه السلام اذا توضا لم يدع احدا يصب عليه الماء قال:لا احب ان اشرك في صلاتي احدا.

علل الشرايع ج1 ص323.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: حضرت اميرالمؤمنين (ع) وضو کے وقت کسی کو اپنے لئے پانی ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: میں پسند نہیں کرتا که خدا کی بارگاه میں نماز میں کسی کو شریک قرار دوں.

35- نماز کا کمره

قال الصادق عليه السلام: كان علي عليه السلام قد جعل بيتا في داره ليس بالصغير و لا بالكبير لصلاته و كان اذا كان الليل ذهب معه بصبي ليبيت معه فيصلي فيه.

المحاسن ج2 ص 452 حديث 2557.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: حضرت اميرالمؤمنين (ع) نے اپنے گھر میں ایک کمرہ – جو نہ چھوٹا تھا اور نہ ہی بڑا – نماز کے لئے مختص فرمایا تھا اور هر شب کسی ایک بچے کو اپنے پاس سلانے کے لئے اس کمرے میں ساتھ لے جایا کرتے تھے اور اپنی نمازیں وہیں ادا فرمایا کرتے تھے.

36- نگين کا نقش

قال عبد خير: كان لعلي عليه السلام اربعة خواتيم يتختم بها:ياقوت لنبله،و فيروزج لنصرته،و الحديد الصيني لقوته،و عقيق لحرزه-و كان نقش الياقوت:لا اله الا الله الملك الحق المبين،و نقش الفيروزج:الله الملك الحق،و نقش الحديد الصيني:العزة لله جميعا،و نقش العقيق ثلاثة اسطر: ما شاء الله،لا قوة الا بالله،استغفر الله.

الخصال ص199

عبدخير کہتے ہیں: على (ع) کی چار انگشتریان تھین جو آپ (ع) پہنا کرتے تھے: یأقوت کی انگشتری اپنی نجابت و اصالت کے عنوان سے؛ ایک فیرزوہ اپنی نصرت کے لئے؛ حدید چینی طاقت و توانائی کے لئے اور عقیق اپنی محافظت کے لئے. یاقوت کا نقش «لا الہ الا اللہ الملك الحق المبين‏» تھا؛ فيروزہ کا نقش «اللہ الملك الحق‏»، حدید کا نقش «العزة للہ جميعا» اور عقیق کا تین سطروں پر مشتمل نقش «ماشاء اللہ لا قوة الا باللہ استغفر اللہ‏» تھا.

37- نماز کی پناہ میں

قال ابو عبد الله عليه السلام: كان علي عليه السلام اذا هاله شيي‏ء فزع الي الصلاة.ثم تلا هذه الاية:و استعينوا بالصبر و الصلاة...(6)

الكافي ج3 ص480.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: ہرگاہ حضرت امير (ع) کسی موضوع سے خوف و تشویش میں مبتلا ہوتے؛ نماز کی پناہ حاصل کرلیا کرتے تھے... اس کے بعد امام صادق (ع) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: «اور صبر و نماز سے مدد حاصل کرو...».

38- ایک ہزار ركعت

قال ابو عبد الله عليه السلام: ...ان عليا عليه السلام في آخر عمره كان يصلي في كل يوم و ليلة الف ركعة.

الكافي ج 4 ص154.

حضرت صادق (ع) نے فرمایا: حضرت اميرالمؤمنين (ع) اپنی عمر کے آخری برسوں کے دوران شب و روز ایک ہزار رکعت نماز ادا فرمایا کرتے تھے.

39- رضائے الهی کے متلاشی

عن ابن عباس:كان علي عليه السلام يتبع في جميع امره مرضاة الله و لذلك سمي المرتضي.

المناقب ج3 ص110.

عبداللہ بن عباس کہتے ہیں: على (ع) اپنے تمام امور میں خدا کی رضا کے درپی رہتے تھے اور اس بنا پر آپ (ع) نے «مرتضی» کا نام پایا تھا.

40- علی مسلموں کے سردار، متقین کے امام اور پاک طینتوں کے قائد

قال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم: اوحي الي في علي ثلاث انه سيد المسلمين وامام المتقين وقائد الغر المحجلين * هذا حديث صحيح الاسناد *

(شب معراج) علی (ع) کے بارے میں تین اوصاف از راه وحی مجھے بھیجی گئیں:

- وه مسلمانوں کے سید و سرور و سردار ہیں (یعنی جو بھی دائره اسلام میں ہے علی اس کے سید و سرور و سردار ہیں).

- علی (ع) متقین اور پرہیزگاروں کے امام و راہبر و راہنما ہیں. (یہاں کسی کو انتخاب کا حق نہیں دیا گیا اور کسی خاص چهت تلے کسی حجرے میں جرگه تشکیل دینے کا اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ علی کی امامت کو متقین کے لئے مناسب قرار دیں یا آپ (ع) کی مخالفت کریں بلکه علی علیہ السلام کی بعنوان «امام المتقین» تعیناتی ہوئی ہے؛ ہے اللہ کی جانب سے کے).

- علی (ع) نیک سرشوں پاک طینوں اور خدا کی بارگاه میں صاحبان عزت و آبرو کے قائد و رہبر ہیں. (حاکم کہتے ہیں که یہ حدیث سند کہ لحاظ سے صحیح و معتبر ہے).

مستدرک الصحيحين – حافظ أبي عبد الله الحاكم النيسابوري – ج 3 ص 137 - 138

اس مجموعہ احادیث میں فاضل گرامی «محمود لطيفى» کی جمع کی ہوئی احادیث سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے.

بقلم : ف.ح.مہدوی

پى‏نوشتها:

1- الكافى،8:234،ح 312.

2- ميزان الحكمه،ج 1 ص 78.

3- معرکہ صفین کے دوران ایک بار لڑائی صبح کو شروع ہوئی تو رات کو بھی نہیں تھمی اور اگلی صبح تک جاری رہی۔ اس واقعے کی رات کو «ليلة الہرير» کا نام دیا گیا.

4- القصص/83.

5- إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا الاحزاب/72.

ہم نے اپنی امانت (عہد پر عمل، ذمہ داری و فرائض اور ولایت الہيہ) آسمانوں،  زمين اور پہاڑوں کو پیش کی اور سب نے اسے قبول کرنے سے امتناع کیا اور اس سے خائف ہوئے لیکن انسان نے اس امانت کو قبول کیا وہ بہت ہے ظالم و جاہل تھا (کیونکہ اس نے اس مقام عظیم کی قدردانی نہیں کی اور اپنے اوپر ظلم کا مرتکب ہؤا)!.

6- البقره/42.
 
بشکریہ:abna.ir

نویں کمنٹس